(سبین علی)
اٹھارویں صدی سے مسلسل پروان چڑھنے والی عظیم سائنسی ترقی نے انسانی زندگی اور طرز معاشرت پر بے شمار مثبت اثرات مرتب کئے ہیں ۔ جن کے فوائد سے سبھی عام و خاص مستفید ہو رہے ہیں ۔ لیکن کیا اس تیز تر ترقی کے کوئی ضمنی اثرات و مضمرات نہیں ہیں ۔ چھوٹے پیمانے پر فوائد و مضمرات کی بحث کو ایک طرف رکھیں تو بھی سائنسی ترقی کا یہ مہا بیانیہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے لاکھوں انسانوں کے ساتھ ہی جل کر بھسم ہو گیا تھا ۔
بیسویں اور اکیسویں صدی میں سائینس، انسان اور ادب/ آرٹ /فلم میں جو موضوع بہت زیادہ زیر بحث رہا وہ ربوٹکس اور آرٹیفشل انٹیلجنس ہے ۔ بین الاقوامی ادب اور فلم میں مستقبل کی مثبت تصویر کشی سے لے کر خدشات پر مبنی موضوعات پر بہت کچھ لکھا اور فلمایا گیا۔ سائینس اور ٹیکنالوجی کی اندھی دوڑ کو سراہنے کے ساتھ ساتھ اس کے ہولناک نتائج کا جائزہ سائینس دان نہیں بلکہ ادب اور آرٹ سے منسلک حساس لوگ ہی لیتے رہے ہیں ۔ میری شیلے کے فرینکن سٹائین سے لے کر موجودہ دور کے سائینس فکشن تک بین الاقوامی ادب میں ان فکر انگیز موضوعات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔اگرچہ اس میں اردو ادب کا حصہ اتنا نہیں لیکن بدلتے وقت کے تقاضوں میں تیسری دنیا کا انسان اور اردو ادب ان سب معاملات سے کنارہ کش نہیں رہ سکے گا۔
مشینوں کی نئی جنریشن کا جائزہ لیں تو سنہ دو ہزار پچاس روبوٹس بنانے والے مخلف اداروں نے ایک سنگ میل کے طور مقرر کیا ہوا ہے ۔ جس میں روبوٹس پر مشتمل ٹیم کا فٹ بال ورلڈ چمپئین ٹیم کو شکست سے دوچار کرنا ،مختلف فیکٹریوں میں انسانی افرادی قوت کو مکمل طور پر مشینوں روبوٹس، سافٹ وئیر، آرٹیفشل انٹیلجنس سے تبدیل کر دینا اور انسانی ہم نفس کی بجائے روبوٹ پارٹنرز کو متعارف کروانا( جو اب بھی کسی کم سطح پر مارکیٹ میں دستیاب ہیں)۔
ایسے روبوٹ پارٹنر جو گفتگو کرنے کے قابل، تنہائی دور کرنے اور ذہانت سے لیس ہوں گے تیار کرکے مارکیٹ میں پیش کرنا ہے۔
کیا یہ سب مشینیں انسانی معاشرت پر اپنے منفی اثرات مرتب نہیں کریں گی؟
چلیں بیروزگاری سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔۔۔ فیکٹریوں میں روبوٹس کی اتنی بڑی موجودگی کتنے انسانوں کو بے روزگار کرنے کا سبب بنے گی ۔۔۔۔۔۔۔ ؟
انسان اتنی فراغت کے بعد جب اس کے سر انجام دینے کو کوئی جسمانی یا ذہنی مشقت نہ بچے گی تو وہ کیا کرے گا؟
جسمانی مشقت میں اتنی کمی اس کے وزن میں اضافے ، ذہنی دباؤ ( جسمانی ورزش سے ذہنی دباو کم ہوتا ہے ) بوریت اور بیماریوں میں بے پناہ اضافے کا باعث ہوگی ۔ یہ فراغت انسان کے لیے کئی سماجی و نفسیاتی مسائل کا سبب بنے گی ۔ اس کی ایک جھلک ہمیں اپنی نئی نسل میں واضح طور پر دیکھنے میں مل رہی ہے جہاں ہر انسان اپنے گرد و پیش سے کٹا سائبر ورلڈ سے ناطہ جوڑے بیٹھا ہے ۔ جس سے معاشرے میں سماجی مسائل تو پیدا ہو رہی رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ نت نئے نفسیاتی عوارض بھی سامنے آ رہے ہیں ۔
روبوٹس تیار کرنے والے دنیا کے بڑے ادارے مثلا بوسٹن ڈائنامکس جو وار روبوٹس اور سونی کارپوریشن جاپان کے لیے بھی روبوٹ تیار کرتا ہے ، نے بھی سنہ دوہزار پچاس کے لیے کئی اہداف مقرر کئے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے وار روبوٹس کے کئی اہداف وہ حاصل بھی کر چکا ہے ۔
سونی کارپوریشن اور جاپان کی کئی فیکٹریوں میں مینوفکچرنگ سے لے کر پیکنگ تک کا تمام کام روبوٹ انجام دیتے ہیں ۔ جاپان کے کچھ ریستورانوں اور ہوٹلوں میں ریسیپشن کے لے کر قلی اور بیرے تک کی تمام خدمات روبوٹ سر انجام دے رہے ہیں ۔
چین کی ڈونگوآن فیکٹری سٹی میں پہلی روبوٹ بنانے والی فیکٹری قائم کی جا رہی ہے ۔ جو آنے والے برسوں میں چین میں ہزاروں مزدوروں کو ان کی نوکریوں سے بے دخل کرنے کا سبب بنے گی ۔
ایپل فون بنانے والے ادارے فاکس کان کا مستقبل میں روبوٹوں پر مشتمل فوج بنانے کا بھی ارادہ ہے۔ آن لائین ایپ سے ٹیکسی فراہم کرنے والی کمپنی اوبر اب گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں اور گوگل کے اشتراک سے بہت جلد بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑیوں کو بطور ٹیکسی متعارف کروانے والی ہے ۔ اس سروس سے کئی ممالک میں بے شمار ٹیکسی ڈرائیوروں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے ۔
کیا منصوبہ بندی کرنے والے اداروں نے اس دباؤ کا شکار ملازمین و مزدوروں کے لیے روزگار کے متبادل ذرائع کا کوئی مناسب بندوبست کیا ہے ؟ اتنے وسیع پیمانے پر پھیلنے والی بیروز گاری نہ صرف جرائم کی شرح میں ہولناک اضافہ کر سکتی ہے بلکہ بہت سے انسانوں کو خط غربت سے نیچے پھینکنے کا سبب بھی بنے گی ۔
صحافت، طب، میڈیا اور ریسٹورینٹس میں ابھی سے آرٹیفشل انٹیلجنس اور روبوٹس کا استعمال بہت بڑھ چکا ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چند عشروں تک آپ تک پہنچنے والی تمام خبریں روبوٹ نے مرتب کی ہوں ۔پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کے انسانی ذہن اور افکار پر پڑے والے گہرے اثرات سے آپ صرف نظر نہیں کر سکتے ۔ ٹی وی چینلز ہوں یا اخبار دونوں لوگوں کی ذہن سازی کا ایک اہم ذریعہ ہیں جن سے حکومتیں اور ادارے اپنے اپنے نظریات و مفادات کی اجارہ داری قائم کرتے ہیں۔
تو کیا ہم سب تیار ہیں کہ آنے والے برسوں میں صحافت ،اخبار نیوز چینلز پر ہماری ذہن سازی مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹس کیا کریں گے ؟
روبوٹس کا سب سے خطرناک استعمال جنگ میں کیا جا رہا ہے اور آنے والے برسوں میں جب ان روبوٹس کی صلاحیت، مصنوعی ذہانت و استعداد میں بے پناہ اضافہ کر دیا جائے گا تو وہ کتنے بڑے پیمانے پر انسانی زندگی، جنگلی حیات و ماحول کی تباہی کا سبب بنیں گے ؟
کئی ممالک کی سرحدوں پر ایسے روبوٹس نصب ہیں جن میں کسی بھی شخص یا متحرک شے کو دیکھ کر اس پر فائر کر دینے کی پروگرامنگ انسٹال ہے ۔ ڈرون حملوں سے بے گناہ انسانی جانوں کے اتلاف کا مسلہ تو ابھی تک حل نہیں ہوا ۔ اس طرح کی ذہانت سے لیس ربوٹوں کا بے دریغ استعمال تیسری دنیا کے انسانوں پر شدید دباؤ اور ان کی تباہی کا باعث بنے گا جہاں جنگ کا ایک فریق انسان ،جانور اور اشجار ہوں گے تو دوسری طرف صرف چند مشینیں ۔
کیا یہ درست ہو گا کہ ٹیکنالوجی سے لیس ایک قوم دوسری قوم کا آمنا سامنا کیے بغیر ہی ان سے روبوٹس کے ذریعے جنگ کرے گی؟ یہ صرف یک طرفہ جنگ ہوگی جس میں نقصان صرف اور صرف ایک فریق کا ہوگا ۔ کیا اس بات کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز ہے ؟ ماضی کے اوراق کھنگالیں تو کسی وقت جنگوں میں شہسوار نہتوں سے مقابلہ نہیں کیا کرتے تھے ۔
مگر آج کا انسان کسی اصول کسی ضابطے کا پابند نہیں رہا ۔ جنگ میں سب جائز قرار دینے والے یہ کیوں بھول چکے ہیں کہ جنگوں کے بھی اصول ہوا کرتے ہیں ۔
آپ ﷺنے جنگوں کے دوران درخت جلانے ، پانی کے ذخیروں کو آلودہ کرنے بچوں عورتوں اور بوڑھوں پر وار کرنے سے منع فرمایا تھا۔ مگر یہ اصول تو خود اسلام کے نام نہاد نام لیواؤں کو بھی یاد نہیں رہے ۔ انسانی جسم کو بم بنا کر ہزاروں لوگوں کو ان چند برسوں میں بلا تخصیص صنف و عمر ہلاک کیا جا چکا ہے ۔ دوسری طرف عالمی ضمیر کی بات کریں تو جنیوا کنونشن سے کئی ترقی یافتہ ممالک خود کو مبرا تصور کرتے ہیں اور عملا یہ معاہدہ بے اثر ہو چکا ہے۔
ایسے میں جہاں دنیا کے کئی ممالک میں جنگ کے شعلے بڑھک رہے ہیں مشینی سپاہوں کی آمد سے پسی ہوئی اقوام کا رہا سہا مورال بھی ختم ہو جائے گا۔ تیسری دنیا کے انسانوں کی جاں کی قدر تو ویسے ہی ترقی یافتہ اقوام سے کم تر سمجھی جاتی ہے ۔ تو ایسے میں اگر کسی وقت آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا کنٹرول انسان کے ہاتھ سے نکل گیا تو وہ ان انسانوں کو اندھے غاروں میں دھکیل دے گی ۔
اگر آج کا انسان اپنے بے پناہ وسائل اور ذہانت ان روبوٹوں کی تیاری پر لگا رہا ہے تو مستقبل میں ان پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی بھی پیمانہ کیوں مقرر نہیں کر رہا؟
اگر آپ کسی کھیت میں یوریا کھاد استعمال کرتے ہیں تو بہتر فصل حاصل ہوتی ہے ۔ کھاد کی مقدار اور پیداوار میں اضافہ گراف پر راست تناسب سے بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک نکتے پر پہنچ کر یہ تناسب معکوس میں تبدیل ہو جاتا ہے اور زیادہ کھاد کا استعمال فصلوں کی تباہی پر منتج ہوتا ہے ۔
اسی طرح سائینسی ترقی اور روبوٹس کے انسانی زندگی پر کئی مثبت اثرات بھی ہیں لیکن ان کا بلا روک ٹوک استعمال ، بغیر کسی ضابطے اور قاّعدے کے آرٹیفشل انٹیلجنس، اسلحہ سے لیس کرنے اور لا محدود اختیارات دینے کا جنون کبھی بھی انسانی معاشرت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1. B B C technology news
2. http://www.bostondynamics.com
3. https://ts.catapult.org.uk
4. http://www.techrepublic.com/133/chinese-factory-replaces-90-o133
بہت خوب تحریر لکھا ہے۔