(سید عمران بخاری)
اگر انسان صرف جذباتی ہو تو اندرونی انتشار کا شکار ہو کر طرح طرح کے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اِسی لیے اللٰہ نے انسان کو عقل عطا کی تاکہ وہ باہم متصادم جذبات میں توازن پیدا کر سکے۔ عقل کا منبع دماغ ہے جہاں سے پورا جسم کنٹرول ہوتا ہے۔ معاشرے بھی انسانی جسم کی طرح کام کرتے ہیں۔ معاشرے کا بھی ایک دماغ ہوتا ہے جو پورے معاشرے کو کنٹرول کرتا ہے۔ معاشرے کا یہ دماغ انٹیلیجِنشیا (Intelligentsia) کہلاتا ہے جو عقلمند اور دانشمند لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جابر اور طاقتور قوتوں کو سب سے زیادہ خطرہ اِنہی دانشور افراد سے ہوتا ہے کیونکہ اِن میں عوامی سوچ اور فِکر کا رُخ موڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ سے طاقتور اور جابر قوتیں اپنے معاشرے کے دانشوروں کو کچلتی اور مرواتی رہی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی تاریخ اِس بات پر بھی گواہ ہے کہ دانشور کُچلے بھی گئے اور مارے بھی گئے لیکن اُن کی دانش اور اُنکی فِکر کو نا مارا جا سکا ہے نا مارا جا سکے گا۔ بقول شاعر
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اُس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
جو قومیں اپنے اہلِ علم اور اہلِ دانش افراد کی قدر نہیں کرتیں وہ انتشار کا شکار بھی ہوتی ہیں اور جبر کے تلوے بھی چاٹتی ہیں۔ مملکتِ خدادادِ پاکستان بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہماری 70 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ جس بھی دانشور نے عوام کے حقوق کا عَلم بلند کیا، مقتدر قوتوں نے اُس پر غدار، ملک دشمن، دین دشمن یا دہشت گرد کا لیبل لگا کر ایک طرف عوام کو گمراہ کیا اور دوسری طرف اُن دانشوروں کو مار دیا یا کچل دیا۔ اِسی لڑی میں پِرویا گیا ایک تازہ نگینہ سلمان حیدر ہے۔ اُس نے بلوچستان کے گُمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز بلند کی۔ اُس کا مؤقف تھا کہ اگر کوئی دہشتگردی یا غداری میں ملوث ہے تو اُسے ثبوت کے ساتھ قانون اور عدالت کے روبرو پیش کیا جانا چاہیے، نا کہ غائب کردینا چاہیے۔ مہذب معاشروں میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ ہم بھی ایک مہذب معاشرہ بن جائیں۔ مذید براں وہ اقلیتوں پر ہونے والے ظلم پر بھی بِلبِلاتا تھا۔
اُس کی لڑائی مذہب سے نہیں بلکہ مذہب کا بیوپار کرنے والوں سے تھی۔ وہ ممتاز مذہبی رہنما ڈاکٹر علی شریعتی سے بہت گہری حد تک متاثر تھا۔ ڈاکٹر علی شریعتی کو وہ اپنی انقلابی فِکر کا ایک اہم محرک قرار دیتا تھا۔ دوسری طرف وہ ممتاز مذہبی رہنما ڈاکٹر اسرار احمد کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ پاکستانی مذہبی رہنماؤں میں یہ واحد معقول شخصیت ہیں۔ اگر سلمان مذہب دشمن ہوتا تو اِن دینی شخصیات سے کیونکر متاثر ہوتا؟ اُس سے بھی آگے غور طلب بات یہ ہے کہ ڈاکٹر علی شریعتی کا تعلق شیعہ مکتبہٴ فِکر سے ہے جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد کا تعلق سُنّی مکتبہٴ فِکر سے ہے۔ دونوں متضاد مکاتبِ فکر کی شخصیات سے متاثر ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ سلمان مذہبی اور فرقہ ورانہ تعصب کو قبول نہیں کرتا تھا بلکہ وہ اِس سے زیادہ بلند تر کردار کا حامل بندہ تھا۔ وہ جس بات کو معقول مانتا تھا اُسے بِلا تعامل قبول کر لیتا تھا۔
سلمان حیدر کا تعلق دانشووں اور انقلابیوں کی اُس لڑی سے ہے جو ڈکٹیٹرشپ سے کفر کی حد تک نفرت کرتے ہیں۔ 3 نومبر 2007 کو جب اُس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تو اُس کے خلاف پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سب سے پہلے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں مظاہرے شروع ہؤے۔ اور قائدِ اعظم یونیورسٹی میں اُن مظاہروں کو لیڈ کرنے والی شخصیت سلمان حیدر کی تھی۔ قائدِ اعظم یونیورسٹی کی دیکھا دیکھی لَمز(LUMS) اور پھر پورے پاکستان میں مختلف یونیوسٹیوں میں ایمرجنسی کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے۔ گویا پاکستان کے نوجوانوں میں ایمرجنسی کے خلاف بغاوت کا پہلا قطرہ سلمان حیدر ثابت ہوا۔ اُس نے بغاوت کے ترانے لِکھے جو نوجوانوں کی انقلابی روح کو گرمانے کے لیے بہت مؤثر اور کارگر ثابت ہؤے۔
ہم ملک بچانے نکلے ہیں
آؤ ہمارے ساتھ چلو
ہم بدلیں گے حالات چلو
آؤ ہمارے ساتھ چلو
پورے پاکستان میں مقبول اور مشہور ہو جانے والے اِن انقلابی نعروں کا مؤجد سلمان حیدر تھا۔ سلمان جمہوریت کو انسان کا فطری حق تصور کرتا تھا۔ وہ پارلیمان کو سب سے زیادہ طاقتور دیکھنا چاہتا تھا۔ اِسی وجہ سے اُس کی شاعری اور تحریروں میں پارلیمان اور جمہوریت کو کمزور کرنے والی ہر قوت پر طنز اور اُس سے نفرت کا اظہار نظر آتا ہے۔ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ جس جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی مضبوطی اور ترقی کے لیے سلمان نے پولیس کے ڈنڈے بھی کھائے اور آنسو گیس کی شیلنگ کا سامنا کیا، آج وہی جمہوری قوتیں اپنے اِس خیر خواہ کی گمشدگی پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
جمہوری حکمرانوں کے لیے سلمان حیدر کی گمشدگی لمحہٴ فکریہ اور باعثِ تشویش ہونا چاہیے، کیونکہ اگر یہ جمہوری قوتیں اپنے اِس بہی خواہ کا تحفظ نہیں کر پاتیں تو اہلِ دانش افراد کے طبقے میں سے جمہوریت اور جمہوریت کی مضبوطی و تسلسل کی آوازیں مایوس ہو کے بند بھی ہو سکتی ہیں۔
تاریخ اپنی روایت پر قائم ہے ۔ جیسا پہلوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے وہی سلمان حیدر کے ساتھ بھی دہرایا جا رہا ہے۔ چند نام نہاد دانشور اور مذہب کے بیوپاری کہیں اُسے ملک دشمن ثابت کرنے میں جُتے ہؤے ہیں تو کہیں دین دشمن۔ پتا نہیں اِن دانشوروں اور مذہب کے بیوپاریوں کی سلمان سے متعلق اِن معلومات کا ذریعہ کیا ہے اور یہ کِس کے ایجنڈے کی پیروی کر رہے ہیں، حالانکہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ سلمان کو اغوا کِس نے کیا ہے۔
کیا یہ وہی فلاحی ریاست ہے جس کا خواب علامہ اقبال اور قائدِ اعظم نے دِکھایا تھا جس میں ریاست کی بنیادی ذمہ داری اُس کے تمام شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہو گی؟ کیا اِسی ریاست کا خواب قائدِاعظم اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا جس میں سلمان حیدر اور اُس جیسے ہزاروں لاپتہ افراد کے لواحقین انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھِر رہے ہیں؟
کتنے دکھ اور شرم کی بات ہے کہ اِس مملکتِ خدادادِ پاکستان میں مسلمانوں کو باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلانا پڑتا ہے۔ کیا اسلام اتنا جابر ہو سکتا ہے؟ سلمان کی نفرت اِسی جبر اور اِس جبر کے بیوپاریوں سے تھی۔ اور میری نفرت اِن جبر کے بیوپاریوں سے کسی طور بھی سلمان سے کم نہیں
ظلم کے حد سے گزرنے کی بھی حد ہے کوئی!
درد کے حد سے گزرنے کی بھی حد ہے کوئی!
میری آواز تیرے جبر سے ٹکرائے گی!
خود میں گھُٹ گھُٹ کے سُلگنے کی بھی حد ہے کوئی!
دلِ آشفتہ میں آشفتہ سری پر اِس کی،
تیرے نیزے کے اُترنے کی بھی حد ہے کوئی؟
میرے الفاظ اُٹھائیں گے بغاوت اِک دن،
صبر کے حد سے گزرنے کی بھی حد ہے کوئی!