(ڈاکٹررفیق سندیلوی)
بانو قدسیہ نے اپنے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ کو تین حصوں میں منقسم کیا ہے:شام سمے ۔۔۔ عشق لاحاصل، دن ڈھلے۔۔۔ لامتناہی تجسس، دن چڑھے۔۔۔ رزق حرام ۔یہ تینوں عناصر مل کر انسان میں دیوانگی کی قوت کو نمو دیتے ہیں۔ بانوقدسیہ نے گدھ کی علامت کے ذریعے انسانی دیوانگی کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے اور اس کا انطباق قیوم پر کیا ہے جو کہ اس کا ہیرو ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ گدھ کی مردار خوری اور اس پس منظر میں ابھرنے والی بے چینی اور دیوانگی انسان کے جنسی تشخص سے کس حد تک مشابہ ہے۔ جانوروں کی صفاتی ارواح کو انسانوں کے اچھے یا برے پہلوؤں سے کنایتہ جوڑکر دیکھنے کی روش ادب میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ اقبال نے بھی مرد مومن کو شاہین کی علامت تفویض کی تھی گوکہ شاہین کی سرشت میں فرومایہ پرندوں پر جھپٹنے اور انہیں شکار کرنے کی خو موجود ہوتی ہے لیکن اقبال نے اس علامت کے فسطائی رخ کے بجائے صرف شاہین کی آزادی، خودداری اور بلند نگاہی کو ذہن میں رکھا تھا۔ علامت کے سارے رخ یکساں اور مماثل نہیں ہو سکتے ۔گدھ کی علامت اسفل ترین انسان کے لیے بھی وضع کی گئی ہے جو اپنی مردارخوری کی وجہ سے اداس اور بے قرار رہتا ہے۔ ابدیت کی خواہش اور دنیا کی ناپائداری اسے شکست و ریخت میں مبتلا رکھتی ہے اور وہ اپنی ہی اس کیفیت کی کنہ تک نہیں پہنچ پاتا۔اس مقصد کے لیے پرندوں کے اجلاس کا پورا ایک پس منظر مہیا کیا گیا ہے جس کے ذریعے دیوانگی کے باریک اور لطیف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور بطور خاص انسان میں تبدیلئ سرشت کی قدرت کا نکتہ سامنے آتا ہے۔
راجہ گدھ کے مقدمے اور اس ضمن میں پرندوں کی وکالت سے متعلقہ مواد کو ناول کے وقوعاتی تسلسل میں مناسب جگہ دی گئی ہے جس سے یہ مواد ناول کا ایک ایسا جزو بن گیا ہے جو دلچسپ اور مربوط بھی ہے اور اپنے سیاق وسباق میں ناول کی بنت کے اس تخلیقی حسن کا غماز بھی ہے جس نے ایک مخصوص تکنیک اورتفکر کے انضمام سے وجود پایا اور جس کی نمود میں بانو قدسیہ کے طویل ادبی تجربے کو بھی خاصا دخل رہا۔ یقیناً اس سلسلے میں مصنفہ نے ذہانت کے ساتھ پیشگی منصوبہ بندی سے کام لیا ہے، جس نے ایک طرف تو ناول کو بے مہار ہونے سے بچائے رکھا اور دوسری طرف نظریات کی پیشکش میں رکاوٹ پیدا نہیں ہونے دی، قطع نظر اس سے کہ نظریات کی حیثیت قابلِ قبول ٹھہرتی ہے یا قابلِ تردید۔
بانو قدسیہ کے نزدیک دیوانگی دو طرح کی ہے۔ ایک وہ دیوانگی جس کا انجام مکمل پاگل پن ہے اور دوسری دیوانگی کی وہ شکل ہے جو روح کو توانائی عطا کرتی ہے اور الہام پر منتج ہوتی ہے۔مگر بانو کے نزدیک المیہ یہ ہے کہ دیوانگی کی دوسری شکل کو بھی پاگل پن ہی سمجھ لیا جاتا ہے۔کچھ لوگ دیوانگی کے اس زینے پر پہنچ جاتے ہیں جہاں حالتِ استغراق اور کیفیتِ الہام کا ملکہ حاصل ہو جاتا ہے جیسے سیمی‘ آفتاب کے بارے میں بغیر دیکھے ہی تصور کر لیتی ہے کہ اس کی ٹھوڑی پر شیو کرتے وقت کٹ لگ گیا ہے‘بعد میں قیوم جس کی تصدیق کرتا ہے‘مگر یہ sensivityکی ابتدائی نہج ہے ۔بعض لوگ بچپن ہی سے کشفی طاقتوں سے متصف ہوتے ہیں مگر انہیں عام پاگلوں کی قطار میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ آفتاب کا بیٹا افراہیم ایسا ہی بچہ ہے جو کبھی مدینے نہیں گیا لیکن ایک موقعے پرکہتا ہے:
’’وہ دیکھئے ابو کبوتر اڑ رہے ہیں ‘مدینے کی سڑکوں پر لوگ بھا گ رہے ہیں ۔اس گنبد کی طرف ۔۔روسی‘امریکی‘۔۔افریقی‘۔اذان ہو رہی ہے ابو۔۔۔آپ کو لوگ بھاگتے نظر نہیں آتے؟کیا آپ واقعی اذان کی آواز نہیں سن سکتے۔وہ دیکھئے چار مؤذن ایک ہی وقت میں اذان دے رہے ہیں۔‘‘
ایسے بیان کی مدد سے ذہنِ انسانی کے عالم مستقبل میں عمل آرا ہونے والے واقعات کی پیشگی شبیہہ بنا سکتے ہیں۔ ذہنی وروحانی تجربات کوتنقیدی زاویے سے جانچنے اور پرکھنے کی روش تاریخِ اسلام میں بھی نظر آتی ہے۔خود نبی آخرالزماں نے ابنِ صیاد نامی ایک یہودی کے وجدانی تجربات اور پیش گویانہ مدرکات کا مشاہدہ ومطالعہ کیا تھا۔آپ نے اُس کے ذہنی و لاشعوری واردہ پر سوالات کئے تھے اور اُس کی مختلف تحسساتی کیفیات کا جائزہ لیا تھا۔سو بعض صورتوں میں افراہیم جیسے افراد کے تحیرکن بیانات علم رسانی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں ۔تاہم یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ بعض کشفی اور الہامی کیفیات دائرۂ مہملات میں آتی ہیں ۔استغراق‘واہمہ یا ہذیان(hallucination)اور تشنّج کی بعض حالتوں میں سرے سے روحانی تجربے یا واردے کا وجود ہی نہیں ہوتا کہ اسے من جانبِ اللہ قرار دیا جائے۔بہر حال یہاں بانو قدسیہ نے ابنارمل( abnormal )اورپیرانارمل(paranormal) افراد کے مابین خطِ تفریق کھینچا ہے اور ایک باریک اور اہم نفسیاتی نکتے پر کام کرنے کی طرف راغب کیا ہے جوطبعِ انسانی کے ماورا ور متخالف نظر آتا ہے۔۔ قطع نظر اس سے کہ یہ نکتہ خود انھوں نے کس طرح سمجھا اورناول میں پیش کیا ۔
اس ناول کے تاروپود پر جنس((sexکی گہری چھاپ ہے اور اسے ایک موضوع کے طور پر برتا گیا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مجموعی سطح پر انسان کی دیوانگی میں جنسی عوامل کے ساتھ ساتھ دوسرے کئی پہلو بھی کارفرما ہوتے ہیں لیکن بانو قدسیہ نے زن، زر اور زمین کی تثلیث میں سے زن((sex ہی کو چنا ہے اور حرام سطح پر مردوزن کے باہمی جنسی روابط سے دیوانہ پن کے اثرات و مہیجات کی نشان دہی کی ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ بیانیے کے اندرسستی سطح کی لذتیت اور ہیجانیت کو ابھرنے نہیں دیا۔بانو قدسیہ نے جسمانی تعلقات کو جنسی سائنس کے طور پر پیش کیا ہے۔انھوں نے سیکس کو کمرشل ٹول کے طور پر تو برتا ہی ہے مگر بڑی بات ہے کہ یہ موضوع اس چابکدستی سے ناول میں سمو دیا گیا ہے کہ عضوِتناسل،زنا، مقعد، ناف، ہوموسیکس،libido سے بننے والے منظرنامے اور جنسی تذکرے کو گہرا نفسیاتی اعتبار ملا ہے۔البتہ تنترا یوگا،کرم یوگا ،سمرنانام،کنڈالنی،،مولا دھارا،سوادس ہانہ، اناہاتا،شکتی شوا،وشودھارا اور اس قبیل کی دیگر اصطلاحوں کی تشریح قارئین کی معلومات میں اضافہ تو کرتی ہے، کہیں کہیں تھیم سے جڑ نے کا التباس بھی پیدا کرتی ہے مگر ناول کو ناول نہیں رہنے دیتی۔ظاہر ہے کہ ناول ریسرچ ورک نہیں ہوتا ۔ ریسرچ ورک کا بھی اپنا ایک حجم ،اپنا ایک انسلاک اور اپنا ایک طریقِ کارہوتا ہے اور ناول کی شعریات کا اپناایک محکم سلسلہ ہے۔قرۃ العین حیدر نے ۱۸۵۷ء سے موجودہ عہد تک کے ہندوستان کے نسلی ڈرامے میں ایک ہیئت سے دوسری ہیئت میں بدلتے تاریخی اور تہذیبی حقائق کو اپنے ناول ’’گردشِ رنگِ چمن ‘‘ کے قالب میں اس طرح آمیز کر کے پیش کیا ہے کہ ناول میں ان کی موجودگی گوشت میں ناخن کی طرح پیوست نظر آتی ہے۔فکشن میں علمیت کا اظہار قابلِ اعتراض نہیں مگر سلیقہ بنیادی شرط ہے۔اگر محض معلومات ہی بہم پہچانا مقصود ہو تو ناول کی صنف ہی کو کیوں منتخب کیا جائے۔معلومات رسانی کی بے سلیقہ کھپت تو محقق بھی قبول نہیں کرتا ۔
’’راجہ گدھ میں جنیاتی تبدیلی کا فلسفہ جاذب نظرضرور ہے لیکن عقلی اور حیاتیاتی اعتبار سے درست نہیں۔ پھرحرام و حلال کے حوالے سے اس کی تصوراتی اور سائنسی صورتوں میں بھی ایک بُعد ہے۔چوری شدہ آٹے کے غذائی اجزا میں حرام کے جرثومے نہیں ہوتے۔ کسی لیبارٹری میں ان جرثوموں کا تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ آٹے کی روٹی، خواہ کسی ولی کے لنگر خانے کی ہو یا ابلیس کے آستانے کی، بہرحال اس کے غذائی عناصر میں فرق نہیں کیا جا سکے گا۔ نظامِ انہضام کے مطابق کوئی بھی حلال یا حرام خوراک جو وٹامنزیعنی حیاتین کی حامل ہو گی، انسان کی جسمانی نشوونما میں تو یقینی طور پر مدد دے گی ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اخلاقی سطح پر چوری کا فعل حرام کاری کے زمرے میں داخل ہو گا۔
روحانی و مذہبی سطح پر بھی اس فلسفے کی وہ صورت نہیں بنتی جو ناول میں نظر آتی ہے۔ ہر انسان اپنے اعمال و افعال کا خود ذمہ دار ہے۔باپ اپنے بیٹے کے عیوب کا ذمہ دار نہیں ہے، اسی لیے مجرم کو انفرادی طور پر سزا دی جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ جرم تو بیٹا کرے اور سزا اس کے باپ کو دی جائے کہ اس نے بیٹے کے توارثی عنصر یا gene میں خرابی پیدا کی۔ یہاں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے بیٹے کو اچھے ماحول میں پروان نہ چڑھایا جس کے باعث وہ مجرم بنا۔ اگر سارا مسئلہ جنیاتی تبدیلی یا gene mutation ہی کا ہے تو عالمِ انسانی میں کوئی قصوروار نہیں ٹھہرتا، نہ ہی قابیل مجرم ٹھہرتا ہے جس نے ہابیل کو قتل کیا، نہ ہی نوح کا بیٹا جس نے باپ کی نافرمانی کی اور نہ ہی یوسف کے بھائی جنہوں نے اسے بیچ ڈالا۔ ظاہر ہے کہ قابیل ،نوح کے بیٹے اور یوسف کے بھائیوں سے gene mutation کے تحت جرم سرزد نہیں ہوئے تھے بلکہ ان تمام واقعات کے پس پردہ حسد، غرور، رقابت اور ذاتی اغراض کا سلسلہ ہی کارفرما تھا۔ اگر gene mutation کے فلسفے کو درست مان لیا جائے تو آدم کے شجر ممنوعہ کھانے کے بعد نسلِ انسانی کے گناہ و ثواب کا سارا معاملہ ہی چوپٹ ہو جاتا ہے۔ دراصل بانوقدسیہ نے پروفیسر سہیل کی زبانی جنیاتی تبدیلی کا فلسفہ بیان کر کے گناہ کو مربوط اور اجتماعی شکل میں دکھانے کی سعی کی ہے تاکہ زانی خوف زدہ رہے کہ اس کے نطفے سے لولا اور لنگڑا بچہ بھی متولد ہو سکتا ہے اور اس طرف بھی دھیان دلایا ہے کہ مادّی رزق کے حرام استعمال سے بھی توارثی عنصر میں انتشار پیدا ہونے کا امکان موجود ہوتاہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ نطفۂ حرام سے جنم لینے والا بچہ کسی طور پر بھی قصوروار نہیں گردانا جا سکتا اور نہ ہی اس کے خلیاتی خمیر میں بدی کی کثرت قرار دی جا سکتی ہے اگر یہ بچہ بالغ ہو کر ٹنشن یا ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے اور اپنے وجود کو گناہ کا ثمرہ قرار دیتا ہے تو یہ اس کا ماحولیاتی تناظر ہی ہے جو اسے ایسا کرنے پر مجبور کر تاہے۔ یہی بچہ بہتر تربیت اور پاکیزہ ماحول کے باعث نیکوکار بھی بن سکتا ہے۔ جنیاتی اثرات کسی حد تک انسان کے خون میں شامل ہو سکتے ہیں مگر اتنی مقدار میں نہیں کہ ماحولیاتی اثرات پر بھی حاوی ہو جائیں اور ذہنِ انسانی کے لیے ذاتی فہم کے مطابق رد و قبول کی کوئی صورت ہی باقی نہ بچے۔ بہتر ماحول اور راست تربیت کے ذریعے بجے کی شخصیت میں یکسر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
جنیاتی اثرات کے تحت انسانی بچے کو اپنے خاندان اور ماں باپ کی طرف سے بدنی شکل و شباہت اور رنگ روپ کا کچھ حصہ منتقل ہو سکتا ہے مثلاً ناک، کان، ماتھا، ٹھوڑی، بالوں کے رنگ یا دیگر اعضا میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ عضو کی مماثلت پیدا ہو سکتی ہے، اگرچہ یہ توارثی کلیہ بھی حتمیت نہیں رکھتا، اسی طرح بعض اوقات موروثی بیماریوں کے حملے کا امکان بھی ہو سکتا ہے لیکن ذہنِ انسانی اپنی ساخت و بافت کے لحاظ سے بڑی حد تک ایک الگ چیز ہے جس پر معاشرتی اقدار و معائیر اور مشاہدہ و مطالعہ کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ مسلسل ارتقاو تغیر کے عمل سے گزرتا رہتا ہے۔ اس اعتبا ر سے ذہنِ انسانی پر جنیاتی اثرات کاکُلّی تصرف ایک ناممکن سی بات ہے کہ اس میں ٹھس قسم کی تقدیر پرستی کا خطرہ غالب رہتا ہے۔ جزوی تصرف کی صورت بھی قدرے مشکوک ہے۔ سو زیربحث ناول میں جنیات کے حوالے سے جو ایک خاص طرز کی قدریت کا فلسفہ پیش کیا گیا ہے، وہ غلط ہونے کے باوجود ایک خود تراشیدہ خواب کے مانند ضرور نظر آتا ہے جسے بانوقدسیہ نے پورے عالم انسانی کے لیے دیکھا ہے اور جس کے ذریعے اس نے مقاطأہ گناہ کا درس دیا ہے۔
دم کیا ہوا پانی ہمارے اعتقادات کے سبب ہی بھاری بھاری محسوس ہوتا ہے۔اسرائیل میں اگرآج بھی سپرنارمل supernormal))لوگ پیدا ہورہے ہیں تو اس کاوجہ یہ ہرگز نہیں کہ ان کی پُرانی نسلوں نے من وسلویٰ جیسا پاک رزق کھایا ہے۔اگر سپر نارمل ذہن کو من وسلویٰ یعنی بہشت کی صالح خوراک کا نتیجہ قرار دیا جائے اور ابنارمل ذہن کو شجرِ ممنوعہ یا حرام رزق کا حاصل کہا جائے تو لا محالہ یہ توجیہات مطأن نہیں کر سکیں گی۔دراصل بانوقدسیہ نے ذہنِ انسانی کو اجتماعی سطح پر حرام سے دور ہونے کی طرف مائل کیا ہے۔انسان تضادات کا مجموعہ ہے ۔بانوقدسیہ نے انسان کی مختلف نفسی اور اضدادی جہات پر خامہ فرسائی کی ہے۔سہیل،عابدہ ،قیوم،آفتاب،سیمی اورامتل ‘ذہانت کی عام اور خاص سطحوں پر یہ سب کردار ذات کے انتشار کا شکار ہیں۔ ان سب کی سائیکی اضداد کی گرفت میں ہے۔سو یہی چیز ان کی ذہنی کج روی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔
قیوم کو اپنے گدھ جاتی ہونے کا اعتراف ہے۔ ناول کے آخر میں وہ خود کو پاگل پن کی پہلی اور اسفل ترین سیڑھی پر محجوب کھڑا پاتا ہے۔ وہ سیمی، عابدہ اور امتل کے ساتھ جسمانی تعلق کو حرام تعلق سمجھتا ہے۔ یہ باسی تعلقات اسے لذت عطا نہیں کرتے۔ مردہ اور زندہ جسم، سرد اور گرم خون کے مابین فرق کا بھی اُسے علم ہے۔ سو اعتراف کرنے والا السر کا مریض انسان کا وہ روپ ہے جس سے نفرت نہیں کی جا سکتی۔ ناول پڑھ کر راجہ گدھ اور قیوم کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔اصلاًبانوقدسیہ نے قیوم کوابنارملٹی(abnormality) کاپیکر بنایا ہے اور افراہیم کو سپر نارملٹی (supernormality)کی صورت دی ہے اور ناول کو ایک استفہامیہ جملے پر ختم کیا ہے۔ وہ جملہ یوں ہے:
’’انسان کو ایب نارمل سے سوپر نارمل تک پہنچنے کے لئے جانے ابھی کس کس منزل سے گزرنا ہے؟‘‘
میر ے خیال میں انسان کی منزل سپر نارملٹی نہیں ہے۔ خدا نے انسان کو فطرتِ احسن پر خلق کیا ہے۔ انسان کا ذہنی ارتقا اس امر میں مضمر ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اپنی ذات کی تطہیر کرے اور اپنے آپ کو اس مقام تک لے جائے جہاں سے فطرتِ احسن کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ سو انسان کوخلافِ فطرت یا مافوق الفطرت ہستی نہیں بننا، اس نے ہوا میں اڑ کر شعلے نہیں پھانکنے، اسے دورے کی حالت میں بعید از قیاس یا قریب از قیاس بے ربط جملے بھی نہیں بولنے اور نہ ہی خوابوں کی اس آخری سیڑھی پر سر بہ سجود ہونا ہے جس پر افراہیم کھڑا ہے ۔ اصل میں انسان کی منزل بیسٹ نارملٹی ((bestnormalityہے۔ یہی وہ منزل خرد ہے جہاں حواس باختگی کی بیماری سے دور رہ کر سوجھ بوجھ کے ساتھ بہتر فیصلے کیے جا سکتے ہیں اور صالح معاشرے کا سنگ بنیاد رکھا جا سکتا ہے۔ افراہیم جیسا بچہ انسان کا ارتقائی روپ نہیں ہو سکتا۔ ایسے پیرا نارمل لوگوں کی ایک الگ پٹی تو ضرور بنائی جا سکتی ہے۔ ان کی حرکات و سکنات، گفتگو اور لرزہ بر اندامی پر غور و خوض بھی کیا جا سکتا ہے مگر ان کو انسان کا مستقبل کسی صورت میں بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہی وہ مغالطہ ہے جو بانو کے نئے صوفی ازم کی بنیاد بنا ہے۔ البتہ پاگل پن کی پہلی سیڑھی پر کھڑا قیوم اس منزلِ فکر پر ضرور جا پہنچا ہے کہ جہاں گناہ گاری اور حرامکاری کا احساس شدت اختیار کر جاتا ہے اور ذہن نیکی و بدی کے درمیان واضح فرق محسوس کرنے لگتا ہے۔ چند مثالیں دیکھئے:
’’معاً میرے دل میں خیال آیا کہ قلب کا راستہ جسم سے ہو کر نہیں گزرتا۔ قلب تک پہنچنے کے لیے صرف وجدان، ٹیلی پیتھی، ہپ نوٹزم، مسمریزم کی ضرورت ہے۔ جسم روحانی عمل کو زمین میں ارتھ کر دیتا ہے۔ میں نے بڑے تقدس سے سیمی کے کف بند کئے اور دل میں عہد کیا اب کبھی میں اس سے نہیں ملوں گا۔‘‘
’’یہ صرف گدھ جاتی کی عقل ہے کہ وہ مرے ہوؤں سے زندگی کا وعدہ کرتے ہیں۔ اس وقت میرے پاس کچھ نہ تھا۔ صرف ہمدردی کا ست رنگ جال۔ آفتاب نے یہ غزالِ شہر شکار کیا تھا۔ مجھے اس مردہ لاش کو کھانے کا حکم تھا۔‘‘
’’اپنا جسم میرے سپرد کرنے سے کچھ لمحے پہلے وہ ملامیتہ فرقے میں داخل ہو گئی اور دیکھتے دیکھتے شہریار سے بے دیار ہو گئی۔‘‘
قیوم کا کردار جدید عہد کے انسان کا کردار ہے جو کئی ماحولیاتی و تہذیبی ادوار سے گزرا ہے اور اس فکری نہج پر آ پہنچا ہے جہاں حرام و حلال کی حقیقت کھل کر سامنے تو آ جاتی ہے مگر اس وقت عادت راسخ ہو کر جبر کی صورت اختیار کر جاتی ہے جس سے چھٹکارا پانا مشکل ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان عادات کا گلا گھونٹ کر نیا سفر شروع کر سکتا ہے، بانوقدسیہ نے ایک مخصوص قسم کا اخلاقی نظام وضع کر کے انسان کو اسی نئے سفر کے لیے کمر بستہ کیا ہے۔