(شیخ عدیل احمد )
جہاد جہد سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے کوشش کرنا، ہمت کرنا۔ مگر اسلامی فقہ میں جہاد کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے لیے لڑنا ۔لڑنے سے مُراد صرف لڑائی ہی نہیں بلکہ اپنے نفس کے ساتھ لڑنا، حق کی فتح کے لیے لڑنا، کسی اعلیٰ مقصد کے لیے دن رات کام کرنا وغیرہ بھی جہاد کا فریضہ کہلائے جاتے ہیں۔
آج کل جب لفظ ’جہاد ‘ بولا جاتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب لیا جاتا ہے یعنی لڑائی، قتال اور جنگ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جہاد کا صرف ایک ہی مطلب ہے اور اگر جہاد کا ایک مطلب قتال اور لڑائی بھی ہے ہے تو اس وقت ہمیں سب سے زیادہ ضرورت کس قسم کے جہاد کی ہے؟ ہمیں کیسے جہاد کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے۔جہاد کی حقیقت کو قتال تک محدود کرنے کی ایک وجہ عہدِ نبی کا زمانہ بھی تھا۔ کیوں کہ اُس وقت رسولِ پاکﷺ حالتِ جنگ میں تھے۔ مگر عرب کی فتح کے بعد جہادالسیف کی جگہ جہاد بالنفس نے لے لی تھی۔جس کی تربیت اور حکم حضور ﷺ نے اپنی زندگی میں دیا تھا۔
ٍجہاد کا معنی کمال درجہ کوشش کرنے کے ہیں۔ یہ کوشش اپنے علم سے قلم سے ، زبان سے اورنفس پر قابو رکھنے سیکی جاسکتی ہے۔ آج کل جس قسم کے جہاد کا درس دیا جاتا ہے اس سے قتال کے علاوہ کوئی اور معنی برآمد نہیں ہوتے۔جہاد بالسیف کا درس دینے والے یہ بھول گئے ہیں کہ سب سے افضل جہاد نفس کا جہاد ہے۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ جہاد النفس کے لیے کوئی درس گاہ قائم نہیں اور قتال کی تربیت کے لیے درس گاہوں کے بے شمار مراکز قائم ہو چکے ہیں۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ ’’مجاہد تو وہ ہے جو اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے۔‘‘
ایک اور حدیث شریف میں آتا ہے:
رَجَعنَا مِنَ الجِھَادِ الاَصغَرِ اِلَی الجِھَادِ الاَکبَرِ قَالُو ا وَمَا الجِھَادِ الاَکبَرِ ؟ قَالَ جِھَادُ القَلبِ یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آگئے “۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا “یا رسول اللہ جہاداكبر كونسا جہاد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “دل (جان)کا جہاد “(گویا کفار سے لڑنا چھوٹا جہاد ہے اور دل کی ریاضت بڑا جہادہے)
یہ بھی اہم نکتہ ہے کہ جہاد بالسیف کا حکم ہجرتِ مدینہ کے بعد۲ ہجری کو دیا گیا۔قرآن مجید کے مکّی آیات میں جہاد کا ذکر نہیں۔ اس لیے کہ پہلے تربیت فراہم کی گئی۔ نفس کی تربیت پر زور دیا گیا۔مکی زندگی میں مصیبتیں، صعوبتیں اور مشکلات اُٹھانے کے بعد جہاد کی طرف تیاری کی گئی۔عورتوں کو تو خصوصی طور پر جہاد السیف سے دور رکھا گیا اور اُن کو خصوصاً تربیت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا جو سب سے بڑا جہاد ہے۔
حضرتِ عائشہ صدیقہ سے پوچھا گیا کہ کیا عورتوں پر بھی جہاد (بالسیف) فرض ہے تو انھوں نے ہاں میں جواب دیا اور کہا کہ یہ جہاد لڑائی والا نہیں۔اس سے واضھ ہوتا ہے کہ لڑائی اور جنگ ہی جہاد نہیں۔ہمارے نام نہاد مذہبی رہنماؤں نے تو عورتوں تک کو جہاد کے نام پر تلواریں پکڑا دی ہیں جو کسی طوراسلام کی درست تفہیم نہیں۔
پچھلی چند دہائیوں سے اسلام کے نام پر قائم چند جنگ جو گروہوں نے جہاد کے خون ریز اور قتل و غارت والے تصور کی اتنی زیادہ تشہیر کی ہے کہ جہاد النفس کا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ اب صورتِحال یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے جو نفس کی تربیت سے مکمل بے بہرہ ہوتے ہیں بندوق تھامے جہاد کا نعرہ بنلد کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس زندگی اور دیگر کوئی ایسی خوبی نہیں ہوتی جو اُنھیں ایک اعلیٰ انسان بناتی ہو مگر ہتھیار ضرور ہوتے ہیں جو جہاد کے لیے خود کو وقف کرنے کے بعد اُن کا زیور قرار پاتے ہیں۔
ہمیں، ہمارے بزرگوں کو چاہیے کہ جہاد کے اصل درس کو سامنے لائیں اور اپنے بچوں کو پہلے نفس کی تربیت پر مائل کریں تاکہ وہ ایک اچھا انسان بن کر معاشرے میں اچھائی کا باعث بنیں۔