(فارینہ الماس)
تصادم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ مشرق اور مغرب کے باہمی تفاوت کا بڑا سبب اقتصادی و تہذیبی تمدن کی وہ گہری خلیج ہے جو ان دونوں خطوں کے درمیان حائل ہے اور جو فی الحال ختم ہوتی دکھائی نہیں پڑتی۔ جس دور میں مغرب اپنی ترقی کے اس سفر پر گامزن تھا جو اس کی تہذیب نو کے آغاز کا دور تھا جو تقریباًسولھویں صدی سے شروع ہوا،اس دور میں سائنس کی ترقی سے دریافت اور تحقیق و جستجو کی راہیں ہموار ہوئیں وہ ترقی جس نے مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان کے افکار اور انداز معاشرت کو بھی بہت بدل کے رکھ دیا۔ایسے بدلاؤ سے دنیا کی تہذیب پر منفی اور مثبت دونوں ہی طرح کے اثرات مرتب ہوئے ۔ معاشرتی اور تہذیبی ترقی کی راہیں ہموار ہوئیں تو قدامت پرست مذہبی اور معاشرتی افکار کو اپنی پذیرائی میں بدرجہ اتم کمی کا سامنا کرنا پڑا ۔جدید سائنسی فکر نے سیکولر تحریک کی صورت دنیا میں موجود مذاہب کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا مغرب کی ترقی اور دریافتوں نے مشرق اور تیسری دنیا کو احساس محرومی میں مبتلا کر کے ،انہیں نفسیاتی طور پر پہنچایا۔
مغرب ایجاد کر رہا تھا اور اپنی ایجاد کو بھاری نرخوں پر بیچ کر معاشی فائدہ بھی اٹھا رہا تھا جس سے بیک وقت سوچ اور معیشت دونوں کو ترقی مل رہی تھی جب کہ پس ماندہ ممالک ان سے کسی قسم کے مقابلے سے عاری اور ناکام دکھائی دے رہے تھے ۔نا تو وہ اپنی تعلیم اور نہ ہی معیشت میں مغرب کا مقابلہ کر نے کے قابل تھے۔ ایک طرف ناکامی اور مایوسی اور دوسری طرف معیشت سے وابستہ مسائل کا گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتے چلے جانا انہیں نفسیاتی طور پر مفلوج بنا رہا تھا ۔ان کا اخلاقی نظام بھی اپنی قدر کھونے لگا تھا کیونکہ اب اخلاقی اور روحانی اقدار پر مادی اقدار بھاری ہونے لگیں۔ مغرب کو اب اپنی اشیاء کی کھپت کے لئے مارکیٹوں کی تلاش کے ساتھ ساتھ سستی مزدوری اور خام مال کے وسائل بھی درکار تھے سو دنیا کو مذید مسائل کا تحفہ نو آبادیاتی نظام کے ذریعے دیا گیا جس نے مذید احساس محرومی پیدا کیا۔ اور ان محروم ممالک میں،استحصالی ممالک اور ان کے استحصالی نظام سے بغاوت کے جذبات کو جنم دیاکیونکہ ان استحصالی اور استعماری قوتوں نے اپنے آقاؤں کے ساتھ غلام ملکوں کے حوصلوں اور غیرتوں پر کاری ضرب لگائی تھی ۔اور ان قوموں کو جسمانی اور روحانی طور پر کچھ اس طور مجروح کیا کہ انہیں پھر سے اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے لئے صدیاں درکار تھیں۔
اس طرح کی فضا میں نفرت اور عداوت کا پنپنا ایک فطری عمل تھا ۔گو کہ ان استعماری قوتوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے بعد ان مجروح قوموں کو آذادی کے نام پر ان کے اس قدر نا مسائد حالات اور بے سروسامانی میں تنہا چھوڑ دیا ۔ان قوموں کی ناؤ کسی بنا بادباں کے بیچ منجدھار کھڑی ناؤ سے بڑھ کر نہ تھی ۔لیڈرشپ اور اعلیٰ انتظامی ٹیم کی کمی انہیں ان کے ریاستی ڈھانچے کو پھر سے قائم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی ۔اور تو اور ان قوموں کے پاس خاطر خواہ وسائل اور اثاثے بھی نہ تھے جو اپنے مسائل سے احسن طریقے سے نپٹنے کے لئے درکار تھے۔انجام کار یہ کہ آج تک یہ قومیں اپنی شناخت اور تہذیب کو مسائل کی گھٹن سے آذاد نہیں کر سکیں ۔غلامی اور محکومی کے رویے آج بھی ان میں موجود ہیں۔جو ان کے اندر کی استعماری طاقتوں کو خوب پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کرتے رہے ۔ یہاں برے ماضی کی بری یادوں کو آج بھی فراموش نہیں کیا جاتا اور اپنے تمام تر مسائل کا شاخسانہ آج بھی ماضی کے اس سامراج اور سامراجی نظام کو ہی سمجھا جاتا ہے ۔لیکن ضرورت اس عداوت کو کم کرنے کے لئے دوستانہ اور مفاہمتی رویے اپنائے جانے کی تھی جو مغرب ٹھیک طور سے اپنا نہ سکا ۔
آج بھی مغرب ان قوموں کی نفسیات اورروایتی اقداری نظام سے ان کی وابستگی اور ان کی بودو باش کو سمجھے بغیر ان پر مغربی اقدار اور رویوں کو مسلط کرنے کے درپے ہے ۔گو کہ مغرب کی طرف سے ان ملکوں کی کسی نہ کسی طور کچھ حد تک مدد فراہم کی گئی ۔انہیں اپنا شہری بنانے میں نرم پالیسیاں بھی اپنائی گئیں اور ممکنہ معاشی امداد کی فراہمی کو بھی ممکن بنایا گیا لیکن اپنے اثرورسوخ کو اس خطے میں برقرار رکھنے کی پالیسی کو ترک نہ کیا گیا ۔ دنیا پر حکمرانی کے خبط اور جنون کا شکار قوموں نے ان محروم ملکوں کو اپنے مفادات کی جنگ میں خوب استعمال کیا ۔ایک عالمی تہذیب و معاشرت کو تمام دنیا پر لاگو کرنے کی ان کی خواہش کا اظہار مختلف حیلوں بہانوں سے ہوتا ہی رہا اس سلسلے میں مغربی نظام تعلیم اور عالمی اداروں سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا ۔پہلے پہل پیار اور محبت سے دنیا کو اپنا سبق پڑھایا گیا اور جب کبھی کہیں سے اس سبق کو پڑھنے سے انکار ہوا تو بالواسطہ طریقوں سے اس مزاحمتی رویے کو اپنی عالمگیر پالیسیوں سے قابو کرنے کی کوشش کی گئی ۔لیکن جب پھر بھی بات نہ بنی اور یہ بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہ دی تو دھونس اور جبر کے براہ راست طریقوں کو بلا جھجھک استعمال کیا گیا۔
ان ممالک کے اندرونی ریاستی معاملات میں مداخلت کی پالیسی اپنائی گئی یا حالات ایسے پیدا کئے گئے کہ ملک خانہ جنگی کی طرف چل پڑے اور بیرونی طاقتوں کے لئے ان پر دسترس بآسانی ممکن بنائی جا سکے ۔مغرب کے اس رویے کے منفی اثرات جس قوم کو سب سے ذیادہ برداشت کرنا پڑے اس کا تعلق مسلم ملکوں سے تھا ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد اسرائیل کا قیام جو مغرب کی پشت پناہی سے ممکن ہوا اس کا رنج بھی مسلم امہ کی روح میں گھل کے رہ گیا ۔سو اس قوم میں مغرب کے لئے پائی جانے والی عداوت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔اور دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ اپنے تہذیبی و تمدنی اثرو رسوخ کو قائم کرنے میں جس قوم سے سب سے ذیادہ مزاحمت مغرب کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے وہ مسلمان قوم ہی ہے ۔اس طرح مغرب اور مسلم قوم ایک ہی وقت میں تہذیبی ،نظریاتی اور معاشرتی محاذوں پر باہم نبرد آزمارہے۔
محرومیوں کا نیا باب جسے جدید دور کی پیدا وار کہا جاتا ہے مڈل ایسٹ کے اسلامی ممالک کی حالیہ صورتحال سے کھلا ۔ایک وقت تھا جب سپر پاور امریکہ نے مڈل ایسٹ سے اپنے معاشی مفادات کے حصول کی خاطر ان کے حکمرانوں سے پیار محبت کی خوب پینگیں بڑھائیں ۔اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب ان مفادات کی توقعات پوری ہوتی رہیں پیار کے یہ رشتے مضبوط رہے جیسے ہی ان ممالک نے تیل کی ترسیل میں حیل و حجت سے کام لینا شروع کیا ان کے بخیے ادھیڑنے شروع کر دئیے گئے ۔عالمی سیاست کا رخ ان سازشوں کی طرف موڑ دیا گیا جو ان ملکوں کی سالمیت کے لئے خطرہ بننی لگیں ۔اور پھر عراق،لیبیا اور شام کی صورتحال نے مسلمانوں کو جس قدر جانی اور مالی نقصانات کا شکار بنایا یہ کہانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔گذشتہ ایک طویل مدت کی تاریخ گواہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد چھوٹی بڑی جنگوں اور فسادات سے جس قدر نقصان مسلمانوں کا ہوا اور کسی کا نہیں ہوا۔ان خانی جنگیوں اور جنگوں کی صورت میں مسلمانوں کو وسیع تعداد میں اپنے علاقوں سے ہجرت کا دکھ سہنا پڑا۔
گزشتہ کچھ عرصے میں تقریباً بیس لاکھ افراد ہجرت پر مجبور ہوئے ۔پچھلے ایک سال میں ہی اڑھائی لاکھ لوگوں نے ہجرت کی اور یہ ہجرت ذیادہ تر مغربی ممالک کی طرف ہی کی گئی۔ہجرت کرنے والے ان نڈھال اور شکست خوردہ افراد میں سے ذیادہ تر کا تعلق شام اور عراق سے تھا ۔ان سے ناصرف اپنوں نے بے اعتنائی برتی بلکہ یورپ نے بھی ناروا سلوک کا مظاہرہ کیا۔یورپی یونین سے منسلک تقریباً چھبیس ممالک نے اپنی سرحدوں کو ہی سیل کر دیا۔مہاجرین کی وسیع تعداد کا تعلق چونکہ اسلام سے ہے اس لئے انہیں قدامت پرست ہونے کی وجہ سے نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔مغرب میں انہیں سختی سے اپنی روایات اور اقدار سے وابستہ ہونے کی وجہ سے خود مغربی اقدار اور کلچر سے متصادم سمجھا جاتا ہے۔اور مغربی تہذیب کے لئے ایک بڑا خطرہ بھی ۔ان مہاجرین کو دل سے قبول نہ کرنے کی ایک وجہ ان کا متشدد رویہ بھی ہے ۔گو کہ مسلم تہذیب و تمدن کو داعش،القائدہ،بوکوحرم،ازبک یا چیچن تحریک یا تحریک طالبان سے شناخت کرنا ایک احمقانہ بات ہے لیکن کیونکہ ان تحریکوں کو چلانے والوں کا تعلق اسلام سے ہے سو عالمی سطح پر اسلام مخالف جذبات کا ابھرنا ایک فطری عمل ہے۔جس کا اظہار دنیا میں مختلف حیلوں بہانوں سے کبھی ڈنمارک اور فرانس کے گستاخانہ خاکوں سے،کبھی ٹیری جونز کی نازیبا حرکات سے اور کبھی کینیڈا میں نمازیوں پر حملے سے سامنے آتا رہتا ہے۔یورپ کی مقامی آبادی مسلمانوں کی دہشت گردیوں سے عدم تحفظ کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ اس لئے وہ مسلمان مہاجرین کے خلاف آواز اٹھا تی ہے ۔ ان دو تہذیبوں میں فکری ،تہذیبی اور نظریاتی تفاوت سے پیدہ شدہ مسائل کے علاوہ جس بڑے عفریت کا سامنا دنیا کو کرنا پڑ رہا ہے وہ وسائل کی بڑھتی ہوئی عدم دستیابی اور معاشی طور پر پھیلتا عدم استحکام و عدم توازن ہے ۔ دنیا میں امیر ممالک امیر تر اور غریب ممالک غریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اس عدم توازن کی مثال یہ ہے اس وقت دنیا کی کل معیشت کے آدھے حصے پر 80 افراد قابض ہیں جن میں سے 35 کا تعلق امریکہ سے ہے۔دوسرا نمبر جرمنی اور تیسرا روس کا ہے۔
یہ چند لوگ دنیا کے بڑے اثاثوں پر قابض ہیں اور دنیا کا ایک بڑا حصہ اپنی بنیادی سہولیات و ضروریات کی دستیابی سے بھی محروم ہے،اور ایسا مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام ہی کی دین ہے جس کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ خود ان ترقی یافتہ ممالک میں بھی رفتہ رفتہ وسائل گھٹتے جا رہے ہیں ۔جس کی وجہ سے انہیں معیشت کے گرنے کے خطرات لاحق ہیں ۔ان خطرات کا الارم یہاں بیروزگاری کی صورت اب بجنے لگا ہے۔ اس کے باوجو د کہ وسائل گھٹ رہے ہیں دنیا کی آبادی جو دوسری عالمی جنگ کے وقت چار ارب تھی اب آٹھ ارب تک جا پہنچی ہے ۔سو یہ بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جو دنیا کو معاشی و معاشرتی عدم توازن کی طرف لے جا رہا ہے ۔اس کے اثرات نا صرف غربت ذدہ ملکوں میں بلکہ اب ترقی یافتہ ملکوں مثلاً فرانس، انگلینڈ ، یونان اور اٹلی جیسے ممالک پر بھی معاشی بحران کی صورت ظاہر ہو رہے ہیں ۔یہاں تک کہ امریکہ بھی اس بحران کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے ۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ترقی یافتہ ملکوں کو اپنے وسائل کو بچانے اور چھوٹے ملکوں سے چھیننے کے درپے بنا رہی ہے۔عراق اور افغانستان پر امریکہ کی چڑھائی کی ایک بڑی وجہ معدنیات اور تیل کا حصول بھی سمجھی جاتی ہے۔
اس وقت بڑے سے بڑا ملک بھی آنے والے وقت کے اقتصادی حالات کے بارے متفکر ہے۔ایسی صورتحال میں ایک خاصی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کے بوجھ کو برداشت کرنے کے لئے جو حوصلہ اور جذبہ چاہئے وہ ناپید دکھائی دیتا ہے۔ان افراد کی آبادکاری اور بحالی خود ان ملکوں کو بڑے معاشی بحران کا شکار بنا سکتی ہے ۔ یہ وہ عوامل ہیں جنہوں نے بڑی تیزی سے مغرب کے فکر و عمل میں واضح تبدیلیاں ثبت کیں۔ان تبدیلیوں میں بڑی تبدیلی قومیت پرستی اور اپنے ملک و قوم پر حد سے ذیادہ کیا جانے والاوہ تفاخر ہے جس نے دنیا کی نفسیات کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے ۔دراصل مغرب دنیا کو ایک مشترک عالمی کلچر میں ڈھالنے میں ناکام رہا ہے ۔اور اب اسے اپنی عالمی اجارہ داری بھی خطرے میں دکھائی دے رہی ہے ۔اسی لئے اب وہ دنیا کی فکر کرنے کی بجائے خود اپنے مسائل پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔
مغربی قوم کی سوچ کی یہ تبدیلی امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ہنگری میں وکٹر اوربان جیسے کٹر قوم پرست حکمرانوں کے اقتدار میں آنے کی وجہ بنی۔ انہیں ووٹ دینے والے اکثریتی لوگ ان کی ان پالیسیوں کے گرویدہ ہیں جو کہ قوم پرستی کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو نیست و نابود کر دینے کا عزم لئے ہوئے ہیں ،جو اپنے ملک میں کسی اور قوم خصوصاً مسلمانوں کے وجود کو برداشت کرنے کے بلکل حق میں نہیں ۔یہ اور دوسرے اس طرح کے بہت سے سیاستدان جن کا اقتدار میں آنا متوقع ہے جیسے فرانس جیسے ملک میں جہاں ساٹھ لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں مارین لی پن جیسی قوم پرست خاتون کے آئندہ انتخابات میں کامیابی کے واضح امکانات نظر آنا۔ادھر جرمنی میں جہاں انجیلا مرکل جیسی خاتون سربراہ ہیں جنہیں دس لاکھ پناہ گزینوں کو جرمنی میں آباد کرنے کی پالیسی کو شدید تنقید کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اب ان کے مقابلے میں قوم پرست پارٹیاں مضبوط ہو چکی ہیں ۔ اسی طرح ہالینڈ کے ویلڈرس جیسے لوگ جن کا حکومت میں آنا متوقع ہے اور جو شدید حد تک قوم پرست اور مسلم مخالف ہیں ۔ایسی صورتحال میں کینیڈا کے جسٹن ٹروڈو کے مسلم حمایتی اقدامات بھی مغرب مسلم دشمنی کو مٹانے میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلم مخالفت پر مبنی انتہا پسند پالیسیوں کو بھی دنیا میں تائید حاصل نہیں ۔جس کی بڑی وجہ مسلمانوں سے ہمدردی سے کہیں بڑھ کر مسلم جارحیت کے ممکنہ امکانات اور مسلم مغرب تعلقات کا تصادم کی طرف بڑھنا ہے ۔جو معاشی اور معاشرتی دونوں طرح کے حالات کا ابتری کی طرف جانے کا باعث بن سکتے ہیں ۔
گویا وہ تصادم جس کا تزکرہ کچھ عرصہ پہلے سموئیل بی ہنگٹن نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’تہذیبوں کا تصادم ‘‘ میں کچھ اس طرح کیاتھا،’’ آئندہ جو عالمی تنازعات اور ان کے نتیجے میں بڑے تصادم ہوں گے ان کی بنیاد قوموں کی ثقافتی اور مذہبی شناخت ہو گی اور تصادم کا بڑا خطرہ مغربی اور مسلم تہذیبوں کے درمیان ہو گا‘‘ یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوتی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ حالیہ دور میں اسرائیل کی بڑھتی شر پسندی اور امریکہ کا اس کی طرف بھرپور جھکاؤ امریکہ کے لئے نفرت کا باعث بنا رہا اور اب امریکہ کی مسلم مخالف پالیسیاں ا س نفرت کو مذید بڑھاوا دیں گی۔ جب کہ دوسرے محاذ پر مستقبل میں امریکہ کو چین کے بھرپور کردار اور طاقت میں ابھر کر سامنے آنے کا چیلنج بھی لاحق ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے اور روس و چین کی بڑھتی سیاسی و معاشی مداخلت کو روکنے کے لئے اب طاقت کا استعمال کر سکتا ہے اسی لئے وہ ایشیا میں عالمی جنگ کے آغاز کا بگل بجانے کی خواہش لئے نظر آتا ہے جب کہ دوسری طرف چین اور روس بھی عالمی طاقت کے حصول کی خواہش دل میں رکھتے ہیں ۔روس نے تو اس جنگ کی باقاعدہ تیاری کا آغاز کر رکھا ہے اس وقت روس کے کم از کم 770 ایٹمی ہتھیار سرگرم ہیں ۔امریکہ ،افغانستان میں بھی بے بس ہو چکا ہے۔عراق میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اب دوسری طرف امریکہ کی بدلتی پالیسیاں جو دنیا کے دگرگوں حالات سے یکسر چشم پوشی اختیار کرنے اور محض اپنے مفادات کی جنگ کو تیز تر کرنے پر مبنی ہیں وہ دنیا میں امریکہ کے لئے نفرت کا ایک نیا باب کھول رہی ہیں جو آنے والے دنوں میں دنیا کے لئے شدید اضطراب کا باعث بن سکتا ہے ۔ اور اگر طاقت کی چھینا چھپٹی نے دنیا کے لئے ایک عالمی فساد کھڑا کر دیا تو دنیا کی صورت حال کیا ہو گی یہ ایک خوفناک حقیقت ہے ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کو کسی نئی عالمی جنگ سے تو کسی نہ کسی طور بچایا ہی گیا ہے لیکن تب سے اب تک دنیا میں مختلف جنگوں اور خانہ جنگیوں سے تقریباً تین کروڑ بیس لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ چھوٹی بڑی جنگیں کسی بڑے تصادم کا پیش خیمہ بن جائیں ۔اور اگر ایسا ہوا تو امکان ہے کہ یہ جنگ مغرب اور مسلمانوں کی جنگ ہو گی جس کے درپردہ بڑے ممالک اپنے عزائم حاصل کریں گے۔
1871کو ایک امریکی فوجی کیپٹن البرٹ پائیک کا لکھا ہوا ایک خط جو کہ ولیم گے کار کی کتاب ’’پرنس آف دس ورلڈ ‘‘ میں درج ہے میں مستقبل کی ایک ایسی منصوبہ بندی کو آشکار کیا گیا ہے جو ایک عالمی حکومت کی تشکیل کے واسطے دنیا کو تین عالمی جنگوں میں جھونکنے کے لئے بنائی گئی اس میں پہلی عالمی جنگ لڑ کر روس کی طاقت کو ختم کرنا اور اسے کمیونسٹ ملک بنانا تھا ،دوسری عالمی جنگ کے زریعے نازیوں کو تباہ کرنا ،اشتراکیت کو مضبوط کرنا اور اسرائیل کی خودمختار ریاست کی تشکیل کے مقاصد کا حصول تھا اور تیسری عالمی جنگ مسلمانوں اور مغرب میں لڑی جانے کی منصوبہ بندی درج تھی ۔ لیکن تصادم کی طرف جاتا راستہ محض ان دونوں ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر تہذیب کی تباہی کا باعث بنے گا۔ مثلاً اگر محض پاکستان اور انڈیا ہی جنگ میں الجھ جاتے ہیں تو ایک اندازے کے مطابق بموں کا باہمی تبادلہ تقریباً دو کروڑ لوگوں کی ہلاکت کا باعث بن جائے گا اور اس خطے میں ہونے والی تابکاری سے پوری دنیا کے تقریباً ایک ارب انسان متاثر ہوں گے ۔دوسری طرف اگر روس محض ایک ہائیڈروجن بم گرا دے تو ایک کروڑ لوگ موت کے منہ میں چلے جائیں گے ۔گو یہ ممکنہ تصادم کسی صورت بھی دنیا کی بحالی کو ممکن نہیں رہنے دے گا اور اس کائنات کی صورتحال وہ ہوجائے گی جو امریکی سائنسدان آئن سٹائن نے پیش کی تھی جب اس سے پوچھا گیا تھا کہ تیسری عالمی جنگ کیسے لڑی جائے گی تو اس نے جواب دیا تھا کہ تیسری کا تو پتہ نہیں لیکن چوتھی عالمی جنگ تلواروں اور ڈنڈوں سے لڑی جائے گی۔ امریکہ کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ اپنی تہذیبی اور معاشی نظریات کی بالادستی کے مسمار ہو جانے کے خیال سے لاحق ہے کیونکہ جب اس نے کمیونزم پر فتح حاصل کی تھی تو اس کا یہ دعویٰ تھا کہ اب دنیا کو مذید کسی آئیڈیالوجی کی ضرورت نہیں رہی۔
لیکن اب سرمایہ دارانہ نظام کا اثر زائل ہونا گویا اس بات کو ثابت کر دے گا کہ نہیں یہ دنیا کی آخری غلبہ پانے والی آئیڈیالوجی نہیں بلکہ کوئی اور ایسا نظام ہے جو غالب آسکتا ہے۔ اور وہ نظام ہے اسلام کا نظام ۔آخر کیا وجہ تھی جو ماضی میں دانشور طبقے کو اس بات پر مائل کرتا رہا کہ وہ وقت آنے والا ہے جب مغرب اور اسلام کا تصادم ہو گا ۔تصادم بھی دو ایسی ہی تہذیبوں میں ہوا کرتا ہے جن میں غلبہ پانے کی صلاحیت ہو۔لیکن فی الحال اسلامی نظام کے سیاسی ،تمدنی اور سماجی ارتقاء پر جمود طاری ہے ۔اب وہ وقت قریب آرہا ہے جب اس جمود کو توڑنا ضروری ہوتا جا رہا ہے۔ابھی مغرب بدل رہا ہے اپنی ان اقدار سے منہ موڑ نے لگا ہے جن پر اس کا کل سماجی نظام مغلوب ہو گیا تھا ایک وقت آئے گا جب یہ منہ موڑنا خود اس پر بھاری پڑ جائے گا اور اس کے زوال کا باعث بننے لگے گا۔وہ زوال جس کی خود مغرب کے ہی دانشوروں اور مدبروں مثلاً کیگارڈ،نطشے،سپینگلر جیسے فلسفیوں نے ماضی میں نشاندہی کی۔دوسری طرف مسلمانوں کو بھی تصادم سے بچتے ہوئے اپنے طرز فکر اور اسلوب حیات کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی ثقافت اور تمدن کا حصہ بنانا ہوگا ،زندگی اور ترقی کا ایک نیا ماڈل اسلام کی روح کے مطابق تشکیل دینا ہوگا ۔تاکہ اس تہذیبی لڑائی میں جیت کو اپنا مقدر بنایا جا سکے۔