(اصغر بشیر)
میں جس معاشرے میں رہتا ہوں وہاں کی اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ڈیمانڈ کے کم ترین معیار پر اس طرح مطمئن رہتے ہیں کہ سپلائی نا ہونے کے باوجود اپنے ہونے اور کثیر تعداد میں ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ میں سوچتا رہتا ہوں کہ ایسا کیا ہے کہ بعض عادات اور اطوارِ زندگی معاشرے میں وائرل ہو جاتے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ لوگوں کی کنڈیشنگ اس طرح ہوتی ہے کہ مخصوص حالات میں اکثریتی آبادی کا مخصوص ردعمل ہوتا ہے۔ایساشاید اس لیے ہوتا ہے کہ عوام ایک طرح کے حالات میں رہتے ہوئے کسی عمل کا مخصوص ردعمل سیکھتی ہے۔ معاشرے کی عمومی صورتحال اور اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل کے بارے میں مختلف زبانوں میں وسیع لٹریچر موجود ہے۔لیکن معاشرے اور زندگی میں پایا جانے والا تنوع ہمیں بتاتا ہے کہ یہ عوامل ہر معاشرے میں الگ کیمسٹری کے حامل ہوتے ہیں۔ ان سے نپٹنے کے لیے متحرک سوچ اور تواتر سے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
میں نے یہ دیکھا ہے کہ میرے معاشرے کی اکثریتی آبادی کسی نہ کسی ناسٹلجیا میں مبتلا ہے۔ ہم میں سے اکثریت ماضی کے کسی گم شدہ مظہر کے غم میں نڈھال نظر آتی ہے۔ ہم اپنی موجودہ حالت کے عین برعکس ماضی کو پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہم ماضی میں ایسے نہیں ہوتے تھے بلکہ ہم کوئی اور طرح کے ہوتے تھے۔ اب ’کوئی اور طرح کے ہونے ‘ کا تعلق ماضی کے بجائے ہماری جمالیاتی حس سے ہوتا ہے جس کے تحت ہم اپنے ماضی میں من پسند رنگ بھرتے رہتے ہیں۔ پھر جب ہمیں زندگی میں کامیابی کا موقع ملتا ہے تو ہم اپنی ذاتی خامیوں اور کوتاہیوں سےاسے گنوا دیتے ہیں۔ لیکن یہ بات ہم کبھی نہیں مانتے کیونکہ اگرہم اس طرح ماننے لگیں تو ہمیں حقیقت کے آگے جھکنا ہوگا اور پھر ہم کبھی اپنے آپ کو حسین تصورات میں نہیں دیکھ سکیں گے۔ یہ انداز ِ زندگی نہ صرف فرد بلکہ قوم اور تہذیب کو اپنی گرفت میں لے کر اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے۔
ہمارے سکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان کی کتب تہذیبی نرگسیت کا نیا باب نظر آتی ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے شخصی اندازِ زندگی معاشرتی اور مجموعی ہو کر جب اپنی قانونی حیثیت کے لیے کوشش کرتا ہوگا تو یقیناً درسی کتب میں اپنی جگہ بنانے کےلیے مختلف مذہبی، اخلاقی، اور تاریخی حوالوں سے اپنے آپ کو مضبوط کرتا ہوگا۔ ہماری تہذیبی نرگسیت ایسے ہی چھٹی جماعت سے لے کر بی اے تک کتب میں حیلوں بہانوں سے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ ہمیں مغل دورِ حکومت میں مثالی حکومت کی جھلک نظرآتی ہے۔ اس کے زوال کے اسباب میں ہمیں انگریز کی چالبازیاں اور ہندوؤں کی مکاریاں ہی نظرآتی ہیں۔ ہم اپنے گریبان میں جھانک کر یہ نہیں دیکھتے کہ جب سائنس و ٹیکنالوجی کے بجائے روایت کو فروغ دیا جائے تو جیت سائنس کی ہوتی ہے۔ جب اکبر کے دربار میں چھاپہ خانہ لایا گیا تو اس نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ اس کے خطاط اس سے بہتر اور سرعت کے ساتھ لکھتے ہیں۔ صرف اس ایک واقعہ کے اثرات اتنے زیادہ ہیں کہ مغل دور ِ حکومت صرف اسی ایک غلطی سے زوال پذیر ہو سکتی تھی۔ لیکن جس طرح متجسس ذہن کے پاس تحیر کے مواقع بہت ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ایک زوال پسند ذہن کبھی بھی اپنے فیصلے کو سوچ کی کسوٹی پر نہیں لاتا بلکہ ایک مخصوص رفتار کے ساتھ غلطی پر غلطی کرتا رہتا ہے جو بالآخر اس کے انجام پر ختم ہوتی ہے۔
کسی بھی نئی چیز سے ڈرنا اور اس سے بچنے کے طریقے ڈھونڈنا زوال پسند سوچ کے حامل افراد کی Core Memory ہوتی ہے۔ اس لیے ہر وہ چیز جو انہیں کمفرٹ زون سے باہر نکالے دراصل ان کے لیے ایک چیلنج ہوتا ہے جس سے بچنے کے لیے انہوں نے مختلف سماجی، سیاسی، اخلاقی، اور مذہبی ہتھیار بنائے ہوتے ہیں ۔ یہ ذہنی ہتھیار ان کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ اپنی حالت کو دلیل کے ساتھ دفاع کر سکیں۔ اگر ہم اپنے معاشرے کا مجموعی جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمیں پورے دین اسلام میں سے صرف وہی احادیث یاد ہیں جو غربت کی عظمت ذہن نشین کرواتی ہیں۔ ہمارے تہذیبی اور اخلاقی بیانیے ہر اس حرکت کو ناپسند کرتے ہیں جن سے طے شدہ کردار اور اس کے اعمال میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
زوال پسندی اور اس کا مطالعہ ایک متحرک مظہر ہے کیونکہ اس کی نوعیت اور اس کے اثرات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ آج سے سو سال پہلے کی مثبت سوچ آج کے معاشرتی عوامل کے لحاظ سے زوال پسندانہ سوچ ہو سکتی ہے۔ ایک معاشرہ اسی وقت ترقی پسند معاشرہ کہلانے کا حق دار ہو گا جب اس کے لوگوں کے ذہن آزاد ، چیلنج قبول کرنے والے، اور ورلڈ ویو کی حقانیت کو چیلنج کرنے والے ہوں گے۔
صاف واضح اور جامع تحریر۔
ناسٹیلجیا بنیادی طور پر ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے جس میں افراد اور اقوام پھنس کر ریہہ جاتیے ہیں۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے حقیقی تعلیم اور ایک ترقی پسند لیڈرشپ کا رول بہت اہم ہے۔ دیکھئے آخر کار جرمنی اور فرانس اس بات پر آمادہ ہوگئے کہ انھیں اپنی تاریخ کو نئے سرے سے لکھنا ہو گا۔