ترجمہ: راشد سلیم
’’سلویا پلاتھ بوسٹن ،میسا چیو سٹس میں پیدا ہوئی۔۱۹۵۳ء میں جب وہ ابھی کالج کی طالبہ تھی۔ شدید ڈپریشن کا شکار ہوئی اور خود کشی کی ناکام کوشش کے بعد ہسپتال میں داخل رہی۔کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران اُس کی ملاقات مشہور برطانوی شاعر ٹیڈہیوز سے ہوئی جس سے شادی کے بعد وہ دو بچوں کی ماں بنی۔۱۹۶۳ء میں ،ٹیڈ ہیوز سے علاحدگی کے بعد ،اسے ایک مرتبہ پھر ڈپریشن کا شدید دورہ پڑا اور اُس نے خودکشی کر لی۔اُس کی نظموں کی’خوب صورت اذیت ‘اور زندگی اور ادب کی خاطر اُس کی شہادت اُسے مذہبی پیش وا کے سے رُتبے پر فائز کر دیتی ہے اُس کی شاعری کے مجموعوں میں ’’ دیو پیکر‘‘ ( ۱۹۶۰ء) ، ’’ ایرئیل ‘‘ ( ۱۹۶۶ء)، پانی کے پار اُترنا‘‘ (۱۹۷۱ ء) اور’’ سرما کے درخت ‘‘ ( ۱۹۷۲ء) شامل ہیں۔‘‘
آئینہ
میں نقرئی ہوں اور صیقل شدہ
میں کوئی پیش گمانی نہیں رکھتا
میں جو دیکھتا ہوں فوراً نگل لیتا ہوں
بغیر کسی تبدیلی کے،
بغیر پسند ،نا پسند میں دھندلائے
میں ظالم نہیں ،محض راست باز ہوں
ایک چھوٹے سے چوکور خدا کی آنکھ ہوں
میں زیادہ تر اپنے مقابل دیوار میں محو رہتا ہوں
جو گلابی ہے ،دھبوں والی
میں نے اُسے اِس قدر دیکھا ہے
کہ یہ میرے وجود کا حصّہ معلوم ہوتی ہے
لیکن یہ جھلملاجاتی ہے
چہرے اور تاریکی ہمیں بارہا جدا کر دیتے ہیں
اب میں ایک ندّی ہوں
ایک عورت مجھ پہ جھکتی ہے
میری پہنائیوں میں اپنا وجود تلاش کرتی ہے
پھر وہ اُن جھوٹوں ۔۔موم بتیوں اور چاند
کی طرف رُ خ کر لیتی ہے
میں اُس کی پشت کو دیکھتا ہوں
اور اخلاص کے ساتھ عکاّسی کرتا ہوں
وہ مجھے اس کا صلہ اپنے آنسوؤں
اور مشتعل ہاتھوں سے دیتی ہے
میں اُس کے لیے اہم ہوں ۔ ۔وہ آتی جاتی ہے
ہر صبح اُس کا چہرہ تاریکی کی جگہ لے لیتا ہے
مجھ میں اُس نے نوجوان لڑکی ڈبو دی ہے
اور میرے اندر سے روز بہ روز
ایک بوڑھی عورت خوف ناک مچھلی کی طرح
اُس کی طرف بڑھ رہی ہے
بنجر عورت
میں،بے آباد،
ذرا سی چاپ پہ گونج اُٹھتی ہوں
مجسموں کے بغیر عجائب گھر۔۔۔
ایوانوں ، ستونوں اور گنبدوں سے مزّین
میرے صحن میں ایک فوارہ اُبھرتا ہے
اور اپنے اندر ہی گرتا ہے
راہبہ صفت اور دنیا سے لاتعلق سنگِ مرمر کے کنول بے رونق خوش بو چھوڑتے ہیں
میں اپنے آپ کو عظیم لوگوں ایسا تصور کرتی ہوں
سفید نائیک۱ اورگنجی آنکھوں والے اپالوؤں۲ کی ماں
لیکن کچھ بھی نہیں ہو سکتا
چاند میری پیشانی پہ اپنا ہاتھ رکھتا ہے
کسی نرس کے سے سپاٹ چہرے اور خاموشی کے ساتھ!
۱ فتح و نصرت کی دیوی
۲ شعری و وجدان کے دیوتا
صبح کا گیت
عشق نے موٹی طلائی گھڑی کی طرح
تم میں چابی بھر دی
دایہ نے تمھارے تلووں پر چیت لگائی
اور تمھاری بے پردہ چیخ عناصر میں ظہور پذیر ہوئی
تمھاری آمد کی تفصیل کے لیے
ہماری آوازیں گونجتی ہیں
نیا مجسمہ۔۔۔۔ہوادار عجائب گھر میں
تمھاری عریانی ہماری سلامتی پر
اپنی سست فنا پذیری کی عکاسی کے لیے
آئینہ کشید کرتا ہے
تمام رات تمھاری سانسوں کے پتنگے
زمیں بوس گلابی پھولوں کے درمیان پھڑپھڑاتے ہیں
میں سننے کے لیے اُٹھتی ہوں
دور اُفتادہ سمندر میرے کانوں میں اُتر آتا ہے
ایک چیخ ۔۔۔۔اور پھول دار وکٹوریائی جامۂ شب میں خمار آلود ،میں بستر سے گر پڑتی ہوں
تمھارا منہ کھلتا ہے
بلی کے منہ کی طرح صاف!
کھڑکی کا چوکھٹا روشن ہوتا ہے
اور اپنے ماند ستاروں کو نگل لیتا ہے
اور تم اپنی چند دھنیں گانے کی کوشش کرتے ہو
صاف غنائی آوازیں غباروں کی طرح بلند ہوتی ہیں
بارش کے موسم میں کالا کوا
وہاں اُوپر اک سخت ٹہنی پر
بھیگا کالا کوا کمر جھکائے بیٹھا ہے
بارش میں اپنے پیروں کو سنوارتے سمیٹتے ہوئے
مجھے کسی معجزے یا حادثے کی توقع نہیں
جو مری آنکھ میں منظر کو بھڑکا دے
نہ ہی مجھے بے پروا موسم کے اندر
کسی سازش کی تلاش ہے
بس یہ گل دار پتے یوں ہی گرتے رہیں
بغیر کسی تقریب یا بد شگونی کے
مانا کہ بعض اوقات میں چاہتی ہوں
کہ گونگا آسمان کوئی جواب دے
مگر حقیقتاً میرا شکوہ کرنا نہیں بنتا
کوئی خفیف سی روشنی اب بھی
باورچی خانے کی میز یا کرسی سے
انتہائی تابانی کے ساتھ اُبھر سکتی ہے
جیسے کوئی سماوی آگ کبھی کبھار
کند ترین اشیاء پر قابض ہوجائے
اور یوں بہ صورتِ دیگر لاحاصل وقفے کو
مطہر کر دے
اسے اکرام و توقیر بخشے
بلکہ محبت عطا کر دے
بہر حال اب میں پیدل چلتے ہوئے دھیان رکھتی ہو ں
(کیوں کہ اِس غیر روشن ،خستہ حال منظر میں بھی ایسا ہو سکتا ہے )
اب میں چلتی ہوں تشکیک مگر زیر کی کے ساتھ
ہر اُس چیز سے بے خبر
جیسے فرشتہ مرے آس پاس
بھڑکا نے کی کوشش کرے
مجھے تو بس اتنا پتا ہے کہ کالے پر سنوارتا ہوا کوّا
اس قدر چمک دار ہو سکتا ہے
کہ میرے حواس کو اپنی گرفت میں لے لے
میرے پپوٹوں کو اپنی طرف راغب کر لے
اور چند ثانیوں کے لیے
مکمل غیر جانب دار ی کے خوف سے
مجھے نجات دلا دے
اگر قسمت ساتھ رہی
تو تھکن کے اس موسم میں
خود سری سے گھسٹتے ہوئے
میں ایک طرح کی آسودگی کا
پیوند لگا لوں گی
معجزے رُونما ہوتے ہیں
بہ شرط یہ کہ آپ ضو فشانی کی اِن چالوں کے
مختصر دوروں کو
معجزے قرار دینے کا تردّد کریں !
انتظار دوبارہ شروع ہو چکا ہے
اُس فرشتے کا لمبا انتظار
جو کبھی کبھار اتفاقاً اُتر ا کرتا ہے ۱
۱ انجیل کی ایک روایت کے مطابق پینٹی کوسٹ کے مقام پر یہ فرشتہ حضرت عیسیٰ کے حواریوں پر آگ کی لَو کی طرح اُتر ا تھا۔
کیا خوبصورت شاعری ہے اور عمدہ ترجمہ۔
راشد سلیم صاحب نے فلپ لارکن کے منظوم تراجم بھی کیئے ہیں۔ وہ بھی لگائیں