(ذوالفقار علی)
سلمان حیدر جسے ہم پیار سے سلو بھی کہتے ہیں ایک فقیر منش انسان ہے۔ وہ بہت حساس اور بے خوف سا بندہ ہے۔ کچھ دنوں سے وہ بہت اداس تھا اور پریشان بھی۔ 28 دسمبر کو میں نے اُسے ایک ٹیکسٹ کیا کہ “سلو میاں آج آپ کی بہت یاد آرہی ہے” اس نے تھوڑی دیر بعد جواب دیا ” سر محبت ہے آپ کی۔ حکم کیجئے میں الرجی کی وجہ سے 2 دن سے بیڈ پر پڑا ہوں”۔ میں نے اُس کی صحت کیلئے دعا کی اور کہا سلیمان بھائی آپ کے پاس جو ہے وہ بہت unique ہے۔ آپ کے اندر کسی پے پناہ درد کی کوئی ایسی پوٹلی ہے جو جب کُھلتی ہے تو کچھ ایسا نکلتا ہے جو ہم جیسوں کو ہلا دیتا ہے۔ شاید یہ آپ کی میراث ہے یا شاید آپ بہت حساس ہیں۔
سلمان حیدر نے مجھے جواب دیا ” پتا نہیں دوست.. اتنا ہے کہ درد ہم جیسوں کے مشترک ہیں۔ ایک دوسرے کی آواز اپنی جیسی محسوس ہوتی ہے۔ درد کو جتنا محسوس کرو کم ہی لگتا ہے۔ باقی آس پاس شور اتنا ہے کہ دماغ بند ہو گیا ہے۔” دس بارہ دن پہلے وہ مُجھ سے اس طرح بات کر رہے تھے تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ سلو میاں اندر ہی اندر سب کچھ جان چکے ہیں اور اسے اندازہ ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
اس طرح کے لوگوں کو سمجھانا ویسے بھی بے کار جاتا ہے جب بھی اُن سے احتیاط کی بات کرو اُلٹا ہنسنے لگتے ہیں اور اپنے ڈر اور خوف کو قہقہے اور سگریٹ کے دھوئیں سے اُڑا دیتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ عرصہ پہلے میرے دوست ظفر لُنڈ کو گھر کے باہر بُلا کے گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ حالانکہ اُس کو بھی ہم احتیاط برتنے کا کہتے تھے مگر اُسے یقین تھا کہ یہ سب پنجاب میں نیہں ہوگا۔ یہ بلوچستان میں ہوتا ہے مگر جو کرتے ہیں انہیں اس سے کیا وہ تو جس کو چاہیں جب چاہیں اٹھوا سکتے ہیں مروا سکتے ہیں ہم اُن کی پہنچ سے دور تھوڑی ہیں۔ مرنے یا گُم ہونے کے بعد جب تفتیش کا مرحلہ شروع ہوتا ہے تو وہ دوستوں اور رشتہ داروں کیلئے ایک ناقابل بیان تکلیف اور درد کے انگاروں پر لوٹنے کے جیسا ہوتا ہے۔ مُجھے پتا ہے کیونکہ میں یہ بُھگت چُکا ہوں۔ تفتیش کرنے والے جس طرح سوال کرتے ہیں ایسے لگتا ہے جیسے ہم ہی مُجرم اور قاتل ہیں۔
ان سب کہانیوں میں قاتل یا اغوا کار ہمارا تماشا بھی دیکھتا ہے اور ہمیں ڈراتا بھی رہتا ہے۔ خوف کے یہ گھنے سائے دن بدن گہرے ہوتے جا رہے ہیں مگر ہم اکیلے اپنے اپنے خوف کے ساتھ جیے جا رہے ہیں۔ ریاست کے رکھوالے اور حکمران اپنے اپنے قلعوں میں بند ہمارے ناموں کے گرد لال لکیریں لگا کے اپنا کام کرتے ہیں اور ہم اُن لال لکیروں کے بیچ نامعلوم افراد کی مرضی کے تابع ہو کر زندہ رہتے ہیں۔ یار یہ کیسی ریاست ہے جس میں انسان دوست لوگ اپنی اپنی جان سے جاتے ہیں اور باقی بے بسی کی تصویر بن کر بین کرتے ہیں۔
ہمیں مارنے والے، ہمیں اُٹھانے والے ہماری ہی کمائی سے تنخواہیں لیتے ہیں اور انہی ٹیکس کے پیسوں سے ہمارا کریا کرم کرتے ہیں۔ پھر انہی لوگوں کو ہم ہیرو اور اپنے درد کے مسیحا بھی سمجھتےہیں۔ ان کے ترانے اوران کی تعریفیں ہمارے کانوں میں پڑتی ہیں مگر ہم بھاری دل کے ساتھ سب کچھ سنتے رہتے ہیں حتی کہ ہم اپنے بچوں کو بھی نہیں بتا پاتے کہ یہ لوگ جن کی تعریف ہمارے کانوں میں گُھسیڑی جا رہی ہے یہی ہمارے ارمانوں، خوابوں اور جانوں کے قاتل بھی یو سکتے ہیں۔ ہائےیہ کیسی بے بسی ہے جس میں ہمارے کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں فریاد کریں تو کس سے درد دل بانٹیں تو کس سے!
یوںہی ہم اپنی اپنی کھولیوں میں بند ہو کر ظلم سہیں گے، غدار اور ایجنٹ کے بے بنیاد القابات سے اپنے دامنوں کو داغدار ہوتا دیکھ دیکھ کے جئیں گے۔ حیف ایسی زندگی پر مُجھے بھی لے جاو یارو اور گُم کردو اب اور درد نہیں سہے جاتے۔ یوں ہی کب تک اپنی روح کے زخموں کو ان کے نمک پاروں سے سڑتا ہوا برداشت کریں۔ حد ہوتی ہے، مگر یہاں کوئی حد نہیں کوئی ضابطہ نہیں، کوئی انسانیت نہیں بس ہر طرف جہالت اور ظلم کے چلتے پھرتے بُت ہیں جو زندہ لوگوں کو زمین دوز کرتے ہیں اور پھر باقی بچ جانے والوں کو ڈرا دھمکا کر بربریت کے اس دھندے کو جاری رکھتے ہیں۔
ہماری عدالتیں بھی بے بس ہیں، ہماری سول سوسائٹی بھی لاچار ہے اور ہمارے سیاستدان بھی بے کار ہیں کسی کو کوئی اختیار نہیں کہ ان کا راستہ روک سکیں سلمان حیدر گیا وہ پتا نہیں واپس لوٹتا ہے یا باقی زندگی اُس کی اونچی دیواروں کے عقوبت خانوں میں کٹتی ہے اس کا مجھے پتا نہیں مگر ایک چیز کا مجھے پتا ہے وہ یہ کہ یہ سلسلہ رُکے گا نہیں۔ کل ہم یا ہمارے دوست اس ظلم کا شکار ہوں گے اور ہمارے زخموں میں ایک اور زخم کا اضافہ ہو جائے گا۔
حالانکہ سلیمان کو اندر ہی اندر سب پتا تھا کہ اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے وہ پچھلے کچھ دنوں سے خاموش خاموش سا تھا۔ اُس نے لکھنا بھی چھوڑ دیا تھا اور اپنے آپ کو فقیری کے رنگوں میں رنگنا چاہتا تھا مگر اُسے یہ بھی پتا تھا کہ یہ ریاست فقیروں اور انسانوں کیلئے نہیں ہے یہ عقابوں اور شاہینوں کی ریاست ہے اس میں فاختہ کا زندہ رہنا محال ہے۔ تبھی تو وہ اپنی بیوی کو ٹیکسٹ کر کے بتا رہا تھا کہ آٹھ بجے تک آ جاؤنگا ۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے گھر والوں کو خدشہ ہوتا ہے کہ جو باہر گیا ہے پتا نہیں لوٹ بھی پاتا ہے یا انجانے راستوں میں کھو کر پھر گھر کا پتا نہیں پاتا۔
دوستو ہم کس سے اپیل کریں، کس کے پاس جائیں، کس کو سلیمان کے واپس لانے کیلئے ارداس دیں ایسا کوئی نہیں۔ یہاں ایسی باتوں کا مطلب ہے اپنے آپ کو اور ایکسپوز کرنا اور شاہینوں کے پنجوں میں اپنا سر دینا تاکہ وہ ہمیں دبوچ کر اپنے پیٹ کی آگ ٹھنڈی کر سکیں۔ سلیمان ہماری بے بسی کا آپ کو اندازہ ہوگا ہم کچھ نہیں کر سکتے بس دعا گو ہیں کہ اللہ آپ کو اپنی حفظ میں رکھے اور آپ صحیح سلامت اپنے بچوں کے ساتھ باقی زندگی گُزار سکیں۔ اس دعا کے سوا اس وقت میرے پاس کچھ نہی!