داستان سیر بلتستان (تیسری قسط)
از، علی اکبر ناطق
کچورا کی طرف روانگی
کل ہم نے وعدہ کیا تھا کہ صبح آپ کو کچورا کی سیر کا حال سنائیں گے ،آپ بے شک اُسے قلم بند کر لیجیے، پھر خیال آیا ،آپ کہاں لکھتے پھریں گے چلیے ہم خود ہی اچھا بُرا قلم گھسیٹ دیتے ہیں ۔تو میاں ہوا یہ کہ ہم نے اور ہمارے جاننے والے لڑکے بالوں نے رات طے کیا کہ کچورا بجائے گاڑی میں جانے کے ، موٹر سائیکلوں پر جایا جائے کہ اِس میں مزا زیادہ آتا ہے اور اور رستا بھی کچھ ایسا ہے کہ یہی مناسب رہے گی ۔ کچورا کے رستے میں ہمارے ایک ہونہار شاگرد امتیاز کا گھر پڑتا ہے اُس نے کہا ،لنچ میرے گھر میں ہو گا ۔ لیجیے اب ہم کچورا کی طرف نکل لیے ، اگرآپ مجھے رعایت دیتے ہوئے لڑکوں میں مان لیں تو ہم سات لڑکے کُل تھے جن میں ہم خود ،دلاور عباس ، سدیف جعفر ، یاسر علی عرف صلًو ،سلیم، ذی جاہ وزیراورمیثیم اورحسنین تھےاور چار ہنڈا 125سی سی موٹر سائیکلیں تھیں ۔ یہاں سکردو میں یہی موٹر سائکل ہر گھر میں ہوتی ہے اور دوسری کسی نسل کی موٹر سائکل میں نے نہیں دیکھی اور سائیکل تو بالکل ہی نہیں دیکھی ، پہاڑوں پر در اصل یہی کام دیتی ہے ۔ ایک بات ،جو رہے جاتی ہے ،بتاتا چلوں کہ اس علاقے میں ہر گھر میں اپنی سواری موجود ہے ،اور وہ بھی زیادہ تر بھاری گاڑی ، یعنی 5 ڈور لینڈ کروزرز، ڈبل کیبن ڈالے ، بڑی ٹویٹا وغیرہ تو عام لوگوں کے پاس عام ہیں ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ سب گاڑیاں کسٹم ڈیوٹی سے پاک ہیں اور نہایت سستی ہیں اور اِن کو چلانے کے لیے گلگت بلتستان کی قانونی انتظامیہ نے الگ سے نیلے رنگ کی نمبر پلیٹ جاری کر دی ہے ۔ یہ گاڑیاں یہاں پٹھان بھائی لوگ سمگل کر کے دیتے ہیں ،جیسا کہ اُن کا کام ہے۔ خرابی اِن گاڑیوں میں یہ ہے کہ گلگت بلتستان سے باہر نہیں لے جا سکتے مگر یہی علاقہ اتنا ہے کہ چلا چلا کے تھک جاتے ہیں ،باہر جانے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ ایک اور نیک بات یہ ہے کہ کسی طرح کی چوری نہیں ، بغیر لاک کے یہ سب اجناس ِ سیرو سفر کھڑی رہتی ہیں اور کوئی اُٹھانے والا نہیں ، اِن اشیا کی چوری تو ایک طرف لوگوں کے گھروں کے دروازے کھلے ہیں اور گھر میں کوئی نہیں، جو چیز جہاں پڑی ہے وہیں رہے گی کوئی اُٹھا کر نہیں لے جاتا ۔ رہا کھٹکا نہ چوری کا ، سبب اُس کا ایک سمجھ میں آیا ہے کہ یہ سب کمینگیاں جو ہمارے ہاں کے پنجاب ، خیبر پختونخواہ ،یا سندھ اور بلوچستان کے گھر گھر میں موجود ہیں اور اسلام آباد اور پنڈی میں حد سے زیادہ ہیں ، یہاں بلتستان میں کیوں نہیں ہیں ؟ دراصل یہ سب لوگ شیعہ ہونے کے ساتھ کٹڑ قسم کے مقلد بھی ہیں ۔ بچے سے لے کر بوڑھے تک سب اپنے اپنے مجتہد کے مقلد ہیں ، مَیں ذیشان مہدی اور عارف سہاب (یہ دونوں یہاں کے بہت عمدہ شاعر ہیں ) کے ساتھ سکردو شہر سے دور ایک چھوٹے سے گاوں میں پھر رہا تھا، جو سکردو سے کوئی دو ہزار فٹ بلند ہے اور جہاں سے شہر میں آنا اور پھر واپس جانا گویا چاند پر آنے جانے جیسے فاصلے کی مثل ہے ، یہاں بھی یہی بات چل نکلی کہ سکردو اور مضافات کے لوگ ایک دوسرے کی عزت اور مال کا کیوں پاس رکھتے ہیں ؟ جبکہ یہ اخلاقی کسمپرسی ہی پاکستان کی پہچان ہے۔ ذیشان نے بتایا ، یہ اس لیے ہے کہ یہاں کے سب لوگ مجتہد ین کی تقلید کرتے ہیں ۔ مَیں اس بات کو مذاق سمجھا۔ وہاں ایک چرواہا کچھ بھیڑیں لے کر پھر رہا تھا ، مَیں نے از راہِ تمسخر پوچھا ،یہ چرواہا بھی مقلد ہے ؟ عارف سہاب نے کہا ابھی پوچھ لیتے ہیں ، اور اُس نے اُس بوڑھے چرواہے سے کہا، بابا جی، کس کی تقلید کرتے ؟ اُس نے فوراً کہا ،پہلے علامہ سیستانی کی کرتا تھا ،جب سے وہ فوت ہوئے ہیں تو خامنائی کی تقلید کرتا ہوں ۔ یہ سُن کر میرا سر شرم سے جھُک گیا ،یعنی اپنا سا منہ لے کے رہ گیا ۔ اب آپ ہی بتایئے ،جہاں ہمارے ہاں کسی پڑھے لکھے اور علامہ فہامہ کو بھی تقلید کا پتا تک نہیں کہ یہ کس دیوی کا نام ہے اور یہاں بلتستان کے چرواہے بھی تقلید اور اجتہاد اور مجتہد کی خبر رکھتے ہوں تو دونوں میں اخلاقیات کا کچھ تو فرق ہو گا ۔ مَیں نے ایک بات اور دیکھی کہ کوئی شخص اپنی حد سے آگے نہیں بڑھتا ۔اس لیے جھگڑے بھی نہیں ہوتے ۔ 1988 میں ایک قتل ہوا تھا ،وہ بھی ایک پٹھا ن کی کارستانی تھی ۔ اس کے بعد پورے سکردو ڈویژن میں ایسی کوئی بات نہ ہوئی ۔ قریباً 95 فی صد لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور روزہ تو 100 فی صد لوگ رکھتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ایک اور خوبی جو میرے جی کو بہت بھائی وہ یہ کہ عورتوں کو مکمل آزادی ہے ۔ اُنھیں نہ تو بُرقعے میں باندھ کر رکھا جاتا ہے اور نہ گھر کی کھونٹی سے لٹکایا جاتا ہے ، وہ بغیر برقعے کے مردوں کی طرح بازاروں میں اور کھیتیوں میں اپنا اپنا کام کرتی نظر آتی ہیں ۔ خوبانیاں توڑ توڑ کر سکھا رہی ہیں ، سکول کالج جا رہی ہیں ، نہروں اور نالوں میں کپڑے دھو رہی ہیں ،نہا رہی ہیں ، گندم کاٹ رہی ہیں ، گاڑیاں چلا رہی ہیں ، یعنی شاید ہی کوئی کام ہو گا جو مرد کرتے ہوں اور یہ نہ کرتی ہوں ۔ برقع تو میں نے یہاں دیکھا ہی نہیں ۔ غربت عمارت کی اُونچ نیچ بھی وہ نہیں ہے، جو ہمارے مہذب صوبوں میں نظر آتی ہے ۔ سب کے چھوٹے چھوٹے اور ایک ہی جیسے مکان ہیں ، ایک ہی جیسی بیٹھکیں ہیں اور ایک ہی جیسے کھانے ہیں ۔ البتہ سرکاری افسروں کی کافی ٹُھک ٹَھک ہے ،یعنی یہ پروٹو کول والی چھوت کی بیماری یہاں بھی ہے۔ بر سرِ مطلب ، ہم سبھی آگے پیچھے دوڑے جاتے تھے ۔ یہ علاقہ گمبا سے آگے ،ائیرپورٹ سے بھی آگے ،فوجی چھاونی سے بھی بہت آگے کچورا گاوں کا ہے ۔اِس کا راستا دریا کے کنارے کنارے بچھا ہے اور دریا کے پاٹ سے اتنا بلند ہے جتنا ہمارے سر سے آسمان بلند ہے، ہم اس راستے کی تنگ اور موڑیں کھاتی سڑک پرچلے جاتے تھے، کوئی آگے کوئی پیچھے ،کوئی پیچھے کوئی آگے۔
یہاں سے اگر آنکھیں دریا کے پاٹ کی طرف پھرتیں تو سر گھوم سا جاتا ۔ فوجی چھاونی سے آگے سڑک پر دو رویہ سہانجنے کے درختوں کے درمیان ہمارا قافلہ گرد اُڑاتا ،جو کہ اس رستے پر بہت تھی ، جیسے ہی ہم کچورا کی حدود میں داخل ہوا تو اچانک عجیب سرمست وادیوں نے ٹھنڈی ہواوں کے پنکھوں سے استقبال کیا ، یہ اُوپر نیچے کی پھلداردرختوں،چشموں ،آبشاوں اور نیلئی پھولوں اور سبز گھاس سے بھری بھری وادیاں سکردو کے حسن کا ایک اور شہکار ہیں ۔ جگہ جگہ نہایت حسین اور چھوٹے بچے خوبانیوں کے بھرے ہوئے شاپر لے کر کھڑے اُن کو بیچنے کی کوشش میں تھے جن کو شاید ہی کوئی خریدتا ہو کہ یہاں مفت خانے والا کوئی نہیں ملتا ،مگر وہ لڑکے اور بچے اور بچیاں ٹھنڈی اور چھاوں سے گِھری ہوئی سڑکوں پر یہ پھل بیچ رہے تھے ۔یعنی دو دو کلو کا بھرا ہوا شاپر صرف پچاس روپے میں ۔میرا جی چاہا کہ ایک شاپر خرید لوں ،اتنے میں میرا موٹر سائیکل کافی آگے نکل چکا تھا ۔ در اصل بچوں کا یہ خوبانیاں بیچنا معاشی ذریعہ نہیں بلکہ اپنا جیب خرچ بنانا مقصود ہوتا ہے ۔ خوبانیاں تو یہ لوگ خشک کر کے بیچتے ہیں ار اُن کے بیجوں سے تیل نکال کر بیچتے ہیں جو کہ بہت نایاب اور مفید ہوتا ہے ۔ اسی لیے یہاں گھروں کی چھتوں پر خشک خوبانیوں کے ڈھیر لگے دیکھے جا سکتے ہیں ، بقول یہاں کے لوگوں کے ،خوبانیوں کی کوئی چالیس اقسام ہیں، جیسا کہ ہمارے ہاں آموں کی کئی اقسام ہیں ، اِن میں سب سے میٹھی خوبانی حلمان ہے، جو سُرخی مائل زرد رنگ کی ہوتی ہے اور نہایت خوش ذائقہ ہوتی ہے۔
میں نے بہت کھائی ہیں ۔ چیری بھی دو طرح کی ہے ایک یاقوت کی طرح سُرخ اور دوسری جامن کی طرح سیاہ ۔ دونوں عمدہ اور لذیزی ہیں ۔ خیرآگے بڑھتے ہیں، اس راستے پر پہلے شنگریلا آتا ہے ۔ شنگریلا کی یہ جھیل دنیا میں بہت مشہور ہے اور اس کا دیکھنا لوگوں پر واجب ضرور ہے مگر اِس کے اُوپر ایک اور جھیل ہے جو ایک ندی کو پار کر کے آتی ہے اور یہ ندی نہایت حسین ،پُر شور اور ڈرانے والی ہے ۔ اس کو پار کرنے کے لیے لکڑی کا پُل ہے ۔یہاں ہم نے بہت سی تصویریں بنائیں ۔ کچورا جھیل سے پہلے کھیت کھلیان ہیں اور روح پرور ہوائیں ہیں، جن کے بیچ شہتوت ،خوبانی اور دیگر لال ،سُرخ نیلے، پیلے اور جامنی پھلوں کی خوشبوئیں گُھلی ہیں ، اُن کا دیکھنا اور اُن کے درمیان ٹھنڈے پانی کے ندی نالوں میں خرام کرنا انسان کے لیے عین عبادت ہے فرضِ ہے ،اور یہ عبادت افضل ہے سب عبادتوں سے ۔ دلاور ہمیں اِس جھیل پر پہنچنے کے راستے سے کاٹ کر کچھ دیر کے لیے ایک اور جگہ لے گیا، یہ تین ندیوں کے درمیان ایک جگہ تھی ،بس یوں کہیں کہ خدا کا آسن تھا، جہاں بیٹھا وہ کائنات کا نظام چلا رہا ہے ۔ یہاں چیری، آلوچے، خوبانی ،اخروٹ ، ناشپاتی، شہتوت اور بادام کے کثیر اور سیاہی مائل سبز اور گھنے باغوں کے علاوہ آلوکے کھیت ہیں ، گندم کے کھیت ہیں، سبزیوں کے کھیت ہیں۔ ہم سب لڑکوں (اپنے آپ کو لڑکا کہنے کی میں نے اجازت لے رکھی ہے) نے اپنی موٹر سائکلیں یہیں بغیر تالوں یا لاکوں کے، کھڑی کر دیں اور باغوں اور کھیتیوں میں درانہ گُھس گئے ۔ پھول توڑتے تھے ، شہتوت کھاتے تھے اور آگے ہی آگے چلتے جاتے تھے۔ جگہ جگہ ٹھنڈی اور پگھلی ہوئی چاندی کی ندیاں تھیں، جن کو بیچ میں ہی گزر کر پار کر جاتے تھے، اِن کا پانی ان سب باغ و بہار کو دن رات سیراب کرنے پر مامور تھا اور حکم کی ذرا نا فرمانی نہیں کرتا تھا ۔ کچھ دیر یہاں گھومنے کے بعد اور جھومنے کے بعد ہمارا رُخ پھر کچورا جھیل کی طرف ہو گیا۔ اب ہوا یہ کہ شنگریلا جھیل ہمارے نیچے تھی، کچورا جھیل اُوپر تھی اور ہم اِن اُوپر نیچے کی جھیلوں کے درمیان کچورا گاوں میں سے سُرخ فربہ اندام بھیڑوں کی طرح پھل چرتے ہوئے اور گھاس روندتے ہوئے گزر رہے تھے۔
یہاں ایک باغ ایسا آیا جسے دیکھ کر ہمارا منہ بہت بھر آیا ۔ اللہ جانتا ہے ،اس میں کھڑے خوبانیوں کے پیڑوں پر سیب کے حجم کے برابر اور شہد کی حلاوت کے مثل خوبانیاں لگی تھیں ۔ میاں ہم تو وہیں اُس باغ ممیں پِسر گئے اور دوستوں سے کہا ،تم جھیل پر جاو ، جو کچھ دیکھو ہم کو خبر کر دو ،ہم تو یہیں مر رہیں گے ۔ مگر لونڈے میری بات ماننے والے نہ تھے ، ڈنڈا ڈولی کر کے ساتھ لیے گئے ،البتہ یہاں سے بہت سا پھل توڑ کر ہماری جھولی میں بھر دیا، کہ لو کھاتے جاو۔ یہاں کچھ گھر ایسے نظر میں آئے کہ جنت میں اُن جیسے گھر نہیں ہوں گے، باغؤں کے درمیان ، بہتے ہوئے شفاف ندی نالوں کے درمیان،کھیتوں کے درمیان ،میٹھے پانی کے تالابوں کے درمیان، جن کے بیچ بطخیں تیر رہی تھیں، اور مُرغیاں اُن گھروں کے سامنےکیڑے مکوڑے چُن رہی تھیں ۔ ہمیں یہاں بھی نہیں رُکنا تھا آگے ہی آگے چلنا تھا اور آخر اُس جگہ جا پڑے جہاں کچورا جھیل کا ٹھکانا ہے اور بڑا پُرانا ہے ۔ لیکن اِس کے کنارے پہنچنے کے لیے کوئی پانچ سو فٹ نیچے اُترنے پڑتا ہے، یہ سبز رنگ کی جھیل چاروں طرف سے بلند قامت سبز پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے اور اِس کا پانی اِنھی پہاڑوں کی برف کا مرہونِ منت ہے ، پانی نہایت صاف ہے ،اگر بادلوں کے سائے ہوں تو یہ جھیل سبز نظر آتی ہے ، آسمان صاف ہو تو نیلی پڑ جاتی ہے ،شام کے سایوں میں سُرمئی ہو جاتی ہے، بہت بڑی ہے ۔ اس کے کنارے کنارے کشتیاں کھڑی ہیں جنھیں سیاح لوگ کرائے پر لیتے ہیں ۔ ہم نے کشتی پر جانے سے گریز کیا ۔پتا نہیں کیوں اُس وقت جی نہیں چاہا ۔ شاید جھیل سے ڈر گئے ہوں ۔ وہاں کچھ لوگ جال لیے مچھلیوں کی تاک میں بھی تھے جو شاید ہی اُن کے ہاتھ آتی ہوں ،مجھے تو وہاں کوئی مچھلی نظر نہ آئی ۔ پاس ہی ایک چھوٹا سا ہوٹل بھی تھا ،وہاں بھی مچھلی کے کوئی نشان نہیں تھے ۔ ہم اپنے ساتھ چپس اور بوتلیں وغیرہ لے گئے تھے کنارے پر بیٹھ کے کھاتے رہے ۔ یہاں بھی پنجاب سے کافی لوگ سیر کو آئے ہوئے تھے ۔ سب کو آنا چاہیئے ، جو گھر میں بیٹھے انڈے دیتے رہتے ہیں اُن کو بھی آنا چاہیئے اور دیکھنا چاہیئے ہمارا دیس کتنا نازک اندام اور خوبصورت اور سرسبز ہے ۔ ۔شام پانچ بجے تک یہیں ہمارا ٹھکانا رہا ۔ اور واپس نہ آنے کو جی چاہتا تھا مگر دلاور مسلسل یاد دلا رہا تھا کہ امتیاز ہمرے لیے کھانا پکا کر بیٹھا ہے اور ہمارے جی کو کوس رہا ہے کہ آ کے جلد کھا لو ۔ مجبوری کے واسطے لوٹے ، موٹر سائکلیں تیز دوڑائیں ، مگر جگہ جگہ پھر رُکے ضرور۔ ساڑھے پانچ امتیاز کے گھر پہنچے ۔ اب بھوک بھی آپے سے باہر تھی ، کھانے میں وہ سب کچھ ہی تھا ،جو ہمارے پیٹو لوگ (مثل شریفین ) کھانا پسند کرتے ہیں ۔ کھانے کے بعد قہوہ پیا ۔ گپیں ہانکیں ، اور اگلے دن کے لیے دیوسائی کا پروگرام بن گیا ۔