جگہیں،چہرے ، یادیں اور خیال (سفر نامہ)

(نجیبہ عارف)

(پہلی قسط)

There’s a grief that can’t be spoken.
There’s a pain goes on and on.
Empty chairs at empty tables
Now my friends are dead and gone.

Here they talked of revolution.
Here it was they lit the flame.
Here they sang about `tomorrow’
And tomorrow never came.

Phantom faces at the window.
Phantom shadows on the floor.
Empty chairs at empty tables
Where my friends will meet no more.

انیسویں صدی کے فرانس میں انقلاب کی سرخ آگ میں دمکتے ہوئے فروزاں چہرے جو بجھ گئے،خوابوں سے لبالب بھری آنکھیں جو چھلک گئیں، درد میں ڈوبی ہوئی روحیں، ذلت، درماندگی، بھوک اور تحقیر کی بدبودار آلائشوں سے لتھڑی ہوئی زندگی، کھڑکیوں اور دروازوں کی جھریوں سے جھانکتی ہوئی بے پایاں مخلوق، جو اشرف ہونے کے خواب سے بھی محروم تھی اور ان کی تقدیر بدل ڈالنے کے گمان میں مست جوان خون کی ندیاں جو گندی نالیوں میں بہتی رہیں، قانون، جو نابینا تھا، بے رحم تھا اور تختے کی طرح بے لچک تھا، اور خدا جواس اندھے اور بے حس قانون کے مجرموں کو پناہ دے رہا تھا، ان کی عزت افزائی کر رہاتھا، انھیں ان کی کھوئی ہوئی روح لوٹا رہا تھا اور بدلے میں کچھ بھی نہیں مانگتا تھا۔ محبت جس نے برف بھرے دلوں میں دیا جلایا، اکھڑی ہوئی، ریزہ ریزہ زندگی کے ٹوٹے ہوئے دھاگوں کو چھوٹی چھوٹی گرہیں لگا کر جوڑا، زخموں کو اپنے سانس کی حرارت دے کر اچھا کیا، مہمل کو کلمہ کر دیا۔ اورر قابت کہ جب بھی کہیں دو ایک ہوئے توتیسرا ، جو محبت کا اتنا ہی متلاشی تھامگر کسی نامعلوم وجہ سے محروم رہا، ٹوٹ گیا۔
عمر کی چوتھی دہائی میں اعصاب اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے، چٹخنے لگتے ہیں، اسی 13900500_10155291943982222_717785101_nلیے جب میں اور اسد برطانیہ کی سب سے بڑی سکرین بی۔ ایف۔ آئی ۔آئمیکس (I Max)پر ’’لے مزریبل‘‘ (Les Miserables) دیکھ کر نکلے توواٹر لو (Water Loo) اسٹیشن تک جانے کے لیے وہ چھوٹی سے سرنگ عبور کرتے ہوئے مجھے ابکائی تک نہیں آئی جس کے دونوں طرف زرد سیال بہ رہا تھا اور سڑاند کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے۔
وکٹر ہیوگو (Victor Hugo۔ ۱۸۰۲۔ ۱۸۸۵)کا یہ ناول کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے اور لندن میں گزشتہ ستائیس سال سے اس ناول پر مبنی میوزیکل تھیٹر چل رہا ہے ۔لیکن سینما کے لیے پہلی بار فلمایا گیا ہے۔آج لندن میں اس فلم کا آخری شو تھا۔ تقریباً تین مہینے تک یہ فلم لندن کے مختلف سینماؤں میں دکھائی جاتی رہی ہے اور دو ماہ سے میں یہ کہتی رہی ہوں کہ یہ فلم ضرور دیکھوں گی۔ فروری میں پیرس میں بھی اسے دیکھنے کی خواہش کااظہار کیا تھا مگرایسانہ ہوسکا۔ اس لیے میں نے اسد سے کہہ دیا تھا کہ اگر کسی ایک سینما میں بھی یہ دکھائی جا رہی ہو تو مجھے ضرور لے چلے۔اس نے بتایا کہ اتفاق سے صرف ایک سینما میں آج اس کا آخری شو ہے اور ہم دونوں سٹریٹفرڈ سے جوبلی لائن پکڑ کر سیدھے واٹر لو پہنچ گئے۔ میٹرو سے نکل کر سینما تک جانے کے لیے سڑک پار کرنے کی بجائے ہم نیچے سرنگ میں اتر گئے اور داخل ہوتے ہی اس کے دونوں طرف سے تعفن کے غبار نے اٹھ کر ہمارا استقبال کیا۔
’’اسد، لندن میں بھی؟؟‘‘
میں نے سوالیہ نظروں سے اسد کی طرف دیکھا ان نظروں میں صرف سوال ہی نہیں، شرمندہ کرنے کی پوشیدہ خواہش بھی تھی۔ آخر وہ لندن کا اتنا گرویدہ جو ہے تو لندن کی بدصورتیوں پر اسے جواب دہ تو ہونا پڑے گا۔
مگر ’’ہم ذات ‘‘ نے اندر سے ایک چپت لگائی۔
’’صرف ایک سرنگ کے تعفن پر بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں، یہ بھی تو دیکھو کہ انھوں نے یہ سرنگ بنائی ہے، کس لیے، کہ لوگوں کو سڑک پار کرنے میں دشواری نہ ہو، وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائیں، گاڑیاں چلتی رہیں، ٹریفک ازدحام میں نہ پھنس جائے۔یہ تعفن انھوں نے پیدا نہیں کیا، یہ تم جیسے لوگوں کی سینکڑوں سال کی بے تہذیب زندگی کی بے صبری کا نتیجہ ہے۔‘‘
میں نے بے آرام ہو کر ہم ذات کے منھ پر ہاتھ رکھا اور اسد کی طرف دیکھا جو مجھے ہنس کر ٹال رہا تھا۔
’’آپ کچھ کھائیں گی باجی؟ ‘‘
’’نہیں، اب گھر چلتے ہیں۔‘‘
’’لے مزریبل‘‘ کے مناظر مجھے اندر سے چبھ رہے تھے۔ میں ہر کردار کے ساتھ جی اور مر رہی تھی۔
’’خیر کیا ہے اور شر کیا ہے؟
قانون کیا ہے اور جرم کیا ہے؟
حسن کیا ہے؟ کیسے اثر انداز ہوتا ہے، کسے نصیب ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے، اگر نہیں ہوتا تو کیوں نہیں ہوتا؟
کون اچھا ہوتا ہے، کون برا ہوتا ہے؟
کہاں جا کر حق اور ناحق مل جاتے ہیں؟ سیاہ اور سفید ایک ہوجاتے ہیں اور کوئی تمیز باقی نہیں رہتی۔
وہ مقام ہست کا ہے یا نیست کا۔ فنا کا یا بقا کا؟‘‘
میں بڑی مدت بعد پھر اسی خلا میں جانکلی تھی۔
’’فلم کیسی لگی باجی؟‘‘ اسد نے مجھے چونکایا۔
’’فلم؟ہاں۔۔۔ سکرین بہت بڑی تھی۔‘‘ بعض چیزوں کو اچھے یا برے کے آسان سے عنوان میں سمو دینا کتنا مشکل ہوتا ہے۔
’’جی ، بیس بائی اٹھارہ میٹر کی ہے۔‘‘
’’یہاں صرف ہالی وڈ کی فلمیں لگتی ہیں، برٹش فلمیں نہیں بنتیں؟‘‘
’’کیوں نہیں، برٹش فلم اندسٹری تو خاصی بڑی ہے۔ یہ فلم بھی برٹش ہے، مگر ہالی وڈ میں بنی ہے۔‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی، فلم برٹش ہے مگر بنی ہالی وڈ میں ہے؟‘‘
’’جی، اکثر ایسا ہوتا ہے کبھی اسپونسر برٹش ہوتے ہیں، یا ڈائریکٹر اور پروڈیوسر برٹش ہوتے ہیں مگر فلم ہالی وڈ میں ہی بنتی ہے اور ایکٹر امریکن بھی ہوتے ہیں اور برٹش بھی۔ اب اس فلم ہی کو دیکھ لیجیے، اسے ورکنگ ٹائٹل فلمز نامی برطانوی کمپنی نے پروڈیوس کیا ہے اور یونی ورسل فلمز ، امریکہ نے ڈسٹری بیوٹ کیا ہے۔ اس کے کردار امریکی بھی ہیں اور برطانوی بھی۔’’ سلمز ڈوگ ملینئر‘‘(Slums Dog Millionair)بھی برٹش فلم تھی مگر ہالی وڈ میں بنی تھی۔‘‘
’’اچھا تو ساری فلمیں، ڈرامے یہ لوگ مل کر کرتے ہیں۔‘‘ اندر سے آواز آئی مگر میں نے سنی ان سنی کر دی۔
’’۲۰۱۰ میں ، لندن میں اس ناول پر مبنی میوزیکل تھیٹرکو چلتے ہوئے پچیس سال ہو گئے تو اس پر ایک میوزیکل فلم بنانے کا اعلان کیا گیا تھا اور ۵ دسمبر ۲۰۱۲ کو یہ فلم لندن میں ریلیز ہوگئی تھی۔ آج تین مارچ ۲۰۱۳ء ہے اور اب تک اسے بیسیوں ایوارڈ مل چکے ہیں، جن میں تین اکیڈیمی ایوارڈ بھی شامل ہیں۔‘‘ اسد نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔ انگریزی فلموں کے بارے میں اس کی معلومات کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وہ تقریباً ہر فلم دیکھتا ہے اور بعض تو کئی کئی بار۔ اس نے اپنا پاس بنا رکھا ہے اس لیے کم دیکھے یا زیادہ، جیب پر بوجھ نہیں پڑتا۔یہ فلم بھی اس نے میری خاطر دوبارہ دیکھی ہے اور اس سکرین پر اس کا پاس بھی کام نہیںآیا۔ ٹکٹ بھی مہنگی تھی۔ عام سکرین کی ٹکٹ دس گیارہ پونڈ ہے، اس کی سترہ پونڈ کے قریب ہے۔
’’ہاں، اداکاری کا آسکر تو ہیو (Hugh) کو ملنا چاہیے تھا۔‘‘ مجھے پھر وہ منظر چبھنے لگے۔
’’یہ جو۱۸۳۰ میں فرانس کے انقلاب کا منظر تھا، یہ کسی حقیقی واقعے کی عکاسی ہے یا خیالی ہے؟‘‘
’’فرنچ ریوولیوشن؟‘‘
’’مگر وہ تو اٹھارویں صدی میں تھا۔۔‘‘
’’پتا نہیں‘‘
گھر آتے ہی میں نے سائیں گوگل (google) سرکار کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔
(اگر میرے پاس آئی فون ٹو (IPhone II)کے اس گھسے پٹے سیٹ کی بجائے آئی فون فور یا فائیو ہوتا تو وہیں ٹرین میں بیٹھے بیٹھے دیکھ لیتی۔ ان لوگوں نے کیسے کیسے’’ شیطانی‘‘ آلے ایجاد کر لیے ہیں، ہنھ۔۔۔)
جولائی ۱۸۳۰ میں فرانس میں انقلاب کی ایک نئی لہر اٹھی تھی جس نے شاہ چارلس دہم کی سلطنت کے پاؤں اکھیڑ دیے۔ لیمارک (Jean Maximilien Lamarque ۔ ۱۷۷۰۔ ۱۸۳۲) کی موت نے نوجوانوں کو ایک کیفے میں جمع ہو کر بغاوت کا علم بلند کرنے پر اکسایا اور حکومت اور باغیوں میں خونی تصادم ہوگیا۔سرخ پرچم لہرائے گئے اور انسانی آزادی کے ترانے روح کے ساز پر گائے گئے۔موت سے، جنگ سے، غربت اور افلاس سے نجات کے لیے، ان نوجوانوں کا جذبہ قابل داد تھا۔
لیکن پھر میں نے دیکھا کہ اس جدو جہدسے صرف دو ہفتے پہلے، ۵ جولائی ۱۸۳۰ کو فرانس کی فوجوں نے الجزائر پر قبضہ کر لیا تھا جو آنے والے ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصے تک قائم رہا۔ پتہ نہیں فرانس کے ان جوشیلے، انسانی آزادی کے متوالے نوجوانوں نے الجزائر پر قبضے کے خلاف بھی کوئی ترانہ گایا تھا یانہیں؟
یہ سوال دیر تک میرے اندر گونجتا رہا.
مجھے لندن آئے ہوئے دو مہینے ہو چکے ہیں۔ وقت جیسے پر لگا کر اڑتا رہا اور خود میں بھی تو پر لگا کر اڑتی رہی۔ یہ دومہینے مسلسل سفر میں گزرے، لندن تو بس ایک سفر سے دوسرے سفر کے درمیان کا وقفہ تھا۔ میری سیلانی روح سارے حساب چکانا چاہتی تھی، مگر حساب کس سے چکائے جاتے ہیں اور کب چکتے ہیں؟ جب آخری متاع رائیگانی ہی ٹھہری تو حساب کتاب کتنابے معنی ہے۔
دسمبر کی ۲۹ تاریخ تھی جب میں اور عارف صبح کے تین بجے ائر پورٹ جانے کے لیے گھر سے نکلے۔ موسم خلاف توقع سازگار تھا، آسمان بالکل صاف تھا اور چاند مکمل ہو چکا تھا۔ ساڑھے تین ماہ کے لیے گھر، بچوں اور عارف سے دور جانے کا یہ پہلا موقع تھا اس لیے دل بیٹھ رہا تھا مگر ظاہر کرنا مناسب نہیں تھا۔ آخر شوق بھی تو مجھے ہی تھا۔ اس شوق نے مجھے کیسے کیسے دن نہیں دکھائے، کیاکیا تجربات نہیں کروائے۔عمر نکل گئی مگر شوق دل سے نہیں نکلا۔۔۔۔ حالانکہ جانتی ہوں کہ شوقین ہونا ان انسانوں کے لیے کتنی بری بات ہے جو کسی کائناتی نظام کی تکمیل کے لیے مؤنث کے صیغے میں پیدا ہوئے ہوں۔
اس بار میں یونی ورسٹی آف لندن کے سکول آف ایفریکن اینڈ اورئینٹل سٹڈیز میں تین ماہ کے لیے چارلس والس (Charles Wallace) فیلو شپ پرلندن جارہی تھی۔لیکن پروگرام صرف لندن کا نہیں تھا۔ خیال یہ تھا کہ یورپ کی مختلف یونی ورسٹیوں کے کتب خانے بھی جھانک لوں اور اگر کوئی کام کی چیز مل جائے تو سمیٹ لوں۔ ہائیڈل برگ، روم،پیرس، ایڈنبرا اور اوکسفرڈ اس پروگرام میں شامل تھے۔ہائیڈل برگ، روم اور ایڈنبرا سے تو اپنے موضوعِ تحقیق پر لیکچر دینے کے دعوت نامے بھی مل چکے تھے۔ایک مصروف اور مہماتی سفر کے تمام تر امکانات میرے سامنے کھلے تھے مگر دل پیچھے مڑ مڑ کر دیکھے جا رہا تھا۔ انسان کیسے ہمیشہ متضاد کیفیتوں میں گھرا رہتاہے۔ نامعلوم منزلیں اور راستے اسے اپنی طرف بلاتے ہیں اور مانوس جگہیں اور مکان دامن نہیں چھوڑتے۔ وہ لوگ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں جن کی ترجیحات، توقعات اور توجہات بالکل واضح اور نپی تلی ہوتی ہیں اور جو پوری طرح یکسو ہو کر ان سے لطف اٹھا سکتے ہیں۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ پنڈولم کی طرح ایک انتہا سے دوسری انتہا تک جانے کی خواہش جھولاجھلائے رکھتی ہے۔

 

(جاری ہے)

1 Comment

  1. السلام علیکم نجیبہ!
    بہت خوبصورت۔۔۔آپ کی طرح۔۔۔۔کمال کی عکاسی۔۔۔سنہری اصطلاحات۔دوسرا حصہ؟؟؟؟

Comments are closed.