دولت اسلامیہ اور نوجوان لڑکیاں
(فارینہ الماس)
لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل ہیلتھ سائنسز سے انیس سالہ طالبہ نورین کا لاپتہ ہو نا اور پھر یہ خبر ملنا کہ اس کے غائب ہونے کی وجہ اس کا اغوا نہیں بلکہ وہ خود ”دولت اسلامیہ “ میں شامل ہونے کی آرزو لئے کسی ان دیکھے سفر کی ہم راہی ہو چکی ہے ۔ گو کہ یہ واقعہ کوئی نیا واقعہ نہیں ۔جب سے ملک شام میں جنگی صورتحال پیدا ہو ئی ہے، اور داعش نے اپنا اثرو رسوخ قائم کیا ہے ، وہاں دولت اسلامیہ کی بنیاد رکھنے کے بعد ہزاروں غیر ملکی افراد کو ان کی برین واشنگ کر کے اس سلطنت کا حصہ بنایا جاتا رہا ہے ۔یہاں تک کے پورے کے پورے خاندان ان کے نظام کو مضبوط کرنے اور اسے بڑھانے کے لئے وہاں آباد کئے گئے۔ اس سلسلے میں اس تنظیم کا سب سے بڑا ہتھیار وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں جنہیں سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعے اس تنظیم سازی کا حصہ بنانے کی مضبوط مہم چلائی گئی ۔حالیہ تجزیات کے مطابق لڑکیوں کا رحجان لڑکوں کی نسبت ذیادہ تیزی سے اس تنظیم کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
2013ءمیں گلاسگو سے بیس سالہ اقصیٰ محمود ”جہادی دلہن “ بننے کے لئے شام کی طرف روانہ ہوئی اور اس نے دولت اسلامیہ کے لئے سوشل نیٹ ورک سے ایک اہم مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد دیگر لڑکیوں کی برین واشنگ کرنا تھا۔ 23 فروری 2015 ءکو برطانوی پولیس اپنی شہریت کی حامل تین لڑکیوں کی بازیابی کے لئے ترکی پہنچی۔وہ تین لڑکیاں جو دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے برطانیہ سے روانہ ہوئی تھیں اور ترکی کے راستے سے شام جانا چاہتی تھیں ۔ کہا جاتا تھا کہ وہ لڑکیاں اقصیٰ محمود کی برین واشنگ کے ہی نتیجے میں دولت اسلامیہ کا حصہ بننے کی خواہش مند بنیں۔ عموماً یہ لڑکیاں” جہادالنکاح“ کے لئے دولت اسلامیہ کا رخ کرتی ہیں ۔ گارڈین اخبار کی رپورٹ کے مطابق شام میں دہشت گرد گروہوں میں شامل ہونے کی خواہش مند لڑکیوں کی تعداد پہلے سے ذیادہ بڑھ رہی ہے۔ ان لڑکیوں کی اوسطاً عمر 15سال سے 22سال کے درمیان ہوتی ہے۔ان کا اس گروہ میں شمولیت اختیار کرنے کا مقصد جہادالنکاح کر کے صاحب اولاد ہونا اور جنگجوﺅں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔ یورپ سے ہجرت کر کے ان میں شامل ہونے والی لڑکیاں ایسی لڑکیوں کا کل دس فیصد حصہ ہیں ۔ جن میں ذیادہ تعداد فرانسیسی لڑکیوں کی ہے ۔ ان میں صرف یورپ اور امریکہ ہی نہیں بلکہ مشرق وسطٰیٰ اور دیگر مسلم ممالک کی لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان میں ذیادہ تر یونیورسٹیوں اور کالجوں کی طالبات شامل ہیں ۔اور ایسی لڑکیاں ذیادہ تر معاشی طور پر خوشحال ہوتی ہیں اور ایک بھرپور زندگی گزار رہی ہوتی ہیں۔ یورپ سے ایک اندازے کے مطابق تقریباً چھ ہزار لڑکیوں نے اس سلسلے میں ہجرت کی۔ان میں وہ لڑکیاں بھی شامل ہیں جن کے خاندان دوسرے ممالک سے جنگ یا خانہ جنگی کی صورتحال میں ہجرت کر کے یورپ آباد ہوئے۔ بہت سوں کے لئے شاید یہ ایک رومانوی جذبات پر مبنی فیصلہ ہے ،جسے یہ نوجوان لڑکیاں جہاد ٰمیں مردوں کی طرح اسلحہ اٹھا کر لڑنے کی خواہش میں اپنے دل میں پیدا کرتی ہیں ۔ اس فیصلے کا اہم کردار تو وہ لوگ ہیں جو نیٹ پر ان لڑکیوں کو ایک ایسی تابناک تصویر کی منظر کشی کر کے اپنے مقاصد کے لئے تیار کرتے ہیں کہ وہ خود کو اس کے سحر میں مبتلا کرتے ہوئے آنے والے حالات سے بلکل نا بلد رہ جاتی ہیں۔ ان کی اس رومانویت کا سحر اس وقت ٹوٹتا ہے جب وہاں جا کر منظر کچھ اور ہی نظر آتا ہے۔ اور جب ان پر حقیقت کا یہ ادراک ہوتا ہے کہ یہاں آنے کے تو شاید بہت سے راستے تھے لیکن اب واپس جانے کا کوئی بھی راستہ نہیں۔ لہذاٰ یورپ سے جانے والی چھ ہزار لڑکیوں میں سے صرف دو لڑکیاں واپس آنے میں کامیاب ہو سکیں جب کہ مردوں میں یہ تعداد ذیادہ ہے کل مردوں میں سے تیس فیصد واپس آنے میں کامیاب رہے۔ تجزیاتی رپورٹوں کے مطابق وہاں پہنچنے والی لڑکیوں کی شادی جنگجوﺅں سے کر دی جاتی ہے ۔ ان کی خود مختاری صلب کر لی جاتی ہے ۔اور یہاں تک کہ وہ تنہا گھر سے باہر بھی نکل نہیں سکتیں ۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق داعش نے خواتین کے بارے دوہرا معیار اپنا رکھا ہے ۔ ایک طرف تو وہ خواتین کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں اور انہیں نیٹ ورکنگ کے زریعے اپنے مقاصد کے لئے تیار کرتے ہیں ۔ان میں شامل ہونے والی لڑکیوں کو خانسا بریگیڈ کا حصہ بھی بناتے ہیں جو شہروں میں گشت کرتی ہیں اور ایسی خواتین کو جو اسلامی شعائر کی خلاف ورزی کرتی ہیں انہیں بھیانک قسم کی سزائیں دیتی ہیں۔ اور دوسری طرف یہ تنظیم خواتین کو انتہائی کمتر انسان کا درجہ دیتی ہے۔اور انہیں جنگجوﺅں کو لڑائی کے بدلے انعام میں دیئے جانے والی کسی شے سے ذیادہ نہیں سمجھا جاتا ۔ دولت اسلامیہ نے اغوا کی جانے والی یزیدی لڑکیوں جن میں اکثریتی تعداد کم سن لڑکیوں کی تھی انہیں اپنی قید میں رکھا اوران سے بدترین سلوک کیا ۔یہاں تک کہ انہیں بیچنے کے لئے بازار بھی سجائے گئے۔ جنہیں ان جنگجوﺅں کے مختلف گروہ خریدتے ہیں۔ان لڑکیوں کے ساتھ جس قسم کا جنسی سلوک کیا جاتا ہے وہ اس بربریت کی ایک بھیانک تصویر ہے۔ داعش میں شامل ہونے کا خواب لے کر جانے والی لڑکی کی کسی نا کسی جنگجو سے شادی کر دی جاتی ہے۔اور اس کا بنیادی کام محض اس جنگجوکی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا ہوتا ہے ۔ہر لڑکی کو خانسا بریگیڈ کا حصہ نہیں بنایا جاتا ۔ عموماً جس جنگجو سے اس کی شادی کی جاتی ہے اس جنگجوکی عمر ذیادہ سے ذیادہ ایک یا دو ماہ ہوتی ہے اس کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ کو محض اس کی عدت پوری کرنے دی جاتی ہے اور اس کے بعد ایک نئے جنگجو سے اس کا نکاح کر دیا جاتا ہے اور پھر سے وہی کہانی دہرائی جاتی ہے اور اگر وہ بھی مر جائے تو پھر سے عدت اور اک نئے نکاح کے تکلیف دہ مراحل سے اسے گزرنا ہوتا ہے ۔اس طرح جہاد یا جنگ کا جو رومانوی خیال ایک لڑکی اپنی آنکھوں میں بسا کر گھر سے نکلتی ہے ، وہ پایہءتکمیل تک نہیں پہنچ پاتا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں بھی ایسی طالبات کا تنا سب بڑھتا جا رہا ہے ۔2015ءمیں اطلاعات تھیں کہ صوبہ پنجاب سے تین خواتین اپنے درجن بھر بچوں کے ساتھ شدت پسند تنظیم داعش میں شمولیت کے لئے شام روانہ ہوئیں ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع موصول ہوئی تھی کہ یہ لوگ کراچی اور گوادر کے راستے ایران سے شام چلے جاتے ہیں ۔ تاکہ دولت اسلامیہ میں شامل ہو سکیں۔ اس سلسلے میں ڈسکے سے آٹھ افراد ایسا نیٹ ورک چلاتے ہوئے پکڑے بھی گئے۔ جو کہ ان لوگوں کی بھرتیاں کرتے تھے۔ انہوں نے ٹریننگ کیمپ بھی بنا رکھا تھا جہاں ایسے افراد کی برین واشنگ کی جاتی تھی۔گزشتہ دنوں تقریباً بیس طالبات لاپتہ ہوئیں جن کے بارے یہی اطلاع ملی کہ وہ داعش میں شمولیت کے لئے روانہ ہوئیں ۔ مردوں میں ایسی خواہش کے پائے جانے کا ایک بڑا عنصر جہاں ان کی طبیعت میں شدت پسندی کا رحجان ہوتا ہے وہاں بیروزگاری اور غربت کے عنصر سے بھی انکار نہیںکیا جا سکتا ۔جو انہیں پہلے سے ہی زندگی سے بیزار کر چکا ہوتا ہے ایسے حالات میں وہ بہتر سمجھتے ہیں کہ جہاد میں شریک ہو کر ہی جان دے دی جائے۔لیکن دیکھا جائے تو خواتین کی طبیعت میں شدت پسندی کا عنصر تو بہت کم ہی پایا جاتا ہے۔اور ذیادہ تر خواتین جو اس طرف اپنا رخ موڑتی ہیں ان میں سے بہت کم ہی ایسی ہیں جو غربت سے چھٹکارے کے لئے اسے اپنی نجات کا ایک راستہ بنا لیتی ہیں۔ذیادہ تر یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی اور معاشی طور پر آسودہ حال ہوتی ہیں ۔پھر اس شدت پسند تنظیم کی طرف بڑھنے کے پیچھے کیا عوامل ہو سکتے ہیں؟ ۔۔۔روس سے بھاگ کر شام جانے والی ایک لڑکی جب راستے میں ہی پکڑی گئی اور اس پر مقدمہ چلایا گیا تو اس نے عدالت میں یہ بیان دیا کہ وہ داعش کے شدت پسند ایرت سماتوف سے محبت کرتی تھی ۔ان کی یہ باہمی محبت انٹرنیٹ پر ہی پروان چڑھی۔اور وہ اسی عشق میں اس کے پاس شام جا رہی تھی۔ لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لڑکیوں کی برین واشنگ ایسے ہی طریقے سے کی گئی ہو کہ پہلے انٹرنیٹ پر نسبتاً مذہب کی طرف مائل لڑکیوں سے محبت کا کھیل کھیلا گیا ہو اور اسی محبت میں ان کی سوچ اور فکر کو اپنے نظریات اور انداز فکر میں ڈھال کر دولت اسلامیہ کا حصہ بننے پر مجبور کیا گیا ہو ۔۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان میں اس تنظیم کا نیٹ ورک اب پہلے سے کئی گنا ذیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔کیونکہ خواہ ان لڑکیوں کو نیٹ کے ذریعے ہی ورغلایا جاتا ہے۔لیکن انہیں راستہ دکھانے کے لئے اور شام تک لے جانے کے تمام تر بندوبست کے لئے یہاں لوگ موجود ہیں ورنہ یہ لڑکیاں تن تنہا ایسے سفر کی کٹھنائیاں اور صعوبتیں اٹھا نہیں سکتیں ۔ ایک بھیانک حقیقت یہ ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائیٹس دونوں ہی طرح کی شدت پسندی کو بڑھاوا دینے کا باعث بن چکی ہیں ۔ ایک طرف شدت پسند جہادی تنظیمیں اس کا فائدہ اٹھا رہی ہیں تو دوسری طرف مذہب کے منکرین کھلم کھلا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ سوچنے کا پہلو یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو نیٹ سے وابستہ ہے وہ وقت کے ساتھ ساتھ اس سے وابستگی میں نا چاہتے ہوئے بھی اپنا ذیادہ سے ذیادہ وقت بیتانے لگتا ہے۔یہاں تک کہ اس کی فراغت کے تمام تر لمحات نیٹ سے ہی وابستہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔یہاں خوبصورت اور دل میں اترنے والی باتوں کا ایک طلسماتی جال انسان کو اپنے شکنجے میں لینے لگتا ہے ۔جو کہیں نا کہیں اس کی برین واشنگ کا کام بھی کرنے لگتا ہے ۔ سوشل نیٹ ورک پر دوسروں کے خیالات اور جذبات سے اثر لیتے لیتے انسان اپنی سوچ و فکر میں ایک انجانا سا بدلاﺅ محسوس کرنے لگتا ہے ۔یہی وہ اثر ہے جو مڈل ایسٹ میں بغاوت کو پھیلانے کا باعث بنا ۔گو کہ اس بغاوت نے پورے کے پورے خطے کو ایک بھیانک کشمکش اور خانہ جنگی میں بدل دیا ۔اسی اثر کو آزمانے کے لئے اسے کچھ لوگوں نے اپنے خاص عزائم کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ اس کا ایک سب سے ذیادہ تاریک پہلو جس کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوں گے وہ منکر ین مذہب کی چلائی گئی وہ سازش ہے جو ہر انسان کو متاثر کرنے لگی ہے ۔کچھ نوجوان جن کے پاس کوئی واضح رہنمائی موجود نہیں اور جو مغرب کے سکول آف تھا ٹ سے ذیادہ متاثر ہیں وہ تو بنا سوچے سمجھے ان منکرین کے پیچھے کھنچے چلے جارہے ہیں ۔لیکن وہ نوجوان جن پر مذہب کا کچھ خاص اثر ہے ۔ خواہ وہ اپنی سوچ میں کبھی شدت پسند نہیں رہے وہ جب ایسے منکر گروہوں کی اس منفی تحریک کو اتنے زورو شور سے چلتا دیکھتے ہیں تو انہیں اندر ہی اندر تکلیف محسوس ہونے لگتی ہے ۔وہ تکلیف جس کے مداوے کے لئے وہ خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں ۔۔وہ اپنی اسی بے بسی پر اندر ہی اندر کڑھنے لگتے ہیں ۔ان سے خدا اور اس کے رسول کی توہین برداشت نہیں ہوتی ۔وہ دل ہی دل میں اسلام کی مضبوطی اور اس کے نفاذ کی خواہش پیدا کرنے لگتے ہیں۔وہ ان الجھے ہوئے سوالات جو کہ منکرین کے پھیلائے ہوئے ہیں ان کا جواب بھی تلاش کرنے لگتے ہیں اور یہ جواب تلاش کرتے کرتے کب شدت پسندوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں انہیں خود بھی پتہ نہیں چلتا ۔ تو یہ غور طلب بات ہے کہ مذہب پر ہونے والے حملے مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر کم زور اور جذباتی طور پر بے قابو بنانے کے لئے کئے جا رہے ہیں ۔اگر ڈنمارک یا فرانس میں ایسی توہین پر مسلمان بے قابو ہو کر توہین کرنے والوں پر حملہ کر سکتے ہیں تو پھر داعش بھی اسی دکھتی رگ کو اپنے قابو میں کرنے اور پھر اس غم و غصے کو اپنے مقاصد و عزائم میں استعمال کرنے کے لئے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ اگر اس شدت پسندی کو بڑھنے سے روکنا ہے تو ” کسی کی ماں کو گالی دینے“ سے پرہیز کیا جانا ضروری ہے ۔ ہمیں ایک متوازن سوچ و فکر کو پروان چڑھانا ہو گا ۔مذہب کو برا کہنے کی بجائے مذہب کو مثبت طور پر پیش کرنا ہو گا ۔تاکہ دونوں ہی طرف کی انتہا پسندیوں سے نوجوانوں کو بچایا جا سکے۔۔