جاوید اختر بھٹی
گیتا اور قرآن
سندر لال کی یہ کتاب تین حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا: ایک طویل مقدمہ جو کہ جدید ایڈیشن کے 62 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا عنوان ہے۔ ’’دنیا کے سب مذہب ایک ہیں‘‘، دوسرا: گیتا، اور تیسرا: قرآن کی تعلیمات پر مشتمل ہے۔ جسے سندر لال نے اپنے انداز میں سمجھا ہے۔ ہم اپنی بات مقدمے سے شروع کریں گے۔ سندر لال ہندوستان میں مذہبی اختلاف کو ختم کر کے ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔ یہ خواہش عظیم مغل بادشاہ اکبر کے دِل میں بھی پیدا ہوئی تھی اور یوں ایک نیا مذہب دینِ اِلٰہی یا دینِ اکبری پیدا ہوگیا تھا اور جسے مزاحمت اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن سندر لال پرانے مذہب کی بالادستی چاہتے ہیں۔ اس کے نزدیک کسی مذہب میں کوئی بات نئی نہیں ہے۔ اس کتاب میں دو نظمیں بھی دی گئی ہیں۔ ایک ’’رام اور رحیم‘‘ اور دوسری ’’کوئی نہیں ہے غیر‘‘۔
’’رام اور رحیم‘‘ سے اقتباس:
تم رام کہو وہ رحیم کہیں ، دونوں کی غرض اللہ سے ہے
تم دین کہو وہ دھرم کہیں ، منشا تو اسی کی راہ سے ہے
تم عشق کہو وہ پریم کہیں ، مطلب تو اسی کی چاہ سے ہے
وہ یوگی ہوں تو تم سالک ہو ، مقصود دل آگاہ سے ہے
ہے پیڑ کی جڑ تو ایک ہی ، ہر مذہب ایک ایک ڈالی ہے
’’کوئی نہیں ہے غیر‘‘ سے اقتباس:
کوئی نہیں ہے غیر
بابا! کوئی نہیں ہے غیر
ہندو مسلم سکھ عیسائی
دیکھ سبھی ہیں بھائی بھائی
بھارت ماتا سب کی ماتا
یہ دھرتی سب کی مائی
یہ وہی کوشش ہے جو تقسیم سے پہلے تمام غیر متعصب دانشور کرتے رہے کہ ہندوستان تقسیم نہ ہو۔ ورنہ فسادات اور قتل و غارت کے واقعات ہوں گے۔ یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی، ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ ہندوستان کی تقسیم نا گزیر ہوگئی۔ اس دوران بہت سا کام سامنے آیا اور گیتا کے بہت سے ترجمے کیے گئے۔
سندر لال کی کوشش دوسروں سے مختلف اور منفرد ہے۔ انہوں نے قرآن اور گیتا کا موازنہ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’ہے پیڑ کی جڑ تو ایک ہی، ہر مذہب ایک ایک ڈالی ہے‘‘
سندر لال نے اپنا یہ نظریہ پیش کرنے کے لیے کتنے ہی اخلاص سے کام لیا ہو لیکن یہ نظریہ ہندو مسلم دونوں کے لیے کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہوسکتا کیونکہ کہیں اختلاف ہوتا ہے تو مذہب اپنی راہ الگ کرتا ہے بہر حال ہم اس کتاب کا مطالعہ پیش کرتے ہیں۔
سندر لال عرب و ہند کے تاریخی واقعات کا حوالہ دیتے ہیں۔ اور قرآن اور گیتا سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دونوں مذاہب میں ایک سی بات موجود ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اسلام، ہندو دھرم سے قطعی مختلف ہے۔ اس لیے میں وہ عبارتیں نقل نہیں کروں گا جو سندر لال نے مماثلت کے ثبوت میں پیش کی ہیں۔ مذہب کے حوالے سے ان کی جو مجموعی رائے ہے۔ اس سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں:
’’لوگوں کو زندگی کے ان سیدھے سادھے بنیادی اُصولوں پر چلائے رکھنے کے لیے ایک سب سے بڑا طریقہ، جس سے دنیا کے مذہبوں نے کام لیا ہے۔ یہ ہے کہ ایک ایشور یا گاڈ میں یقین کیا جائے جو سب کا ایشور ہے۔ اس اتنے بڑے سنسار، اس دنیا کا کوئی نہ کوئی چلانے والا ضرور ہے۔ کوئی نہ کوئی سب سے بڑی طاقت ہے جس سے ہم سب کا ناتا ہے۔ اور جس کی طرف ہم سب بڑھے چلے جارہے ہیں۔ جس طرح ہماری دھرتی کی اور اس کے باہر بھی دور تک ساری گرمی اور روشنی اس سورج سے آتی ہے اسی طرح ہماری جان، ہماری سب چتین شگتیوں، ہماری روح یا آتما کے اندر کے سب اچرج بھری طاقتوں کا بھی کہیں نہ کہیں کوئی خزانہ ہے جہاں سے ان سب کا نکاس ہے۔ ہماری اپنی آتما (روح) کا چھوٹا پن، اس کی کمزوری اور اس کی بے بسی ہی ہمیں پرم آتما، اس روحِ کل کی بھرپور طاقتوں کی خبر دیتی ہے۔ سب مذہبوں نے مانا ہے کہ ایشو (اللہ) آدمی کی چھوٹی سی عقل اور اس کی سمجھ سے کہیں اوپر اور باہر ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اس میں بھی شک نہیں کہ دنیا کے سب بڑے بڑے مذہبوں نے اس دھرتی کے کروڑوں آدمیوں کو سینکڑوں اور ہزاروں برس تک ٹھیک راستے پر رکھا ہے۔ آج تک کروڑوں آدمیوں کے دِلوں اور دماغوں کو، ان کی روحوں، ان کی آتماؤں کو دھرم اور مذہب سے بڑھ کر سکھ، شانتی اور سکون دینے والی دوسری چیز نہیں ہوئی۔ آدمی آدمی میں پریم پیدا کرنے والی بھی آج تک دھرم یا مذہب سے بڑھ کر کوئی طاقت دکھائی نہیں دیتی۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہم ایشور سے پرارتھنا کرتے ہیں کہ گیتا اور قرآن، اپنے پڑھنے والوں میں وہ صاف سمجھ اور طاقت پیدا کر دے جس سے وہ ان پاک کتابوں کی سچی تعلیم پر عمل کر سکیں۔ یعنی آج کل کی ہمیں برباد کرنے والی رواجی اور سماجی جکڑ بندیوں کو توڑ کر اپنے آپ کو آزاد کر سکیں اور نئے سرے سے ایک ملی جلی زندگی، ملی جلی کلچر اور سچے مانودھرم (مذہب اور انسانیت) سانچے میں اپنے آپ کو ڈھال کر اس ملک میں پھر ایک بار پریم کے سوتے بہا سکیں۔ اس کے سوا ہمارے لیے انسانی قوم کی سیوا یا اپنی نجات کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے‘‘
اس کے بعد مصنف نے گیتا کے اٹھارہ ادھیائے کا الگ الگ خلاصہ دیا ہے اور ابتداء میں ’’گیتا‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ لکھا ہے۔ جس میں گیتا کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ جس طرح ابتدائی طویل مقدمے میں انہوں نے گیتا کا تعلق قرآنِ کریم سے جوڑنے کی کوشش کی۔ اسی طرح گیتا کے اس پیش لفظ میں وہ چین کے ساتھ اپنا مذہبی رشتہ مضبوط کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سندر لال بار بار ہندو دھرم کی قدامت کو دلیل بناتے ہیں۔
اس ابتدائیے سے ہم اقتباس پیش کرتے ہوئے گیتا کے ترجمے کی طرف بڑھتے ہیں:
’’جن کتابوں کو ہندو اپنے دھرم کی کتابیں مانتے ہیں۔ ان کی تعداد ہزاروں نہیں تو سینکڑوں آسانی سے گنائی جاسکتی ہیں۔ دنیا میں جتنے ’’دھرم‘‘ چل رہے ہیں ان میں شاید ہی کسی دوسرے دھرم کی اتنی کتابیں ہوں۔ یہ بات قدرتی بھی ہے۔ یوں تو دنیا کے سب دھرم ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ سب ایک ہی سناتن پرم پرا کے حصے یعنی پرانے سلسلے کی کڑیاں یا ایک ہی پرانے بڑے پیڑ کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ڈالیوں کے الگ الگ پھول ہیں۔ پھر بھی جہاں تک الگ الگ دھرموں، مذہبوں کے الگ الگ سلسلوں کا سوال ہے۔ ہندو دھرم کا سلسلہ دنیا میں شاید سب سے پرانا ہے۔ یہودی دھرم کا سلسلہ اس کے بہت بعد کا ہے۔ چینی دھرم پرم پرا بھی جہاں تک معلوم ہے۔ اس سے زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آج سے دو ڈھائی ہزار سال پہلے چین کے دھرم نے جس روز پلٹا کھایا ہندو دھرم نے ویسا کبھی نہیں کھایا۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ کھاتے کھاتے رہ گیا۔
آدمی کا اتہاس یعنی انسانی قوم کی تاریخ ہندوستان اور چین سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ ہندوستان اور چین کی پرانی تہذیبوں سے ہزاروں سال پہلے اور بھی بڑی بڑی نامور قومیں ہوچکی ہیں اور ترقی کی چوٹی تک پہنچ چکی ہیں۔ دنیا کے لکھے اور بے لکھے اتہاس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ایک طرف ایران کے پہاڑوں سے لے کر عرب ساگر اور ہندمہا ساگر تک اور دوسری طرف افریقہ کی نیل ندی کے کنارے کنارے بہت پرانے زمانے میں کم از کم دو بہت بڑی قومیں جنم لے کر ہندوستان اور چین سے کہیں پہلے ہزاروں برس تک آدمی کو زندگی کا راستہ دکھا چکی تھیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیتا (گیتا دھرم) کے اٹھارہ ادھیائے میں سے تین مختصر اقتباس پیش کرتا ہوں:
’’آدمی کی اندریاں کچھ چیزوں کی طرف تو چاہ سے لپکتی ہے اور کچھ چیزوں سے بھاگتی ہیں۔ ان کے اس چاہنے یا بھاگنے میں نہیں آنا چاہئے۔ یہ چاہ اور نفرت ہی آدمی کے دشمن ہیں۔ ‘‘ (34)
’’ہر موقعہ اور ہر حالت میں جو اپنا فرض دکھائی دے اسی کو اپنا دھرم سمجھ کر پورا کرنا چاہئے۔ دوسرے کسی دھرم کی طرف نہیں جانا چاہئے۔ جیسا بھی اپنے سے بن پڑے اپنا یہ کر تو یہ یا فرض پورا کرتے ہوئے ہی مرنا ٹھیک ہے۔ ‘‘(35)۔ (تیسرا ادھیائے)
’’اس طرح کا آدمی کسی صاف ستھری جگہ میں چپ چاپ نڈر اور اکیلا بیٹھ کر، اپنے کو روک کر اپنے دل سے سب طرح کی خواہشوں اور سب چیزوں اور کو موہ نکال کر، آتما کو ایک طرف لگا کر، سر، گردن اور جسم کو بالکل سیدھا اور اندریوں کو ڈول رکھتے ہوئے۔ اپنی ناک کے سرے کو ایک ٹک دیکھتا ہوا۔ اِدھر اُدھر نگاہ ڈالتا ہوا۔ اپنی آتما کو شانت رکھتے ہوئے آتما شدھی کے لیے پرماتما میں دھیان جمائے تو دھیرے دھیرے پرم شانتی اور وہ سب سے بڑھ کر حالت حاصل ہوگی۔ جس سے پھر بڑے سے بڑا سکھ دکھ بھی اسے ڈگا نہیں سکتا۔ اسی حالت کا نام مکتی یعنی نجات ہے۔‘‘ (10 سے 15، 22)۔ (چھٹا ادھیائے)
’’یعنی آتما کو برباد کرنے والے نرک کے یہ تین دروازے ہیں۔ کام، کرود، اور بوھ۔ اس لیے ان تینوں کو چھوڑ دینا چاہئے۔ اے ارجن! جو آدمی ان تینوں اندھیرے دروازوں سے بچ جاتا ہے۔ وہی اپنا بھلا کرتا ہے اور وہی آخر میں پراگتی یعنی نجات پاتا ہے۔ اس لیے آدمی کو چاہئے کہ سدا چار شاستر (نیکی کے قانون) کو ہی اپنا راستہ دکھانے والا بنا دے۔ اسی پر چلے، خود اپنی خواہشوں کے پیچھے نہ پڑے۔‘‘ (21 سے 24) (سولہواں ادھیائے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندر لال نے اپنے مؤقف کو مضبوط کرنے کے لیے ترجمہ کے آخر میں ’’گیتا کا سار‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون دیا ہے۔ مضمون کے آخر میں اس کے مصنف کا نام ’’خوب اللہ شاہ قلندر‘‘ لکھا ہے۔ قلندر نے گیتا کی خوب تعریف کی ہے اور سندر لال کے مؤقف کی حرف بہ حرف تائید کی ہے لیکن اس مضمون کے اسلوب سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون بھی سندر لال کا اپنا لکھا ہوا ہے۔ حیرت ہے کہ انہوں نے اپنے مؤقف کو مضبوط بنانے کے لیے کمزور حربہ اختیار کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن کے حوالے سے لکھتے ہوئے وہ اس کتاب کے مقدمے میں ، جو کہ انہوں نے ’’دنیا کے سب مذہب ایک ہیں‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس کی بار بار تکرار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم اس بات کو نظریہ نہیں بنا سکتے کہ جو مذہب پرانا ہوگا اور اس میں جو کچھ کہا گیا ہے۔ اسی کو معیار بنا یا جائے۔ سندر لال کا انداز یہی ہے کہ قرآن مجید میں یہ لکھا ہے۔ گیتا میں یہ پہلے سے موجود ہے۔ یہودیوں کے ہاں یہ بات ہے۔ گیتا میں پہلے سے موجود ہے۔ وہ اسی انداز میں تمام مذاہب اور الہامی اور مقدس کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور بار بار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’دنیا کے سب مذہب ایک ہیں‘‘ جبکہ کرشن گیتا میں کہتے ہیں:
’’ہر موقعہ اور ہر حالت میں جو اپنا فرض دکھائی دے اسی کو اپنا دھرم سمجھ کر پورا کرنا چاہئے۔ دوسرے کسی دھرم کی طرف نہیں جانا چاہئے۔‘‘
یہ ترجمہ سندر لال نے خود کیا ہے۔ گیتا میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ’’دنیا کے سب مذہب ایک ہیں‘‘ یہ تو کرشن بھگوان کے لیے بھی ممکن نہیں تھا۔
نوٹ: ’’گیتا اور قرآن‘‘ سندر لال کے پاکستانی ایڈیشن میں تاریخِ اشاعت اوّل درج نہیں ہے۔ لیکن ’’بھگود گیتا‘‘ شان الحق حقی مطبوعہ 1994ء نئی دہلی کے صفحہ چار پر تاریخِ اشاعت 1946ء اِلٰہ آباد درج ہے۔ لیکن یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ اشاعت اوّل یا بعد کی کوئی اشاعت ہے۔
(جاوید اختر بھٹی)