(آصف جاوید)
حافظ سعید جیسے جو لوگ بھی پاکستان میں حب الوطنی کے نام پرجنگی جنون اور انڈیا سے نفرت کو ہوا دے رہےہیں۔ وہ پاکستان کے دشمن ہیں۔ حافظ سعید جیسے عاقبت نا اندیش لوگ اس ملک کے 22 کروڑ عوام کی خوشحالی اور ترقّی کو اپنے جنگی جنون کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔ حافظ سعید کا فلسفہ غیر مسلم ہمسایوں سے جہاد و قتّال کرکے، اُن کے ملکوں پر قبضہ کرکے، وسیع و عریض اسلامی ریاست و خلافت قائم کرنا ہے۔
چند روز قبل روز کشمیر کے مسئلہ پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جاری بحث کے دوران پاکستان میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کی جانب سے ملک میں سرگرم غیر ریاستی عناصر کے قلع قمع اور خاتمے کے لئے سخت پالیسی اپنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کے لئے غیر ریاستی عناصر سے چھٹکارا حاصل کرنے کی بازگشت، دنیا میں تو پہلے سے سنی جارہی تھی مگر اب قومی اسمبلی کی خارجہ امور کے بارے میں قائمہ کمیٹی میں حکمران پاکستان مسلم لیگ کے ایک رکن پارلیمان جناب رانا محمد افضل کی جانب سے بھی جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید سمیت غیر ریاستی عناصرکے خلاف سخت ترین کارروائی، اور ریاستی سرپرستی سے دست برداری کا کھلے عام مطالبہ کیا گیا ہے۔
رانا افضل کا کہنا تھا کہ ‘انڈیا نے جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کے بارے میں دنیا بھر میں ایک ایسا تاثر قائم کیا ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنے سے متعلق پاکستانی وفد کسی بھی ملک میں جائے تو وہاں کے ذمہ داران بات شروع کرنے سے پہلے یہ کہتے ہیں کہ حافظ سعید ایک ریاستی دہشت گرد ہے، جس کی وجہ سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ لہٰذا آپ پہلے اپنے ملک سے ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی ختم کریں۔
جناب رانا افضل نے مزید کہا کہ ایسی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے دنیا ہمیں تنہا کر کے شدت پسند ملک قرار دینے کی کوشش کرتی ہے۔ قارئین کی معلومات کے لئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ رانا محمد افضل اُس وفد میں شامل تھے جس نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدہ صورت حال کے بارے میں فرانس کی حکومت کو آگاہ کرنے کے لیے پیرس کا دورہ کیا تھا۔
ہم جانتے ہیں کہ انڈیا کی طرف سے برابر اشتعال دلایا جارہا ہے، انڈیا ہمارے وطن کو خوش حال دیکھنا نہیں چاہتا، مودی خود ہندوانتہا پسند ہے۔ اس کو راشٹریہ سیوک سنگھ جیسی دہشت گرد تنظیم کی حمایت حاصل ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ مودی کی حرکتیں اور باتیں قابل مذمت ہیں۔ مودی مذہبی، نسلی اور قومی تعصب و انتہا پسندی کا علمبردار ہے۔ لیکن یہ سب چیزیں کیا ہمارے اپنے اندر پہلے سے نہیں پائی جاتی ہیں۔ ہم نے بھی تو دنیا میں اسلامی انتہا پسندی میں ایک بڑا نام پیدا کیا ہے۔ مودی کی اشتعال انگیزیوں کا جواب اپنے آپ کو مشتعل کرنا نہیں ہے، ہمیں گہرے تدبّر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف انڈیا کی اشتعال انگیزیاں ہیں اور دوسری طرف ہمارے اندرونی مسائل۔ پنجاب کو چھوڑ کر تین صوبوں میں فوج سرگرمَ عمل ہے۔ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب جاری ہے، بلوچستان میں بغاوت اور فوج کشی جاری ہے، سندھ بالخصوص کراچی میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ ( یہ اور بات ہے کہ بین الاقوامی مبصّرین اور درد مند دانشوران، کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری مبیّنہ آپریشن کو مہاجروں اور بلوچوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی اور انتقام قرار دے رہے ہیں)
ہم چاروں طرف سے پھنسے ہوئے ہیں۔ ہماری سمت واضح نہیں ہے۔ دنیا میں کوئی ہمارا دوست نہیں، افغانستان، پاکستان سے سخت ناراض اور متنفّر ہے۔ یمن پر سعودی عرب کی یلغار اور سعودی دباؤ کے باوجود پاکستانی فوج کو یمن پر حملے کے لئے نہ بھیجنے کے فیصلے کے بعد عربوں نے واضح طور پر اپنی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ متّحدہ عرب امارات نے تو کھلے لفظوں میں پاکستان کو سنگین نتائج بھگتنے کی نہ صرف دھمکی دی تھی، بلکہ اس دھمکی پر عمل کرکے انڈیا سے باقاعدہ ہاتھ ملا کر انڈیا میں 75 ارب ڈالر کے ترقّیاتی منصوبہ جات کے لئے رقم بھی فراہم کردی ہے۔ ایران بھی سخت ناراض ہے، بلکہ ایران نے تو انڈیا اور افغانستان کو ساتھ ملا کر چابہار بندرگاہ پر بھی کام شروع کردیا ہے۔ امریکہ بھی قابلَ اعتبار نہیں۔ ہم عالمی طور پر سفارتی تنہائی کا شکار ہوگئے ہیں، سارک کانفرنس بھی اس ہی وجہ سے ملتوی کرنی پڑی۔ ایک طرف ہم اندرونی کشمکش اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں، آدھے سے زیادہ ملک میں فوج کشی جاری ہے اور تو دوسری طرف ہم نے جنونیت اور انتہاپسندی کو قومی پالیسی بنالیا ہے۔ مودی آج ہے، کل چلا جائےگا۔ یاد رہے مودی ایک جمہوری عمل سے آیا ہوا وزیرِ اعظم ہے۔ بین الاقوامی برادری میں انڈیا کی ایک ساکھ ہے۔ جب کہ انڈیا کے مقابلے میں بین الاقوامی برادری میں ہماری اتنی اچھّی ساکھ نہیں۔ انڈیا نے اقوامِ متّحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے حصول کے لئے ساری دنیا بشمول عربوں کی بھی حمایت حاصل کرلی ہے۔ انڈیا کے مقابلے میں ہماری پوزیشن فی الحال مضبوط نہیں۔
سمجھداری کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلےنہ صرف ہمیں اپنے کمزور پہلوؤں کو سامنے رکھنا ہوگا، بلکہ اپنے آپ کو اندرونی اور بیرونی طور پر مضبوط کرنے کی حکمت عملی بھی اختیار کرنا ہوگی۔ پاکستان کو اس وقت محمّد بن قاسم اور خالد بن ولید کی ضرورت نہیں۔ بلکہ ہوش مند اور مدبّر عسکری اور سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔ جو ملک کو جنگی جنون سے نکال کر ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن کرسکے۔
ہمارے بکاؤ اورعقلِ کل دانشوروں اور عاقبت نا اندیش میڈیا کی طرف سے کسی ممکنہ جنگ کے ہونے کی صورت میں ایٹمی طاقت کے ممکنہ استعمال اور پاکستان کے ناقابل تسخیر ہونے کے بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں، فوجی طاقت اور جنگی تیاریوں کی شان میں قصیدے پڑھے جارہے ہیں۔ جنرلوں کی حمد و ثنا میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جارہے ہیں۔ جنگ جیسی تباہ کن چیز کو شجاعت اور فتوحات کی رومانی تصویر کشی سے رنگین تر بنایا جارہا ہے۔ کوئی یہ بتانے والا نہیں ہے کہ جنگ مصائب اور برباد ہونے کا نام ہے۔ کوئی یہ کہنے کو تیّار نہیں کہ جنگ کے دوران کسی ملک اور قوم کی معیشت ساکت و مفلوج ہو جاتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ وسیع و عریض آبادیوں کو اپنے گھر، دیہات، شہر، مال و متاع، مویشی، کھیتی باڑی چھوڑ کر محفوظ مقامات پر جانا پڑتا ہے۔ خوفناک جنگی جہازوں اور ان کی دہشت ناک بمباری سے بستیوں کی بستیاں آن واحد میں ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔
خود پیشہ ور فوجیوں اور ان کے لواحقین کے لئے بھی جنگ کسی سویٹ ڈش کا نام نہیں ہے۔ جن کے بھائی، بیٹے، خاوند اور باپ شہید ہوتے ہیں۔ صرف وہ ہی جانتے ہیں کہ ان پر کیا گزرتی ہے۔ جنگ بربادی کا دوسرا نام ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد وہ تمام ممالک جو براہِ راست یا بالواسطہ جنگ میں شریک تھے، آج بھی جنگ کی تباہ کاریوں اور ہولناکیوں کو یاد کرکے اپنی موجودہ نسلوں کو جنگ کے مضمرات کے بارے میں باقاعدہ نصاب تشکیل دے کر پڑھاتے ہیں۔ جنگ سے نفرت اور معاشی ترقّی کو اپنا نصب العین گردانتے ہیں۔ جنگ ہر چیز کو کھا جاتی ہے۔ ہاں مگر جنرلوں کے سینوں پر کچھ اور تمغے بڑھ جاتے ہیں۔ اگرجنگ کی تباہ کاریاں دیکھنی ہیں تو جاؤ دیکھو، شام عراق کے لوگوں پر کیا بیت رہی ہے۔ افغانستان کا کیا حشر ہوا تھا۔ 65 کی جنگ نے پاکستان کی معیشت کو کس طرح برباد کردیا تھا۔ ورنہ پاکستان تو اپنے پنج سالہ منصوبہ جات کی تکمیل کی برکات سے جاپان جیسی ترقّی کررہا تھا۔ پھر پاگل کتّے نے کاٹ کھایا، کشمیر میں آپریشن جبرالٹر کے نام پر مہم جوئی شروع کردی گئی۔
کسی بھی عمل کے فائدے کو اس کے حتمی نتیجے سے ناپا جاتا ہے۔ کہاں ہے وہ فتوحات جو ہماری بہادر افواج نے حاصل کی۔ ہم پھر آج زیرو پوائنٹ پر آ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ میں پھر اس بات کو زور دے کر کہتا ہوں کہ پاکستان کو امن اور ترقی کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ ہمیں جنگ کی نہیں بلکہ امن کی اور خوشحالی کی ضرورت ہے۔ ہمیں بموں کے دھماکوں کی نہیں بلکہ امن اور خوشی کے ترانوں کی ضرورت ہے، جنگ ہمارے مسائل کا پہلے بھی حل نہیں تھی اور اب بھی نہیں ہے۔ جنگ میں دونوں ملکوں کے عوام کا کوئی فائدہ یا بھلا نظر نہیں آتا۔ اگر جنگ ہوئی تو سرحد کی دونوں جانب عام فوجی اور شہری مارے جائیں گے ۔ دونوں ملکوں کے دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوگا۔ فائدہ غیرملکی اسلحہ ساز فیکٹریاں اور کمیشن ایجنٹ حاصل کریں گے۔ جنرلوں کی تنخواہیں اور مراعات بڑھیں گی۔ حافظ سعید اور بال ٹھاکرے جیسے مذہبی جنونیوں کی نفرت کی دکانیں چمکیں گی۔ دونوں ملکوں کے سیاستدانوں کو مزید حماقتیں کرنے کی چھوٹ مل جائے گی۔ دونوں ملکوں میں معاشی بدحالی اور کساد بازاری کا راج ہوگا۔ بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوگا اور قیمت سرحد کے آر پار عام آدمی کو ادا کرنا ہوگی۔
دونوں ملکوں کے عوام اپنی اپنی سیاسی اور عسکری قیادت کا گریبان پکڑ کر پوچھیں کہ اس جنگ و جدال سے غربت، جہالت، بے روزگاری اور شدت پسندی کو ختم کرنے میں کیا مدد ملے گی جن کا شکار ان کی زندگیاں پچھلے 68 برسوں سے ہیں؟ ملک و قوم کے سپوتوں کو جنگ کے شعلوں میں جھونک کر سینکڑوں ماؤں کی گودوں کو اجاڑنا اور ہزاروں عورتوں کو بیوہ، لاکھوں بچّوں کو یتیم بناکر انہیں مفلسی کے مہیب غار میں دھکیلنے میں کونسی قومی حکمت اور دانش پوشیدہ ہوسکتی ہے؟ دونوں ملکوں کی قیادت کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا۔ بائیس کروڑ عوام کو اب مزید جہادی مرغیوں کے گندے انڈوں کا آملیٹ نہیں کھلایا جاسکتا ہے۔