خط کی اصلاح سے ہوتا نہیں حجّام اُستاد
از، عطا تراب
مرحوم بیدل حیدری کی شاعری میں اغلاط کی نشان دہی پرمبنی ظفر اقبال کے دو کالموں کے جائزے پر مشتمل یہ تحریر، مذکورہ بالا شخصیات میں سے کسی ایک کے بھی حق یا مخالفت میں نہیں، بلکہ ادب میں مثبت، مستند اور علمی رویّوں کے فروغ کے لیے لکھی جا رہی ہے۔ظفر اقبال کے اعتراضات کے جائزے سے قبل چند امور کی وضاحت ناگزیر ہے:
۱۔ہم نسیم دہلوی کے درج ذیل شعر :
نسیمِ دہلوی ہم موجدِ بابِ فصاحت ہیں
کوئی اردو کو کیا سمجھے کہ جیسا ہم سمجھتے ہیں
کے بجائے ’’کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے ‘‘کے قائل ہیں۔
۲۔ہمارے نزدیک صِغر سن بھی محترم ہیں چہ جائے کہ کبرسن، لیکن اِن سے بڑھ کر ہم اُس بزرگی کے قائل ہیں جو سن و سال کے بجائے عقل و فہم سے وابستہ ہے اور ہم اس جملے سے سو فی صد متفق ہیں کہ ’’ میرااستاد بڑا ہے لیکن سچ میرے استاد سے بھی بڑا ہے‘‘،لہذا سچ اور عقل و فہم سے وابستہ بزرگی کا احترام ہم پر لازم تر ہے کیوں کہ سو سالہ جہل کو ہم چند روزہ علم پر اس لیے فوقیت نہیں دے سکتے کہ وہ عمر میں بڑا ہے۔
۳۔ہم اپنے پیمانوں کی بنیاد پر کسی کی شاعری پر بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے پوری کوشش کریں گے کہ ظفر اقبال کے پیمانوں تک محدود رہیں کہ جن کی بنیاد پر انھوں نے بیدل حیدری کی شاعری کو پرکھا ہے۔
۴۔ہم فکری ترفع اور معنوی کائنات کی وسعت کے نتیجے میں نئے الفاظ وتراکیب کی آمد کو فطری، ناگزیر اور خوش آیند جانتے ہیں اور لفظی آوارگی اور لفظی اسراف کے ذریعے فکری ترفع اور معنوی کائنات کی تشکیل و توسیع کو سعیِ لاحاصل سمجھتے ہیں بلکہ یہ فکری کم مایگی اور معنوی سطحیت پر منتج ہوتی ہے۔بنا بر ایں لفظی اسراف و آوارگی، معنوی سطحیت، مصرعوں کی کمزور بُنت اور بھی، تو، ہی اور سہی وغیرہ جیسے لفظوں کے غیر محتاط استعمال سے معمور شاعری ہمارے مزاج سے ہم آہنگ نہیں اسی لیے ہمیں ہمارے محدود کتاب خانے سے گورا پبلشرز کی ۱۹۹۵ کی مطبوعہ’’ آبِ رواں ‘‘ہی ہاتھ آئی اور دوست احباب کی عنایات سے پاکستان بکس اینڈ لٹریری ساونڈز کی ۱۹۸۸ کی مطبوعہ’’ غبار آلود سمتوں کا سراغ‘‘، اور گورا پبلشرز کی ۱۹۹۵ کی مطبوعہ ’’گلافتاب ‘‘میسر آئیں اور ایک دوست کی وساطت ’’اب تک ‘‘جلدِ دوم میں شامل کتابیں’’تفاوُت‘‘ اور’’ وہم و گماں‘‘ کا جزوی مطالعہ ممکن ہو سکاہے۔ہماری تحریر میں منقول ظفر اقبال کے اشعار تقریباً انھی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔
اب ہم ظفر اقبال کے کالم ’’کلیاتِ بیدل حیدری پر کچھ لوہارا ترکھانا‘‘ کی طرف بڑھتے ہیں جہاں وہ بیدل حیدری کے کلیات میں موجود عروض، زبان و بیان اور املا کی اغلاط کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
۱۔’’ پہلی کتاب کے صفحہ ۳۸ پر درج نظم کا آخری مصرع ہے:
خود مجھے اکھڑے ہوئے سانسوں میں گم ہونا پڑا
سانس مونث ہے مذکر نہیں اور شاعر نے ایک اور جگہ بھی اسے مذکرباندھا ہے۔‘‘
واضح ہے کہ ظفر اقبال لفظ سانس کو مونث قرار دے رہے ہیں اور اس کے مذکر ہونے کی نفی کر رہے ہیں جبھی بیدل حیدری کا مصرع غلط قرار پائے گالیکن اگر لفظ سانس کا مذکراستعمال بھی درست ہو تو بیدل حیدری کا مصرع درست اور ظفر اقبال کا اعتراض غلط قرار دیا جائے گا۔
لغات اور اسناد سے قبل دیکھتے ہیں کہ اساتذہ کی تحریروں سے کیا رہنمائی ملتی ہے:
مرزا غالب، مرزا یوسف علی خاں عزیز کے تذکیر و تانیث کے متعلق استفسار کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’پورب کے ملک میں جہاں تک چلے جاؤ گے تذکیر و تانیث کا جھگڑا بہت پاؤ گے، سانس میرے نزدیک مذکر ہے لیکن اگر کوئی مونث بولے گا تو میں اس کو منع نہیں کر سکتا، خود سانس کو مونث نہ کہوں گا‘‘۔
اختلاف اللسان میں درج ہے:
’’لفظ سانس کو پہلے سب شعراے دہلی و لکھنؤ مونث باندھتے تھے مگر اب اہلِ دہلی مذکر استعمال کرتے ہیں۔مرزا غالب نے اردوے معلی میں، پروفیسر آزاد نے آبِ حیات میں، فصیح الملک نے گلزارِ داغ میں اس کو مذکر لکھا ہے اور صاحبِ فرہنگِ آصفیہ نے بھی یہی خیال ظاہر کیا ہے۔
اب ہم لغات کا مراجعہ کرتے ہیں:
ا۔علمی اردو لغت (وارث سرہندی):سانس:[ار ، اِ، مذ، مث]۱۔دم۔پھونک۔نفس۔۔۔
ب۔نوراللغات : سانس۔[ہ۔بروزنِ بانس]مونث، اہلِ دہلی مذکر بھی بولتے ہیں۔
ج۔ فرہنگِ آصفیہ:سانس(ہ) اسمِ مونث و مذکر۔۔۔ اگر چہ اکثر شعراے اردو نے اسے مونث باندھا ہے مگر بول چال میں مذکر ہی سنا جاتا ہے بلکہ جرأت نے بھی اس غزل میں جس کا قافیہ بحال، وصال، نہال اور ردیف ہُوا ہے، مذکر ہی باندھا ہے،چنانچہ ہم مطلع اور وہ شعر اس جگہ درج کرتے ہیں:
اس کے جانے سے یہ ملال ہوا
ہجر ہی میں مرا وصال ہوا
دردِ دل سے جو دم لگا رکنے
سانس لینا مجھے محال ہوا
فرہنگِ آصفیہ ہی میں ٹھنڈا سانس کے ذیل میں لکھا ہے: ’’ ہ،اسمِ مذکر۔ دمِ سرد، آہ(اگلے شاعروں نے سانس کو اکثر مونث باندھا ہے مگر اہلِ دہلی آج کل مذکر بولتے ہیں، غالب نے بھی عودِ ہندی میں مذکر مانا ہے‘‘۔
گلزارِ داغ میں داغ دہلوی کا شعر ہے:
دیکھ لینے کو ترے سانس لگا رکھا ہے
ورنہ بیمارِ غمِ ہجر میں کیا رکھا ہے
گفتارِ بے خود میں بے خود دہلوی کا شعر ہے:
ہر سانس کھٹکتا ہی رہا سینے میں پیہم
گزرا نہ تری یاد سے خالی کوئی دم بھی
قارئین ، لغات اور اساتذہ کی اسناد کی روشنی میں بیدل حیدری کا مصرع درست اور ظفر اقبال کا اعتراض بے جا قرار دیا جا سکتا ہے۔
البتہ ’’اب تک‘‘ جلدِ دوم کے صفحہ ۸۴۸ پر ظفر اقبال کا مصرع ہے:
یہ نیام اتنی کشادہ ہے کہ شاید اس میں
اس مصرعے میں لفظ نیام کو مونث باندھا گیا ہے جو ہماری ناقص معلومات کے مطابق مذکر ہے اوراساتذہ کے کلام میں اس کا مونث استعمال ممکن ہے موجود ہو، کم از کم ہمارے انتہائی محدود مطالعے میں نہیں۔
دبیر فرماتے ہیں:
فی الفور پیک فتح کا لبیک کہہ گیا
منہ کھول کر نیام تعجب سے رہ گیا
غالب بھی نیام کو مذکر باندھ رہے ہیں:
ٹکڑے ہوا ہے دیکھ کے تحریر کو جگر
کاتب کی آستیں ہے مگر تیغ کا نیام
۲۔ظفر اقبال بیدل حیدری کے کلیات میں موجود ایک اور غلطی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دوسری کتاب کے صفحہ ۳ پر مصرع ہے
چوکڑی بھرتے ہیں آنکھوں میں یوں آنسو بیدل
اس میں لفظ یوں کی واؤ اور نون غنہ دونوں دب جاتے ہیں جو مستحسن نہیں۔ یہ مصرع اگر اس طرح ہوتا تو بہتر تھا
چوکڑی بھرتے ہیں یوں آنکھوں میں آنسو بیدل‘‘
ظفر اقبال کی مندرجہ بالا بات سے جُزوی اتفاق کرتے ہوئے چند دلچسپ امور کا ذکر خالی از فائدہ نہیں( جُزوی اتفاق اس لیے کہ نون غنّہ کا تقطیع میں سرے سے شمار ہی نہیں، لہذا اس کے گرنے کی بات از حد مضحکہ خیز ہے اور ہم بھی از راہِ تمتع زبانِ غیر میں شرحِ آرزو کرتے ہوئے نون غنّہ کے گرنے کا ذکر بار بار کررہے ہیں) :
ا۔ بیدل حیدری کے مصرعے میں ’’یوں‘‘ کا ’واو ‘ اور ’ نون غنّہ‘ گر رہے ہیں لیکن ’’آنکھوں‘‘کا ’واو‘ اور’ نون غنّہ‘ ادا ہو رہے ہیں جب کہ ظفر اقبال کے تجویز کردہ مصرعے میں’’یوں‘‘ کا ’واو‘ اور ’نون غنّہ‘ ادا ہو رہے ہیں اور’’ آنکھوں‘‘ کا ’واو‘ اور ’نون غنّہ‘ قربان ہو رہے ہیں، اور یہ بھی کوئی بہت کمال کی بات نہیں۔
ب۔لفظ ’’یوں‘‘ جب ’’ہی‘‘ کے ساتھ آئے تو اس کے ’واو‘ اور ’نون غنّہ‘ کو گرایا جا سکتا ہے جیسے ’’غبار آلود سمتوں کا سراغ ‘‘کے صفحہ ۲۵ کا مصرع ہے:
ہنسی خوشی یونہی دن کاٹنا ہیں فرقت کے
اس مصرعے میں ’’یونہی‘‘ فعلاتن کے فُعِ کے برابر آ رہا ہے یعنی یونہی میں یوں ایک حرفی ہے لیکن یہ جائز ہے۔
ج۔آبِ رواں کے صفحہ ۲۸ پر ظفر اقبال کے مصرعے’’گلیوں بازاروں میں در آئیں گے کھلتے چہرے‘‘ میں ،گلیوں اور بازاروں دونوں کا واو اور نون غنّہ دب رہے ہیں اور آبِ رواں ہی کے صفحہ ۶۹ پر مصرع ہے:
انھی رواں دواں لہروں پہ زندگی کٹ جائے
درج بالا مصرعے میں ’’دواں‘‘ کا الف اور نون غنّہ ساقط ہیں جو ہر گز مستحسن نہیں۔
۳۔ ظفر اقبال مزید لکھتے ہیں:
’’ پہلی کتاب کے صفحہ۷۳ کی نظم کایہ مصرع ساقط الوزن ہے:
یہاں پر چھاؤنی اور توپوں کے دہانوں میں‘‘
ہم نے کلیاتِ بیدل حیدری کی پہلی کتاب ’’ میری نظمیں‘‘ کا صفحہ ۷۳ کھول کر دیکھا تو وہاں مصرع ’’ یہاں ہر چھاؤنی اور توپوں کے دہانے میں‘‘ لکھا نظر آیا جب کہ ظفر اقبال کے کالم میں ’’یہاں پر۔۔۔‘‘لکھا ہے۔ اب ہم نے اس سطر کو سیاق و سباق میں پڑھنا شروع کیا تو ہماری موزون قرائت نے ہمیں ایک حرف ’میں‘ سجھایا جو غالباً کتابت کی نذر ہو گیا تھا:
یہ کس مجذوب کی بڑ ہے
جو کہتا ہے
یہاں ہر چھاونی (میں) اور توپوں کے دہانوں میں
ابابیلوں
نے اپنے گھونسلوں کو مورچوں کی شکل دے رکھی ہے
برسوں سے
ظفر اقبال کا ایک اور اعتراض بھی چونکہ اسی نوعیت کا ہے لہذا اس پر بھی یہیں بات کر لیتے ہیں، ظفر اقبال لکھتے ہیں:
چوتھی کتاب کا ایک مصرع ہے ع ماتم کناں ہے آئینۂ تطہیر ہائے ہائے،
یہ مصرع خارج از وزن ہے
ہم نے اس مصرعے کو سیاق و سباق میں دیکھنا چاہا تو مشکل یہ پیش آئی کہ ظفر اقبال نے اس مصرعے کا مکمل پتا ہی نہیں دیا ، خیر مصرع مل ہی گیا یہ بیدل حیدری کے مسدس کی بیت ہے جو بعینہ درج ہے:
طرزِ فغانِ زینبِ دل گیر ہائے ہائے
ماتم کناں ہے آئینۂ تطہیر ہائے ہائے
انصاف سے بتائیے کہ یہ مصرع بیدل حیدری نے یوں نہیں کہا ہو گا :
ماتم کناں ہے آیۂ تطہیر ہائے ہائے
اب اگر کاتب کی فروگزاشت بھی شاعر کے بے وزن ہونے پر محمول کی جائے گی تو پھر خدا لگتی یہی ہے کہ ظفر اقبال کے بیسیوں مصرعے بے وزن ہیں:
گلافتاب صفحہ۳۵
ع میری ہے صدا کے پھول بکھر میرے سامنے
گلافتاب صفحہ ۳۵
ع آخر وہ آرزو میرے سر پر سوار تھی
گلافتاب صفحہ ۶۷
ع آنکھ میں ہے ابر ساابر ہے میں ہے آنکھ سی
غبار آلود سمتوں کا سراغ صفحہ۹۰
ع ملے کہیں تو ظفر سے پوچھ لینا خود
تفاوت صفحہ ۱۲۳۰
ع فرصتِ شوق میں قائم نہیں تھے مرے حواس
تفاوت صفحہ ۱۲۰۱
ع ہیں کون کون حضرات والا کے دائیں بائیں
ظفر اقبال جس انداز سے بیدل حیدری کی شاعری پر لکھ رہے ہیں کچھ دیر کے لیے ازراہِ تفنّن ہم بھی وہی انداز اختیار کر لیں تو یہ کہنا پڑے گا کہ ظفر اقبال کبھی کبھار مصرع گھڑتے ہوئے بے وزن ہو جاتے ہیں جس کے لیے اوسط درجے کی نا اہلی بھی کافی ہے لیکن ظفر اقبال کی اس کمال درجے کی نا اہلی کا تو جواب نہیں جہاں وہ بیدل عظیم آبادی کے مکمل شعر کو گلافتاب کے( شمع کے نام ) انتساب میں بے وزن کر کے یوں لکھتے ہیں:
ہمہ عمر با تو قدرح زدیم و نرفت رنج خمار ما
چہ قیامتی کہ نم رسی ز کنار ما بکنار ما
اس خدشے کے پیشِ نظر کہ ہم ظفر اقبال کے معاندانہ رویے میں ڈھل کر کوئی سخت بات نہ کہہ گئے ہو ں ،ازالے اور توجیہہ کی کوشش کرتے ہیں،غالباً ظفر اقبال نے بیدل عظیم آبادی کے شعر پرنثری اصلاح دی ہے،ان کی نثری اصلاح سے قبل بیدل عظیم آبادی کے فارسی شعر کی صورت یوں تھی:
ہمہ عمر با تو قدح زدیم و نرفت رنج خمار ما
چہ قیامتی کہ نمی رسی ز کنار ما بکنار ما
اب ذیل میں ظفر اقبال کے کچھ مصرعے درج کیے جاتے ہیں جن کی بندوق کاتب کے کاندھے پر بھی نہیں رکھی جا سکتی، ہماری ناقص رائے اور دانست میں تو یہ مصرعے بے وزن ہیں اگر کوئی صاحب تصحیح فرمائیں گے تو ہم اپنی کم علمی کا اقرار کرتے ہوئے بخوشی درست رائے اپنا لیں گے:
آبِ رواں صفحہ۲۷
ع شاید اک بار پھر گہرے بادل کی حبشی حسینہ ہنسے
گلافتاب صفحہ ۹۲
ع کون تھا جو کسی گنجان شہر سے آیا
تفاوت صفحہ ۱۱۵۵
ع اعتبار ایک دفعہ بھی نہ ہمارے پہ کیا
غبار آلود سمتوں کا سراغ صفحہ۸۲
ع اب کہیں تمغۂ رسوائی ملا اس کے طفیل
تفاوت صفحہ۱۲۰۱
ع یوں بچ نہیں سکے ہیں کنارے بھی اس دفعہ
آبِ رواں صفحہ۱۰۹
ع جگر ؟بھی ایک شعلہ ہے برونِ در نہ سہی
تفاوت صفحہ۱۱۷۳
ع اس دفعہ میرے خیالات کی راہوں سے نہیں
غبار آلود سمتوں کا سراغ صفحہ۷۳
ع اور اس کی جگہ فرضی نفرتیں بیدار کرتا ہوں
غبار آلود سمتوں کا سراغ صفحہ ۱۳۴
ع غیر کو تمغۂ رسوائی نہ دینا ہر گز
وہم و گماں صفحہ ۸۸۱
تو کسی جگہ تو رک بھی سہی اے یار بدل
یہاں جودوست ہمارے ہوئے دستار بدل
وغیرہ وغیرہ
درج بالا مصرعوں کے بے وزن ہونے کی وجوہات کے بیان سے قبل بیدل حیدری پر ظفر اقبال کے ایک ہی نوعیت کے اعتراضات کا ذکر ناگزیر ہے:
’’تیسری کتاب کے صفحہ ۲ پر مصرع ہے
ع وہ ماورائے اطلس و کمخواب بیدل
یہاں ماورائے کی الف بری طرح دبتی ہے جسے اعلان کے ساتھ پڑھتے ہیں‘‘۔
مزید ملاحظہ کیجیے: استاد برکت علی خاں : غزل کی شدھ گائیکی کا باوا آدم از، پروفیسر شہباز علی
درج بالا مصرعے میں ماوراکا الف ساقط ہے لیکن ظفر اقبال کے اعتراض کو درست کہنے میں ہمیں اس لیے تامّل ہے کہ نفسِ مصرع اور اس کا پتا نقل کرنے میں علمی و ادبی دیانت داری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ مصرع درست نقل نہ کرنے کے نتیجے میں مصرعے کی بحر سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے اور اس کا پتا غلط بتانے کی صورت میں ہم اس حاشیے سے محروم رہتے ہیں جو اسی مصرعے کے ذیل میں دیا گیا ہے ہر چند یہ حاشیہ ایک اور حاشیے کی اطلاع ہی دے رہا ہے۔اصل مصرعے میں تخلص سے قبل لفظ ہے موجود ہے
ع وہ ماورائے اطلس و کمخواب ہے بیدل
اور اس مصرعے کو بقول ظفر اقبال تیسری کتاب کے صفحہ ۲ پر موجود ہونا چاہیے جبکہ یہ چوتھی کتاب کے صفحہ ۲۰ پر ہے اور جس حمد کے مقطعے کا یہ مصرع ہے اس کے ذیل میں درج ذیل حاشیہ درج ہے:
’’بیاض میں اس ’’حمد‘‘ کے مقطع کا پہلا مصرع قطع کرتے ہوئے ساتھ نوٹ دیا گیا ہے‘‘
ہماری رائے میں اگر اعتراض صحتِ جزئیات کے ساتھ بیان کیا جاتا تو اس کی وقعت یوں کم نہ ہوتی جیسے اب ہو گئی ہے۔اور اس میں بھی کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ ہم ماورا کے اس قسم کے استعمال کے حق میں نہیں ہیں۔
ظفر اقبال ایک اور اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دوسری کتاب کے صفحہ ۴۴ پر مصرع ہے
ع بیدل درِ کلیساء مضموں نہ بند کر
اس میں کلیسا کو کلیسہ پڑھنا پڑے گا جو کہ درست نہیں کیونکہ کلیسا کا الف اعلان کے ساتھ آیا ہے‘‘۔
ظفر اقبال کا اعتراض بالکل درست ہے ،اسی کے ساتھ بیدل حیدری کے کلیات میں بقول ظفر اقبال لفظ ماجرا کو ماجرہ لکھا گیا ہے ،اگر ایسا ہے تو یہ بھی غلط ہے البتہ کلیسا اور ماورا کے الف کا سقوط؛ اور ماجرا جیسے الف پر ختم ہونے والے لفظ کو ہاے مختفی کے ساتھ لکھنا ،وہ غلطی ہے جو انھوں نے خود بھی کر رکھی ہے ۔جن دو مصرعوں میں یہ غلطی سرزد ہوئی ہے، انھیں ہم نقل کر چکے ہیں:
غبار آلود سمتوں کا سراغ صفحہ۸۲
ع اب کہیں تمغۂ رسوائی ملا اس کے طفیل
اور غبار آلود سمتوں کا سراغ صفحہ ۱۳۴
ع غیر کو تمغۂ رسوائی نہ دینا ہر گز
ان دونوں مصرعوں میں لفظ تمغا کا املا غلط لکھا گیا ہے آخر میں ماجرا کی طرح الف ہے(تمغہ نہیں تمغا)، لیکن ہاے مختفی کے ساتھ (تمغہ) لکھا گیا ہے اور ان کا الف ماورا اور کلیسا کی طرح ساقط الوزن ہے یا دب رہا ہے کہہ لیجیے۔
غالباًترکی زبان کا یہ لفظ فارسی کے راستے ہماری زبان میں شامل ہوا ہے سند کے طور پرخواجو کرمانی، صائب ، بیدل عظیم آبادی اور مرزا رفیع سودا کے اشعار بالترتیب ملاحظہ فرمائیے:
یا از پئے معیشت سلطان زنگبار
تمغاے ہندبر شہ خاور نوشتہ اند
خواجو کرمانی
داغ رسوائی خداداد است منصور مرا
ہست تمغاے تجلی لالہ طور مرا
صائب تبریزی
بر جبینِ ما نشانِ سجدہ تمغاے وفاست
صنعتِ عشق از کلف آرایشِ مہ می کند
بیدل عظیم آبادی
ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغاے مسلمانی
نہ ٹوٹی شیخ سے زنّارِ تسبیحِ سلیمانی
مرزا رفیع سودا
ظفر اقبال کے بیدل حیدری کی شاعری پر کچھ اعتراضات جن سے ہم ہلکے سے اگر مگر کے ساتھ متفق ہیں ، درج ذیل ہیں:
بیدل حیدری کے مصرعے (اسی زمیں سے یا پھر آسماں سے آیا ہے )سے ظفر اقبال کا تجویز کردہ مصرع (اسی زمین سے یا آسماں سے آیا ہے)، بہتر ہے،صفحہ۸۴ نہیں بلکہ ۸۶ پر مصرعے (دلِ تندرست بھی بیمار نکلا)میں لفظ تندرست کا وزن درست نہیں ہے، یہ مصرع(ہوتی ہیں کس طرح کی وہاں چہ میگوئیاں)ظفر اقبال کے بتائے پتے پرہمیں نہیں مل سکا اور ہم اس مصرعے کو ڈھونڈنے کا تردد بھی نہیں کر سکے ، لہذا ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ظفر اقبال کے بقول یہ مصرع بعینہ اگر ایسے ہی ہے اور وضاحت یا معذرت پر مبنی کوئی حاشیہ بھی نہیں تو ظفر اقبال درست کہہ رہے ہیں اور اس مصرعے میں سُقم ہے، اور اس مصرعے ( سوتیلا باپ اسے اس دفعہ بھی زہر لگا)، میں سوتیلا کا ’واو ‘ادا نہیں ہو رہا ، تاہم ہمیں اس بات پر حیرت ہوئی کہ ظفر اقبال نے اسی مصرعے میں لفظ دفعہ کے تلفظ پر اعتراض کیوں نہیں کیا جو ہماری ناقص رائے کے مطابق دَفَعْہ (بہ فتحہء دوم)نہیں بلکہ دَفْعَہ (بہ سکونِ دوم و بہ فتحہء سوم)ہونا چاہیے، اور جب ہمیں ہمارے حیرت آمیز سوال کا جواب یوں ملا کہ ظفر اقبال خود بھی دفعہ کے استعمال میں بیدل حیدری کے ساتھی ہیں تو ایک دفعہ تو رک گئی گردشِ ماہ و سال بھی ، پھر ہم نے سوچا شاید ظفر اقبال پروین شاکر کے تتبع میں دفعہ ( بہ فتحہء دوم)باندھ گئے ہوں گے۔ سرِ دست ہمارے سامنے جو اشعار ہیں ان کی روشنی میں تو دفْعَہ(بہ سکونِ دوم) ہی درست لگ رہا ہے، مولوی کا شعر ملاحظہ کیجیے:
کز کمیِ خشت دیوارِ بلند
پست تر گردد بہر دفعہ کہ کند
فیض کاشانی کا شعر بھی یہی کہہ رہا ہے:
چہ پرسی ز مینا و ساغرکدام
بیک دفعہ دہ آں دو لبریز را
دفعہ شِقّ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے عزیزؔ کا مصرع دیکھیے:
ہے دفعہ ہر اک ازبر قانونِ شہادت کی
زین العابدین خاں عارف کا شعر ملاحظہ فرمائیے:
شکل کو کیونکہ نہ ہر دفعہ بدل کر آؤں
ہیں مری تاک میں اغیار ترے کوچے میں
بطور مثال شہرام سرمدی کا شعردیکھیے:
ایک دفعہ تْو یہاں آ کر مجھے حیران کر
کیا ضروری ہے کہ تجھ سے ملنے آؤں میں وہاں
بالترتیب مصحفی اور شعورکے شعروں میں لفظ دفعہ کا تنوین کی صورت میں بھی استعمال، ملاحظہ فرما لیجیے:
دل دفعتاً بھڑک کے جو بس سرد ہو گیا
اس کو تری نگاہ کی برچھی مگر لگی
دفعتاً ہو جائے گی صبحِ قیامت آشکار
خوب ہے گرشہرِ خاموشاں میں گھڑیالی نہیں
ظفر اقبال کی لفظ ’میں‘ کے یک حرفی ہونے اور ’الف‘ کے ادا نہ ہونے والی بات درست ہے لیکن ایسی مثالیں ہم سبھی کے ہاں نکل آئیں گی ۔ غالب یہ کہتے جچتے ہیں کہ ’الف‘ دبتا ہے تو کلیجے پر تیر لگتا ہے، کیونکہ ان کے ہاں ’تیرا‘ اور ’ میرا ‘ وغیرہ کا الف کہیں دب جائے تو دب جائے ورنہ اکثر و بیشتر وہ الف ادا کرتے نظر آتے ہیں، لیکن آپ کا کسی دوسرے کا’ الف‘ کھینچنا قدرے معیوب لگتا ہے کہ آپ اپنے مصرعوں کو نظر میں رکھیے چند مثالوں پر اکتفا کی جاتی ہے:
غبار آلود سمتوں کا سراغ صفحہ۸۶
ع ابھرتا ڈوبتا میں بھوک کے بھنور میں رہا
ابھرتا، ڈوبتا میں ہے الف کا بیڑا غرق
آبِ رواں صفحہ۴۵
ع سہماسہما ہے سجاوٹ میں ترا سانولا پن
پہلے’ سہما‘ اور’ سانولا‘ کا الف
تفاوت صفحہ ۱۱۷۹
ع اور بھی ہیں یہاں کہنے والے
’یہاں‘ کا الف مع نون غنہ (بقول ظفر اقبال)
آبِ رواں صفحہ۶۹
ع انھی رواں دواں لہروں پہ زندگی کٹ جائے
دواں کا الف بمع نون غنہ
غبار آلود سمتوں کا سراغ صفحہ۸۹ ،۹۰اور ۹۱
ع چھپائے پھرتا ہوں خودکو تمھاری خواہش پر
’پھرتا ‘کا الف
ع میں ہو بھی سکتا ہوں ظاہر اگر ضرورت ہو
’سکتا ‘کا الف
ع سوال کرتا نہیں کیا خبر ضرورت ہو
’کرتا ‘کا الف
ع آتا جاتا ہے وہ جس پر رہگزر کیسا ہے وہ
لفظ’ آتا ‘کا الف ادا نہیں ہو رہا ۔
وہم و گماں صفحہ ۸۸۱
ع یہاں جودوست ہمارے ہوئے دستار بدل
لفظ یہاں کا الف (بقول ظفر اقبال)نون غنہ سمیت دب رہا ہے۔
غبار آلود سمتوں کا سراغ صفحہ ۱۱۱
جائیں گے ہم وہاں صرف اس کی زیارت کرنے
آئے گا وہ یہاں قصّے ہی سنانے خالی
پہلے مصرعے میں لفظ ’وہاں‘ اور دوسرے مصرعے میں ’یہاں ‘ کا الف (بقول ظفر اقبال) نون غنّہ سمیت دب رہا ہے۔
غبار آلود سمتوں کا سراغ صفحہ۱۱۰
وہ جھوٹ بولتا اور میں خبر بنا لیتا
’بولتا‘ کا الف ادا نہیں ہو رہا۔
آرزو کی شخصیت میں سادگی بھی تھی بہت، خوشنما اجلی جبیں پر زخم کا زیور بھی تھا، جیسا اچھا شعر کہنے والے شاعر کو ایسے اعتراض کہ اس مصرعے ، مرے نصیب میں زخموں کا ہارایسا ہے ، میں خلافِ واقعہ، نا ممکن اور مضحکہ خیز بات کی گئی ہے، اور یہ شعر بھی ، بیدل یہ کون لوگ ہیں مصلوب دیکھنا ، سب کے گلے میں ایک سا پھندا دکھائی دے، غلط ہے کہ’’ مصلوب لوگوں کو گلے میں پھندا ڈال کر نہیں صلیب پر کھڑا کر کے مارا جاتا ہے‘‘، زیب نہیں دیتے کیونکہ ان اشعار کی توجیہہ کی جا سکتی ہے۔
بیدل حیدری کے درج ذیل مصرعے (اس کا پتا بھی نا مکمل اور نا درست ہے)پر ظفر اقبال معترض ہیں:
’’ع طرح طرح کی جگہوں میں اتر کے دیکھتے ہیں
یہاں جگہوں کو جگوں پڑھنا پڑے گا یا جگھوں ‘‘۔
یہ بعد کا سوال ہے کہ لفظ جگہ کی جمع کو کس طرح باندھیں گے پہلے خود لفظ جگہ کاعروضی استعمال ظفر اقبال کے درج ذیل مصرعوں کی روشنی یا شاید تاریکی میں سوال بن گیا ہے:
غبار آلود سمتوں کا سراغ صفحہ۷۳
ع اور اس کی جگہ فرضی نفرتیں بیدار کرتا ہوں
وہم و گماں صفحہ ۸۸۱
تو کسی جگہ تو رک بھی سہی اے یار بدل
ہماری دانست کے مطابق تو لفظ جَگَہ ہے جَگْہ نہیں ، میر تقی میر کے دو شعر ملاحظہ فرمائیے:
شہرہ رکھے ہے تیری خریت جہاں میں شیخ
مجلس ہو یا کہ دشت اچھل کود ہر جگہ
پھرتی ہے اپنے ساتھ لگی متصل فنا
آبِ رواں سے ہم ہوئے نابود ہر جگہ
رند کا شعر دیکھیے:
صلوات اس کے حُسن کی پڑھتے نہ کس طرح
انصاف کیجیے تو جگہ ہے درود کی
ظفر اقبال کے ما قبل مذکوربے وزن مصرعوں میں سے کچھ کے بے وزن ہونے کی کیفیت اور سبب بیان ہو چکا،لیکن کچھ کی بے وزنی کی کیفیت کابیان ہنوز باقی ہے جو بیدل حیدری کے دو فارسی انداز کی اردو تراکیب (خطرۂ پسپائی اور گلابِ امید)کے استعمال پر ظفر اقبال کے اس اعتراض کہ فارسی کے قواعد کی رُو سے یہ غلط ہیں، کے تجزیے کے بعد بیان کی جائیں گی اس سے پہلے ظفر اقبال کے دلچسپ اعتراض انھی کے قلم کی زبانی ملاحظہ فرمائیے:
’’دوسری کتاب کے صفحہ ۴ پر مصرع ہے
ع میں پارسل کروں گا گلابِ امید اسے
ظاہر ہے کہ گلاب سے یہاں شاعر کی مراد گلاب کا پھول ہے لیکن چونکہ ترکیب لگا کر اسے مفرس کر دیا گیا ہے اس لیے اس کے معنی بدل گئے ہیں کیونکہ فارسی میں گلاب کے معنی گلاب کا پھول نہیں بلکہ عرقِ گل کے ہیں جو گل اورآب سے مل کر بنا ہے۔ یہ غلطی اکثر شعرا کرتے ہیں‘‘۔
اسی سے ملتا جلتا ایک اور اعتراض بھی شامل کرتے چلیں، ظفر اقبال اپنے کالم میں لکھتے ہیں:
’’صفحہ ۶۹ پر ایک مصرع ہے
ع اپنا بھی مجھے خطرۂ پسپائی بہت ہے
یہاں بھی خطرہ کو مفرس کر دیا گیا ہے جبکہ خطرہ کا لفظ فارسی لغت میں ہے ہی نہیں بلکہ اس کی جگہ خطر استعمال ہوتا ہے مثلاًاقبال کا شعر ہے:
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیّاد‘‘
ظفر اقبال کے ان اعتراضات کی حیثیت جاننے کے لیے دریائے لطافت میں انشاء اللہ خان انشاکی رائے ملاحظہ فرمائیے:
جاننا چاہیے کہ جو لفظ اردو میں آیا وہ اردو ہو گیاخواہ وہ عربی لفظ ہو یا فارسی، ترکی ہو یا سریانی، پنجابی ہو یا پوربی، اصل کی رُو سے غلط ہو یاصحیح ، وہ اردو کا لفظ ہے اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح۔ اس کی صحت اور غلطی اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے کیونکہ جو اردو کے خلاف ہے وہ غلط ہے گو اصل میں صحیح ہو، اور جو اردو کے موافق ہے وہی صحیح ہے خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو‘‘۔
لگے ہاتھوں نظامِ اردو میں آرزو لکھنوی کی رائے بھی ملاحظہ فرمایئے:
اردو میں مختلف زبانوں کے لفظ مستعمل ہیں ، مگر ان میں سے بعض کا تلفظ، بعض کے معنی اوربعض میں دونوں بدل گئے ہیں، یعنی از رُوئے اصل ان کا تلفظ یا معنی غلط ہیں لیکن ہم اردو میں اسی غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط مانتے ہیں اور الفاظ و محاورات کی صحت اورغلطی اور عبارت کی فصاحت و قیادت میں کسی دوسری زبان کے لغت، قواعدِ صرف ونحو اور اصول انشا کی پابندی نہیں کرتے، اس سے اردو کا مستقل زبان ہونا ثابت ہے‘‘۔
متذکرہ بالا زباندان شخصیات کی رہنمائی کی روشنی میں مذکورہ بالا فارسی انداز کی اردو تراکیب (خطرۂ پسپائی اور گلابِ امید) کی درستی پر مزید بحث کی ضرورت نہیں رہتی ، لیکن اتمام حجت اور مزید تسلی کے لیے ہم لفظ گلاب کا فارسی زبان میں بھی جائزہ لیتے ہوئے ظفر اقبال کے اس دعوے کہ فار سی میں گلاب کے معنی گلاب کا پھول نہیں بلکہ صرف عرقِ گل کے ہیں، کی جانچ پڑتال کرتے ہیں، لیکن اس سے پہلے لفظ خطرہ کی مرکبِ اضافی کی صورت میں ایک آدھ شعری سند اورظفر اقبال کے لفظ خطرہ کے خلاف اقبال کے (خطر پسند طبیعت والے) شعر کو بہ طور سند استعمال کرنے پر شگفتہ تبصرہ ملاحظہ فرما لیجیے:
جس دن سے رندِ ساقیِ کوثر ہوئے سحر
خوفِ حساب و خطرۂ عصیاں نکل گیا
جرائت قلندر بخش
ہمیں کیا خطرۂ جاں ہے کہ ہم ہیں نام کو جرأت
نہ ہوں پھر کیونکہ میدانِ محبت میں اتارے ہم
اقبال نے تو کہہ رکھا ہے کہ خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ، لیکن لفظ خطرہ کی بابت معاملہ بر عکس ہے کہ زاغِ پیر کو شاہین کی ادھوری صحبت خراب کر گئی ہے ، کیونکہ شاہین کا ’’خطر پسند ‘‘ہونا توزاغِ پیرنے دیکھ لیا (خطر پسند طبیعت کوسازگار نہیں،وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیّاد )لیکن شاہین کا مشروط طور پر ’ خطرۂ افتاد ‘‘ سے بے نیاز ہونا نہیں دیکھ سکا:
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُرَ دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد
ہماری رائے میں لفظِ گلاب اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں گلاب کے پھول اور عرقِ گل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اردو کی حد تک ہم صر ف اسناد و امثال کے ذکر پر اکتفا کریں گے کہ اصل معرکہ تو فارسی میں درپیش ہے:
پھول کے معنی میں مصحفی فرماتے ہیں:
رہا کر اب تو اسیرِ قفس کو اے صیاد
کلی چٹکنے لگی رنگ پر گلاب آیا
عرقِ گل کے معنوں میں بالترتیب انیس اور ناسخ کے اشعار ملاحظہ فرمائیے:
روتے ہیں فرقتِ شہِ عالی جناب میں
نرگس کے پھول تیر رہے ہیں گلاب میں
میں غش سے اس کے چھڑکتے ہی ہوشیار ہوا
کسی صنم کا پسینہ ہے یہ گلاب نہیں
اور اس شعر میں استاد نے کتنے ہی دلپذیر انداز میں لفظِ گلاب باندھ دیا کہ آپ اس کی لطافت سے حظ اٹھاتے رہیے:
خواہاں تھے آلِ فاطمہؑ زہراجو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
اب ہم فارسی زبان میں لفظ گلاب کے معانی کی تحقیق کے لیے فارسی لغات سے رجوع کرتے ہیں:
فرہنگِ عمیدمیں لفظ گلاب کے ذیل میں لکھا ہے:
۱۔ عرق گل
۲۔ عرقی کہ از یک قسم گل، معروف بہ گلِ محمدی یا گلِ گلاب می گیرند
ترجمہ: گلاب کا پہلا معنی ہے کسی بھی پھول کا عرق، اور دوسرا معنی ہے پھول کی ایک خاص قسم کا عرق جو گلِ محمدی یا گلِ گلاب(گلاب کا پھول)کے نام سے مشہور پھول سے حاصل کیا جاتا ہے۔
فرہنگِ عمید میں گلاب کے ذیل میں گلِ گلاب کی ترکیب اہم ہے جو گلاب کے پھول کے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔
لغت نامۂ دہخدا میں لکھا ہے:
گلاب.[گُ] (اِ،مرکب) عرقِ گلِ سرخ کہ ما ء الورد است و از برگِ گل مستفاد می شودکہ مزید علیہ گُل یا بہ معنای گل بطریقِ مجازبود…..
ترجمہ: گلاب .[گاف پر پیش] (اسم، مرکب) گلاب کے پھول کا عرق جو ماء الورد بھی کہلاتا ہے اور پھول کی پتیوں سے حاصل کیا جاتا ہے، مزید بر آں لفظِ گلاب پھول وغیرہ کے معنوں میں مجازاً استعمال ہوتا ہے۔
ظفر اقبال کا یہ کہنا کہ گلاب، گل اور آب سے مل کر بنا ہے اس لیے اس سے صرف عرقِ گل مراد لیا جا سکتا ہے ، درست ہے ،لیکن یہ ادھوری بات ہے ، کیونکہ گُل اور آب سے گلاب بننے کی دو صورتیں ممکن ہیں:
۱۔ یہ آبِ گل(یعنی پھول کا پانی، رس، عرق) سے اضافتِ مقلوب کے نتیجے میں گل آب بنا جسے جوڑ کر گلاب لکھا گیاجیسے خانۂ کار سے کارخانہ وغیرہ ۔ ظفر اقبال کی بات صرف ایک ممکنہ ترکیب تک محدود ہےِ گُل اور آب سے گلاب بننے کی دوسری ممکنہ صورت درج ذیل ہے:
۲۔ یہ گلِ آب (پانی کا پھول) سے فکِ اضافت کے ذریعے گلاب بن گیا ہو جیسے خود ظفر اقبال نے اپنی کتاب کا نام گلافتاب رکھا جو اصل میں گلِ آفتاب (سورج کا پھول، سورج مکھی) جو فک اضافت سے گل آفتاب اور پھر جوڑ کر گلافتاب لکھا جاتا ہے۔
اب جب ہم اس دوسرے امکان کی تلاش میں نکلے تو لغت نامۂ دہخدا میں گلاب کے ذیل میں آگے چل کر لکھا ہے:
گلاب.[گُ] (اِسم، مرکب)نوعی از نیلو فریان کہ دارای گلھای رنگین است و در برکہ می روید۔
ترجمہ: گلاب.[گُ] (اسم، مرکب) نیلوفر کی ایک قسم ،جس کے پھول رنگین ہوتے ہیں اور تالاب میں اگتے ہیں
فرہنگِ آنند راج میں:
گلِ گلا ب[گُ لِ گُ] (ترکیبِ اضافی، اسمِ مرکب) مرادفِ گلِ احمر است(بحوالۂ دہخدا)
فرہنگِ آنند راج کے مطابق گلِ گلاب ،گلِ احمر (سرخ پھول، گلاب کا پھول) کے مترادف ہے
دہخدا مزید لکھتا ہے:
گلِ گلاب.گلِ سرخ، گلِ محمدی، گلِ سرخ کہ از آن گلاب گیرند، رجوع بہ گلِ سرخ و گلِ سوری و گلِ محمدی شود۔
ترجمہ:گلِ سرخ، گلِ محمدی(یہ سب گلاب کے پھول کے مختلف نام ہیں)سرخ پھول جس سے عرقِ گلاب حاصل ہوتا ہے۔ گلِ سرخ، گلِ سوری اور گلِ محمدی کے معانی دیکھیے۔
فارسی میں لفظ گلاب کی پھول کے معنوں میں اسناد اور مثالیں ملاحظہ کیجیے۔
ملا طغرا کا شعر ہے:
ز خوی جمال نبی چون گلِ گلاب شدہ ست
شقایق از حسدِ بختِ گل کباب شدہ ست
مولوی کا شعر ملاحظہ کیجیے:
ہمہ چون دانہ انگور و دلم چون چرش است
ہمہ چون برگِ گلاب و دل من ہمچو دکان
اقبال لاہوری کہتے ہیں:
حلہ ئی در بر سبکتر از سحاب
تارو پودش از رگِ برگِ گلاب
عرفی شیرازی فرماتے ہیں:
بسوز گریہ من، ای بہشت بر در وصل
کہ مشت شبنم و برگِ گلاب شاہ فشان
صائب کا شعربھی دیکھتے چلیے:
ہر کہ را در مغز پیچیدہ است بوی عقلِ خام
می شناسد اندکی قدرِ گلابِ عشق را
اردو میں لفظ گلاب کے مرکب استعمال کی اسناد بھی دیکھ لیتے ہیں :
بدن پہ کھائیں جنوں والے گل، خداوندا!
رُت آوے گرمی کی اور موسمِ گلاب پھرے
مصحفی
لاؤ ساقی، گلِ گلاب، شراب
دے مجھے اب کہیں شتاب شراب
میر
خطرۂ پسپائی اور گلابِ امید کے بارے میں ادھوری معلومات کی بنیاد پر ناقص رائے کوجس تحکم اور قاطعیت سے ٹھونسنے کی کوشش کی گئی ، اس پر بے اختیار حافظ شیرازی کا شعر زبان پر جاری ہو جاتا ہے:
شرحِ مجموعۂ گل مرغِ سحر داند و بس
کہ نہ ہر کو ورقی خواند و معانی دانست
اور لگے ہاتھوں خطرۂ پسپائی اور گلابِ امید جیسی تراکیب پر معترض ظفر اقبال کی آدھا تیتر آدھا بٹیر انداز کی تراکیب ملاحظہ فرمائیے کہ یہ فارسی عربی میں کہاں درست ہیں:
تفاوت صفحہ ۱۲۳۹
ع سست الوجود گھر میں پڑا بھی ہوا ہوں میں
ع اگر چہ ایک ہی سست الوجود تھا لیکن
غبار آلود سمتوں کا سراغ صفحہ ۱۱۹
ع جو ہے تو صرف زبانی ہے جمع و خرچ اس کا
’جمع و خرچ ‘خلافِ قاعدہ ترکیب ہے اور اس کے درست ہونے کی ایک ہی صورت ممکن ہے کہ اسے انشا خان انشا اور آرزو لکھنوی کی آرا کے زیر ِ سایہ اردو ترکیب مان لیا جائے ، البتہ ہماری رائے میں یہ ترکیب (جمع و خرچ)نادرست ہے اور اسے’ جمع و خرج ‘یا ’جمع خرچ ‘لکھنا چاہیے۔
ظفر اقبال کے ما قبل مذکور بے وزن مصرعوں میں سے اکثر کی کیفیت بیان ہو چکی غالباً دوبے وزن مصرعوں کا احوال بیان ہونا باقی ہے، جو درج ذیل ہے:
آبِ رواں صفحہ۱۰۹
ع جگر ؟بھی ایک شعلہ ہے برونِ در نہ سہی
ہماری ناقص رائے میں(جو ضروری نہیں ناقص ہو)اس مصرعے کی یہ صورت زیادہ بہتر تھی:
جگر بھی ایک شرر ہے برونِ در نہ سہی
اور اگر ظفر اقبال نے لفظِ شعلہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے (واضح رہے کہ ہم ظفر اقبال کو تمام گنجایشیں دیتے ہوئے بات کر رہے ہیں ورنہ تسکینِ اوسط بجائے خود تفصیل طلب مسئلہ ہے لیکن ہم نے اس مضمون کی حد تک خود کو پابند رکھا ہے کہ ظفر اقبال کے پیمانوں میں رہ کر بات کرنی ہے )تو بھی مصرعے کی موزون صورت درج ذیل ہے:
جگر بھی اک شعلہ ہے برونِ در نہ سہی
اور اب، آبِ رواں صفحہ۲۷کی غزل کے در ج ذیل مصرعے میں غلط باندھے گئے لفظ حبشی کے احوال کی نوبت آتی ہے:
ع شاید اک بار پھر گہرے بادل کی حبشی حسینہ ہنسے
واضح ہے کہ مذکورہ بالا مصرعے میں لفظ حَبْشِی ( بہ سکونِ دوم)باندھا گیا ہے جب کہ اس لفظ کو قواعد کی رُو سے حَبَشی(بہ فتحۂ دوم) ہونا چاہیے کیونکہ یہ لفظ حبش یا حبشہ کااسمِ منسوب ہے اور اس کا شعری استعمال میرزا دبیر کے یہاں ملاحظہ فرمایئے:
ہند و حبش و روم و عرب کانپ رہے ہیں
چین و ختن و مصر و حلب کانپ رہے ہیں
اور اب خود لفظ حبشی بالترتیب میر و اقبال کے اشعار میں اپنا عروضی تعارف کرا رہا ہے:
حبشی، ہندی، صفاہانی، بخارائی تمام
ہیں ترے دست نگرلیجیے کس کس کا نام
میر
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثلِ بلالِ حبشی رکھتے ہیں
اقبال
اب ہی، بھی، تو،پر،پہ،سہی اور میں وغیرہ کے غیر ضروری یا بے جا اور بلا دریغ استعمال والے، ہمارے ماقبل مذکور دعوے کے ذیل میں چندمصرعوں کابہ طور شاہدِ مثال ذکر ناگزیر ہے کیونکہ بے دلیل دعووں کا اظہارغیر علمی رویّہ ہے جس سے گریز لازم ہے:
آبِ رواں صفحہ۳۵
ع موت کی تونہ سہی زیست کی پروا تو کرو
آبِ رواں صفحہ ۴۴
ع مجھے اٹھا نہ سہی آ کے دیکھ جا تو سہی
غبار آلود سمتوں کا سراغ صفحہ۱۸
کہاں کا پھول تھا لیکن کہاں پر آکھلا ہے
گلافتاب صفحہ ۱۲۲
ع یہیں پہ رک کر اندھیری آنکھیں اتار کر جیب میں اڑس لو
گلافتاب صفحہ۱۵۵
ع مجھے یہ تھا کہ ابھی ساتھ چل رہا ہی تو ہے
ع جہاں سے برگِ تماشا گزر گیا ہی تو ہے
ع نمِ نگاہ نے اس کو مٹا دیا ہی تو ہے
گلافتاب صفحہ ۱۵۸
بتی جلا کے دیکھ لے سب کچھ یہیں پہ ہے
بنیان میرے نیچے ہے شلوار اس طرف
وہم و گماں صفحہ۸۵۲
جھونکا سا یہاں پر تو رواں رکھتے ہیں اپنا
وہم و گماں صفحہ ۸۶۳
ع کچھ درمیان میں ہی نظر ڈالیے کہیں
وہم و گماں صفحہ ۸۸۱
ع تو کسی جگہ تو رک بھی سہی اے یار بدل
تفاوت صفحہ ۱۱۲۵
ع وہ اک شعلہ سا درمیان میں گم
تفاوت صفحہ ۱۱۳۳
ع دیوار درمیاں میں اٹھانی پڑی مجھے
تفاوت صفحہ۱۱۳۴
ع میں خود موجود رہنا چاہتاہوں درمیاں میں
تفاوت صفحہ ۱۲۰۸
وہاں پہ تھا تو کسی اور سبزہ زار میں تھا
یہاں پہ ہوں تو کسی اور سبزہ زار میں ہوں
تفاوت صفحہ ۱۲۳۹
ع کچھ دن یہاں پہ نغمہ سرا بھی ہواہوں میں
ع ایسی یہاں پہ آب وہوا بھی ہوا ہوں میں
تحریرکی طوالت کے پیشِ نظر العاقل تکفیہ الاشارہ پر عمل کرتے ہوئے ہم صرف لفظ ’’درمیان ‘‘ہی کا اجمالی ذکر کریں گے:
اس فارسی لفظ کے دو حصے ہیں’ در‘ اور’ میان ‘اور دونوں کا مطلب’ میں‘(یعنی ظرفیت) وغیرہ ہے اور انھی معنوں میں دونوں کو ملا کر بھی بولتے ہیں شاید مقصود تاکید ہو لیکن لفظ ’’درمیان‘‘ کے ساتھ ’’میں‘‘ تو بالکل ہی ’ماہِِ مبارکِ شہرِ رمضان کے مہینے‘ یا’ شبِ لیلۃ القدر کی با برکت رات ‘والی بات ہے،اور ہم اس ضمن میں وزیرؔ کے اس شعرکہ زُلف سے ہم الجھتے اے رُخِ یار،کیا کریں درمیان میں تُو ہے ، کو قابلِ استناد نہیں سمجھتے اور ہم تو لفظ دوران کے ساتھ بھی ’میں‘کے استعمال کے زیادہ حق میں نہیں ہیں۔ ذیل میں’در‘ ، ’میان‘ اور ’درمیان‘ کا فارسی اور اردو شعرا کے ہاں استعمال ملاحظہ فرمائیے:
ہر گہ کہ دل بہ عشق دہی خوش دمی بود
در کارِ خیر حاجتِ ہیچ استخارہ نیست
حافظ
درمیانِ عشق و دل مشاطہ ای در کار نیست
جای خود وا می کند در دیدۂ روزن چراغ
صائب
میانِ عالم و جاہل تفاوت این قدر ہست
کہ این کشیدہ عنان باشد آن گسستہ مہار
ظہیر فاریابی
میانِ دوکس آتش افروختن
نہ عقل است و خود درمیان سوختن
سعدی
میانِ عاشق و معشوق فرق بسیار است
چو یار ناز نماید شما نیاز کنید
حافظ
نگاہِ بی ادب زد رخنہ ہا در چرخِ مینائی
دگر عالم بِنا کن گر حجابی در میان خواہی
اقبال لاہوری
ہوتی نہیں ہے دل کی تسلی کسی طرح
جب تک میں درمیان کا پردہ اٹھا نہ دوں
مصحفی
دل جگر جل کر ہوئے ہیں دونوں ایک
درمیان آیا ہے جب سے پائے داغ
میر
بے تابیوں میں تنگ ہم آئے ہیں جان سے
وقتِ شکیب خوش کہ گیا درمیان سے
میر
دل بھی بچا جگر بھی بچا ، خیر ہو گئی
تیرِ نگاہ پار ہُوا درمیان سے
داغ
ہم کھڑے تم سے بات کرتے تھے
غیر کیوں درمیان سے نکلا
داغ
اب ہم اختتامی سطور کی طرف بڑھتے ہوئے ظفر اقبال کی شعری اغلاط اور اسقام کا باب بند کرتے ہیں اورظفر اقبال کی فکری کم مایگی و معنوی سطحیت،اکثر و بیشتر شعریت اور تغزل کے فقدان اوران کے قابلِ تشویش ادبی تکفیری رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اساتذہ کے اشعار سے رہنمائی لینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنی اپنی جگہ سبھی اپنے رویوں پر غورو فکر کا در وا کر سکیں اور یوں ادبی تکفیریت کا سدباب ممکن ہو سکے۔
مسلم اقوام بالعموم اور اردو معاشرہ بالخصوص ،ترقی پذیر نہیں بلکہ زوال آمادہ معاشروں کی صف میں شمار ہوتے ہیں، کیونکہ ہم بہ حیثیتِ مجموعی علم و دانش سے منہ موڑ کر جہالت کو گلے لگا چکے ہیں جس کی بنا پرہم غلط اور صحیح کے من گھڑت معیارات قائم کرتے ہوئے اعلیٰ اقدار جیسے صلحِ کل، وسیع المشربی،انسان دوستی، تعمیراور محبت وغیرہ سے رُو گردانی کرتے ہوئے ادنیٰ اقدارجیسے تنگ نظری و انتہا پسندی،تکفیر و تبعیض، ڈیڑھ اینٹ کی جدا مسجد، تخریب اور نفرت وغیرہ کا شکار ہو چکے ہیں اور واضح ہے کہ جب قومیں اور معاشرے ترقی اور ترفع کے راستے پر گام زن ہوں تو تمام شعبوں میں بہتری اور خوشحالی کے ثمرات سے بہرہ مند ہوتے ہیں، اور جب وہ تنزل اور انحطاط کی دلدل میں دھنسنا شروع ہو جائیں تو انہیں زندگی کے تمام شعبوں میں ابتری اور بد حالی بھگتناپڑتی ہے بعینہ ہمارا ادب بھی اسی طرح کی صورتِ حال سے دوچار ہے، اور ادب دوستی کے بجائے مفاد پرستانہ ادیب دوستی اورحاسدانہ ادیب دشمنی کی روایت جڑیں پکڑتی جا رہی ہے ۔ چونکہ مفاد پرستانہ ادیب دوستیاں اور گروہ بندیاں اخلاص پر استوار نہیں ہوتیں ،لہذا تحسین باہمی اور خوشامد پر مبنی کھوکھلی ملاقاتیں ایسے شعر کہلوا کے رہتی ہیں:
گھر والی کے واسطے بچی نہ پیالی چائے کی
کُتّے بِلّے آن کر کھا گئے کیک مٹھائیاں
اور شاعر وہی شاعروں میں اچھا ، کھا جائے جو شاعری کو کچاجیسا رویّہ شاعری کویہ کہتے ہوئے کہ ختم ہوا پٹرول تو آخر رکی شعر کی گاڑی، ٹینکی میں یہ ایک قافیہ باقی تھا البتہ، ہڑپ کرنا چاہے تو شعری بدہضمی کے نتیجے میں دوغزلے اور سہ غزلے تو برآمد ہو ں گے اوریوں جذبے سے عاری تجربہ قارئین کا منہ چڑا رہا ہو گا۔ہماری ناقص رائے میں جذبات اورشعریت کی حامل جدت اور تجربہ خود بخود رائج ہو جاتا ہے لیکن جذبات اورشعریت سے عاری ٹامک ٹوئیاں کبھی رواج نہیں پکڑتیں۔
اب ڈیڑھ اینٹ کی جدا مسجد بنانے کے مرتکب ظفر اقبال بطور اقبالی بیان، آب رواں کے پس ورق پر لکھتے ہیں :
’’یہ جو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں نے اپنے لیے الگ بنائی ہے تو اس لیے کہ بعض وقت اپنا سر پھوڑنے کے لیے دور و نزدیک پتھر تک نہیں ملتا۔‘‘
اگر یہ ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بقول میر تقی میر (اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جدا مسجد،
کسی ویرانے میں بنائیے گا )کسی ویرانے میں بنائی گئی ہوتی اور اپنا سر پھوڑنے ہی کے کام آتی تو کوئی مضایقہ نہیں تھا، لیکن اخباری کالم اور ادبی و سیاسی تعلقات کے زور پر بیچ چوک بنائی گئی ڈیڑھ اینٹ کی جدا مسجدظفر اقبال کے اعترافی شعر کی روشنی میں دیکھ لیجیے کہ کس کام آرہی ہے:
لگاتا پھر رہا ہوں عاشقوں پر کفر کے فتوے
ظفر ؔ واعظ ہوں میں اور خدمتِ اسلام کرتا ہوں
عرفی نے ایسی مفتیانہ فکر کے حامل شخص کو درج ذیل اشعارمیں صائب مشورے سے نوازا ہے:
عارف ہم از اسلام خراب است وہم از کفر
پروانہ چراغ ِ حرم و دیر نداند
شعار ملت اسلامیان بگذار اگر خواہی
کہ در دیرِ مغان آئی و اسرار ازل بینی
مسجد مندر سے بڑھ کر انسان کی تعظیم سکھاتی ہند عجمی روایت تو حافظ کے درج ذیل شعر کو سینے سے لگائے ہوئے ہے:
ہمہ کس طالبِ یار اند، چہ ہشیار چہ مست
ہمہ جا خانہء عشق است چہ مسجد چہ کنشت
ہماری رائے میں مقدس شخصیات پر بھی مدلل تنقید محقق کا علمی حق ہے چہ جائیکہ ادبی شخصیات، لیکن تنقید کی آڑ میں فتویٰ بازی کے ذریعے ادبی مراقد کو نیست و نابود، اور مدفون ہستیوں کی علامتی نبشِ قبر کے ذریعے بے حرمتی کرنے کی خواہش اور کوشش، ادبی خلافت کی حریص ادبی تکفیریت کی فتنہ انگیزاور مذموم کارستانی ہی شمارہو گی،علمی و ادبی تنقید نہیں۔ ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ وقت خود علمی و ادبی قد و قامت ناپ لیتا ہے اورکسی زندہ خوش قامت انسان کوگڑے مردے اکھاڑ کر ان کے ساتھ اپنا قد ماپنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
مثبت انداز میں شاعر کی شاعری پیش کیے بغیر محض اس کے عیوب گنوانا تنقید نہیں تنقیص کے زمرے میں شمار ہوتا ہے جس کا مرحوم بیدل حیدری پر ظفر اقبال کے لکھے دو کالموں میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ،لہذاآخر میں، کسی خصوصی انتخاب کے بغیر، موازنے کے بجاے شعری ذائقے کے لیے مرحوم بیدل حیدری اور ظفر اقبال کی کچھ غزلیں پیشِ خدمت ہیں:
بیدل حیدری کی کتاب کی پہلی غزل:
دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا
وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن
جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا
فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی
عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا
گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا
بیدلؔ لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
ردیف میں ذرا سی تبدیلی کے ساتھ ظفر اقبال کے ہاں بھی اسی زمین میں غزل موجود ہے:
سیدھا تھا مسئلہ مگر الٹا سمجھ لیا
غیروں کا غیر تھا جسے اپنا سمجھ لیا
اب کے ممانعت بھی اجازت لگی مجھے
دیوار تھی کہ جس کو دریچہ سمجھ لیا
اس کی بھی الجھنیں ہیں، مسائل ہیں اس کے بھی
جلتی تھی آگ میں نے تماشا سمجھ لیا
اپنی برائیوں کی خبر تھی مجھے، مگر
اس نے کہا تو میں نے بھی اچھا سمجھ لیا
میں ہی سمجھ سکا نہ اس آئینہ رو کا بھید
ورنہ اسے تو جس نے بھی دیکھا، سمجھ لیا
کہتا ہے سچ بتائیں،محبت ہے یا مذاق
اس نے مجھے بھی اپنے ہی جیسا سمجھ لیا
نا ممکنات میں سے ہے وصل اس کا ،اے ظفرؔ !
حیران ہوں کہ آپ نے بھی کیا سمجھ لیا
ظفر اقبال کی درج بالا غزل سے اگلی غزل بھی ملاحظہ فرمائیے:
نظر کو چھوڑیے، صرفِ نظر ہی ممکن ہے
قیام کر نہیں سکتے، سفر ہی ممکن ہے
اثر تو خیر بڑی بات ہے، کہ اس بت پر
بہت کرو تو گمانِ اثر ہی ممکن ہے
ہم ایک بار جو قائل نہ کر سکے اس کو
تو اس لیے کہ یہ بارِ دگر ہی ممکن ہے
نہ اور اونچی صدا میں پکارنا اس کو
کہ آج کل تو فقط اس قدر ہی ممکن ہے
جسے سمجھتے رہے ایک عمر نا ممکن
پتا چلا ہے کہ وہ سر بسر ہی ممکن ہے
بتا بھی سکتا ہوں کب تک بھلا سکوں گا اسے
مگر یہ بات اسے دیکھ کر ہی ممکن ہے
وہ مہرباں ہے تو مل لو جہاں بھی ہو ممکن
کہ اب کے گھر تو نہیں، رہگزر ہی ممکن ہے
فضول طولِ ملاقات پر نہ کر اصرار
کہ چل چلاؤ ہے اور مختصر ہی ممکن ہے
ہنر وری تو بہت دور کی ہے بات ظفرؔ
ابھی تو کوششِ خوابِ ہنر ہی ممکن ہے
مرحوم بیدل حیدری کی دو غزلیں :
پانچ بچے ہیں ایک ٹافی ہے
اب مساوات اختلافی ہے
دل کا بارِ دگر لہو ہونا
پہلے نقصان کی تلافی ہے
جبر کے فیصلے کی فائل میں
صبر کا نوٹ اختلافی ہے
اپنا منصب صداقتیں لکھنا
کارِ نقاد موشگافی ہے
اس کو اپنا حریف ٹھہراؤں
یہ مری شان کے منافی ہے
جس خطا میں خلوص ہو بیدلؔ
وہ خطا قابلِ معافی ہے
نامکمل کو مکمل نہ بنا
اے مرے فن!مجھے پاگل نہ بنا
چُنریاں خاک بنائے گی یہ رات
جس سے اک چاند کا آنچل نہ بنا
تجھ پہ برسوں گا میں سب سے پہلے
اے سمندر! مجھے بادل نہ بنا
اے زمانے! میں ترا سونا ہوں
اے زمانے!مجھے پیتل نہ بنا
دل کو خواہش کے درندوں پہ نہ چھوڑ
بیدلؔ اس شہر کو جنگل نہ بنا
Shandaar sir