(خرم شہزاد)
’’سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں‘‘۔
بظاہر سادہ سی نظر آنے والی تلقین اپنی اصل میں بڑی تہہ دار ہے اور جبر کی اس سطح کو عیاں کرتی ہے جس کا شکار پاکستان کے عوام کو عرصہ تک رکھا گیا۔ایک دور میں مجھے یہ جملہ بڑے اہتمام کے ساتھ ،بسوں اور ہوٹلوں کی دیواروں پر چسپاں نظر آیا ۔جسے دیکھ کر پیدا ہونے والا تاثر ناقابل تشریح تھا۔امید ہے اس جملے سے مزین اسٹیکر اپنے بچپن،بڑھاپے یا جوانی الغرض عمر کے کسی نہ کسی حصے میں پاکستان کے عوام سے متعلق ہر شخص نے دیکھے ہوں گے۔اس جملے کے حوالے سے ایک دلچسپ پہلو یہ جڑا ہوا تھا کہ لوگ’’سیاسی گفتگو‘‘ کی تعبیر اپنے تئیں کرتے ہوئے گویا ہر سنجیدہ موضوع سے از خود احتراز برتتے تھے۔شاید اس جملے کی توجیہہ خوفِ فسادِ خلق میں تلاش کی جا سکتی ہے لیکن بہر حال میرے خیال میں اس کی حیثیت ایک مضبوط درخت کی سی ہے جس کی جڑیںآج بھی پاکستانی عوام کے لاشعور میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔سیاسی گفتگو اتنی مہلک اور قابلِ نقص امن سمجھی جاتی تھی کہ نمایاں طور پر لکھ دیا جاتا ’’سیاسی گفتگو سے پرہیز کیجئے‘‘
پاکستان کو عام طور پر نیو کالونی سمجھا جاتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا یہ ایسی نو آبادی ہے جس کے ایک سے زیادہ نوآباد کار ہیں اس تناظر میں پاکستان کو ہائیپر کالونی کہا جا سکتا ہے اور اس حیثیت سے یہ ملک اپنے ریاستی بیانیے میں مختلف آقاؤں(امریکہ،ایران اور سعودی عرب )کی آئیڈیالوجیز کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے جس کی وجہ سے مناسب یہی تھاکہ عام آدمی سیاسی گفتگو سے پرہیز کرے۔
9\11 کے بعد جہاں زندگی کے فکری دھاروں میں اور بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں وہیں الیکٹرانک میڈیا کے توسط عام آدمی جیتے جاگتے سیاسی دانشوروں سے روشناس ہوا۔عام آدمی کی تساہل پسند طبیعت اگر کالم کی قرات میں مانع تھی تو بعد ازاں ٹیلی ویژن اسکرین نے سیاسی ذہنی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔پہلے اگر سیاسی موضوع عام آدمی کے لیے شجرِ ممنوعہ تھا تو ایک غنیمت یہ ہوئی کہ کسی صحافی یا سیاسی دانشور کی انگلی پکڑ کر عام آدمی نے لڑکھڑانا ضرور شروع کیا۔البتہ سوسائٹی میں دانش ور کا رول ادا کرنے والا صحافی جب کسی سیاسی پارٹی سے نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود پارٹی کے گُن گانے لگتا تو عام آدمی کے پاس خود سے سیاسی صورتِ حال کا تجزیہ کرنے کا بھر پور جواز پیدا ہوا۔لیکن سیاسی شعور کی کمی کے باعث وہ بہت جلدنتائج اخذ کرنے لگا۔ اس کی اس جلد بازی کو بنیاد بنا کر آج بھی طاقت ور اداروں کی جانب سے من پسند نتائج برآمد کیے جا رہے ہیں۔ہر سال کے دھرنے عام آدمی کی دانست میں بہتر مستقبل کی سمت اشارہ ہیں ۔’’انقلاب‘‘ یا ’’لانگ مارچ‘‘جیسے الفاظ تاریخی حوالوں کی طرف رہنمائی کرنے کی بجائے دھوکے کا کام دے رہے ہیں۔کیوں کہ عام آدمی کوان الفاظ سے جڑے تاریخی واقعات سے زیادہ اس امید سے دلچسپی ہے جو قوتِ متخیلہ کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی نظام کو کھیل سمجھنے والوں کی آلہ کار ہے۔