سرمئی علاقے کی بحث
از، ناصر عباس نیر
سرمئی علاقہ دو متضادرنگوں کے بیچ وجود میں آتا ہے،اور انھی کے طفیل وجود میں آتا ہے،اور اس لیے وجود میں آتا ہے کہ کسی رنگ(اور کسی نظریے)کی کوئی آہنی سرحد نہیں ہوتی؛چوں کہ کوئی آہنی سرحد نہیں ہوتی، اس لیے وہ قریب کے ،دیگررنگوں اور نظریوں سے آمیز ہونے لگتا ہے۔جہاں دورنگ یا دو نظریے آمیز ہوتے ہیں،وہی سرمئی علاقہ ہے ۔لہٰذاسرمئی علاقے میں سفید اور سیاہ رنگ بہ یک وقت شامل ہوتے ہیں،مگر ایک ایسے انداز میں کہ دونوں کو پہچانا جاسکتا ہے، مگر جدا نہیں کیا جاسکتا ۔اس اعتبار سے سرمئی علاقہ ایک اپنی شناخت تو رکھتا ہے ،مگر یہ شناخت مسلسل منحصر رہتی ہے ،سفید وسیاہ کی شناختوں پر۔سرمئی علاقہ اس مر کا استعارہ ہے کہ دونظریے بہ ظاہر کس قدر ایک دوسرے سے فاصلے پر ،ایک دوسرے پر تلواریں سونتے کھڑے ہوں،وہ خود اپنے درمیان ایک ایسا علاقہ تخلیق کر سکتے ہیں ،جہاں دونوں میں مکالمہ ممکن ہے۔نیز سرمئی علاقہ یہ باور کراتا ہے کہ آپ ایک قطعی لکیر کھینچ کر یہ نہیں کَہ سکتے کہ یہاں ،ٹھیک اس مقام پرایک نظریے کے حدود ختم ہوجاتے ہیں،اور آگے ایک دشمن نظریے کے حدود شروع ہوتے ہیں۔کم ازکم انسانی فکر میں ہم آہنی لکیریں کھینچ سکتے ہیں نہ آہنی دیواریں اٹھا سکتے ہیں۔ سرمئی علاقے کی موجودگی اور بنیادی حقیقتوں کی تفہیم میں اس کی ضرورت کا احساس ہندی فلسفے میں ملتا ہے۔والمیکی کی جوگ بسشت میں لکھا ہے:
مجھے حیرت اور تعجب یہی ہے کہ جو کچھ ہے نظر نہیں آتا ،اور جو کچھ نہیں ہے،دکھلائی دیتا ہے۔پس حق ’ہست نیست نما‘ اور عالم’ نیست ہست نما‘ ہے،اور یہی سبب ہے کہ ہند کے علماحق کی معرفت اور کثرت کے ظہور میں وحدت سے اختلاف رکھتے ہیں۔
یہ حقیقت کا مکالماتی (Dialogical)تصور ہے،جو حقیقت کے جدلیاتی تصور سے مختلف ہے۔حقیقت کا جدلیاتی تصور،’مختلف‘ کو خارج رکھنے اور مغلوب کرنے میں یقین رکھتا ہے،جب کہ مکالماتی تصور ،’مختلف‘ کو شامل کرنے ،اور اس کے امکانات کھوجنے میں یقین رکھتا ہے۔ جدلیاتی تصور اس سب کو معدوم سمجھتا ہے جو نظر نہیں آتا ،اور جو نظر آتا ہے ،اسی کو حتمی خیال کرتا ہے،اس کے بعد ،اور اس کے آگے کا خیال بھی نہیں کرتا؛اس کے مقابلے میں مکالماتی تصورنظر کی حد کو حتمی نہیں سمجھتا،اور اسی لیے ماوراے نظر دنیا میں بھی ہست و موجود کا امکان دیکھتا ہے۔’ماوراے نظر ‘سے مراد وہ سب ہے ،جس کا نظری طور پر وجود ممکن ہے۔اگر ہم ’ہست نیست نما‘اور’ نیستِ ہست نما‘ کی سادہ تفسیر کریں تو یہ کَہ سکتے ہیں کہ حق کی پہچان آسان نہیں،یہ انسانی ذہن کے لیے ایک عظیم چیلنج ہے۔ ہست کو نیست سے الگ کرنا ،یا سیاہ کو سفید سے جد اکرکے دیکھنا آسان ہے،مگر ہست میں نیستی ،یا نیستی میں ہست کا ادراک کرنا آسان نہیں؛یعنی اس سرمئی منطقے کی معرفت آسان نہیں، جہاں تضادات باقی نہیں رہتے ؛یہ تقریباً ایسا ہی ہے کہ جیتے جی موت کا تجربہ کرنا،موت جو اصل میں آدمی کا تجربہ ہے ہی نہیں؛ایک محال کو ممکن بناناہے۔سفید و سیاہ، حیات وموت ،زندگی کی حقیقتیں ہیں،اور ایک دوسرے سے جدا ہیں،مگر’ہست یاحق‘ کی سطح پران میں فصل نہیں، وصل ہے۔صوفیا کے لیے یہ ایک تجربہ، مگر فلسفیوں کے لیے ایک نظری اصول ہے۔شاعری میں مرزا عبدالقادر بیدل نے اسی نکتے کو کیا عمدگی سے پیش کیا ہے۔
شیشہ و سنگ آتش و آب اند اندر کوہسار
عالمی باہم جدا از اصل ،دشمن می شود
یعنی پہاڑ کے اندر شیشہ و سنگ ،اور پانی وآگ اکٹھے ہیں،مگر جب وہ باہر آتے ہیں تو ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ گویا اصل کی سطح پر کوئی تضاد نہیں، کوئی دشمنی اور جنگ نہیں، مگراصل سے دوری ،اور اپنی اپنی انفرادیت پر شدید اصرار سے چیزیں ایک دوسرے کی دشمن بن جاتی ہیں۔ سرمئی علاقے کا تصور در حقیقت اس مقام یا نکتے کی طرف متوجہ کرتا ہے ،جہاں فرق و امتیاز کی انتہا تحلیل ہوجاتی ہے،وہ انتہا جو دشمنی کا باعث ہوتی ہے۔
اب اگر ہم اس نظر ی اصول کی ذرا سی تعمیم کریں تو کَہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا اصول ہے جو ہمیں باور کراتا ہے کہ ہونے میں نہ ہونا، کہی میں ان کہی،کلام میں خاموشی،رواں سطر میں ختمہ، سیاہی میں سفیدی ، ترقی پسندی میں جدیدیت ،مارکسیت میں فرائیڈیت، مابعد جدیدیت میں نو مارکسیت شامل ہے۔یہاں ایک بنیادی بات کہنا ضروری ہے کہ ہر اصول کی تعمیم کی حد ہے۔اگر ہم حقیقت کی تفہیم کے اس مکالماتی اصول کی تعمیم کرتے ہوئے ،اسے روزمرہ کی عملی دنیا میں لے آئیں گے تو سخت غلطی کریں گے۔روزمرہ کی دنیا میں تو سفید وسیاہ الگ الگ حقیقتیں ہیں، مگر ذہنی دنیا اور تصورات اور نظریات اور متون میں ،جہاں ہم ہر چیز کو باریک بینی سے دیکھنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں،اور ان کی بنیادی سچائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں تضادات تحلیل ہوتے محسوس ہوتے ہیں،اور سرمئی علاقہ وجود میں آتا دکھائی دیتا ہے۔اس کی مثال میں ہم کوانٹم طبیعیات کو بھی پیش کر سکتے ہیں،جس کے مطابق مادے کی اصل روشنی کا جھماکاہے،مگر روزمرہ دنیا میں ہم مادے ہی کا تجربہ کرتے ہیں۔(اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم روزمرہ کی دنیا میں اشیا کی اصل حقیقتوں سے کس قدر دور ہوتے ہیں!)اسی طرح اصول لایقینیت ،ایک حقیقت ہے ،مگرروزمرہ زندگی میں ہم اس کے برعکس عمل کرتے ہیں ۔ مابعد جدیدیت پر ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا ہے کہ اگر ہر متن میں معنی کی کثرت ہوتی ہے تو پھر روزمرہ حالات میں بولے گئے ہر جملے، ہر قانونی فیصلے ، ہر بیان کے بھی ایک سے زیادہ معنی ہوں گے۔ یہ اعتراض بھی ایک اصول کی غیر ضروری تعمیم کا نتیجہ ہے۔اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انتہائی بنیادی سطح پر ،یا نظری سطح پرہر متن میں کہی و ان کہی، کلام و خاموشی بہ یک وقت موجود ہیں، مگر ہم اپنی ابلاغی ضرورتوں کے سبب ہم متن کی ان کہی اور خاموشی کو اسی طرح دباتے یعنی repressکرتے ہیں ،جس طرح روزمرہ زندگی میں موت کی حقیقت کو ، اردگرد کی دہشت ، ظلم ،نا انصافیوں کو ،یا پھر اپنی لاشعوری خواہشوں کو۔اس کے بغیر نہ تو ہم اپنے روزمرہ ابلاغ کو ممکن بنا سکتے ہیں ،نہ ایک نارمل زندگی جی سکتے ہیں۔تاہم جہاں روزمرہ ابلاغ کا جبر نہیں ہوتا ،وہاں کہی وان کہی ،کلام وخاموشی سے وجود میں آنے والا سرمئی منطقہ نمایاں ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شعری متن میں خاموشی ہوسکتی ہے ،جو اپنے تعبیر کیے جانے کا تقاضا کرتی ہے ، مگر ’میں یونیورسٹی جارہا ہوں‘ اس میں کوئی خاموشی کا وقفہ نہیں۔ زبان میں کچھ جملے خبریہ ہوتے ہیں،اور کچھ انشائیہ ۔ خبریہ جملوں میں ابہام اور نتیجتاً معنی کی کثرت نہیں ہوتی، مگر انشائیہ جملوں میں ابہام، خاموشی ہوسکتے ہیں۔بہ ہر کیف سرمئی علاقے کا تصور اگرچہ مابعد جدیدیت میں آکر زیادہ روشن ہواہے ،مگر اس کا احساس قبل جدید زمانے سے چلا آتا ہے۔
جیسے جیسے ترقی پسندی اور جدیدیت مائل بہ اعتدال ہونے لگیں ، دونوں میں سرمئی علاقے کی موجودگی محسوس کی جانے لگی تھی۔مثلاً یہ احساس کیا جانے لگا تھا کہ جدیدیت اور ترقی پسندی ایک ہی علمیات سے نمو کرتی ہیں: دونوں انسان ، سماج، ادب کومابعد الطبیعیاتی دنیا کی پیداوار نہیں سمجھتیں۔’یکساں علمیات‘ کا ادراک دونوں کو کش مکش کی بجائے ، باہمی تفہیم اور مکالمے پر مائل کرتاہے۔چناں چہ ایک طرف ترقی پسندوں کی طرف سے خصوصاً ماضی کی انتہا پسندی کا اعتراف کیا جانے لگا تھا، اور دوسری طرف ان جدید تخلیق کاروں اور مفکروں کا ہمدردانہ مطالعہ کیا جانے لگا تھا ، جنھیں پہلے ماضی پرست، رجعت پسند، ابہام پسند، فحش، غلاظت نگار ،فراری جیسے تحقیری القابات دیے گئے تھے۔اسی طرح رفتہ رفتہ یہ سمجھا جانے لگاکہ فرائیڈی لاشعور،لاکھ جنسی الجھنوں کا آماج گاہ ہو، اس کی جڑیں اس اخلاقیات کے جبر میں ہیں ،جنھیں مادی ،تاریخی حالات نے قائم کیا ہے؛چناں چہ جب ہم کسی مصنف کے شخصی لاشعور تک رسائی حاصل کرتے ہیں ،اور لاشعور کو اس کے متن کے ’سبب‘ کے طور پر پہچانتے ہیں تو وہیں ہمیں مادی ،سماجی احوال کے نشانات نظر آنے لگتے ہیں،اورہم متن کے اس ’سبب‘ کے پیچھے ،ایک اور’ سبب‘دیکھتے ہیں ۔اسی طرح طبقاتی تضادات سے لے کرفرد کی خود سے یا دنیا سے برگشتگی، منشاے الہٰی نہیں، مادی معاشی رشتوں کی پیداوار ہیں؛دوسرے لفظوں میں مغائرت محض وجودی نہیں، معاشی بھی ہے….گویا خود جدید شعریات اور جدید فکر اپنے اندر سماجی سروکار رکھتی تھی ۔حقیقت یہ ہے کہ جدیدیت اور ترقی پسندی کا اگر کوئی حقیقی فکری حریف تھا(اور غالباًہے) تووہ روایت پسندوں کا گروہ تھا، جو ادب، سماج، تاریخ سب کی مابعد الطبیعیاتی توجیہ میں عقیدہ رکھتا تھا(اور ہے)۔ علمیاتی اشتراک کے احساس کی یہی فضا تھی،اورایک نئے تنقیدی ڈسکورس میں ڈھلنے کی منتظر تھی کہ اردو میں مابعد جدیدیت کے مباحث داخل ہوئے۔
ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ اردو میں جن جدید نقادوں نے یہ مباحث باقاعدہ شروع کیے، انھوں نے اس علمیاتی اشتراک کو مابعد جدیدیت میں بھی برنگ دیگر دیکھ لیا،اور اس کی تائید انھیں خود مابعدجدیدیت کی فکر سے بھی حاصل ہوگئی۔ اس کاایک حوالہ ہم گزشتہ صفحات میں دے چکے ہیں،اور دوسرا حوالہ یہ ہے کہ اردو میں مابعد نوآبادیات کے اوّلین مباحث ان نقادوں نے شروع کیے جو مابعد جدیدیت سے دل چپسی رکھتے تھے۔ انھیں نو آبادیاتی اور نئے نو آبادیاتی عہد کے ادب وکلچر کے مطالعے کی تحریک اس تصور سے ملی کہ ادب پارہ خود مختار نہیں ہوتا(جیسا کہ جدیدیت اور اس کی حلیف نئی تنقید نے دعویٰ کیا تھا)،بلکہ ان ثقافتی رشتوں کی پیداوار ہوتا ہے جو در اصل طاقت کے رشتے ہوتے ہیں،اور طاقت بہ یک وقت مادی(جائیداد ،روپے پیسے)، علمی، علمیاتی، ذہنی ،لسانی(ایک زبان میں علم کے وسیع ذخیرے کی صورت، اور اس لسانی پالیسی کی صورت جس میں ایک زبان کو دوسری زبانوں کو حاشیے پر دھکیلنے کا حق ہوتا ہے) ،کیننی ومتنی(جب ایک مصنف یا صنف کو کینن بنایا جائے )ہوتی ہے؛یہ طاقت ،سماج کے حقیقی رشتوں سے لے کر ،اس میں تخلیق ہونے والے متون میں سرایت کرجاتی ہے۔تاہم واضح رہے کہ طاقت ،جب متن میں سرایت کرتی ہے تو یہ ایک سادہ، شفاف عمل نہیں ہوتا، یعنی متن میں اس کی کارفرمائی بالواسطہ ہوتی ہے، تہ در تہ ہوتی ہے ، زبان کے مخصوص ترسیلی نظام اور اس میں رائج ہونے والے بیانیوں کی وساطت سے ہوتی ہے۔ یہ تصور نو مارکسیت کی تعبیر تاریخ کے نتیجے میں ایجادہوا تھا(مارکسیت اور نو مارکسیت کے فرق پر گفتگو آگے آرہی ہے)۔یہ آگاہی مابعد جدیدیت ہی نے دلائی تھی ۔ مابعد نو آبادیات کے بنیاد گزارایڈورڈ سعید براہ راست مارکسیت اور نو مارکسی مفکرین جیسے اٹلی کے گرامشی، برطانیہ کے رے منڈ ولیمز، فرانس کے میثل فوکو سے بہ طور خاص متاثر تھے، اور اس کا اعتراف بھی کرتے تھے ۔ لیکن اردو کے ترقی پسند نقادوں نے بعض وجوہ سے مابعد جدیدیت میں مضمر و کارفرما نئے دایاں بازو کی فکر پر توجہ نہیں کی، اور اسے سوشلزم کے کبیری بیانیے کا بدترین مخالف سمجھنا شروع کردیا۔ ان کے خیالات میں ایک بار پھر وہی شدت ابھر آئی ،جوہمیں گزشتہ صدی کی چالیس اور پچاس کی دہائی کی یاد دلاتی ہے؛نیز رفتہ رفتہ جس سرمئی علاقے کی موجودگی کا احساس کیا جانے لگا تھا، وہ ایک بار پھر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔