سائنس کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے
از، رضا علی
مجھے تازہ تازہ ایک مقبول پاکستانی کالم نویس کے حالیہ کالم کے مطالعہ کا اتفاقاً اتفاق ہوا۔ واہ بھائی واہ۔ صدیوں سے ہونے والی سائنسی ترقی کا جو بھانڈا پھوڑا ہے، یہ بس ان کا ہی کمال ہے۔ کیا کارل (Karl Popper) تو کیا تھامس کہن (Thomas Kuhn)، یہ ہمارے مقبول کالم نویس ہی جانتے ہیں کے سائنس کا چھپا راز اور دکھتی رگ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے خاص انداز میں اور اپنی قلم کی کاٹ سے سائنس کو ‘جھوٹ کا پلندہ ‘ ثابت کر دیا۔ صرف وہ ہی ایک ہی وقت میں ماہر سیاسیات، عمرانیات، نفسیات، تاریخیات، ادبیات، الہیات اور نہ جانے کون کون سی یات پر عبور رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت کچھ پرانے زمانے کے مسلمان سائنس دانوں جیسی ہے جو ایک ہی وقت میں بہت سی صلاحیتوں کے مالک ہوتے تھے اورکئی علوم پر عبور رکھتے تھے۔ سمجھیے کے اکیسویں صدی کے خوارزمی۔
کمال فن کے ساتھ انھوں نے ایک منطقی مغالطہ، جسے سٹرا مین (straw man) کہا جاتا ہے، سے آغاز کیا ہے۔ پہلے وہ ہمیں فرعون کی کہانی سناتے ہیں اور کہیں سے الہام حاصل کرتے ہوے یہ حرف راف فاش کرتے ہیں کے ‘اس (فرعون) کا نظریہ یہ تھا کے خالق کائنات اور اس کے عطاکردہ مذہب کو صرف عبادت تک محدود ہونا چاہیے’۔ پتا نہیں فرعون اتنا فلسفی کب سے ہو گیا۔ مجھے تو صرف انکار ہی یاد ہے۔ لیکن پھر یہ راز کی باتیں ہیں۔ انہوں نے سیکولر ازم کو سائنس سے جوڑ کے پہلے ہی سائنس کو بد نیّتی پر مبنی بتایا ہے۔ اس کا جھوٹ تو بعد میں آئے گا۔
اپنے مقدّمے میں وہ ہمیں سائنسی سچائی اور آخری سچائی کا فرق بتاتے ہیں۔ یعنی مذہب اصل میں آخری سچائی ہے اور یہ فرعونی، سائنس کو آخری سچائی بنا کے بیچتے ہیں۔ پھر کچھ ہی سال میں ان کا بھانڈا کھل جاتا ہے۔ ویسے تو وہ اپنے آپ کو فلسفے اور تاریخ کا پروفیسر سمجھتے ہیں لیکن یہاں نہ جانے کیوں دونوں ہی بھول گئے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کے ایتھر نام کی ایک بلا ہوتی تھی۔ یہ کسی سائنسدان نے ایجاد کی اورسارے سیکولر من و عن اس پر ایمان لے آئے۔ پھر کیا ہوا، ایک آئن سٹائن آیا اور اس نے اس آخری سچائی کو غلط ثابت کر دیا۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہے مذہب میں بھی صرف کچھ باتیں آخری یعنی ultimate ہوتی ہیں ورنہ اکثر وہاں بھی وقتی یا relative ہوتی ہیں۔
مزید مطالعہ کے لیے دیکھیے: کیا سائنس نے سرسید کو غلط ثابت کر دیا؟
اب انھیں کیسے یہ سمجھائیں کے سائنس میں تو کوئی آخری سچ ہوتا ہی نہیں ہے۔ یہی اس کا کمال ہے کے وہ غلط ثابت کرنے یا falsification کے اصول پر کام کرتی ہے۔ سائنسدان کا کام ہوتا ہے کے ایک ماڈل بنائے جسے ہم تھیوری کہتے ہیں۔ پھر اس کے ذریعے کچھ پیشن گوئی کرے۔ اگر اس کی پیشن گوئی صحیح ثابت ہوئی تو اس کی تھیوری صحیح ورنہ غلط۔ اور ہر سائنسدان کی اس اصول پر تربیت کی جاتی ہے۔ ہر سائنسدان بغیر انا کے نتائج قبول کرتا ہے۔ جب اس کی تھیوری دوسرے بھی آزما کر دیکھ لیتے ہیں تو وہ بھی اسے قبول کر لیتے ہیں۔ پھر وہ اس کی بنیاد پر اور ماڈل یا تھیوری بناتے ہیں اور کامیابی ہوتی رہے تو آگے بڑھتے جاتے ہیں ورنہ اپنی پرانی تھیوری کو دوبارہ چیک کرتے ہیں کے کہیں غلطی تو نہیں ہو گئی۔ سائنس اسی تصحیح correction اور بہتری refinement کا نام ہے۔
ایتھر کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے – کیوں کے سائنسدانوں نے یہ دیکھا کے ہر چیز کسی ذریعہ medium سے گزرتی ہے تو انہوں نے تصوّر کیا خلا space میں بھی کوئی ایسا میڈیم ہو گا جس سے روشنی گزرتی ہے، جسے انہوں نے ایتھر کہ دیا۔ اس کی بنیاد پر تھیوری بنائی اور کامیابی کے ساتھ بہت عرصے تک استعمال کی، اسی کو پڑھایا، جب تک کے ایسے ثبوت سامنے نہ آ گئے جو اسے غیر ضروری ثابت کرتے۔ نہ اس میں کوئی دھوکہ تھا نہ ہی ایمان اور کفر کا کوئی مسئلہ ہے – آج بھی نیوٹن کی تھیوری صحیح ہے لیکن آئنسٹائن کی تھیوری اس سے بھی بہتر ہے کیوں کے اس نے یہ واضح کر دیا کے کشش ثقل gravity کیسے ایتھر کے بغیر کام کرتی ہے۔ آج بھی راکٹ نیوٹن کی تھیوری پر ہی چلتے ہیں۔
انہوں نے یہ الزام بھی دھر دیا کے سیکولر لوگوں نے پہلے ہی دن آئنسٹائن کی تھیوری پر ایمان لے آئے۔ جیسے کے وہ ہر تھیوری پر ایمان لے آتے ہیں۔ اگر انہیں آئنسٹائن کی تھیوری general relativity کی کچھ تاریخ معلوم ہوتی تو وہ یہ سمجھتے کے پہلے پہل تو وہ کسی کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔ صرف کچھ لوگ اس بات کو سمجھنے کےقابل ہوئے۔ بنیادی طور پر اس کی تھیوری کو تجربے کے زریعے ہی سمجھا گیا۔ جب آئنسٹائن کے سامنے کوانٹم میکینکس quantum mechanics کی تھیوری پیش کی گی تو وہ آئن سٹائن کو بھی نہیں سمجھ آئی۔ لیکن تجربے نے ثابت کیا کے وہ تھیوری بھی جان رکھتی تھی۔ چاہے کوئی مانے یا نہ مانے۔ چاہے وہ آئن سٹائن ہی کیوں نہ ہو۔ سائنس میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا۔
پھر انہوں نے ارتقا یعنی evolution کی ٹانگ بھی توڑنے کی کوشش کی ہے۔ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کے دنیا جہاں میں کھدائی کر کے حاصل کیے جانے والے fossil صرف اس لیے ڈھونڈے جا رہے ہیں کے بندر کو انسان کا جد امجد ثابت کیا جا سکے۔ یہ ایک اور منطقی مغالطے کا مظاہرہ ہے جہاں دوسرے کی نیّت پر شک کر کے بات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر ایسا ہی کرنا ہے تو پھر حضرت کی نیّت پر کیوں نہ شک کیا جائے؟ لیکن یہ غیر سائنسی روئیہ ہے اور صرف غیر سائنسی شخص ہی ایسا سوچ سکتا ہے۔ سائنس میں ہر جگا مطابقت consistency اور پیٹرن pattern ڈھونڈا جاتا ہے۔ کوئی بھی چیز بے اصول انداز میں نہیں ہوتی۔ ارتقا کی تھیوری بھی اسی کا نام ہے۔ یہ تمام جانداروں کی موجودگی سمجھنے کی کوشش کرتی ہے جس میں انسان بھی شامل ہیں۔ اس کے لیے سائنس دان نمونے کھدائی کے ذریعے ڈھونڈتے گئے اور کڑی سے کڑی جوڑتے گئے۔
ایک پیٹرن سامنے آتا گیا اور یہی ارتقا ہے۔ کوئی سائنس دان یہ نہیں کہتا کے ہم بندروں سے نکلے ہیں۔ ہمارے اور بندروں کے بیچ میں بہت سے مراحل اور نسل کے جاندار گزرے ہیں۔ اور پھر ایک وقت آیا کے ذہنی ترقی اور جسم کی ساخت ایک خاص مقام تک پہنچی جسے سائنس دان ہومو سیپین homo sapiens کہتے ہیں۔ انسان اس نسل سے ہے نہ کے بندر کے پیٹ سے۔ یہ ارتقا کا عمل کروڑوں سال پر محیط ہوتا ہے اور اسے لیباٹری میں چیک نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس کی وضاحت فیزکس اور کیمسٹری سے مشکل اور مختلف ہوتی ہے۔ لیکن بات پھر وہی ہے کے سائنس میں کوئی آخری بات نہیں ہوتی اور کسی بات پر ایمان نہیں لایا جاتا۔ کل وہ کڑی بھی مل سکتی ہے جسے link missing کہتے ہیں اور اس سے بہتر تھیوری بھی آ سکتی ہے۔
آخر میں عجیب و غریب طریقے سے سیکولر ازم جمہوریت الحاد اور سائنس کو جوڑ کے اسلام کے خلاف ایک سازش بنا دیا۔ بات لمبی ہو جائے گی ورنہ اس میں سے ہر مثال کو غلط اور غیر منطقی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ بنیادی طور پر سازش زدہ ذھن صرف سازش ہی ڈھونڈھ سکتے ہیں۔ اور اپنے اعتقادات کو سچ ثابت کرنے کی اندھی خواہش میں دور نکل جاتے ہیں اور انصاف کا دامن بھی چھوٹ جاتا ہے۔ یہ کسی مسلمان کا طریقہ نہیں ہو سکتا، کیوں مسلمان تو ہمیشہ سچ پر قائم رہتا ہے چاہے وہ اس کے خلاف ہی کیوں نہ جائے۔ دنیا اس وقت متبادل حقائق alternative facts اور جھوٹی خبریں fake news سے پریشان ہے۔ وہ بعد از حقائق post facts کے دور سے گزر رہی ہے، جس کا نتیجہ ٹرمپ ہے۔ اسے کیا معلوم کے پاکستان میں تو یہ پرانی روایت ہے۔