(اشتیاق احمد)
پاکستان کو آزاد ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ ہو چکا مگر افسوس کہ ہم ابھی تک اس سوال کی بھول بھلیوں میں غلطاں اور سرگرداں ہیں کہ پاکستان کا نظامِ تعلیم کیسا ہونا چاہیے؟ہمارے ساتھ آزاد ہونے والی قوموں نے اس سوال کے عُقدے کو اپنی آزادی کے ساتھ ہی حل کر لیااور آج وہ ترقی و خوشحالی کی شاہراہوں پر بڑے اعتماد اور فخر کے ساتھ رواں دواں ہیں اور اس کے برعکس ہم پوری دنیا کے سامنے کاسۂ گدائی اُٹھائے بھیک کے ٹکڑے مانگ رہے ہیں اور اس کے عوض اپنی قومی غیرت ، قومی تہذیب، انا ، وقار ، خودی اور عزتِ نفس کو فروخت کر رہے ہیں۔حالانکہ نبئ مہربانﷺ نے فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہوتا ہے۔ہمارا ہاتھ نیچے اس لیے ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم فرسودہ ، متعفّن اور غیر ملکی آقاؤں کا تیار کردہ ہے۔ لارڈ میکالے کی فکر اور سوچ سے پرورش پانے ولا نظامِ تعلیم فقط ایک فیصد سے بھی کم طبقے کو آگے لاتاہے جو انگریز کی غلامی کے عوض نوازا جانے والا طبقہ ہے جس کے مفادات ننانوے فیصد لوگوں کو پسماندہ اور تعلیم سے محروم رکھ کر پورے ہوتے ہیں۔یہ نظامِ تعلیم محبِ وطن لوگوں کا نہیں بلکہ لارڈ میکالے کا تیار کردہ ہے جس کی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ برصغیر کے لوگوں کو ان کی زبان میں تعلیم مت حاصل کرنے دو۔ اس سے وہ خود بخود تمہارے غلام اور محکوم بن جائیں گے۔شاعرِ مشرق نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے
غلامی کا غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
ہمارا نظامِ تعلیم شُترِ بے مہار اور پل پل بدلتی تعلیمی پالیسیوں کا آئینہ دار ہے۔ یہ نظام صرف رٹو طوطے پیدا کرتا ہے۔ علوم و فنون کے فہم کا گلا گھونٹتا ہے۔قومی تشخص کی جڑیں کاٹتا ہے ۔ تحقیق و تخلیق اور ایجادات کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم پر بند کرتا ہے۔نسلِ نو کو بے راہروی کے ایسے عمیق سمندر میں دھکیلتا ہے جہاں ڈوبنے کے علاوہ دوسرے تمام راستے بند ہوتے ہیں۔
قرآن دنیا کی سب سے سچی اور قابلِ عمل کتاب ہے جس کے احکامات انسانی نفسیات کے عین مطابق ہیں۔ آئیے اس کتابِ ہدایت سے اپنے عُقدے کا حل تلاش کرتے ہیں۔ سورۂ ابراہیم میں اللہ ربُّ العزّت ارشاد فرماتے ہیں ” وما ارسلنا من رسولٍ الا بلسانِ قومہ لِیُبیّنَ لَھُم ” یعنی ہم نے رسولوں کو قوموں کی زبان میں بھیجا تاکہ بات وضاحت سے سمجھا سکیں۔ اگر خدا پیغمبروں کو لوگوں کی زبان میں نہ بھیجتا تو لوگ کہتے کہ یہ شخص تو ہم میں سے نہیں ہے اور اس کی باتیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں، لہٰذا یہ ہمارا پیغمبر نہیں ہو سکتا۔اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ بات سمجھ آتی ہے تو صرف اپنی قوم کی زبان میں۔اللہ کا یہ فرمان ہمیں نصاب سازی اور طریقِ تدریس کے بارے میں بالکل صاف اور واضح رہنمائی دیتا ہے۔علاوہ ازیں صحیح بخاری میں پیارے پیغمبرﷺ کا ارشاد ہے ” آسانی پیدا کرو مشکل میں نہ ڈالو ” یہ حکم دینی اور دنیاوی دونوں امور پر محیط ہے۔اس سے بھی ہمارے نظامِ تعلیم اور ذریعہء تعلیم کے عُقدے کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ہماری نصابی اور غیر نصابی کتاب اس زبان میں ہو جس کا پڑھنا اور پڑھانا آسان ہو اور وہ کسی قوم کی قومی اور مادری زبان ہی ہو سکتی ہے۔
ایک اور موقع پر پیارے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “لوگوں کی ذہنی سطح کو مدِ نظر رکھ کر بات کیا کرو ” جب کتاب ہمارے بچے کی ذہنی سطح کی اور عمرکے مطابق ہو گی اور تدریس میں بھی اس امر کا خیال رکھا جائے گا تو بچے کے لیے دلچسپی پیدا ہو گی اور فہم و ابلاغ آسان ہو جائے گا۔ہمارا دین تو ہر معاملے میں ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے مگر ہم نے اس سے انحراف کر کے خود ساختہ مشکلات میں پوری قوم کو پھنسا دیا ہے۔نہ بچہ کچھ سمجھ پاتا ہے اور نہ ہی استاد کچھ سمجھا پاتا ہے۔
اگر ہم اپنے نظامِ تعلیم کو درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے آپ کو بدلنا پڑے گا بقولِ مولانا ظفر علی خان جو قرآنی آیت کا ترجمہ منظوم شکل میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اسلام دینِ فطرت ہے اور اور قومِ رسولِ ہاشمیؐ اپنی ترکیب میں خاص ہے۔جس طرح اسلامی تعلیمات ہمیں دائیں ہاتھ سے خوردونوش اور دائیں سے بائیں تقسیمِ کار کا حکم دیتی ہیں۔ اسی مزاج، ترتیب اور ترکیب کو اللہ نے مسلمانوں کی اکثریتی زبانوں کے رسم الخط میں بھی رکھ دیا ہے کہ ہم دائیں سے بائیں لکھتے ہیں۔ اسی تہذیبی اور ثقافتی ہم آہنگی سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ جو قوم اپنی تہذیب اور رسم الخط کو بھول جاتی ہے علم و فن بھی اس سے روٹھ جاتے ہیں۔آج تعلیم، تحقیق اور تخلیق کے دروازے ہم پر کیوں بند ہوئے ہیں؟ اس لیے کہ ہم اپنی اصل اقدار کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔اگر ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ آئیں تو بغداد و ہسپانیہ کے بڑے بڑے تحقیقی و علمی مراکز دوبارہ امّتِ مسلمہ کی رہنمائی کے لیے قائم ہو جائیں۔امت کی علمی مسکنت اور یتامت دوبارہ خود انحصاری میں بدل جائے۔
آج اگر ہم دنیا بھر کے علوم و فنون کو اپنی زبان میں منتقل کرنے کا کام دل سے شروع کرد یں تو وہ دن دور نہیں جب ہماری لائبریریاں ہمارے اپنے لوگوں اور اپنی زبان میں لکھی ہوئی کتابوں سے بھر جائیں گی۔یہی ہماری خود انحصاری اور ترقی کا نقطۂ آغاز ہوگا۔دنیا میں کسی ایک قوم کی مثال نہیں دی جا سکتی جس نے یہ کام کیے بغیر ترقی ،تحقیق و تخلیق اور ایجادات کے دروازے وا کیے ہوں۔
یہ وہ نسخۂ کیمیا ہے جس پر عمل کر کے دنیا کی ہر قوم نے ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کی ہیں مگر سامراجی طاقتیں ہمیں دھن دولت اور دور سے چمکتی ہوئی تہذیب کے دامِ پر فریب میں پھنسا کر اس نسخے پر عمل پیرا نہیں ہونے دیتیں۔ تنزّلی اور انحطاط کا شکار قومیں اگر اپنی تنزلی اور انحطاط کے اسباب و عوامل کا تجزیہ کریں اور پھر تمام تر زمینی، جغرافیائی ، لسانی، نفسیاتی ، مذہبی ، معاشرتی ، تہذیبی اور ثقافتی حقائق کو مدِّ نظر رکھ کر دوسری قوموں سے آگے نکلنے کی حکمتِ عملی وضع کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ دوسری اقوام سے ترقی میں سبقت نہ لے جائیں۔ایک ناکام، لاحاصل اور گھِسے پٹے نظام سے چمٹے رہ کر اپنی تمام تر توانائیوں اور صلاحیتوں کو ضائع کرتے رہنا اور پھر بھی اسے اپنا مقدر سمجھ کر گلے سے لگائے رکھنا ہی کسی قوم کی منفی سوچ کے عکاس رویے ہیں۔مثال کے طور پر یہ ہماری بہت بڑی ناکامی نہیں ہے کہ ہم آزاد اور مؤثر ذرائع ابلاغ کے دور میں ایک تعلیمی چینل کا آغاز نہیں کر سکے۔حکومتوں کے لیے تو خیر یہ کام مشکل ہے ہی نہیں کوئی ایک جماعت یا تنظیم بھی یہ چینل شروع کر سکتی ہے اور آسان فہم زبان میں مشکل سے مشکل سائنسی، تکنیکی اور معاشرتی تصورات کو عام لوگوں تک پہنچا سکتی ہے۔علم کو عام کرنے کے لیے ان ذرائع کا استعمال کرنا اب سانس، پانی اور غذا کی طرح ضروری بن چکا ہے۔اب ذرا ہمارے ہمسائے اور حریف ملک بھارت کی طرف دیکھیے۔ نیشنل جیو گرافی چوبیس گھنٹے ہندی ڈبنگ کے ساتھ چلتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور چینل discovery بھی بڑی کامیابی کے ساتھ ہندی ڈبنگ کے ساتھ چل رہا ہے جس میں دنیا بھر کی جدید ترین تحقیقات کو سادہ ہندی میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ عام آدمی بھی سمجھ کر استفادہ حاصل کر سکے۔ان دونوں چینلوں کے ساتھ ایک تیسرا چینل animal planet ہے جو دنیائے حیوانات کے نت نئے گوشوں کو وا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک چوتھا چینل cn بچوں کے کارٹونوں اور ہلکے پھلکے تعلیمی پروگراموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق اسی طرز کا ایک اردو زبان میں چینل شروع کرنے کی بھارت میں تیاریاں ہو رہی ہیں۔یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ ان چینلوں میں اشتہارات کی اجازت نہیں ہے۔ گویا کہ یہ خالصتاً تعلیمی اور تحقیقی چینل ہیں اور ان کو چلانے والے ملکوں کی حکومتیں تمام تر اشتہاری منافع سے انہیں آزاد رکھ کر چلا رہی ہیں۔تعلیم کو مال بیچنے والی فیکٹریاں نہیں بنایا۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم فیکٹریوں کے مال کی طرح بِک رہی ہے جو کہ انتہائی خطرناک رجحان کی عکاسی کرنے والا رویہ ہے۔اب آئیے اس کام کی طرف جو گذشتہ تقریباً نصف عشرے میں بھارت میں جہادی روح کے ساتھ ہوا اور ایک تہلکہ خیز صورت اختیار کر گیا۔وہ یہ کہ بھارت میں قومی اور مقامی زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے جس کی سرکاری سرپرستی ہر ممکن طریقے سے ہو رہی ہے۔یہ بات بڑی حیرانی کی ہے کہ بھارت جیسا ملک جو انگریزی کا شیدائی سمجھا جاتا تھا اس نے یکدم پلٹا کھا یا ہے اور تمام علوم و فنون کو بھارت کی قومی اور مقامی زبانوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کام میں ہندی کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی خاصی ترجیح دی جا رہی ہے اور اسے گنگا جمنی زبان کا درجہ حاصل ہوا ہے۔
بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہزاروں اردو میڈیم سکول کھل چکے ہیں جہاں تمام مضامین کی تعلیم اردو میں دینے کی اجازت مل چکی ہے۔ بھارت تیزی سے انگریزی چھوڑ کر ہندی، اردو اور دوسری مقامی زبانوں کی طرف آ رہا ہے اور ان زبانوں میں جدید ٹیکنالوجی کو لانے کے لیے مختلف سافٹ وئیر تیار کر رہا ہے۔ بھارت کی ایک ویب سائٹ ncertbooks. prashantheellina. com ہے جہاں پہلی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک بشمول سائنسی کتب کے تمام مضامین کی کتابیں اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب تدریسی مواد کے ساتھ موجود ہیں جو کہ ہر شخص مفت میں ڈاؤن لوڈ کر سکتا ہے۔سائنس کی اردو میں لکھی جانے والی کتابوں میں اصطلاحات تمام اردو کی ہی استعمال کی گئی ہیں نہ کہ ہماری طرح اردو کی سائنسی کتابوں میں انگریزی اصطلاحات کو اردو تحت اللفظ میں لکھ کر ایک عجیب قسم کا چوں چوں کا مربہ بنا دیا ہے۔ان کتابوں کا معیار اور جاذبیت آپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے گی۔یہاں پر یہ بات بھی قابلِ ذکر اور قابلِ افسوس ہے کہ اردو تو ہماری قومی زبان ہے مگر کام اس پر زیادہ بھارت میں ہو رہا ہے۔ہے نا ہمارے لیے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام۔
دہلی میں قائم ادارہ ” قومی کونسل برائے فروغِ اردو جو کہ اعلی تعلیمی کمیشن ” اور “ادارہ برائے ترقی انسانی وسائل “کے تحت کام کرتا ہے، نے اعلی سطح تک کا نصاب اردو میں منتقل کرنے ،اس کے مطابق اساتذہ کو تربیت دینے اور اردوسافٹ ویئر تیار کرنے کا بیڑہ اُٹھایا ہے۔گذشتہ پانچ سالوں میں اس ادارے نے قابلِ قدر اور بہت بڑا کام کر کے دکھایا ہے۔قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کی ویب سائٹ urducouncil.nic.in.comپر ان کی نئی کتابوں کی فہرست موجود ہے جو مفت میں ڈاؤن لوڈ اور پرنٹ کی جا سکتی ہے۔ان میں بہت سی ادبی اردو کتب کے علاوہ جناب فضل الرحمان صاحب کا تین ضخیم جلدوں پر مشتمل اردو انسائکلوپیڈیا، بی شیلا ملاکماری کی تصویری اردو لغت، آٹھ جلدوں پر مشتمل قومی کونسل برائے اردو زبان کا تیار کردہ جامع اردو انسائیکلو پیڈیا، اردو کے مشہور نقاد جناب کلیم الدین کی تحریر کردہ چھ جلدوں میں جامع انگریزی اردو لغت جو خصوصاً ترجمے کے مقاصد کے لیے تیار کی گئی ہے جسے ایک بڑے کارنامے سے تعبیر کیا جانا چاہیے، جناب نصیر احمد خاں نے دو ضخیم جلدوں میں جدید ہندی اردو لغت تحریر کی ہے، قومی اردو کونسل کی فرہنگِ ادبی اصطلاحات، فرہنگِ اصطلاحاتِ طبیعیات، فرہنگِ اصطلاحاتِ انتظامیہ، فرہنگِ اصطلاحاتِ تاریخ و سیاسیات، فرہنگِ اصطلاحاتِ جغرافیہ، فرہنگِ اصطلاحاتِ حیوانات، فرہنگِ اصطلاحاتِ ریاضیات ثانوی سطح کے لیے، فرہنگِ اصطلاحاتِ ریاضیات گریجویٹ سطح کے لیے، فرہنگِ اصطلاحاتِ فلسفہ، نفسیات اور تعلیم اور ان کے علاوہ لسانیات، کیمیا، معاشیات، نباتات، سماجیات، ترسیلِ عامہ، سیاسیات، شماریات، کی فرہنگ تیار کی ہیں۔ لغاتِ ابجد شماری جناب سید احمد کی، بی شیلا کماری اور ماہ جبیں نجم کی کتاب اردو زبان کا جادو اور ان کے علاوہ کیمیا، حیاتیات، طبیعیات اور دوسرے سائنسی مضامین پر سینکڑوں کی تعداد میں کتب فہرست میں موجود ہیں۔علاوہ ازیں بچوں کے سائنسی اور اخلاقی ادب کے حوالے سے بھی سینکڑوں کتب اس فہرست میں موجود ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے پلیٹ فارم سے ملک کے مختلف شہروں اور صوبوں میں اردو صحافت کے بہت سے کورسز کروائے جا رہے ہیں جن کے تمام تر اخراجات دلی سرکار اٹھا رہی ہے۔ملاحظہ کیجئے دہلی سے شائع ہونے والا ماہنامہ” اردو دنیا ” جس میں عربی، فارسی اور اردو کے بہت سے کورسز کا تذکرہ ہے جو ملک کے مختلف حصوں میں کروائے جا رہے ہیں۔ جون ۲۰۱۰ء کے” اردو دنیا “کے شمارے کے پچھلے سرِ ورق (بیک ٹائٹل) پر کشمیر کے شاہ فیصل نامی ایک نوجوان کی تصویر ہے جو اردو مضامین کے ساتھ مقابلے کے امتحان میں بھارت بھر میں اول آیا ہے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ جس کام میں ہمیں بھارت سے کہیں آگے نکل جانا چاہیے تھا اس میں بھارت ہم سے آگے نکل رہا ہے۔ایک لمحے کے لیے رک کر ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کدھر جا رہے ہیں اور ہمیں کدھر جانا چاہیے تھا؟۔دنیا اپنی زبان و تہذیب کی طرف واپس لوٹ رہی ہے اور ہم اس سے دور چلتے جا رہے ہیں۔آئیے ہم سب سوچیں اور اپنی جدوجہد کی سمت متعین کریں۔ جو نہیں سوچتے انہیں قرآن کی زبان میں بتا دیں کہ “آخر تم سوچتے کیوں نہیں ہو”۔