(قاسم یعقوب)
سرمد صہبائی اُردو نظم میں جسم کی سچائی کے ساتھ ظہور کرنے والا شاعر ہے۔ جسم کی سچائی کیا ہوتی ہے؟ اس کی تمازت اور اس کی پاکیزگی شعر سازی کے عمل میں کس طرح منتقل ہوتی ہے یہ گہرا تجربہ کس طرح روح کے نہاں خانوں سے سطحِ چشم پر دکھائی دینے لگتا ہے۔ ان سب سوالوں کے لیے سرمد کا کلام کھلی فطرت کی طرح نظر آئے گا۔
سرمد بنیادی طور پر ستر کی دہائی کے شاعر ہیں۔ ستر والے بہت مشکل میں تھے اُن کے پیچھے ساٹھ کی نسل تھی اور آگے اسّی اور نوے کی دہائیاں۔ ساٹھ والوں نے چالیس اور بچاس والوں کے ساتھ انحراف بھی کیا اور ایک دم سب کچھ بدلنے کا خواب بھی دیکھا۔لسانی تشکیلات اور ذات کے نِت نئے تجربے سب کچھ بغیر کسی چھلنے سے گزرنے کے عمل کے، ادب کا حصہ بننے لگے تھے۔ ساٹھ والوں کے ساتھ تو یہ ہُوا کہ اُن میں سوائے جیلانی کامران (جو بعد میں کافی منحرف بھی ہو گئے تھے) اور غزل میں ظفر اقبال بچے ہیں ظفر اقبال کیوں بچے ہیں اس کا بھی سب کو معلوم ہے ۔ کچھ دیر بعد اُن کا بھی فیصلہ ہو جائے گا کہ وہ بچے بھی ہیں یا نہیں۔ مگر اس سارے تخلیقی تناظر میں ایک نسل اور بھی تیار ہو رہی تھی جو اپنے موجود اور مستقل سے پوری طرح آگاہ تھی۔ اس نسل میں عبدلرشید، اختر حسین جعفری ساقی فاروقی احسان اکبر اور آفتاب اقبال شمیم تھے۔
سرمد کا سارا تخلیقی سرمایہ ایک حساس شاعر کا تجربہ ہے۔آپ کہتے ہوں گے کہ شاعر تو حساس ہی ہوتا ہے مگر میری مُراد حساس حس(Sense of Body)سے ہے۔ سرمد کا تخلیقی ہیولا مابعد الطبعیات کے بطن سے نہیں جسم کی حسیاتی سطح سے جنم لیتا اور پھر طویل مسافت کے بعد مابعدالطبیعات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ سرمد کی کافیاں اسی مابعد الطبعیاتی ماحول کی حسیاتی کیفیت میں ڈوب کے لکھی ہوئی ہیں۔
سرمد اپنے ماحول کی سنگینی سے بھی آگاہ ہیں۔ اُن کی فطری محبت اپنا سارتہ مانگتی ہے تو سماج کی تلخ رتوں کی آندھی اُس کا راستہ روکتی ہے۔
زندگی! زندگی!
شہر سازش میں ہے
شاہراہوں پہ بچوں کی قبریں بنی ہیں
جواں لڑکیوں کے دھڑوں پر ہواس کے نشاں ہیں
چمکتی ہوئی تتلی کے پروں پر گہن کی سیاہی ہے
چاروں طرف موت اب گشت کرتی ہے
پھولوں ست رِستا ہُوا زہر کا ذائقہ ہے
درختوں پہ بچھو اُگے ہیں
سرمد کی کافیاں ایک دھمال اور سرمست کیفیت کی مجذوبی حالت میں لکھی ہوئی نظمیں ہیں۔ کافی کی صنف صوفی کیفیات کی غمازی کرتی ہیں اور اُردو میں عام صنفِ سخن نہیں۔ اس کا ایک مخصوص مزاج ہے۔ کافی صرف نظم کی ہئیت کا نام نہیں بلکہ ایک کیفیت کا تخلیقی روپ بھی ہے۔ سرمد کا کامل یہ ہے کہ انھوں نے کافیوں میں اپنے مجذوبی ورثے کی نمائش کروائی ہے۔
اُن کی ایک کافی کی کچھ لائنیں سنیے:
جیون ایک دھمال او سائیں
جیون ایک دھمال
تن کا چولا لہر لہو کی
آنکھیں مثل مشال
جیون ایک دھمال
سانولے مکھ کی شام میں چمکے
دو ہونٹوں کے لعل
جیون ایک دھمال
وصل کی برکھا باندھ کے نکلی
ست رَنگا رومال
جیون ایک دھمال
آنکھوں میں دیدار کی مستی
تن میں لہو بھونچال
جیون ایک دھمال
سانجھے دُکھ سُکھ سانجھا اَن جل
سانجھ مویشی مال
جیون ایک دھمال
کِن گہری مشکی راتوں کے
بھیدی کالے بال
جیون ایک دھمال
سرمد یار تمھیں ہورانجھو
ملے جو ہیر سیال
جیون ایک دھمال او سائیں
جیون ایک دھمال
یوں سرمد کا وجدانی ابال سامنے آتا ہے۔ سرمد بے حد مختلف شخصیت ہیں۔ اُن کی شخصیت اور شعری تمثال میں کوئی دوئی نہیں۔ وہ جیسے اپنی نظموں میں ہیں ویسے ہی اپنی زندگی کا چہرہ دکھاتے نظر آتے ہیں۔ سرمد نے اپنے تخلیقی سرمائے سے کچھ اظہار ٹی وی اور فلم میں بھی کیا ہے۔ منٹو ڈرامے اور اب ماہِ میر نے اُن کے پورے وجود کو سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ سرمد کے اندر کا تخلیق کار ایک قابلِ رشک فن کار ہے۔