(قاسم یعقوب)
ادب اور ادبی سرگرمی کے اس انحطاطی دور اور خطے کی زوال یافتہ صورتِ حال سے گزرتے ہوئے مجھے ایک دفعہ پھر سماج، ادب اور ادیب کی تکون سے وابستہ بہت سے نئے سوالات اور ان کی باہمی ذمے داریوں کا احساس ہو رہا ہے۔ کچھ سال پہلے میں نے ادب اور سماج کے باہمی تعلق سے اٹھنے والے سوالوں میں ادیب کے کردار کو اہم ذمے داری نبھانے کی تلقین کی تھی مگر ان چند سالوں میں حالات اس طرح بدلے ہیں کہ مجھے ادب اور ادبی سرگرمی کے منجمد ہونے سے آگے نکل کر اس پوری فضا کی معنی خیزی کے عمل کی ’’بے معنویت‘‘ کا اعتراف کرنا پڑ رہا ہے۔ میں منجمد سے آگے اس لیے نکل گیا ہوں کہ خطے کی مجموعی صورتِ حال نے بے معنویت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے ایسی حالت میں ادب کی افادی سرگرمی کا سوال بہ ذاتِ خود بے معنی سا معلوم ہونے لگنا ہے۔پہلے تو یہ متعین کر لیا جائے کہ ادب کی سرگرمی سے کیا مُراد ہے؟ادب انسانی فکری کارگزاری کا حسی عمل ہے جو کسی بھی معاشرے کے زندہ اعمال کا پرتَو ہوتا ہے۔معاشرے کی تہذیبی ساخت اپنا آپ انسانی اعمال کی فکری ووجدانی حسیات کی زیریں ساخت میں جمع کرتی جاتی ہے ،یوں اُس کے تخلیقی اذہان معاشرے کی ثقافتی بافت سازی کے کام پر عمل پیراہوتے ہیں۔یہ عمل چلتے پانی کی روانی میں فلٹریشن کے عمل کی طرح ہوتا ہے۔ اب یہاں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کہاں کی فکری چلہ کشی اور کہاں کی وجدانی کارگزای؟ایک ہجوم(Mob)کی حرکت کسی اصول کے ماتحت نہیں ہوتی۔ہجوموں کوکسی شعریاتی تفہیم میں نہیں سمیٹا جاسکتا۔
ادیب کون ہے!کیاادب ادیب کی ذمے داری ہے یایہ معاشرے کا ایک ثقافتی ادارہ۔میں یہ کہنے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں کہ ادب محض چند افراد کا مسئلہ ہو کے رہ گیا ہے۔ میں نے افراد اس لیے کہا ہے کہ ادب کی ترویج کے لیے بہت سے ادارے اور تدریسی شعبہ جات ہمارے معاشرے میں بھی کام کر رہے ہیں۔ جو نام نہاد ادبی سرگرمی کے حصار میں تہذیبی تو دور کی بات انفرادی جمالیات کی داغ بیل بھی نہیں ڈال رہیں۔ادبی سرگرمی کچھ دہائیوں سے ایسی سمٹی کہ سکڑ کے چند افراد کے ذاتی مسئلوں تک محدود ہو گئی۔ یہ وہی چند لوگ ہیں جو ادب پڑھتے ہیں تو اپنے لیے، لکھتے ہیں تو اپنے لیے اورخود ہی کسی ادبی سرگرمی کی بنیاد بنتے ہیں۔۔۔
ادب اصل میں ثقافتی سرگرمی ہے، تہذیب کا دستاویزی اظہار ہے۔ قوموں کے اجتماعی رویے ادب کا موضو ع ہوتے ہیں۔ادب کاOuterادب کی تشکیلی حالتوں کو متعین کرتا ہے۔یہOuterادب کو خام موضوعات مہیا کرتا ہے۔ ادب اپنے Outerمیں ایک تہذیبی سرگرمی بن کے زندہ رہتا ہے۔ ادب انفرادی سرگرمی نہیں ہوتا بلکہ اجتماع کا مجموعی فلسفہ ہوتا ہے جو فکری سطح پر اپنی حسیات و جمالیات کے تار و پود سے تیار ہوتا ہے۔ہمارا معاشرے میں جسے پورا خطہ کہ رہا ہوں اب زوال یافتہ ہوچکا ہے، یہ ’’زوال یافتگی‘‘،’’زوال پذیری‘‘ کی اگلی قسم ہے۔ یعنی اب ’’اختتام کے فلسفہ‘‘ کا پہلا مرحلہ اپنی شکلیات(Taxonomy)کووضح کر رہا ہے۔
مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ معاشرتی انحطاط کے اس دور میں چیزیں صرف زوال آمادہ ہی نہیں بلکہ اپنی اصلیت کے ساتھ ایک دوسرے پر آشکار بھی ہو رہی ہیں۔یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جس نے اس خطے میں ایک نئی’ فضا‘کا خفیہ اعلان کر رکھا ہے۔خفیہ اس لیے کہ بظاہر جنوبی اشیا اس تبدیلی سے آگاہ نہیں۔ عموماً سمندروں کے نیچے پلنے والے بڑے بڑے گرداب سطح سمندر پرنظر نہیں آتے۔مگر اچانک ایک سونامی کا روپ دھار کر سمندر کی بالائی ساخت کو تہہ وبالا کر دیتے ہیں۔مجھے تو ایسے لگ رہا ہے کہ ایک بہت بڑی بغاوت(Rebel)رات کے وقت چلنے والی طوفانی آندھیوں کی طرح اس خطے کا مقدر بننے والی ہے۔ یہ کوئی انقلاب نہیں ہوگا۔ بلکہ صرف چیزوں، فکروں اور طے شدہ سماجی فلسفوں کا ’رد‘(Rejection)ہوگا۔ چیزیں نئی حالت میں منتقل ہونے سے پہلے اپنی پہلی حالت کو چھوڑتی ہیں۔بالکل اسی طرح اشیا اپنی فکری کھپاؤں سے نکل کر سطح پر نظر آئیں گی۔ ٹوٹ پھوٹ میں ہر چیز ایک ہی طرح کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔کوئی خاص اور عام میں تمیز نہیں رہتی۔ حالات میں یکسانی کیفیات ڈیرے ڈال لیتی ہیں۔لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اس طرح کی کیفیات میں ڈھل جاتے ہیں۔ایسی نفسیات اپنی تشکیل میں سب لوگوں کے اذہان پر ایک ہی طرح حملہ کرتی ہے اور سب کو ایک ہی طرح کے اعمال میں دھکیل دیتی ہے۔ اشیا کا رد، پرانے فلسفوں کا رد،سیاسی اداروں کا رد، خاندانی اداروں کا رد، ورثے کی ابدی صداقتوں کا رد،تہذیبوں کی دیواروں کی شکستگی،انصاف کا قتلِ عام۔۔۔ہر چیز ’’رد ‘‘کی زد میں آجاتی ہے۔ کوئی نہیں بچتا۔ٹائن بی کی کتاب ’’اے سٹڈی آف ہسٹری‘‘ تہذیبوں کا شاندار مطالعہ ہے۔ مجھے ٹائن بی کی ایک بات یاد آرہی ہے وہ کہتا ہے کہ تہذیبوں کو درپیش مشکلات(Challenges) عسکری نوعیت کے نہیں ہوتے بلکہ بیشتر چیلنجز انسانی استعداد کا ان مشکلات سے لڑنے کے لیے اپنی صلاحتیوں کا کھو دینا ہیے۔یعنی عسکری قوت تو وہ بیرونی خول ہے جس کا مغز وہ انسانی استعداد ہے جو قوموں کے وقار کا بندوبست کرتی ہے جو اصل میں روح ہے جس کے گرد قوموں کے اعمال کا غلاف لپٹا ہوتا ہے۔ تہذیبیں اپنی موت کی طرف بڑھنا شروع کر دیتی ہیں جب اس روح پر گھاؤ لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ٹائن بی نے قوموں کے عروج کو بھی انسانی استعداد، قابلیت اور شعور ہی قرار دیاہے۔ان صلاحیتوں کا ختم ہوجانا اصل میں قوموں کا زوال ہے۔ٹائن بی اس سلسلے میں شمالی افریقہ کی مثال دیتا ہے:شمالی افریقہ کے صحرا زرخیز تھے جس کے باسیوں کا دارومدار شکار پر تھا۔ وقت کے گزرنے ساتھ ساتھ یہ صحرا خشک ہو گئے۔ یوں یہاں کے لوگوں کو یہ مشکل ایک ’’چیلنج‘‘ بن کے ملی۔ اس چیلنج کو سمجھنے والے کوچ کر کے نیل کی وادی میں چلے گئے، اور کچھ لوگ وہیں اس مشکل سے لڑتے رہے۔ٹائن بی انھی لوگوں کو ’’وحشی‘‘کانام دیتا ہے ۔ وہ لوگ جو نیل کی وادی میں چلے آئے انھوں نے وہاں زمیں کاشت کیں اور ایک نئی زندگی شروع کر دی ۔یہی لوگ بعد میں تہذیب یافتہ کہلائے۔ٹائن بی نے اس تبدیلی کے پیچھے وہ تہذیبی فکر و فلسفہ کی دریافت کی ہے جو قوموں کو تبدیلی پر اُکساتی ہے اور یوں تہذیبیں ایک قدر کی موت پر نئی قدروں کی منتقلی میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔جنوبی اشیا میں ایک عرصے سے اپنے ’’شکاری سرمایے ‘‘سے محروم چلا آرہا ہے۔اس خطے میں بھی بالاخر تبدیلی آنی والی ہے، چوں کہ یہ خطہ دنیا بھر سے پیچھے رہ گیا ہے اس لیے یہاں کا ’’وحشی پن‘‘ اپنی تہذیبی موت کو قبول نہیں کر رہا۔
یہ لمحہ’’انکار‘‘ کا لمحہ ہے،کوئی انقلاب نہیں۔ انقلاب میں چیزوں کی تخریب ،’’تعمیر‘‘ کے لیے ہو رہی ہوتی ہے۔Rejectionمیں کوئی فلسفہ کام نہیں کرتا۔Rejectionبہ ذاتِ خود ایک فلسفہ ہے، اپنے موجود سے انکار کا، احتجاج کا، ظلم کے خلاف فیصلے کا،یکسانیت کے قیدخانے سے فرار کا،حشر کی پکار کا۔ مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ جنوبی اشیا کے سارے موجودہ فلسفے مرتے جا رہے ہیں،فکریں دم توڑ رہی ہیں اور اپنے موت کے مزار پر Rejectionکے ’’لافلسفے‘‘ کو زندہ کر رہی ہیں۔ افراد نے بھی اسی ایک فلسفے کو ورثے اورروایت کی قبر پر مجاور بنا کے بٹھا دیا ہے۔ فنونِ لطیف کے حسی لوازمات سکڑ کے گنے کی اُس خام حالت میں منتقل ہو گئے ہیں جس میں سے رس نکل چکا ہوتا ہے۔
آئیے ادب سے پوچھتے ہیں کہ ادیب کہاں ہے، وہ کیا دیکھ رہا ہے، کیا سوچ رہا ہے، اُسے وہی کچھ نظر آ رہا ہے جو سامنے ہے یا وہ ، وہ دیکھ رہا ہے جسے اُسے دیکھنا ہوتا ہے؟عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی چھاپ کس کو سنائی دے رہی ہے؟یوکرائن کے عظیم کہانی کار ’’نکولائی گوگول‘‘کے بارے میں دوستوئفسکی نے کہا تھا کہ ’’رشین ادب نے گوگول کے اوور کوٹ سے اپنا جنم لیا ہے‘‘۔ہمارے ہاں تو اوورکوٹ بھی بہت تھے اور ان اوورکوٹس کے اندر بڑے بڑے عظیم کہانی کار اور شاعر بھی۔۔۔مگر ہمارے ادب کی رکتی ہوئی سانسیں بھی بند ہونے لگیں۔ادیب نظر آئیں گے تو اس میں سے ادب بھی نکلے گا۔
گبن نے بھی ’’زوال و انحطاطِ رومہ‘‘ لکھتے ہوئے نتائج سے زیادہ دستاویز کے آئینے میں ’’زوال یافتگی‘‘ کو دکھانے کی کوشش کی۔مگر دبے لفظوں میں وہ مذہب اور بربریت کو اس انحطاط کا سبب بتا گیا۔یہ بربریت کوئی ظلم و جبر ہی نہیں تھا بلکہ ادب و فنون سے ذہانت کا ختم ہو جانا بھی شامل تھا۔ یہ بھی ایک معاشرتی بربریت تھی جس نے روم کو تباہ کر دیا۔ یہاں کچھ صورتِ حال مختلف نہیں۔ فکر و فلسفہ، سائنسی خاکہ سازی اور فنون کی جمالیاتی حدبندیاں ، سب میں بربریت نے سکہ جمالیا۔ ادب سے ذہانت ختم ہو گئی ہے۔اسے حاشیے پر پھینک دیاگیا۔ عموماً یہ کام قومیں کرتی ہیں مگر اب کی بار یہ کام سوئی ہوئی تہذیب نے انجام دیا ۔
ادب ایک انسٹی چیوشن ہے، جس میں سماج کی ثقافتی شعریات لکھی جاتی ہے۔ مگر ادب کس چیز کو پینٹ کرے، ادب کچھ کہنے کے لیے کن اذہان کا انتخاب کرے، ادب جو کہنا ،لکھنا، سمیٹنا چاہے وہ کن کے لیے ہو؟ ان سوالوں کے جواب اپنے اندر ہی پوشیدہ ہیں۔سماج کی فکری موت صرف فکر کی سطح پر نہیں ہوتی، بلکہ یہ عمل تو ظاہری موت کے بعدوقوع پذیر ہوتا ہے۔ ادب کی موت سے پہلے معاشرے کی موت کاا علان ضروری ہے؟ادیب اپنی ذمے داریاں کس سے پوچھے۔ ادیب جس معاشرے میں رہ رہا ہے ادیب بھی اُس کا ایک پروردہ ہے، ایسے اذہان جو اس ساری صورتِ حال کو کسی دوربین سے دیکھ رہے ہیں وہ یقیناً خبرداری کی حد تک اپنی اہم ذمے داری ادا کر سکتے ہیں۔میں مایوس ہرگز نہیں اور میری باتیں کسی قنوطی کیفیت کا اظہار نہیں بلکہ اُس قنوطی فکر کا صحت مند ردِ عمل ہے جس نے اپنے منطقی انجام کو پہنچنا ہے۔مجھے یہRejectionکی نوید سناتے ہوئی کسی قنوطی کرب سے نہیں گزرنا پڑ رہا کیوں کہ میں اس کے پار ایک بہت خوش حال ،سحر انگیز صبح کو دیکھ رہا ہوں۔ میں اپنی بات مولا علی ؑ کے اس قول سے ختم کروں گا،شاید میری گفتگو ان دوسطروں میں سمٹ آئے۔آپ ؑ سے پوچھا گیا کہ’’اگر کسی شخص کو گھر میں چھوڑ کر اس کا دروازہ بند کر دیا جائے تو اس کی روزی کدھر سے آئے گی۔فرمایا:وہیں سے،جدھر سے اس کی موت آئے گی۔‘‘