(ملک تنویر احمد)
تقسیم ہند سے پہلے حیدر آباد (سندھ) کے مقیم دیوان دیا را م گدو مل ایک مشہور سماجی رہنما تھے جن کی سماج کے لئے خدمات بے پایاں تھیں۔ دیوان صاحب کی سماج کے لئے کیا گراں قدر خدمات انجام دیں؟ اس کا انداز ہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حیدر آباد میں جب لوگوں کو یہ علم ہوتا کہ آپ اس بازار سے گزریں گے تو لوگ وقت سے پہلے انتظار میں کھڑے ہو جاتے اور آپ سے عقیدت کا اظہار کرتے۔
سماج میں غربیوں، مسکینوں اور ناداروں کی مدد و اعانت کے لئے دیوان دیا رام اسے امیر طبقات میں تحریک دینے کے لئے ہمیشہ سر گرم وہے اس لئے انہوں نے بمبئی میں ایک اخلاقی آشرم بھی قائم کیا جس میں طبقہ امراء سے تعلق رکھنے والے لڑکے اور لڑکیاں آتے جنہیں دیوان صاحب غربیوں کی خدمات کا درس دیتے۔ اس آشرم کو جاری ہوئے کئی برس ہوئے تھے کہ ایک نوجوان لڑکی جس کے والد بمبئی میں ایک بڑے سرکاری عہدہ پر فائز تھے اس آشرم میں دیوان گدو مل کے پاس آئی۔ اس لڑکی نے دیوان صاحب سے تنہائی میں کچھ بات کی۔ کچھ روز گزرنے کے بعد دیوان دیا رام گدو مل نے اس نوجوان لڑکی سے شادی کر لی۔
یاد رہے کہ دیوان صاحب اس وقت پیرانہ سال تھے جب کہ یہ لڑکی سولہ سترہ سال کے سن میں تھی۔ دیوان صاحب کی شادی کی خبر ہندوستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو ایک طوفان برپا ہو گیا۔ مشہور صحافی دیوان سنگھ مفتون اپنی تصنیف ’’ناقابل فراموش‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے اخبارات میں اس شادی پر بے شمار طنزیہ اور تضحیک آمیز مضمون باندھے گئے۔ مثلاً ’’باپ کی بیٹی سے شادی، نفس پرستی کی انتہا، گدومل کا ذلت آفرین فعل‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
مسٹر ویرو مل جی ، ایڈیٹر ’’سندھی‘‘ سکھر جو دیوان صاحب کے ساتھ سماجی کاموں میں شامل رہے انہوں نے اس شادی پر ایک خط لکھا جس میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’مجھے اس خبر پر یقین نہیں آتا کہ آپ اتنا بڑا پاپ کر سکتے ہیں۔‘‘ اس شادی کی مخالفت فقط اخبارات تک ہی محدود نہ تھی جب آپ ایک بار خاندانی جائیداد کی رجسٹری کے لئے حیدر آباد آئے تو جس راہ سے آپ گزرے تو لوگو ں نے آپ پر پتھر اور اینٹیں برسائی اور یہ کہہ کر ماں بہن کی گالیاں دیں کہ اس نے حیدر آباد کو دینا میں رسوا و ذلیل کر دیا۔
ایک نوجوان لڑکی سے شادی کے بعد دیوان گدو مل اپنی بیوی کے ساتھ بمبئی سے چند میل کے فاصلے پر باندرہ گئے وہاں انہوں نے ایک کوٹھی کرائے پر لی جو سمندر کے کنارے اور آبادی سے کچھ فاصلے پر تھی۔ دیوان صاحب شادی کے بعد دنیا سے الگ رہے اور اسی کوٹھی میں زندگی کے ماہ و سال گزارنے لگے۔ اسی طرح دس سال گزر گئے کہ دیوان صاحب کی بیوی تپ دق میں مبتلا ہو گئیں۔ جب زندگی کی کوئی امید نہ رہی تو لڑکی کے والدین اس کی عیادت کے لئے پہنچے۔ ایک روز اس لڑکی نے اپنی ماں سے تنہائی میں کہا:
’’اماں! اب میں زندہ نہیں رہوں گی۔ چند روز کی مہمان ہوں۔ مگر ایک راز تم پر ظاہر کرنا چاہتی ہو تاکہ یہ راز میرے ساتھ دنیا سے رخصت نہ ہو جائے، دراصل دیوان صاحب نے میرے ساتھ شادی میری عزت بچانے کے لئے تھی۔ مجھے ایک لڑکے سے ناجائز حمل تھا۔ اس لڑکے نے میرے ساتھ شادی کرنا تو کجا بات کرنا تک ترک کر دی تھی۔ کوئی دوسرا مجھے پناہ دینے کو تیار نہ تھا۔ میری عزت بچانے کے لئے دیوان صاحب نے اپنی آل انڈیا شہرت اور عزت کو میرے لئے قربان کر دیا اور مجھ سے شادی کر لی (یاد رہے کہ اس ناجائز حمل کے نتیجے میں دیوان صاحب کی ’’بیوی‘‘ کے بطن سے ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی جب دیوان صاحب باندرہ میں الگ تھلگ رہ رہے تھے)‘‘
یہ لڑکی دیوان صاحب سے اس وقت ملی تھی جب وہ بمبئی میں اخلاقی آشرم چلا رہے تھے اور انہوں نے اس لڑکے کو بھی اس شادی پر راضی کرنے کی بہتیری کوشش کی تھی جس سے ناجائز حمل ٹھہرا تھا لیکن وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہوئے۔ مزید براں ان کی کسی دوسرے لڑکے سے اس لڑکی کی شادی کی کوشش بھی بارآور ثابت نہ ہو سکی۔ دیوان سنگھ مفتوں لکھتے ہیں کہ اس لڑکی کی موت کے بعد یہ راز نہ رہا اور یہ طشت ازبام ہوئی کہ دیوان دیا رام گدو مل نے کس طرح ایک لڑکی کے دامن پر لگے ہوئے داغ دھونے کے لئے اپنی عزت و شہرت کو قربان کر ڈالا۔ نہ انہوں نے کسی سے اس کا صلہ طلب کیا اور نہ ستائش کی چاہت کی کہ ایسے لوگ ایسی دنیاوی اغراض سے بالا تر ہوتے ہیں۔
( یہ اظہاریہ ہندو برادری کے ہولی کے تہوار کی مناسبت سے دیوان دیا رام گدو مل جیسے مہان انسان کی عظمت کی نذر)