سنسکرت کے متعلق ایک نئی کھوج
مترجم: عاطف نثار نجمی، ریسرچ اسکالر، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
(حال ہی میں ابھی ہندوستان کے ایک مستند ویب پورٹل satyagrah.scroll.in پر، جو انگریزی میں scroll.in کے نام سے کام کرتا ہے، ایک مضمون ہندی میں شائع ہوا جو کہ سنسکرت کے آغاز متعلق ہے۔ مضمون چوں کہ علمی اور معلوماتی ہے اس لیے اس کے ترجمے کا خیال ہوا تا کہ بیرون ملک بھی لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔
اتّر پردیش میں حال ہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زبردست جیت کے بعد سنسکرت کے حوالے سے سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئیں ہیں۔ پارٹی کے بزرگ لیڈر مُرلی منوہر جوشی نے صوبے کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اتر پردیش میں سنسکرت کو فروغ دیں۔ صوبے کے پڑوسی صوبےاتراکھنڈ سے خبر ہے کہ وہاں سنسکرت زبان میں ایک ٹی وی چینل بھی لانچ ہونے کی تیاری چل رہی ہے۔
جولائی 2015 میں تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں سولہویں عالمی سنسکرت کانفرنس ہوئی تھی جس میں ہندوستانی وزیر خارجہ سُشما سوراج کا کہنا تھا کہ سنسکرت کا علم ماحولیات میں آ رہی تبدیلیوں، تہذیبوں کے تصادم، غریبی اور دہشت گردی جیسے معاصر مسائل کے حل تک لے جانے میں معاون ہوگا۔ سنسکرت میں دی گئی اپنی تقریر میں انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ ان کے یعنی وزارت خارجہ کے ماتحت خصوصی طور پر جوائنٹ سیکریٹری (سنسکرت) کا عہدہ بھی تشکیل دیا گیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق سنسکرت کو لے کر بی.جے.پی. کے رخ کی ایک وجہ وہ ثقافتی قوم پرستی (Cultural Nationalism) بھی ہے جو پارٹی کی آئیڈیولوجی میں رچا بسا ہے۔ ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ مانتا ہے کہ سنسکرت نے نہ صرف دنیا کی تمام زبانوں کو جنم دیا ہے بلکہ وہ اس ملک (جس میں اتفاق سے اس وقت ہندوستان، پاکستان اور افغانستان بھی شامل تھے) میں ہی پیدا ہوئی۔ لیکن موٴرخین اور ماہرین لسانیات کے مطابق یہ دونوں ہی باتیں غلط ہہں۔ ان کے مطابق ہندوستان میں سنسکرت نہ صرف یہ کہ باہر سے آئی بلکہ جن لوگوں نے سنسکرت کے استعمال کے سب سے قدیم شواہد چھوڑے وہ ہندوستانی نہیں تھے، ان کا تعلق شام (سیریا) سے ہے۔ سنسکرت کا سب سے اولین روپ رگ وید میں ملتا ہے۔ اسے رگ ویدک سنسکرت بھی کہا جاتا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ رگ ویدک سنسکرت کے اولین تحریری شواہد ہندوستانی جغرافیائی حدود میں نہیں بلکہ اس علاقے میں ملتے ہیں جسے آج شمالی شام کہا جاتا ہے۔
موٴرخین بتاتے ہیں کہ 1500 سے 1350 قبل مسیح کے دوران دریائے دجلہ و فرات کی وادی کے اوپری علاقے میں مِتنّی نام کے ایک شاہی سلسلے کی حکومت تھی۔ آج یہ علاقہ شام، عراق اور ترکی میں منقسم ہے۔ اس سلسلے کے ہر بادشاہ کا نام سنسکرت میں ہوتا تھا۔ یہی بات کئی مقامی جاگیرداروں پر بھی صادق آتی ہے۔ پُرُش، دُشرتّ، سُوَردتّ، اِندروتا اور سُبندھو جیسے کئی نام ان میں شامل تھے۔ وسّوکنّی یعنی وسُکَھنی اس ریاست کا دارالحکومت تھا جس کے معنی ہیں قیمتی دھاتووٴں کی کان۔
ویدک تہذیب کی طرح مِتنّی ثقافت میں بھی جنگ کا خاصا اہم مقام تھا۔ سب سے اہم تو یہ کہ رتھوں میں جوتے جانے والے اَشْوْ [جو بعد میں فارسی میں اسپ بنا: مترجم] یعنی گھوڑوں کی تربیت پر اس ثقافت کا گرنتھ یوں دنیا کا سب سے پرانا دستاویز مانا جاتا ہے۔ ویدوں سے بھی قدیم مانے جانے والے اس گرنتھ میں ایک، تْرَی [یعنی تین کا گروپ: مترجم] اور اَشْوْ جیسے کئی الفاظ کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس ثقافت کے لوگ رتھ بنانے کے فن میں کافی ترقی کر چکے تھے۔ ان کے رتھ کافی ہلکے ہوتے تھے اور سمیریا سمیت اپنے وقت کی دوسری تہذیبوں کے برعکس ایک تیلی کا استعمال کرتے تھے۔
اتنا ہی کافی نہیں بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ مِتنّی ثقافت میں کچھ مقامی دیوتاوٴں کے علاوہ کئی ایسے دیوتاوٴں کی عبادت بھی کی جاتی تھی جو ویدک تہذیب میں بھی پوجے جاتے تھے۔ انہوں نے 1350ق.م. میں ایک حریف راجہ کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا تھا۔ اس میں تذکرہ ہے کہ اِندرْ، مِتْرا اور ناستْیہ (اشونی کمار) جیسے دیوتا مِتنّی لوگوں کی طرف سے گواہ بنے تھے۔
یہ ایک حیران کن حقیقت ہے۔ اسی کی بنیاد پر معروف مصنف ڈیوڈ اینتھنی اپنی کتاب The Horse, the Wheel and Language میں کہتے ہیں کہ نہ صرف رگ ویدک تہذیب شمال مغربی ہندوستان میں رگ وید کی تخلیق سے قبل موجود تھی بلکہ جن مذہبی دیوتاوٴں کا تذکرہ اس میں ہے وہ بھی پہلے سے ہی وجود میں آ چکے تھے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ سنسکرت ہندوستان سے قبل شام میں کیسے وجود میں آئی؟
در اصل سنسکرت کا اشتقاق جس لسانی خاندان سے ہوا ہے اس کی بنیاد پروٹو انڈو یوروپین نام کی بالکل ابتدائی تہذیبی زبان تھی۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ اس زبان نے پورٹو انڈو ایرانی نام کی ایک اور زبان کو جنم دیا۔ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ شمالی ہند اور ایران کے علاقے میں ارتقا پذیر ہوئی۔ محققین مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ سے تقریباً دو ہزار سال قبل پروٹو انڈو ایرانی زبان بولنے والے ابتدائی لوگ موجودہ دور کے قزاقستان اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں کے باسی تھے۔ وسط ایشیا کے اس علاقے میں بسنے والے لوگوں کے اس سماج سے رفتہ رفتہ ایک شاخ الگ ہوئی جس نے پروٹو انڈو ایرانی چھوڑ کر سنسکرت بولنی شروع کر دی۔ ان میں سے کچھ لوگ تو مغرب کی جانب اس علاقے میں جا بسے جو آج شام کا علاقہ ہے اور کچھ لوگ مشرق کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے پنجاب کے علاقے تک آ گئے۔
ڈیوڈ انتھنی کا ماننا ہے کہ جو لوگ مغرب کی جانب بڑھے انہیں شاید شام کے حکمراں طبقے نے اپنا معاون بنا لیا۔ فن رتھ سازی میں ماہر یہ لوگ وہی زبان بولتے تھے جو ان کے طبقے کے دوسرے لوگ مشرق میں بولتے تھے اور یہی زبان بعد مین رگ وید میں دکھائی دی۔ ان جنگووٴں کو مَرْیہ کہا جاتا تھا۔ یہی لفظ اِندْر کے معاون جنگووٴں کے لیے رگ وید میں بھی پایا جاتا ہے۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ رگ ویدک سنسکرت بولنے والے ان لوگوں نے بعد میں بغاوت کر دی اور مِتنّی شاہی سلسلے کی شروعات کی۔ آہستہ آہستہ وہ مقامی تہذیب و ثقافت میں رچ بس گئے۔ یہ ہرِّین نامی زبان بولنے لگے۔ لیکن کچھ شاہی نام، علمِ رتھ سازی سے متعلق تکنیکی لفظیات اور اِندرْ، مِتْرا اور ناستْیہ جیسے دیوتاوٴں کی اہمیت ان کی زندگی میں باقی رہی۔
دوسری جانب جس طبقے نے مشرق کی جانب اقدام کیا اور جس نے بعد میں رگ وید کی تخلیق کی اسے اپنی ثقافت بچائے رکھنے میں کامیابی حاصل ہو گئی۔ جس زبان اور مذہب کو وہ اس بر صغیر میں لے کر آئے اس نے یہاں اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔ امتداد وقت کے ساتھ یہ جڑیں اس قدر گہرائی میں پیوست ہو گئیں کہ سنسکرت اس خطہٴ ارضی کے بڑے حصے میں بولی جانے لگی۔