(معصوم رضوی)
12 روز میں دہشتگردی کے 10 واقعات، 142 بیگناہ شہید، 400 سے زائد زخمی، ملک کے چاروں صوبے متاثر، عدلیہ، پولیس، میڈیا، درگاہ، بازار اور عوام نشانہ بنے۔ طویل عرصے بعد لگاتار دہشتگرد کارروائیوں نے واضح کر دیا ہے کہ مبہم اور نیم دلانہ پالیسیوں سے کام نہیں چلے گا ساتھ ہی بہت سارے سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ یہ سب کو پتہ ہے کہ حکومت، فوج اور عوام سب ایک پیج پر ہیں، کیا ہم جان سکتے ہیں کہ اس پیچ پر بنیادی سوالات کے جواب کیا ہیں۔ کیا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہماری کامیابیاں اتنی ہی ہیں جتنا کہ دعوے کیے جاتے ہیں؟ مذہب کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں، مگر یہ تو جاننا ہو گا کہ یہ سب کچھ کس نام پر ہو رہا ہے، مرنیوالے کون اور مارنے والے کون ہیں؟ دہشتگرد کی تعریف اور گڈ اور بیڈ طالبان میں کیا فرق ہے؟ کالعدم تنظیموں اور منافرت پھیلانے والوں کے موثر کارروائیاں کیوں نہیں ہوتیں؟ کون کون سے ادارے اہداف کے حصول ناکام رہے ہیں؟ سانحہ کوئٹہ کیمشن سمیت بڑے دہشتگردی واقعات میں کس کس ذمہ دار کیخلاف کارروائی کی گئی؟ اگر میں غلط نہیں تو اختیارات ہمیشہ احتساب سے مشروط ہوتے ہیں، کیا ناکامیوں کا بھرپور جائزہ لیا گیا؟ ایسے بہت سے سوال موجود ہیں جنکا جواب منافقت کا چولا اتار کر سیاسی اور تزویراتی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر تلاش کرنا پڑے گا۔ پہلے تو شاید یہ بحث درست تھی کہ یہ جنگ ہماری ہے کہ نہیں مگر اب تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ جنگ صرف اور صرف ہماری ہے، ملک اور نسل کے بقا کی جنگ، اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ دانشمندانہ اور فلسفیانہ موشگافیوں سے نکل کر حقیقت سے آنکھیں چار کرنی ہونگی۔ اداروں کا کردار یقینی طور پر قابل تعریف ہے مگر اتنا بھر پور نہیں جتنی توقع کی جاتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشتگردوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ آپریشن ردالفساد کی کامیابی اس وقت ممکن ہے جب نیشنل ایکشن پلان، فوجی عدالتیں اور آپریشن ضرب عضب کے نتائج کا کھلے دل سے تجزیہ کیا جائے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ ضرور دیکھنا ہو گا پیچھے کیا غلطیاں اور کوتاہییاں رہیں۔ کیا دہشتگردی کے خلاف جنگ کی پالیسی میں کہیں کوئی کجی، کوئی خامی تو موجود نہیں جو نتائج کے حصول میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ قوم کو بتایا تو جائے کہ جس پیج کا اتنا دھنڈورا پیٹا جاتا ہے اس پر لکھا کیا ہے؟
بہرحال گزشتہ دنوں دو ایسے بڑے فیصلے ضرور ہوئے ہیں جو امید کی کرن ثابت پو سکتے ہیں، امید ہو چلی ہے کہ پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے۔ پہلا فیصلہ تو افغانستان میں دہشتگرد ٹھکانوں پر بمباری، چمن اور طورخم سرحدیں بند کرنا ہے۔ افغانستان مسلسل پاکستان دشمنی پر آمادہ ہے اسکے باوجود تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی واپسی آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ طورخم اور چمن سے روزانہ ہزاروں افراد بنا دستاویزات پاکستان میں داخل ہو رہے تھے، شاید کچھ عرصے بعد دونوں سرحدیں کھل جائیں تو پھر یہ سلسلہ جاری ہو جائیگا، مگر کیوں؟ افغانستان حکومت کو بھی پاکستان سے کچھ شکایات ہونگی مگر اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ تمام احسانات بھلا کر دشمنی بھی کی جائے اور پھر پاکستان سے مہربانی کی توقع بھی رکھی جائے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ افغان حکومت ہی نہیں عوام کا بڑا طبقہ بھی پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کرنے میں پیچھے نہیں رہتا اور اگر ہمارے ملک میں افغانستان کے خلاف کوئی بات کی جائے تو سیاسی رہنمائوں کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا افغان سیاسی عمائدین بھی پاکستان کے حق ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں؟ موجودہ صورتحال میں پاکستان کیلئے بھارت اور افغانستان دونوں برابر ہیں۔ دوسری اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ بالاخر پنجاب میں نھی رینجرز کو اختیارات دے دیئے گئے، شاید یہ فیصلہ بہت پہلے ہونا چاہیئے تھا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تینوں صوبے جنوبی پنجاب کو دہشتگردوں کی آماجگاہ قرار دیتے ہیں تو پنجاب کو موقف یہ ہے کہ اب تک ہونیوالی تمام وارداتوں میں حملہ آور دوسرے صوبوں سے داخل ہوتے ہیں، شاید وقت آ گیا ہے کہ سیاسی و تزویراتی مصلحتوں کا بالائے طاق رکھکر پورے ملک میں دہشتگردوں اور سہولت کاروں کے خلاف بھرپور جنگ چھیڑی جائے۔ خیر اب آپریشن ردالفساد کا بھی آغاز ہو گیا، دیکھنا یہ ہے کہ اس کے ثمرات کب تک اور کتنے آتے ہیں۔
مشرف کا آپریشن راہ راست، کیانی کا راہ نجاب، راحیل شریف کا ضرب عضب اور اب جنرل قمر باجوہ کا آپریشن ردالفساد شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے جنرل ضیاالحق کی روحانی جنگ کی لپیٹ میں ہے، ہتھیار، ہیروئن، پناہ گزین، جہادی و تکفیری سوچ، معاشرے میں اجنبی روایات، مسلکی منافرت اور وسائل پر قبضہ، ہماری معاشرتی اقدار برباد ہو چکی ہیں۔ یہ کہنا کسی طور پر غلط نہیں کہ 1979 سے اب تک پاکستان نے اس جنگ کا بوجھ افغانستان سے کہیں زیادہ اٹھایا ہے۔ نجانے کتنے افغان باشندے آج پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے ساتھ ملک میں جائیداد و کاروبار کے مالک بنے بیٹھے ہیں؟ جنہیں نکالنا ممکن نہیں۔ اب 37 سال بعد ہمیں سی پیک کی شکل میں ایک موقعہ مل رہا ہے کہ کم از کم نئی نسل کو ایک خوشحال اور مضبوط پاکستان دے سکیں۔ قوموں کی زندگی میں ایسے موقعے بار بار نہیں آتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خوشحالی کا پودا دہماکوں، فسادات، خونریز سوچ اور وحشیانہ ماحول میں نہیں پنپتا۔ چین لاکھ ہمارا دیرینہ دوست سہی مگر کب تک پاکستان میں امن و امان کی اظمینان بخش صورتحال کا منتظر رہیگا۔ سی پیک یقینی طور پر گیم چینجر ہے مگر اسکے لئے پاکستان میں امن کا قیام نا گزیر ہے۔ کیا پاکستان یہ موقعہ گنوانے کا متحمل ہو سکتا ہے؟
دو کشتیوں میں سوار ہو کر دہشتگردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکتی، بلا تفریق، مسلک، ملت، سیاسی اور لسانی فرقہ بندی ہر دہشتگرد کو بنا کسی ابہام کے انجام تک پہنچانا ہو گا۔ حکومت، ادارے، سیاست اور شہری آزادی، یہ سب ریاست کے دم سے ہیں، پاکستان ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ نہیں۔ قوم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا بھرپور اختیار حکومت کو دیا ہے جس نے مختلف اختیارات اداروں کو سونپے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سیکورٹی اداروں اور پولیس کی قربانیوں کو قوم سلام پیش کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج اور پولیس نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ مگر کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ سب سے بڑی قربانی عوام نے دی ہے، ان گنت بے گناہ لاشے، لاکھوں اجڑے خاندانوں کی سوالیہ نگاہیں آخری فتح کی منتظر ہیں۔ بیشمار یتیم بچے، بیوہ عورتیں اور سوگوار مائیں ہم سے سوال پوچھنے کا پورا حق بھی رکھتے ہیں کہ تباہی کی یہ داستان کب انجام تک پہنچے گی؟