(قاسم یعقوب)
دفاع کیا ہوتا ہے؟ اور دفاع کو پرورش کرنے والے تصورات کن محرکات کے نتیجے میں پیداہوتے ہیں؟
یہ دنوں مختلف سوالات ہیں۔دفاع اور دفاع کے ساتھ تصورات دو الگ الگ حیثیت سے ایک معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں۔ بعض اوقات دفاع کی ضرورت ہی نہیں ہوتی البتہ اُس کے ساتھ وابستہ تصورات مسلسل بڑھتے رہتے ہیں۔
دفاع کے لغوی معنی ہیں حفاظت، کسی دشمن، کسی حملے یا خطرے کے خلاف مزاحمت۔دفاع کا عمل اسی سے ملتے جلتے عمل ’’جارحیت‘‘ سے مختلف ہے۔ ایک فریق جنگی عمل میں پہل کرے تو اُس کا کردار جارحانہ قرار پاتا ہے جب کہ دوسرا فریق جس کے خلاف یہ جارحیت کی گئی ہے وہ ’’دفاع‘‘ کے درجے پر چلا جاتاہے۔ مگر دونوں ہی حالتِ جنگ میں ہوتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کا اجازت نامہ بھی رکھتے ہیں۔البتہ ایک فریق جب ’’دفاعی‘‘ درجے پر جاتا ہے تو اس کو ایک اخلاقی برتری حاصل ہوتی ہے کہ یہ تباہی جو جنگ کے نام سے وہ مچا ئی جا رہی ہے،اُس کا ذمہ دار وہ نہیں بلکہ مخالف فریق ہے جس نے جنگ میں پہل کی تھی۔
عدالتوں میں بھی دفاع کا لفظ بہت استعمال ہوتا ہے۔عدالت میں دفاعی فریق اُس فریق کوکہتے ہیں جو اپنے اوپر چارجز (الزامات) کو دلائل کے ساتھ رد کرتا ہے۔یہاں جنگ والی صورتِ حال نہیں ہوتی جنگ کے میدان میں جو دفاع کرتا ہے ،اُسے اخلاقی برتری حاصل ہوتی ہے ۔ دفاع کرنے والا دفاع کر سکے یا نہ کرسکے مگر اُسے ایک قسم کی اخلاقی برتری رہتی ہے کہ وہ جنگی قوانین کے مطابق دفاع پر ہے۔جنگ کے جائز ہونے کے لائسنس کا حصول اب جارحیت پھیلانے والے کو پیش کرنے ہیں دفاع کرنے والے کی یہ ذمہ داری نہیں۔ عدالت میں دفاع کرنے والا اخلاقی طور پر الزامات کی زد میں ہوتا ہے۔ایک قسم کا ملزم (جس پر الزام آئے)۔اور الزامات لگانے والا(جارحیت والا) اخلاقی برتری رکھتا ہے۔
کھیل میں دفاعی(Defensive)کھیلنے والا خود سے کھیل کا رُخ متعین کرنے والا نہیں ہوتا۔ وہ میدان میں ایک مخصوص جگہ پر ہوتا ہے اور میدان کے اسی حصے میں کھیلتا ہے اور اپنی ٹیم کے خلاف’’ جارحیت‘‘ کا دفاع کرتا ہے۔
جب ہم دفاع کہتے ہیں تو لامحالہ ایک دشمن بھی اپنے ساتھ پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ عسکریت دفاع اور جارحیت دونوں صورتوں میں قائم رہتی ہے۔ دونوں صورتوں میں جنگ اور دشمن کا تصور موجود رہتا ہے۔ ہم اخلاقی برتری کے لیے جنگی جارحیت سے بچنے کے لیے دفاع کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ کیا ’’عسکری دفاع ‘‘جنگ سے مختلف ہوتا ہے؟ ایسا دفاع جو جنگ کرنے کے لیے اپنا حق محفوظ رکھتا ہو۔ وہاں دفاع خود ایک عسکری عمل ہی ہوتا ہے۔صرف اُس کے معنی بدلتے ہیں۔یا اُس کی پوزیشن اپنا رُخ بدلتی ہے۔
جب دفاع کے نام پر جنگی اسلحہ اور جنون کو فروغ دیا جا رہا ہو اور جنگ نہ کرنے کا درس بھی دیا جا رہا ہو تو اس کا صاف مطلب ہے کہ دفاع عسکریت کے فروغ کا باعث بن رہا ہے۔ دفاع کو مضبوط کرنے کا مطلب ہے کہ دشمن کا تصور بھی مضبوط کیا جا رہاہے۔ اگر دشمن مضبوط نہیں تو دفاع مضبوط کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے دفاع کے ساتھ دشمن کی طاقت بھی بڑھ رہی ہوتی ہے۔
دفاع کا تصور عموماً پیدا کیا جاتا ہے۔ایک دشمن کا خوف مسلسل حالتِ جنگ میں رکھتا ہے اس لیے اُس دشمن کا خوف کم کرنے کے لیے دفاع کے تصور کو بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا ہے۔دفاع مہیا کرنے والے دفاع کے نام پر دشمن کو بڑا بناتے ہیں اور اُس کے خوف کو کم کرنے کے لیے دفاع کو بڑا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
دفاع کا تصور پیدا کرنے کے لیے عموماً دو طرح کے سہارے لیے جاتے ہیں۔ ایک : قوم میں عسکریت پیدا کی جاتی ہے۔ قوم میں اسلحہ اورجنگی جنون کو ایک ’’میٹھے کھیل‘‘ کے طور پر رائج کیا جاتا ہے۔فوجی پیشہ جات سے منسلک اشیا قومی مقدسات میں شامل کی جاتی ہیں۔ مذہب یا مقامی تہذیبی تصورات کے اندر سے بھی جنگی یا جہادی فلاسفی کو فروغ دیا جاتا ہے اور جنگ کرنے کے عمل کو ناگزیر طور پر قبول کروایا جاتا ہے۔اس کے لیے تعلیمی ادارے ( نصابات)، مذہبی ادارے (مسجد، مدرسہ) اور میڈیائی ادارے خاص پر حصہ لیتے ہیں۔انھی کے ذریعے جنگ کے دفاعی نکتہ نظر کو قابلِ فخر بنایا جاتا ہے۔دنیا کے تقریباًتمام ممالک میں یہی ادارے دفاع کے تصور کو ’’پیدا‘‘ کرتے ہیں۔ عوام کے لیے ملک کی سالمیت اور حفاظت کوئی کم اہم بیانیہ نہیں جس کے لیے اس تصور کو پیدا ہونے دیا جائے اورقبول بھی کر لیا جائے۔
دفاع کے نام پہ عسکریت کو قائم کرنے والا دوسراتصور دشمن کی ’’تخلیق‘‘ ہے۔اگر دشمن موجود ہے تواُسے اتنا بڑا اور خوف ناک بنا کرپیش کیا جائے کہ شہری خود بخود عسکریت کو ناگزیر سمجھنے لگیں۔عسکریت سے پیار کرنے لگیں اور عسکریت کو اپنی نجی زندگی میں بھی قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔اگر دشمن ہے ہی نہیں تواسے پیدا کیا جائے یعنی کوئی دشمن بنا لیا جائے۔ یہ دشمن ضروری نہیں کہ صرف ہمسائیہ ممالک میں ہو، کہیں دور دنیا میں بھی ہو سکتا ہے۔ اوریہ بھی ضروری نہیں کہ دشمن کوئی ملک کی فوج ہی ہو۔یہ کوئی تنظیم یا گروہ بھی ہو سکتا ہے یا کوئی بیانیہ (Narrative) بھی ہو سکتا۔امریکہ کے لیے یہ دونوں صورتیں نہایت مفید رہی ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک مقتدرہ نے دشمن کو ’’پیدا‘‘ کیا اور کیا بھی بہت دور اور نظرنہ آنے والا۔امریکی مقتدرہ ایک عرصے تک ’’سوشلائی بیانیہ‘‘ کو دشمن مان کے اپنی پرکار گھماتی رہی، اب اُس کے پیش نظر ’’اسلامی بیانیہ‘‘ غالب طور پر موجود ہے۔
عسکریت کسی بھی شکل میں موجود ہو، عسکریت سب سے پہلے ’’عسکریت‘‘ ہوتی ہے۔جس کا کام انسانیت تباہ کرنا ہے۔ انسان سے وابستہ اُس کی ’’انسانیت‘‘ انسان کا بہت بڑا اثاثہ ہے۔ اُس کی حفاظت ہر حال میں ہونی چاہیے۔ کسی بھی قسم کی عسکریت چاہے وہ دفاع کے نام پر موجود ہو یا جارحیت کے نام پر ہو رہی ہو ، دونوں صورتوں میں قابلِ مذمت ہیں۔ دفاع کو کم کرنے کے لیے دشمن کے تصور کو کم کرنے یا ختم کرنے کی پالیسی اپنانی چاہیے۔اگر ہم دشمن کے ’’خفیہ تصور‘‘ کو بڑھا رہے ہیں اور ساتھ عسکریت کے خلاف سبق بھی پڑھا رہے ہیں تو ہم ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والا سفر کر رہے ہیں۔ اور قوم کو مسلسل دھوکہ دے رہے ہیں۔دنیا بھر میں دفاع یا جارحیت کو عسکریت کی بنیاد بتا کے اُسے ختم کرنے کی کوششیں کرنے والوں کو چاہیے کہ دشمن کے تصور کو ختم کریں۔ یہ ایک جنونی اور جنگلی تصور ہے۔ کیا انسانیت کا بھی کوئی انسان ’’قومی ‘‘دشمن ہو سکتا ہے؟ کیا کبھی بیانیوں کی شکل میں دشمن کا تصور پیدا کیا جاتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ قومی سطح پر دشمن بنا دیے گئے ہیں،بجائے کہ ہم محبت کرنے والوں کا تصورپیدا کریں اور پوری انسانیت کو ایک دھارے میں لائیں، ہم بیانیوں (Narratives)کے مدد سے دشمنوں کو پیدا کرتے اور اُن کے نام پردفاع کو مضبوط کرتے آ رہے ہیں۔
(اور یوں اپنے مذموم مقاصد پورے کرتے آ رہے ہیں)
میرا سر اُس وقت شرم سے جھک جاتا ہے جب میں جنگی جنون میں مبتلا حکومتوں کے زیر سایہ اسلحہ کی نمائش کی کمنٹری کو سنتا ہوں۔ اُس میں کہا جا رہا ہوتا ہے:
’’یہ اسلحہ؍ ہتھیار زیادہ علاقے میں تباہی پھیلاسکتا ہے۔یہ اسلحہ دشمن کے اسلحے سے زیادہ طاقت ور اور خوف ناک ہے۔‘‘