دہشت گردی کی حالیہ لہر:راستہ کوئی اور ہے

ایک روزن لکھاری
سید کاشف رضا

(سیّد کاشف رضا)

اگر آپ لاہور جانے کے لیے گھر سے نکلے ہوں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسی سڑک، کوئی ایسا راستہ اختیار کریں جس کی سمت بالآخر لاہور کی جانب ہو۔ لیکن اگر آپ کراچی سے لاہور کے لیے نکلے ہوں اور آپ گوادر سے ہوتے ہوئے ایران اور توران جا رہے ہوں تو آپ کی نیک نیتی کے باوجود اس بات کا امکان کم ہے کہ آپ لاہور پہنچ پائیں گے۔ بات بالکل سامنے کی ہے لیکن کرنی یوں پڑی کہ پاکستان میں دہشت گردی کے تناظر میں ایک سادہ سی بات بھی ہمارے عوام کی اکثریت اور فیصلہ ساز حلقوں کو سمجھ نہیں آ رہی۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر اور خاص طور پر سیہون میں درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر پر دھماکے میں نوے کے قریب افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد ملک بھر میں سیکیورٹی فورسز حرکت میں آئی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ملک گیر آپریشن میں سو سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار تین سے اب تک جن افراد کو دہشت گرد قرار دے کر ہلاک کیا گیا ہے ان کی تعداد تیتیس ہزار تین سو پینتالیس ہو چکی ہے۔آپ سوچیں گے کہ یہ تعداد تو بہت بڑی ہے۔ سوات، شمالی اور جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں زمینی اور فضائی کارروائی کے بعد مرنے والے دہشت گردوں کی تعداد سے متعلق ایک تفصیل جاری کر دی جاتی تھی جو میڈیا من و عن شائع اور نشر کر دیا کرتا تھا۔ اس لیے اس تعداد کی تصدیق شاید کسی طرح ممکن نہ ہو سکے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے ڈانڈے افغانستان میں موجود شدت پسند قیادت سے ملائے جا رہے ہیں۔ اور یقیناًملا فضل اللہ اور عمر خالد خراسانی افغانستان میں ہی مقیم ہیں جنھیں پکڑنے کی پہلی ذمہ داری افغان حکومت کی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کیا چل رہا ہے؟

اسے سمجھنا فی الحال کوئی آسان نہیں۔ لیکن فضل اللہ اور خراسانی کے ساتھی، سہولت کار اور نظریاتی حلیف پاکستان میں ہی موجود ہیں اور بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملک میں تیتیس ہزار تین سو پینتالیس دہشت گرد مارے جا چکے ہیں تو پھر دہشت گردی میں کمی واقع کیوں نہیں ہو رہی؟ اور اگر اتنے دہشت گردوں کے مارے جانے سے بھی دہشت گردی کم نہیں ہوئی تو مزید سو دہشت گردوں کے مارے جانے سے کیا کم ہو جائے گی؟ کاش کم ہو جاتی۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ہم جس راستے پر سفر کر رہے ہیں وہ دہشت گردی کے خاتمے کی منزل کی طرف نہیں جا رہا۔
اگر ان تیتیس ہزار تین سو پینتالیس ہلاک شدگان کو ریاست نے دہشت گرد قرار دیا ہے تو ریاست کے اس موقف کے حقیقی مخالف وہ لوگ ہیں جو کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں دھماکے امریکی بلیک واٹر اور یہود و ہنود کرا رہے ہیں۔ایک سوال ان عناصر سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ جب ہلاک ہونے والے تیتیس ہزار تین سو پینتالیس دہشت گردوں میں سے لگ بھگ تیتیس ہزار دہشت گرد پاکستانی اور مسلمان تھے، تو پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی میں کوئی مسلمان اور کوئی پاکستانی ملوث نہیں ہو سکتا۔ ان عناصر کا دوسرا موقف یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تمام افراد دہشت گرد نہیں تھے اور ریاست نے انھیں مار کر غلط کیا۔ اس صورت میں بھی یہی عناصر ریاست کے حریف ٹھہرتے ہیں اور ریاست اگر اپنے موقف کو درست سمجھتی ہے تو اسے ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے تھی جو مارے جانے والے ’دہشت گردوں ‘کے بارے میں کسی نہ کسی حوالے سے نرم گوشہ رکھتے تھے۔
ان عناصر کے بیانیے کو چیلنج کرنے کا وعدہ تو حکومت اور ریاست نے کیا، لیکن اس سلسلے میں عملی قدم ان پاکستانیوں نے اٹھایا جو جمہوریت پر یقین رکھتے تھے، جو ریاستی معاملات کے حل کے لیے تشدد کے بجائے مکالمے پر یقین رکھتے تھے اور جو ریاستی امور میں مذہب کی شمولیت کو کم کرنے کے حامی تھے۔ اس حلقے میں روشن خیال علمائے دین بھی شامل ہیں مگر اس حلقے کی اکثریت جدید تعلیم سے بہرہ ور اور خود کو سیکولر اور لبرل کہلانے پر اصرار کرتی ہے۔ یہ وہ حلقہ ہے جس کے ہاتھ میں صرف قلم ہے اور جو اخبارات اور میڈیا کے بجائے اپنے خیالات کا اظہار سوشل میڈیا پر کرتے ہیں۔ اس حلقے کا مقابلہ بندوق برداروں اور ان کے حاشیہ بردار فتویٰ پردازوں سے ہے۔ ایسے میں اس حلقے نے اپنی امیدیں ریاست سے لگا رکھی تھیں جس نے آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا اور دہشت گردی کے خلاف نیا بیانیہ تشکیل دینے کی بات کی تھی۔ یہ لوگ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد چاہتے تھے اور اس میں کوتاہی دیکھتے تو ریاستی اداروں پر تنقید بھی کرتے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ پچھلے تین چار ماہ کے دوران یہ حلقہ، جو بندوق برداروں اور فتویٰ پردازوں کی جانب سے پہلے ہی خطرے میں تھا، ریاست کی جانب سے بھی خدشات محسوس کرنے لگا۔
پچھلے تین چار ماہ کے دوران ریاست کی توجہ اس حلقے کی جانب رہی جو ملک میں دہشت گردوں کے مخالف بیانیہ تشکیل دے سکتا تھا۔ سوشل میڈیا پر متحرک پانچ بلاگر اغوا کر لیے گئے اور اس کے بعد ان کے خلاف توہین مذہب کی ایک افسوس ناک مہم چلائی گئی۔ اس مہم کی ابتداء ایک ایسے سابق سرکاری ملازم اینکر نے کی جو طالبان کی حمایت کے لیے معروف رہا ہے۔ اس کے بعد کراچی کے ایک مذہبی شدت پسند اخبار اور ایک مشکوک نیوز چینل کو استعمال کیا گیا۔اس نیوز چینل کے اینکر کو کمک کی صورت میں جو آڈیو وژول مواد فراہم کیا گیا اس پر بھی ایک خاص چھاپ نظر آئی۔ اس اینکر کا تمام تر نشانہ وہی حلقہ تھا جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ متبادل بیانیہ تشکیل دینے والوں کو سرکاری آشیرواد فراہم کی جائے۔ یہ لوگ رضاکارانہ کام کر رہے ہیں اور آزاد فکر ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا کے انسانوں کو ہنستے کھیلتے دیکھتے ہیں تو ان کا بھی جی چاہتا ہے کہ ان کی دھرتی پر بھی خوشیاں لہلہائیں اور لوگ زندگی کو ایک نعمت سمجھ کر جئیں۔ بدلے میں انھیں ستائش کی تمنا ہے نہ صلے کی پرواہ۔ ان کی جانب سے حکومت اور ریاستی اداروں پر تنقید ہوتی ہے تو اس کا منبع بھی وہی آزاد فکری ہے جس کے سبب وہ ایک متبادل بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک میں جمہوری روایات کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کی تنقید کو بھی کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے۔
لیکن ہوا یہ کہ پچھلے تین چار ماہ میں ریاستی ادارے ان لوگوں کے خلاف مصروفِ عمل نظر آئے جو ملک میں دہشت گردی کے حامیوں کے بیانیے کا توڑ کر رہے تھے۔ اس دوران دہشت گردوں کو اپنی ٹوٹی ہوئی کمر سیدھی کرنے کا موقع مل گیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ دوسری جانب وہ حلقہ جو طالبان کی کارروائیوں کو کسی نہ کسی صورت جسٹی فائی کرتا رہا تھا اسے ایک بار پھر حب الوطنی کا چیمپئن بننے کا موقع مل گیا۔ جب کہ متبادل بیانیہ تشکیل دینے کے خواہش مند غداری اور کفر کے فتووں کا سامنا کرنے لگے۔
ایسے میں سو پاکستانیوں کی جان کے بدلے میں سو افراد کو دہشت گرد قرار دے کر مار دینے سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ اگر ایسا ہونا ہوتا تو تیتیس ہزار دہشت گردوں کے مارے جانے سے یہ مقصد بہت پہلے حاصل ہو چکا ہوتا۔ہمارے ملک میں مسئلہ دہشت گردوں کے خاتمے کا نہیں، دہشت گردی کی ان نرسریوں کے خاتمے کا ہے جنھیں مذہبی بنیاد پر نفرت کا کاروبار کرنے والے تقویت فراہم کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ تبھی کام یاب ہو گی جب دہشت گردوں کے بیانیے کو شکست دی جائے گی۔ لیکن اگر متبادل بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کرنے والوں ہی کے خلاف اقدامات کیے جائیں گے تو پھر یہی کہنا پڑے گا کہ ہم جدھر جانے کے خواہش مند ہیں ابھی ہم نے اس سمت سفر شروع بھی نہیں کیا۔سفر طویل ہے۔ بہت طویل۔ لیکن سفر درست سمت میں شروع بھی تو ہو۔اور شروع ہونے سے پہلے غلطی کا احساس تو ہو جائے۔ یہ احساس ہو جائے تو ایک بار تو سوال بھی حیرانی سے چپ سادھ لیں گے۔
وہ جو لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انھیں غور سے
جنھیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

About سیّد کاشف رضا 27 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔