کی حمایت جاری ہے۔ اس لیے عوامی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف بیانیہ تبدیل نہیں ہوسکا ہے۔ دہشت گردی کی تازہ لہر کی وجوہ بھی یہی ہیں۔ حواس باختگی کے عالم میں لاہور، سہون، پشاور اور کوئٹہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سرکردہ افراد اور معصوم شہریوں کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیاں کی گئیں۔ لیکن ان سانحات کے بعد بھی عوام اور میڈیا کے کچھ حضرات نجی سطح اور سوشل میڈیا پر، دہشت گردوں کی حمایت کررہے ہیں۔ جو افسوس ناک امر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں ایسے دہشت گرد عناصر کے خلاف حکومت، مقتدر اداروں اور بعض دینی و سیاسی جماعتوں کا بیانیہ تبدیل ہوا ہے۔ وہیں عوامی سطح پر بھی ان عناصر کی حمایت کے بیانیے کو تبدیل کیا جائے۔ ا س لیے حکومت کو ان عناصر کے خلاف کھل کر کاروائی کرنی پڑے گی، جو اس وقت بھی مسجد و منبر سے، سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردی کی اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں یا مدارس میں دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں۔ مساجد کے باہر موجودہ حالات میں بھی کالعدم جہادی، مذہبی و مسلکی جماعتوں کے ارکان چندہ جمع کرتے نظر آتے ہیں۔ جب تک وسیع اور منظم پیمانے پر ان افراد کے خلاف کاروائی نہیں کی جاتی، عوامی سطح پر ان افراد کی حمایت کے لیے بیانیہ تبدیل ہونا مشکل ہے۔ (، )
دہشت گردی :عوامی سطح پربیانیہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے!
(سید محمد اشتیاق)
روس کے خلاف افغانستان میں امریکی مفادات کے لیے، جو جنگ عسکری اداروں اور دینی و مذہبی جماعتوں نے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر لڑی۔ اس کے اثرات دہشت گردی کی صورت میں وطن عزیز میں عرصہ دراز سے جاری ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس کی، افغانستان میں شکست کے بعد یا اپنے مفادات کی تکمیل کے بعد، مختلف دھڑوں کی جہادی تنظیمیں جو نسلی و مسلکی بنیادوں پر وجود میں آئیں تھیں، مالی و عسکری امداد ختم کردی۔ روس کے افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد، نسلی و مسلکی بنیادوں پر قائم، ان جہادی تنظیموں میں اقتدار کی رسّہ کشی کا آغاز ہوگیا۔ اقتدار کی اس رسّہ کشی کے سدّباب کے لیے حکومت پاکستان نے کئی دفعہ، ان جہادی رہنماؤں کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا۔ حرمین شریفین تک میں بھی معاہدے ہوئے لیکن سب بے سود ثابت ہوئے۔ مذاکرات اور معاہدوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ حکومت اور مقتدر اداروں، دینی و سیاسی جماعتوں اور ایک خاص مسلک کے مدارس و مذہبی شخصیات کی افغانستان کے سیاسی و مذہبی اور سماجی مسائل کے حل میں بے جا مداخلت تھی۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں حکومت، مقتدر اداروں، ایک خاص مسلک اور مدرسے کی حمایت سے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم کی گئی۔ اس دور میں، پاکستان اور افغانستان میں جہادی تنظیموں نے مضبوط بنیادوں پر قدم جمائے اور اور دنیا بھر سے ان تنظیموں کے سہولت کار دونوں ممالک میں بس گئے۔ کیونکہ ان جہادی تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں کے طالبان حکومت اور پاکستانی دینی و سیاسی جماعتوں سے خوشگوار تعلقات تھے۔ اس زمانے میں مسجد و منبر سے کھل عام ان تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں کی شان میں قصیدے پڑھے جانے کا آغاز ہوا۔ اب عوام بھی کھل عام مساجد کے باہر یا نجی سطح پر ان تنظیموں کی مالی امداد کرنے لگے۔ یوں کراچی جیسے شہر کی کئی مساجد اور مدارس پر ان تنظیموں کا اثر و رسوخ قائم ہوگیا۔ کوئی شک نہیں کہ طالبان افغانستان میں حکومت کرنے میں کامیاب رہے گو کہ شمالی اتحاد کی طرف سے اوائل میں مزاحمت کا سامنا کرناپڑا۔ صورتحال میں تبدیلی کا آغاز اس وقت ہوا، جب سوڈان میں مقیم سعودی شہری اسامہ بن لادن نے تنزانیہ اور کینیا میں امریکی سفارت خانوں پر دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی اور سوڈان سے بے دخل کیے جانے کے بعد افغانستان میں پناہ حاصل کرلی۔ امریکہ جس کی دلچسپی روس کے فوجی انخلاء کے بعد افغانستان سے کم ہوگئی تھی۔ اسامہ بن لادن کے افغانستان میں پناہ لینے کے بعد، دوبارہ اٖفغانستان کی طرف متوجہ ہوا۔ صدرکلنٹن کی صدارت کے آخری سال میں یہ واقعات رونما ہوئے تھے۔ امریکی حکومت نے طالبان سے اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا، جو طالبان نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اسامہ ہمارے مہمان ہیں اور جب تک چاہیں، یہاں قیام کرسکتے ہیں۔ اس رد عمل کے جواب میں امریکہ کی طرف سے قندھار پر کروز میزائیل حملہ بھی کیا گیا۔ اسامہ بن لادن اور طالبان کو پاکستانی جہادی تنظیموں اور پاکستان کی سیاسی و دینی جماعتوں اور شخصیات کی حمایت حاصل تھی، اس لیے امریکی مطالبہ پس پشت چلا گیا۔
9/11 کے حملوں کی ذمہ داری بھی اسامہ بن لادن نے قبول کی۔ امریکہ نے پھر طالبان حکومت سے اسامہ کی حوالگی کامطالبہ کیا جو مسترد کر دیا گیا۔ حکومت پاکستان اور مخلص دینی و سیاسی شخصیات نے طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان ثالثی کی کوشش کی۔ لیکن
طالبان اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔
امریکہ نے مطالبہ پورا نہ ہونے پر افغانستان پر اپنے اتحادیوں کی مدد سے حملے کا منصوبہ بنایا اور پاکستان سے بھی مدد مانگی۔ پاکستان کی طرف سے لاجسٹک اور عسکری سامان کی نقل و حمل کی سہولت اور فضائی حملوں کے لیے، فضائی اڈے دینے کی یقین دہانی کے بعد، امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ افغانستان پر حملہ کردیا۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بڑی تعداد میں طالبان حکومت کے عہدے دار، حامی اور جہادی تنظیموں کے افرادجو طالبان کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف مزاحمت کررہے تھے، پاکستان آگئے۔ افغانستان پر قبضے کے بعد بھی امریکیوں کو طالبان کی طرف سے چھاپہ مار کاروائیوں کا سامنا تھا۔ ان کاروائیوں کے خاتمے کے لیے امریکہ نے ڈرون حملوں کا سہارا لیا اور کافی حد تک کامیابی حاصل کی۔ امریکہ نے افغان حکومت بھی تشکیل دی اور افغانیوں کی فوجی تربیت بھی کی۔ امریکی اور اس کے اتحادی ممالک کی فوج، ا س وقت بھی افغانستان میں موجود ہے۔ امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت، پاکستان کی دینی و سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہر دور میں کی جاتی رہی ہے۔ کیونکہ ان حملوں میں بے گناہ افراد کی ہلاکت بھی ہوتی رہی ہے۔
امریکہ نے جب افغانستان پر قبضہ کیا اورڈرون حملے شروع کئے تو جوابی کاروائی کے طور پر جہادی تنظیموں کے افراد نے وطن عزیز میں عسکری اداروں کی تنصیبات پر حملے کئے۔ کیونکہ ریاستی سطح پر جہادی تنظیموں اور ان کے رہنماؤں کے لیے ریاستی بیانیہ جزوی طور پر تبدیل ہوا تھا۔ ان حملوں کو وطن عزیز کی بعض دینی و سیاسی جماعتیں اور مذہبی شخصیات، ڈروں حملوں کے جواز کے طور پر پیش کرتی رہیں۔ 2008 ء میں جمہوری حکومت کے قیام کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آگئی۔ کچھ دینی و سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی بجائے، مذاکرات کا مشورہ دے رہیں تھیں۔ پھر بھی سوات میں جزوی فوجی آپریشن بھی کیا گیا۔ لیکن حالات مکمل طور پر قابو میں نہ آسکے۔ مئی 2011 ء میں امریکہ نے رات کی تاریکی میں سرزمین پاکستان (ایبٹ آباد) میں ایک کمپاؤنڈ پر حملہ کیا اور اسامہ کی ہلاکت کا دعوی کیا۔ اس واقعہ کی بھی حکومت، متحدہ اور ANP کے علاوہ تقریبا تمام دینی و سیاسی جماعتوں نے مخالفت کی۔ اسامہ کی ہلاکت کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ 2013 ء مسلم لیگ کی حکومت برسر اقتدار آئی۔ اس دفعہ حکومت نے باقاعدہ طور پر دہشت گردوں سے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے تعاون سے مذاکرات کی راہ اپنائی۔ دوران مذاکرات سانحہ آرمی پبلک اسکول وقوع پذیر ہوا۔ جس کے بعد نیشنل ایکشن پروگرام ترتیب دیا گیا اور ایسے عناصر جو دہشت گردی کرتے ہیں یا اس کے سہولت کار ہیں، کے خلاف کاروائیوں کا آغاز کیا گیا۔ کیونکہ دہشت گردی کی ان کاروائیوں کا نشانہ براہ راست عوام بننا شروع ہوگئے تھے۔
9/11 اور خاص طور پر سانحہ APS کے بعد کالعدم جہادی و مذہبی تنظیموں کے خلاف ریاستی سطح پر بیانیہ واضح طور پر تبدیل ہوا ہے۔ لیکن اس وقت بھی کچھ حکومتی افراد، دینی و سیاسی جماعتیں اور شخصیات درپردہ یا سوشل میڈیا پردہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اچھے اور برے طالبان کی گردان اور بیانیہ ا بھی بھی مکمل طور پرختم نہیں ہواہے۔ کچھ مساجد اور مدارس سے ابھی بھی دہشت گردوں