(سعد الرحمٰن ملک)
کسی بھی قوم کے تہذیب و تمدن کا اندازہ اس کے ٹریفک کے نظام کودیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ مہذب معاشرے میں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ٹریفک کا نظام بھی نظم و ضبط کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ گزشتہ چند عشروں کے دوران تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ سڑکوں پر رش زیادہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک حادثات کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ہر پچیسویں سیکنڈ میں دنیا کے کسی کونے میں ایک شخص سڑک کے حادثہ میں ہلاک ہوجاتا ہے۔ ٹریفک حادثات دنیا میں اموات کی نویں بڑی وجہ ہیں جن کی وجہ سے ہر سال تیرہ لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور تقریباً تین کروڑ لوگ زخمی ہوجاتے ہیں۔مجموعی طور پر ٹریفک حادثات کی وجہ سے ہر سال دنیا کو 518 بلین ڈالرز کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے جو معاشی زوال کی بڑی وجہ ہے۔
ترقی یافتہ ممالک نے ٹریفک حادثات کے واقعات پر بڑی حد تک قابو پایا ہے لیکن پاکستان میں ٹریفک حادثات کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے جس میں لا تعداد قیمتی جانیں تسلسل کے ساتھ لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاً 17 ہزار سے زائد افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں جبکہ بعض رپورٹوں کے مطابق یہ تعداد 30 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ہلاک ہونے والے لوگوں کی بڑی تعداد کے علاوہ سالانہ 40 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوکر عارضی یا مستقل معذوری کا شکار ہوجا تے ہیں۔ صرف صوبہ پنجاب میں گزشتہ سال 1 لاکھ 67 ہزار حادثات میں 11 ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 9 ہزار کے قریب لوگ معذور ہوئے۔ حال ہی میں رحیم یار خان کے علاقہ دھریجہ نگرکے قریب 2 بسوں کے ہولناک تصادم میں ستائیس قیمتی جانیں گئیں اور پچاس افراد زخمی ہوگئے ۔تحقیقات کے مطابق یہ حادثہ تیز رفتاری اور ڈرائیوروں کی لاپروائی کے باعث پیش آیا جس کا خمیازہ مسافروں کو بھگتنا پڑا۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں جس دروازے کو بھی کھٹکھٹائیں ٹریفک حادثات میں گھائل ہونے والوں کی کہانیوں کی راکھ ضرور ملے گی۔ ملکی جی ڈی پی میں تین فیصد خسارے کے علاوہ یہ حادثات کئی والدین سے ان کے جگر کے ٹکڑے چھین لیتے ہیں اور کئی بچے بے سہارا ہوجاتے ہیں۔ ٹریفک حادثات اچانک وقوع پذیر نہیں ہوتے بلکہ ان کے پسِ منظر میں لاپروائی، غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ اورلاقانونیت جیسے کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
پاکستان میں حادثات کی جو بڑی وجوہات نوٹ کی گئیں ان میں تیزی رفتاری، سڑکوں کی خستہ حالی، ڈرائیوروں کی غفلت، اوورلوڈنگ، ون وے کی خلاف وزری، اورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیور، موبائل فون کا استعمال، بریک کا فیل ہوجانا اور زائد مدت ٹائر وں کا استعمال شامل ہیں۔پاکستان میں ڈرائیوروں کی بڑی تعداد بغیر لائسنس کے گاڑیاں چلا رہے ہیں۔ لائسنس کا اجراء بھی باقاعدہ تربیت اور ٹیسٹ کے بعد عمل میں نہیں لایا جاتا بلکہ اناڑی لوگوں کو صرف تعلقات اور پیسے کی بنیاد پر لائسنس جاری کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ لوگ چونکہ تربیت یافتہ نہیں ہوتے اس لیے ٹریفک حادثات کا باعث بنتے ہیں۔ تعلیم اور شعور کے فقدان کی وجہ سے ڈرائیورز حضرات افیون، چرس اور شراب کے نشہ میں دھت ہوکر گاڑی چلاتے ہیں جو کئی مسائل کو جنم دیتا ہے۔
عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں فروخت کی جانے والی 80 فیصد گاڑیاں بنیادی حفاظتی معیار پر پورا نہیں اترتیں۔پاکستان میں ذاتی استعمال اور پبلک ٹرانسپورٹ میں چلنے والی گاڑیاں فٹنس کے مسائل کا شکار ہوتی ہے جو حادثات کا سبب بنتی ہیں۔ گاڑیوں میں نصب غیر معیاری سلنڈر پھٹنے اور ناقص انجن لیک ہونے کی وجہ سے خوفناک حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ستم یہ کہ متعلقہ محکمہ ناکارہ گاڑیوں کو رشوت کے عوض فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کردیتا ہے۔موجودہ حکومت ملک بھر میں سڑکوں کے جال بچھا رہی ہے تاکہ عوام کو سفر کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آسانیاں فراہم کی جا سکیں لیکن پاکستان میں موجودہ سٹرکوں کے باقاعدہ معائنہ کا کوئی طریقہ کارموجود نہیں۔ کئی اہم شاہراہیں اور سڑکیں مرمت نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہیں اور حادثات کا باعث بن رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہونے والے ایک تہائی ٹریفک حادثات کا سبب موٹر سائیکل ہے۔ موٹر سائیکل اور موٹر رکشہ کے نابالغ اور نوآموز ڈرائیوروں کے پاس کسی طرح کا لائسنس یا گاڑی کے کاغذات نہیں ہوتے اس لیے وہ ٹریفک کے قوانین سے لاعلمی کے باعث اپنی اور دوسروں کی زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں اوورلوڈنگ، اوورٹیکنگ اور تیز رفتاری کا جنون بھی بے شمارٹریفک حادثات کا باعث بن رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کوئی بڑا جرم نہیں سمجھا جاتا کیونکہ رشوت دے کر سزا اور چالان سے نجات حاصل کرنے کا رواج اب جڑپکڑ چکا ہے۔ اس معاملہ میں قانون کے محافظ ہی قانون توڑنے کے مرتکب ہوتے ہیں اور ٹریفک پولیس سے وابستہ اہلکار چند روپوں کے عوض ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی چشم پوشی کرتے ہیں۔
پاکستان میں ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دہشت گردی کی کاروائیوں میں مارے جانے والے لوگوں سے کہیں زیادہ ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ٹریفک حادثات کم کرنے کے لیے قومی سطح پر سنجیدگی کا فقدان ہے۔ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت نے ٹریفک حادثات میں ہونے والے انسانی جانوں کے ضیاع کے حل کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ میڈیا کو ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ حاصل ہے لیکن اہل صحافت نے ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے عوام میں کوئی شعور اجاگر نہیں کیا۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے عام آدمی میں شعور اجاگر کرنے میں حکومت کا ساتھ دیں۔ اہل اقتدار کو قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس اور رپورٹ طلب کرنے کے بجائے اب عملی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ ہماری سڑکیں حادثات سے محفوظ ہوسکیں۔
ترقی یافتہ ممالک قانون سازی، قانون پر عمل درآمد، سٹرکوں کی تعمیر اور گاڑیوں کو محفوظ بناکر ٹریفک حادثات میں نمایاں کمی لاچکے ہیں۔ پاکستان میں روڈ سیفٹی کے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر سختی سے عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دینے کی روش اختیار کی جائے تو ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی ممکن ہوسکتی ہے۔ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اس لیے ٹریفک پولیس اور متعلقہ حکام کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے ٹریفک پولیس کے افراد کی بہترین اور جدید دور کے مطابق تربیت کرتے ہوئے ان کے مانیٹرنگ کے نظام کو سخت کیا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی نا انصافی کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔بہتر نتائج کے لیے ضروری ہے کہ عوام اور ٹریفک پولیس میں کمیونکیشن گیپ دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
ڈرائیونگ سکھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ادارے قائم کیے جائیں جہاں تربیت یافتہ اسٹاف خواہش مند افراد کو ڈرائیونگ کی بہترین تربیت دے سکے۔ ہر ڈرائیور کے لیے بنیادی طبی امداد کا کورس لازمی قرار دیا جائے تاکہ ممکنہ حادثات سے نمٹنے کے لیے اسے تیار کیا جاسکے۔ ڈرائیونگ لائسنس باقاعدہ تربیت اور ٹیسٹ کے بعدجار ی کیا جائے اور اس کے حصول کو باضابطہ اور سخت بنایا جائے۔ بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر سخت سزائیں رکھی جائیں اور کم عمر بچوں کے والدین کو بھی سزا کا مستحق ٹھہرایا جائے تاکہ کم عمر اور نو آموز ڈرائیوروں کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔
پرانی سڑکوں کی فوری مرمت کی جائے اور تمام شہروں میں ضروری جگہوں پر ٹریفک سگنلز لگا ئے جائیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری کے لئے حوصلہ افزائی کرکے سڑک پر ذاتی گاڑیوں کے ہجوم پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ٹریفک کے متعلق شعورکی بیداری کے لئے نصاب میں ٹریفک قوانین سے متعلقہ مضامین شامل کیے جائیں تاکہ نئی نسل کو مستقبل میں ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے لیے تیار کیا جاسکے۔ ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کے حکومتی اقدامات کے علاوہ عام شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے سڑکوں کو حادثات سے محفوظ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔