ذوالفقار علی بھٹو شہید کے آخری ایام

(پروفیسر فتح محمد ملک)

یہ دستاویز کرنل (ریٹائرڈ) محمد رفیع کے چشم دید واقعات اور ذاتی مشاہدات پر مشتمل ہے۔ کرنل رفیع کوئی سیاست دان نہیں سپاہی ہیں، ایک سچّے ، کھرے، نِڈر اور فرض شناس سپاہی۔ اتفاقاتِ زمانہ نے ایک وقت میں انہیں تاریخ کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا تھا۔ وہ شخص جس نے تاریخ کے ہاتھوں قتل ہونے کی بجائے قید و بند قبول کرنے اور دارورسن چومنے کا

fateh-muhammad-malik

راستہ منتخب کیا تھا اسے کرنل رفیع کی نگرانی میں دے دیا گیا تھا۔ کرنل رفیع نے اپنا فرض فولاد کے دل کے ساتھ ادا کیا مگر جب فرض سے سبکدوش ہوئے تو کُھلا کہ فولاد کا دل تو اندر ہی اندر پگھل چکا ہے اور اُس کے اندر تاریخی صداقتیں دھڑک رہی ہیں۔ کرنل رفیع کے سامنے ہماری بنتی بگڑتی ہوئی تاریخ کِتنی آتشیں تھی کہ اُس کی آنچ میں فولاد پگھل کرخون بن گیا۔
کرنل رفیع کی رگوں میں لہریں لینے والا خون بڑا سرکش اور جنونی خون ہے۔ اُن کا خمیر پنجاب کے ایک ایسے پسماندہ، پتھریلے علاقے کی مٹی سے اُٹھا ہے اور اُن کی پرورش اُن غریب و غیّور ہواؤں میں ہوئی ہے جہاں سَرکٹا دینا آسان ہے مگر گواہی کی صداقت پر کوئی حرف برداشت کرنا مشکل ہے۔ اس کتاب کے سلسلے میں بھی کرنل رفیع بڑے استقلال کے ساتھ آزمائش پر پورے اُترے ہیں۔ انہوں نے جو سُنا، جو دیکھا اور جو محسوس کیا اُسے بے کم و کاست بیان کر دیا ہے۔ وہ نہ کسی کے رعب داب میں آئے اور نہ کسی کی ترغیب و تحریص میں بلکہ ’’ہزار خوف ہو لیکن زُبان ہو دل کی رفیق‘‘ کے مسلکِ حق پر قائم رہے۔ کرنل رفیع نے نہ تو اس بات کی پرواہ کی کہ کتاب کے مندرجات سے بھٹو خاندان کے کسی فردکے ماتھے پر بَل آ جائیں گے اور نہ وہ اس اندیشے کو خاطر میں لائے کہ بھٹو کے قاتل اور اُن کے حاشیہ بردار آتش زیرپا ہو جائیں گے۔ انہیں اگر پرواہ ہے تو فقط اس بات کی کہ سچ پر کسی صورت میں بھی کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ صد شکر کہ انہوں نے گواہی کا ناموس خاک میں نہ ملنے دیا اور سچ کی حُرمت بڑی شان کے ساتھ برقرار رکھی۔ کرنل رفیع کی جرأتِ اظہاراور صداقتِ بیان نے ہماری حالیہ تاریخ کے گرد سے اَٹے ہوئے چہرے کو صاف شفاف کر کے تابناک بنا دیا ہے۔
مَیں کوئی سیاستدان نہیں، ادیب ہوں۔ میرے لیے یہ دستاویز ایک جداگانہ اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے عصری ادب میں بھٹو شہید کا اِمیج ایک شہید کا اِمیج (IMAGE) ہے۔ہمارے ادب و شعر میں بھٹو کی یاد جس رُومانی ہالے میں جگمگا رہی ہے اُس میں صداقت اور شہادت کے رنگوں کی دھنک اپنی بہار دکھا رہی ہے۔ صرف ایک شاعر۔۔۔احمد ندیم قاسمی۔۔۔نے معزولی سے لے کر تختۂِ دار تک بھٹو شہیدکے مصائب کو اپنے ذاتی دکھوں اور اپنی قومی سرگزشت میں تحلیل کر کے جو نظمیں لکھی ہیں اُن کا مرکزی حوالہ بھٹوؔ کا یہ کارنامہ ہے کہ اُنہوں نے بے کس و پامال خلقِ خدا کی اجتماعی آرزوؤں کو زُبان دی اور اُنہیں اپنی قوت و عظمت اور شان و شوکت کا شعور بخشا۔ بھٹوؔ اُس زبانِ خلق کی تجسیم تھا جسے نقّارۂِ خدا کہتے ہیں۔ جب بھٹوؔ کا جسم پھانسی کے پھندے میں جُھول چکا تب یہ بات ہر کَس و ناکَس پر روشن ہو گئی کہ بھٹوؔ تو فقط آواز تھا اور یہ آواز نہ صرف زندہ سلامت ہے بلکہ اب کچھ اور بھی ناقابلِ تسخیر ہو گئی ہے:
تم اُس کی آواز پارہ پارہ نہ کر سکو گے
کہ جسم تو خیر جسم تھا اور شکستنی تھا
۔۔۔۔۔۔
مار ڈالے گا اُسے جرم کا احساس ندیمؔ
قتل کر کے جسے مقتول پہ سبقت نہ ملی
اِحساسِ جرم کے شکار حکمرانوں نے بھٹوؔ شہیدکے نام کو مٹانے اور اُس کے کارناموں پر پردہ ڈالنے کی بھرپور کوششیں کیں مگر انسانی تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب بھی بزورِ شمشیر کسی ہیرو کا نام مٹانے کی کوشش کی گئی، عوام الناس میں اُس کی شخصیت اساطیری عظمت اختیار کر گئی اور اُس کے کارناموں کی رومانی داستانوں سے سینوں میں آگ دہکنے لگی اور اُس کا نام آتے ہی خون جوش مارنے لگا۔ ہمارے ہاں بھٹوؔ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ درباری مؤرخوں اور ذرائع ابلاغ کے ناخداؤں کی پھیلائی ہوئی کِذب و اِفترا اور نیم صداقت نے عوام کے دِلوں میں بھٹو کی شخصیت کو صنمیاتی حُسن بخش دیا ہے۔ خیر، مَیں تو ایک ادیب ہوں اور یہ جان کر خوش ہوں کہ اِس کتاب میں بھٹوؔ کی جو تصویر اُبھرتی ہے وہ بھٹوؔ کے اُس اِمیج کو روشن تر کر دیتی ہے جو ہماری عصری شاعری میں جلوہ گر ہے۔