ریس کے بعد /جیمز جوائس

سیّد کاشف رضا

کاریں تیزی سے ڈبلن کی جانب آرہی تھیں۔ وہ ناس روڈ پر جو درمیان سے گہری ہوچکی تھی، کنچوں کی طرح دوڑ رہی تھیں۔ انچی کور کے علاقے میں ایک چھوٹی سی پہاڑی پر تماشائی اُن کاروں کو دیکھنے جمع ہوئے تھے، جو اب اپنے اپنے وطن روانہ ہونے والی تھیں۔ غربت اور بے کاری کی رودبار سے ایک براعظم اپنی دولت اور صنعت کے نمونے تیزی سے گزار رہا تھا۔ کبھی کبھی یہ جمع ہونے والے لوگ داد و تحسین کی آوازیں بلند کرتے جو پچھڑے ہوئے  لوگ انتہائی شکرگزاری کے عالم میں بلند کرسکتے ہیں۔ تاہم اُن کی ہمدردیاں نیلی کاروں کے ساتھ تھیں جو اُن کے دوست فرانسیسیوں کی تھیں۔
۔یہ بھی تھا کہ فرانسیسی ہی اس ریس کے فاتح رہے تھے

اُن کی ٹیم نے دوڑ کو خوبی سے ختم کیا تھا۔ اُن کے کھلاڑی دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے تھے اور جرمن کی جو کار جیتی تھی، اُس کا ڈرائیور بلجیم کا شہری بتایا جاتا تھا۔ اسی لیے جب بھی کوئی نیلی کار پہاڑی کے قریب سے گزرتی تو وہ عام طور سے دی گئی داد و تحسین کے مقابلے میں دُگنے کی مستحق ٹھہرتی۔ اس داد و تحسین کو کاروں میں بیٹھے لوگ مسکراہٹوں اور سر کے اشاروں کے ساتھ قبول کرتے۔ ان ہلکی پھلکی کاروں میں سے ایک میں چار نوجوانوں کا ایک ٹولا بیٹھا تھا جس کا جوش و خروش فرانس کی گیلک حب الوطنی کے عام جوش و خروش سے بھی زیادہ تھا۔
حقیقت تو یہ تھی کہ یہ چاروں قہقہے لگا رہے تھے۔ ان میں کار کا مالک چارلس سیگواں، کناڈا میں پیدا ہونے والا الیکٹریشن آندرے رویغ، ایک لمبا تڑنگا ہنگیرین ولونا اور ایک صاف ستھرا اور شائستہ نوجوان ڈوئل شامل تھے۔ سیگواں ہشاش بشاش تھا کیوں کہ اس نے غیرمتوقع طور پر کاروں کی فروخت کے کچھ آرڈر حاصل کرلیے تھے (وہ عنقریب پیرس میں موٹر کاروں کا کاروبار شروع کرنے والا تھا)۔ رویغ خوش تھا کیوں کہ وہ اس کاروبار کا منیجر تعینات کیا جانے والا تھا۔ یہ دونوں آپس میں کزن بھی تھے اور اس لیے بھی خوش تھے کیوں کہ فرانسیسی کاریں جیت گئی تھیں۔ ولونا اس لیے خوش تھا کہ اُس نے ڈٹ کر دوپہر کا کھانا کھایا تھا۔ اور ویسے بھی وہ فطری طور پر ایک پُرامید نوجوان تھا۔ اس ٹولے کا چوتھا رکن ایسے جوش و خروش میں تھا جو ہر خوشی سے بھی زیادہ تھا۔
اُس کی عمر چھبیس سال تھی۔ چہرے پر نرم، ہلکی بھوری مونچھیں تھیں اور اس کی سرمئی آنکھیں کچھ معصوم سی تھیں۔ اُس کے باپ نے اپنی زندگی کا آغاز ایک کٹر آئرستانی قوم پرست کی حیثیت سے کیا تھا لیکن جلد اپنے خیالات تبدیل کرلیے تھے۔ اُس نے پہلے تو کنگز ٹاؤن میں ایک قصاب کی حیثیت سے روپیا بنایا اور پھر ڈبلن اور اس کے نواح میں مزید دکانیں کھول کر اس میں اضافہ کیا۔ وہ یوں بھی خوش قسمت رہا تھا کہ اُسے پولیس کو گوشت سپلائی کرنے کے کچھ کنٹریکٹ بھی مل گئے اور بالآخر وہ اتنا دولت مند ہوگیا کہ ڈبلن کے اخبارات میں اُس کا تذکرہ کسی تاجر شہزادے کی طرح ہونے لگا۔ اُس نے اپنے بیٹے کو انگلستان بھیجا تاکہ وہاں وہ ایک بڑے کیتھولک کالج میں تعلیم حاصل کرے اور پھر بعد میں اسے ڈبلن یونی ورسٹی روانہ کیا تاکہ وہ وہاں قانون کی تعلیم پائے۔ جمی نے دیانت داری سے تعلیم کی جانب توجہ نہیں دی اور وقت گزاری کے لیے بے کار سے کورس منتخب کرلیے۔ اُس کے پاس پیسا تھا اور وہ ہر دل عزیز بھی بہت تھا۔ یہ بات تجسس انگیز تھی کہ اُس نے اپنا وقت موسیقی اور موٹر ریس کے شوقین حلقوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ پھر اسے ذرا دنیا وغیرہ دیکھنے کی خاطر ایک ٹرم کے لیے کیمبرج بھیجا گیا۔ اُس کی کارکردگی پر اُس کے باپ نے احتجاج تو کیا لیکن اندر سے اسے کئی معاملوں میں اپنے بیٹے کی فضول خرچی پر فخر بھی تھا، سو اُس نے اُس کے تمام بل ادا کیے اور اسے گھر واپس بلوا لیا۔ یہ کیمبرج ہی تھا جہاں اُس کی ملاقات سیگواں سے ہوئی تھی۔ ابھی تک دونوں کا تعلق فقط تعارف تک محدود تھا لیکن جمی کو ایک ایسے شخص کی صحبت میں بہت لطف آیا تھا جس نے دنیا کو اس قدر دیکھ رکھا تھا اور جس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ فرانس کے بعض سب سے بڑے ہوٹل اسی کی ملکیت ہیں۔ ایسا شخص (جیساکہ اُس کے باپ نے تسلیم کیا) اس قابل تھا کہ اُسے جانا جائے، چاہے وہ اُس قدر سحرانگیز نہ ہو جتنا کہ وہ تھا۔ ولونا کچھ مزے کا آدمی تھا151 ایک زبردست پیانو نواز151مگر بدقسمتی سے بہت غریب۔
1232کار قہقہے اڑاتے نوجوانوں سمیت خوشی خوشی بھاگی جا رہی تھی۔ دونوں کزن کار کی اگلی نشستوں پر براجمان تھے۔ جمی اور اُس کا ہنگیرین دوست پیچھے بیٹھے تھے۔ یہ بات طے تھی کہ ولونا بہت مزے میں تھا۔ وہ سڑک پر میلوں دور تلک باس*۱ پر ایک دُھن چھیڑے رہا۔ آگے بیٹھے دونوں فرانسیسی قہقہے اور ہلکے پھلکے جملے کاندھوں سے پیچھے اچھالتے اور جمی کو اُن کے جملے گرفت میں لانے کے لیے سر آگے کو جھکا کر بہت توجہ دینا پڑتی۔ یہ سب اُس کے لیے زیادہ خوش گوار نہیں تھا کیوں کہ تقریباً ہر بار اُسے اُن کے معنی کا صرف اندازہ لگانا پڑتا اور تیز ہوا کے دوران کوئی مناسب جواب واپس بھی پھینکنا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ ولونا کی دھن کسی کو بھی مخمصے میں ڈال دیتی۔ اور ہاں کار کی آواز بھی۔
کسی مقام پر تیزی سے مسلسل حرکت ہمیں خود سے غافل سا کردیتی ہے۔ بدنامی کے ساتھ بھی سلسلہ یہی ہے۔ اور روپیا پیسا زیرِ تصرف ہونے کے ساتھ بھی۔ جمی کے جوش و خروش کے بھی یہی تین اسباب تھے۔ اُسے اُس روز اُس کے کئی دوستوں نے براعظم کے ان باشندوں*۲ کی صحبت میں دیکھا تھا۔ ریس شروع ہونے سے قبل سیگواں نے جمی کو اپنے ایک فرانسیسی حریف سے ملایا تھا۔ جمی کی جانب سے اظہارِ تشکر کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے جواب میں اُس ڈرائیور کے سیاہ پڑتے ہوئے چہرے نے اپنے چمکتے ہوئے سفید دانتوں کی نمائش کی تھی۔ اس عزت افزائی کے بعد جمی کے لیے تماشائیوں کی رذیل دنیا میں واپسی خوش گوار رہی تھی جہاں لوگ اسے کہنیاں مارتے اور معنی خیز نظروں سے دیکھتے رہے تھے۔ جہاں تک روپے پیسے کا معاملہ تھا تو واقعتا اُس کے پاس بہت مال تھا۔ ہوسکتا تھا سیگواں اسے اتنا زیادہ روپیا نہ سمجھتا ہو لیکن جمی، جو اپنی وقتی غلطیوں کے باوجود ایک خاص *ّجبلی ذہانت رکھتا تھا، وہ جانتا تھا کہ یہ پیسا کس مشقت سے جمع کیا گیا تھا۔ اسی علم نے اس سے پہلے اس کے بل کو فضول خرچی کے کسی قدر عقلی دائرے میں رکھا تھا۔ اور اگر وہ کیمبرج میں اس روپے کے حصول میں لگی ہوئی محنت کا احساس رکھتا تھا تو یہاں اسے اس کا کتنا خیال ہوگا جہاں وہ اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ داؤ پر لگانے والا تھا۔ ہاں یہ اُس کے لیے ایک سنجیدہ معاملہ تھا۔
ظاہر ہے اُس کی یہ سرمایہ کاری اچھی رہی اور سیگواں اُسے یہ تاثر دینے میں کامیاب رہا کہ اُس کی دوستی کی خاطر جوئے میں آئرستانی پیسا بھی لگایا گیا۔ جمی کاروباری معاملات میں اپنے باپ کی ہوشیاری کا معترف تھا اور یہ اُس کا باپ ہی تھا جس نے اس معاملے میں اُسے سرمایہ کاری کا مشورہ دیا تھا، اور کہا تھا کہ موٹروں کے کاروبار میں روپیا مل سکتا تھا، بہت سا روپیا۔ مزید یہ کہ سیگواں کو دیکھ کر ہی اُس کی امارت کا احساس ہوتا تھا۔ جمی اس شاہانہ کار کے ساتھ گزارے ہوئے دن کو یاد کرنے لگا۔ کتنی سہولت سے چلتی تھی وہ، کس انداز میں وہ لوگ دیہی راستوں پر اسے دوڑاتے ہوئے آئے تھے۔ اس سفر نے زندگی کی نبض پر اپنا جادوئی ہاتھ رکھ کر انھیں دکھا دیا تھا اور انسانی اعصاب کے نظام نے کس دلیری سے اس سبک خرام نیلے جانور کی اچھل کود پر غلبہ حاصل کیا تھا۔
کار دوڑاتے ہوئے وہ ڈیم اسٹریٹ*۳ پر چلتے گئے۔ سڑک پر ٹریفک معمول سے زیادہ تھا۔ موٹر کاروں کے ہارن اور بے قرار ٹرام ڈرائیوروں کے گانگ*۴ کی آوازوں سے شور برپا تھا۔ بینک آف آئر لینڈ کی عمارت کے قریب سیگواں نے گاڑی کھڑی کی اور جمی اور اُس کا دوست باہر نکل آئے۔ ہونکتی ہوئی موٹر کار کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروہ فٹ پاتھ پر جمع ہوگیا۔ کار سوار نوجوانوں کی پارٹی کو اُس شام سیگواں کے ہوٹل میں کھانا کھانا تھا اور اس دوران جمی اور اُس کے دوست کو، جو ان دنوں اُس کے ساتھ ہی مقیم تھا، گھر جاکر لباس تبدیل کرنے تھے۔ کار آہستگی سے گرافٹن اسٹریٹ*۵ کی جانب پھلستی گئی، جب کہ دونوں نوجوان تماشائیوں کے گروہ میں سے راستہ بنانے لگے۔ وہ شمال کی جانب چلنے لگے اور اس عمل میں ایک عجیب سی مایوسی محسوس کی۔ اس دوران شہر نے گرما کی شام کی حدت میں اُن کے سروں پر روشنی کے مرجھائے ہوئے گلوب تانے رکھے۔
شام کے اُس کھانے کو جمی کے گھر میں ایک اہم تقریب قرار دیا جاچکا تھا۔ اس کھانے کے لیے اس کے اہلِ خانہ کے احساسِ تفاخر کے ساتھ اُس کے والدین کی تشویش بھی شامل تھی کہ کہیں کچھ گڑبڑ نہ ہوجائے۔ سب کو کچھ بے چینی بھی تھی، یہ کچھ ایسا تھا جیسے وہ بڑے غیرملکی شہروں کے نام پر جلد از جلد کھیل کر کچھ اڑانا چاہ رہے ہوں۔ جمی بھی لباس تبدیل کرنے کے بعد خوب جچ رہا تھا۔ اور جب وہ ہال میں کھڑا اپنی ٹائی کی گانٹھ کو آخری بار سنوار رہا تھا، اُس کے باپ نے اس بات پر تجارتی اطمینان بھی محسوس کیا ہوگا کہ اُس نے اپنے بیٹے کے لیے وہ خصوصیات بھی حاصل کرلیں جو خریدی نہیں جاسکتیں۔ اسی لیے اُس کا باپ ولونا سے بے حد دوستانہ انداز میں باتیں کرتا رہا اور اُس کا انداز غیرملکیوں کی کامیابیوں کے لیے اُس کی حقیقی تعظیم کو ظاہر کر رہا تھا۔ لیکن میزبان کی یہ نزاکتیں ہنگری کے اُس شہری پر بلاوجہ ضائع ہو رہی تھیں جو بڑی شدت سے اپنے عشایئے کا منتظر تھا۔
بالآخر جب وہ کھانے پر پہنچے تو اسے شان دار اور نفیس پایا۔ جمی نے محسوس کیا کہ سیگواں نہایت نفیس ذوق کا مالک ہے۔ اُن کی پارٹی میں راؤتھ نامی ایک نوجوان انگریز کا اضافہ ہوگیا تھا جسے جمی نے کیمبرج میں سیگواں کے ساتھ دیکھا تھا۔ اس کے بعد نوجوانوں نے ایک نیم گرم کمرے میں، جو بجلی کے قمقموں سے روشن کیا گیا تھا، شراب پی۔ انھوں نے بہت کھل کر باتیں کیں۔ جمی نے، جس کا تخیل اب جاگنے لگا تھا، فرانس کے دونوں باشندوں کی قہقہہ بار نوجوانی کے ساتھ ساتھ انگریز باشندے کے انداز و اطوار کا بھی مشاہدہ کیا۔ وہ اُسی کا عکس تھے، اُس نے سوچا، اور یہ مبنی بر انصاف بھی تھا۔ اُن کا میزبان (سیگواں) جس مہارت سے گفتگو کی باگیں تھامے ہوئے تھا، اُسے بہت پسند آیا۔ پانچوں نوجوانوں کے ذوق مختلف تھے اور اب اُن کی زبانیں کھل چکی تھیں۔ ولونا نے حد درجہ تعظیم کے ساتھ برطانیہ کے میڈریگال گیتوں*۶ کے حسن کو دریافت کیا جس پر انگریز باشندے کو ذرا سی حیرت بھی ہوئی۔ اُس نے پرانے مزامیر کا استعمال ترک کیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ رویغ نے فرانسیسی ماہرینِ میکانیات کی فتوحات سے جمی کو آگاہ کرنے کی ذمے داری سنبھالی اور اُس کا یہ اقدام کچھ زیادہ ذہانت پر مبنی نہیں تھا۔ ہنگری کے باشندے کی گونجتی ہوئی آواز رومانی دور کے مصوروں کی بنائی ہوئی عجیب و غریب بانسریوں کا بلند آہنگ مضحکہ اڑانے ہی والی تھی کہ سیگواں نے پارٹی کو سیاست کے موضوع پر لگا دیا۔ یہ سب کے لیے محبوب میدان تھا۔ اس بے تکلّفانہ ماحول میں جمی نے اپنے اندر اُس خواہش کو پھر سے بیدار ہوتیمحسوس کیا جسے اُس کا باپ خود میں دفن کرچکا تھا۔ سو اُس نے بالآخر پُرسکون راؤتھ کو بھی چھیڑ ہی دیا۔ نیم گرم کمرہ اور بھی گرم ہوگیا اور سیگواں کو اپنا کام ہر لمحے مشکل سے مشکل تر محسوس ہونے لگا۔ اس دوران ایک دوسرے سے ذاتی چھیڑ چھاڑ کا احتمال ہوگیا۔ تب سمجھ دار میزبان نے موقع دیکھتے ہوئے انسانیت کے نام پر اپنا جام بلند کیا۔ جب بنامِ انسانیت یہ جرعہ نوش کیا جاچکا تو اس نے گفتگو پر پوری طرح اثرانداز ہوتے ہوئے کمرے کی کھڑکی کھول دی۔
اُس رات شہر کسی دارالحکومت کا نقاب اوڑھے ہوئے تھا۔ پانچوں نوجوان اسٹیفن کے سبزہ زار*۷ کے ساتھ ساتھ چہل قدمی کرتے رہے اور اُن کے اردگرد ایک ہلکا خوشبودار دھواں پھیلا رہا۔ انھوں نے بلندآواز سے اور چہک چہک کر باتیں کیں اور اُن کے چوغے اُن کے کاندھوں سے ہوا میں لہراتے رہے۔ لوگ ان کے لیے راستہ بناتے رہے۔ گرافٹن اسٹریٹ کے کونے پر ایک پستہ قد موٹا شخص دو خوب صورت خواتین کو کار میں بیٹھے ایک اور موٹے شخص کی نگرانی میں دے رہا تھا۔ کار روانہ ہوگئی اور پستہ قد موٹے شخص نے نوجوان کی پارٹی سے نظریں چار کیں۔
’’آندرے!‘‘
’’یہ تو فارلے ہے۔‘‘
دونوں میں کچھ بات چیت ہوئی۔ فارلے ایک امریکی تھا۔ کسی کو معلوم نہیں ہوا کہ بات چیت کس بارے میں ہوئی۔ ولونا اور رویغ سب سے زیادہ اونچی آواز میں باتیں کر رہے تھے لیکن پُرجوش سبھی تھے۔ پھر وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے اور قہقہے لگاتے ہوئے کار میں سوار ہوگئے۔ کار ایک ہجوم کے قریب سے گزری۔ ہجوم جو اب ہلکے رنگوں میں تبدیل ہوگیا تھا اور جس سے گھنٹیوں کی خوش باش موسیقی کی آواز آ رہی تھی۔ ویسٹ لینڈ رو*۸ سے انھوں نے ایک ریل گاڑی پکڑی اور جیساکہ جمی کو محسوس ہوا، کچھ ہی ثانیوں بعد وہ کنگز ٹاؤن اسٹیشن کے باہر چہل قدمی کر رہے تھے۔ ٹکٹ کلکٹر نے جمی کو سیلوٹ کیا، وہ ایک بوڑھا شخص تھا۔
’’رات سہانی ہے جناب!‘‘
وہ گرما کی ایک پُرسکون رات تھی۔ ساحل ایک سیاہ آئینے کی طرح اُن کے قدموں میں پڑا تھا۔ وہ بانہوں میں بانہیں ڈالے اس کی سمت چلے۔ وہ مل جل کر کیڈٹ روزل*۹ گا رہے تھے اور جب بھی اس کا ٹیپ کا مصرع آتا، اُس کی دھن پر اپنے پیر زمین پر پٹختے۔
ایک ڈھلوان سے وہ ایک کشتی میں سوار ہوئے اور وہاں سے امریکی باشندے کی کشتی کی جانب چلے۔ وہاں اُن کا ارادہ کھانے کا تھا اور پھر موسیقی اور تاش۔ ولونا نے فیصلہ کن انداز میں کہا، ’’یہ خوب صورت ہے۔‘‘
کشتی کے کیبن میں ایک پیانو تھا۔ ولونا نے والز کی ایک دُھن بجائی جس پر فارلے اور رویغ نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ فارلے نے ایک شہ سوار جب کہ رویغ نے ایک خاتون کا کردار نبھایا۔ اس کے بعد ایک رقص چلا جس میں سب اپنے اپنے کردار میں خود ہی موجود تھے۔ کیا مسرت تھی! جمی نے اس سب میں بخوشی حصہ لیا۔ تو یہ تھا جاننا کہ زندگی ہے کیا۔ پھر فارلے کی سانس پھولنے لگی اور اس نے چلّا کر کہا بس! ایک شخص نے ہلکا پھلکا سا کھانا لگا دیا اور تمام نوجوان اپنی طاقت بحال کرنے کے لیے اس کے گرد بیٹھ گئے۔ ساتھ ہی وہ بوہیمین انداز میں پیتے بھی گئے۔ انھوں نے آئرلینڈ، انگلستان، فرانس، ہنگری اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کے نام پر شراب پی۔ جمی نے ایک طویل تقریر بھی کر ڈالی۔ جب اُس میں وقفہ آتا تو ولونا واہ وا کے نعرے لگاتا۔ جب وہ تقریر کرکے بیٹھا تو سب نے زور شور سے تالیاں بجائیں۔ فارلے نے اُس کی پیٹھ تھپکی اور زور زور سے قہقہے لگائے۔ کیسے قہقہہ بار دوست تھے وہ، اور مل ُ جل کر کیا خوب مزے کر رہے تھے۔
تاش! تاش! ایک میز صاف کردی گئی۔ ولونا اپنے پیانو کی جانب لوٹ آیا اور اُن کے لیے رضاکارانہ طور پر اسے بجانے لگا۔ دوسرے نوجوانوں نے ایک کے بعد دوسری بازی لگائی اور خود کو بڑی دلیری سے اس مہم جوئی کے سپرد کردیا۔ اب انھوں نے تاش کی ملکاؤں کے نام پر پی۔
جمی نے ایک ناقابلِ فہم انداز میں اپنے لیے سامعین کی کمی محسوس کی۔ اُس کی حسِ مزاح پھڑک رہی تھی۔ کھیل میں گرمی آگئی اور نوٹ اِدھر سے اُدھر ہونے لگے۔ جمی کو ٹھیک سے معلوم نہیں ہو پا رہا تھا کہ جیت کون رہا تھا لیکن اتنا وہ ضرور جانتا تھا کہ ہار وہی رہا ہے۔ لیکن غلطی اُسی کی تھی جو وہ اکثر و بیشتر تاش کا کوئی بے*ُ تکا پتّا ہی نکالتا اور دوسرے نوجوانوں کو اُس کی ہاری ہوئی رقم کا حساب رکھنا پڑتا۔ وہ چھوٹے چھوٹے سے شیطان نظر آ رہے تھے لیکن جمی کی خواہش تھی کہ کھیل بند کردیا جائے کہ رات بہت بھیگ چکی تھی۔ کسی نے اُس کشتی کا جامِ صحت تجویز کیا جس میں وہ سوار تھے اور جس کا نام ’’حسینۂ نیوپورٹ‘‘*۱۰ تھا۔ پھر کسی اور نے تجویز دی کہ بس ایک اور آخری بازی کھیلی جائے۔
پیانو رک چکا تھا، شاید ولونا اوپر عرشے پر جاچکا تھا۔ وہ ایک بھیانک بازی ثابت ہوئی۔ بازی کے اختتام سے ذرا پہلے انھوں نے طے کیا کہ اپنی اپنی خوش بختی کے لیے شراب پییں۔ جمی نے جانا کہ اب کھیل راؤتھ اور سیگواں کے درمیان تھا۔ کیا جوش و خروش تھا۔ جمی بھی خوش تھا۔ وہ ظاہر ہے کہ ہار رہا تھا۔ وہ کتنی رقم ہار چکا تھا، کچھ معلوم نہیں۔ پھر وہ سب اپنی اپنی آخری چالیں چلنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے، باتیں کرتے اور منہ بناتے ہوئے۔ راؤتھ جیت گیا۔ کیبن اُن نوجوانوں کی چیخ پکار سے گونج اٹھا اور تاش کے پتے پھر سے اکٹھے کردیے گئے۔ انھوں نے اپنی جیت کی رقم اکٹھی کرنا شروع کردی۔ فارلے اور جمی نے سب سے زیادہ رقم گنوائی تھی۔
جمی جانتا تھا کہ صبح اسے اس پر افسوس ہوگا لیکن فی الحال وہ اپنے سکون پر مسرور تھا۔ اُس بیوقوفی کے بہانے پر مسرور تھا جس کے کھاتے میں وہ بعد میں اپنی غلطی کو ڈالنے والا تھا۔ اُس نے اُسی میز پر کہنیاں پھیلائیں اور ان کے درمیان اپنا سر رکھ کر اپنی کنپٹیوں سے اٹھنے والی درد کی ٹیسیں شمار کرنے لگا۔ کیبن کا دروازہ کھلا اور اُس نے روشنی کی ایک سرمئی لکیر میں ہنگری کے باشندے کو کھڑا دیکھا۔
’’صبح ہوگئی دوستو!‘‘

About سیّد کاشف رضا 27 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔