دو پیڑ لگا دو یار کہیں پر
(علی ارقم)
سر آپ سے ایک ضروری بات شیئر کرنی ہے۔\” میرے کلاس میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف کی دوسری قطار میں دیوار کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے انیس نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
لیکچر کے دوران بارہا وہ ساتھ میں بیٹھے سلیم کے ساتھ کھسر پھسر کرتا رہتا ہے، اور زیر لب مسکراتا بھی رہتا ہے، جس پر کبھی کبھار اسے ڈانٹ بھی پڑجاتی ہے۔ اس لئے میں نے اسے شک بھری نظر سے دیکھا کہ کہیں یہ اس کی مجھے لیکچر سے ہٹ کر بحث میں الجھانے کی کوشش تو نہیں ہے۔
لیکن اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر میں نے کہا، \”ہاں، بولو کیا بات ہے؟\”
’’سر بات یہ ہے کہ ہمارے ساتھ کی بلڈنگ کی بالائی منزل پر چیل نے گھونسلا بنایا تھا۔ جسے میں نے شام کو لکڑی سے گرادیا۔”
“اوہ، لیکن کیوں؟\” میں نے خفگی سے کہا۔
’’سر، وہ ساتھ والی آنٹی نے کہا تھا۔‘‘
’’دراصل وہ کسی کام سے بالائی منزل پر گئیں، تو چیل نے ان پر حملہ کردیا تھا، جس سے ان کی آنکھ کے نیچے چہرے پر زخم آگیا تھا۔‘‘
’’اور تو پھر؟‘‘
’’سر، جب میں نے گھونسلے پر ڈنڈا مارا تو وہ تیسری منزل سے سیدھا جاکر نیچے زمین پر آرہا، جاکے دیکھا تو اُس میں چیل کا چھوٹا بچہ بھی تھا، جو اتنی اونچائی سے گرنے کے باعث مرگیا تھا۔‘‘
’’مرے ہوئے بچے کو دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا، تب سے میں بہت گلٹی فیل کر رہا ہوں۔‘‘
’’ہاں افسوس کی بات تو ہے، اور گلٹی فیل ہونا نیچرل ہے‘‘۔
’’لیکن سر، اب میں کیا کرسکتا ہوں، آخر اس کی بھی تو غلطی ہے کہ ایسی جگہ گھونسلا بنایا۔ ‘‘
’’یار تم اپنا احساس گناہ کم کرنے کے لئے دو کام کرو، پہلے تو یہ سمجھو کہ چیل کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ کنکریٹ کی عمارت کے کسی کونے میں گھونسلا بناتی۔ دوسرا یہ کہ تم اس سلسلے میں کیا کرسکتے ہو، شارٹ ٹرم میں، اور لانگ ٹرم میں۔‘‘
بھئی ایک تو آبادیاں بڑھیں، تو ویرانے نہیں بچے، جس میں درخت اور جھاڑیاں ہوتیں۔ اور آبادیوں میں دیکھو تو درخت تو ہم نے چھوڑے نہیں ہیں، وہ جو درخت ہوا کرتے تھے گھروں میں، نیم کے، بیر کے، جامن کے، پیپل کے، وہ سارے کہاں گئے، بلڈنگز کھڑی ہوں گی تو اس میں درخت کی جگہ کہاں بچے گی۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ سوات کالونی میں ہمارے ساٹھ گز کے ایک کمرے کے مکان میں بڑ کا درخت تھا۔ جو بہت جلدی جلدی شاخیں اگاتا، گرمی میں اسے گھنا چھوڑ دیتے، اور سردیوں میں اس کی شاخیں کاٹ دی جاتیں۔
اسی گلی میں ایک گھر میں بیر کا درخت تھا، سامنے والے میں میٹھے لال باداموں کا، ساتھ والے میں املی کا، اور ذرا سا آگے جو ایک خالی پلاٹ تھا، اُس میں جامن کا پیڑ تھا۔ جس کی باہر کی نکلی شاخوں پہ لگے جامن ہمارا نشانہ ہوتے۔
اب وہاں جاؤ، تو نہ ان سب درختوں میں سے ایک بھی نہ بچا۔ اب پرندے جائیں، تو کہاں جائیں۔
شہر تو شہر، اب تو گاؤں بھی کنکریٹ کی اس عفریت کے نرغے میں ہیں۔ اس دن میرے آبائی گاؤں کے ہمارے پڑوس میں رہنے والے فضل الرحمن ماما کے پوتے علی احمد نے سوات میں خزاں کی آمد پر چنار کے درختوں کے بکھرے زرد پتوں کی تصویریں پوسٹ کی تھیں، تو میں نے پہلا سوال یہ پوچھا کہ گاؤں کی مسجد کا وہ ہمارے نانا جی کی عمر کا چنار کس حال میں نے ہے، تو اس نے کہا کہ وہ تعمیرات کی زد میں آگیا، تو دل کو ٹھیس سی لگی، کہ اے پارٹ آف آور پاسٹ ہیز اوینچلی ڈائیڈ بائی دی ہینڈز آف کنکریٹ ایکسپنشنز۔ (کنکریٹ کی ہر توسیع کے ساتھ ہمارے ماضی کا کچھ حصہ مر جاتا ہے)۔
کیسے زمانے آگئے، وہ یوسفی صاحب کہتے ہیں کہ مشرقی المیہ داستان کا ولین ناسٹلجیا ہے، تو ہمارے اس المیے میں اس ولین کا فٹ پرنٹ بڑھتا ہی جاتا ہے، پل بھر میں گزرے لمحے کو ماضی کا یہ اژدھا ہڑپتا چلا جاتا ہے۔ ابھی کوئی منظر آنکھ کی پتلی سے اترا بھی نہیں کہ ماضی نے آلیا اسے۔ گویا کوئی مگر مچھ ہے جو ہر وقت منہ کھولے سب کچھ ہڑپ لینے کو تیار بیٹھا ہے۔
وہ پشتو کا شاعر پیر محمد کاروان کہتا ہے،
مارغان دي راشي، زمونږ لپو کښې دي ځالې اوکړى
غر مو نښتر نه لرى، کلي مو چنار نه لرى
جس کا ترجمہ ہے کہ پرندے آکر ہمارے کف دست، یعنی ہتھیلیوں میں گھونسلے بنالیں، ہمارے کوہ دمن میں نہ صنوبر رہے، چنار رہے۔
تو بھئی آبادیاں صرف جنگوں سے تھوڑی نہ تاراج ہوا کرتی ہیں، آخر جنگ بھی تو کسی کی بربادی کے نام پر کسی اور کو آبادی کے خواب دکھانے کا نام ہے، تو ہم انسانوں نے بھی اپنی آبادی کی بنیاد فطرت کو تاراج کرنے کی قیمت پر رکھی ہے۔
دیکھا ہے کیسے چڑیوں کو تنکے بن کر آشیانہ بنانے کی جگہ نہیں ملتی تو وہ آپ کے کمروں کا رخ کرتے ہیں، کسی گوشہ عافیت کی تلاش میں پنکھے کے پروں کے ہاتھوں مارے بھی جاتے ہیں۔
تو اگر تم نے انفرادی سطح پر احساس جرم کو ایڈریس کرنا ہے، تو دو پیڑ لگا دو یار کہیں پر۔