شاعر، متشاعر اور مشاعر
(اورنگ زیب نیازی)
ہماری سماجی اور ثقافتی زندگی پر جب سے سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک نے ناجائز قبضہ کیا ہے معاشرتی اقدار مسلسل بکھرتی جا رہی ہیں۔اس سیلِ بے پناہ کی زد میں سب سے سے زیادہ اردو شاعری آئی ہے۔ایک دل جلے دوست نے تو یہاں تک کہہ دیا:فیس بک پر کچھ درندوں نے اردو شاعری کا بلات کار کیا ہے۔بہ قول شخصے، بندہ یا تو شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔جو شاعر ہوتے ہیں ان کا کیا مذکور۔جو نہیں ہوتے ان کو متشاعر کہتے ہیں۔موجودہ حالات میں ایک تیسری قسم بھی نازل ہوئی ہے جو نہ تو شاعر ہیں نہ ہی متشاعر بل کہ مشاعر ہیں یعنی مشاعرہ پڑھنے والے فن کار۔جب سے سٹیج ڈراموں کے کاروبار میں مندہ ہوا ہے،ان کا کاروبار چمک اُٹھا ہے۔ شعر کہنے والوں کی ان تین اقسام کی مزید تعریف اور تفصیل کے لیے ہم مرزا ہل چل چک چتالوی سے رجوع کرتے ہیں ۔ان کے مطابق:
شاعر:
تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ نقاد دوست ناراض نہ ہوں۔شاعر کیا ہوتے ہیں ،شاعر کسے کہتے ہیں؟اس کے لیے ہم کلاسیکی عہد سے لے کر عصر حاضر تک کے چند چنیدہ نام لیتے ہیں۔جو قارئین ان کے کلام کا مطالعہ کر چکے ہیں،ان سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں،جو شاعر کا مقام ومرتبہ جاننا چاہتے ہیں ،وہ ان کا مطالعہ کریں،حقیقی شاعری کے معنی خود آ شکار ہو جائیں گے۔نام یہ ہیں:میر تقی میر،مرزا سودا،مرزا اسداللہ خان غالب،میر ببر علی انیس،مولانا الظاف حسین حالی،علامہ اقبال،فیض احمدفیض،ن۔م۔راشد۔مجید امجد،میرا جی،اخترالایمان،فراق گورکھ پوری،ناصر کاظمی،احمد مشتاق۔منیر نیازی۔۔۔۔۔یہ فہرست نا مکمل ہے اس میں کئی اور نام بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔
متشاعر:
متشاعر کو سمجھنے کے لیے غالب کا تبدیلئی تخلص کا واقعہ ہمارے لیے بہترین معاون ثابت ہو سکتا ہے۔واقعہ یوں ہے کہ غالب ابتدا میں اسد تخلص کرتے تھے۔ایک بار کسی نے اسد نامی ایک متشاعر کا ایک گھٹیا شعر غالب کے سامنے پڑھا اور اسے غالب سے منسوب کیا۔اردو شاعر ی کے امام نے فرمایا،اگر یہ شعر کسی اور اسد کا ہے تو اس پر خدا کی رحمت ہو اور اگر میرا ہے تو مجھ خدا کی لعنت ہو۔اس کے بعد غالب نے اسد تخلص ترک کیا اور غالب اپنا لیا۔اس واقعے سے یہ سمھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے کہ متشاعر قسم کی مخلوق ہر زمانہ میں موجود رہی ہے۔یہ عروض سیکھتے ہیں،بڑے شاعروں کی نقل میں تک بندی کرتے ہیں،شاہوں کے مصاحبین میں میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں،رسائی نہ ملنے کی صورت میں شاہوں کے مصاحبین کی جوتیاں سیدھی کرتے ہیں اور اپنے لیے شاعروں کی محفل میں دال دلیے کا بندوبست کر لیتے ہیں۔
مشاعر:
یہ مخلوق پہلے سے موجود تھی،لیکن بہت کم تعداد میں۔گزشتہ چند برسوں میں خاص طور پر فیس بک کے عام ہونے کے بعد ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔اسے آپ متشاعروں کی ترقی یافتہ یا فیس بکی شکل کہہ سکتے ہیں۔یہ ایک لحاظ سے متشاعر ہی ہیں لیکن ان کا طریقِ واردات متشاعروں سے تھوڑا مختلف ہے۔انھوں نے فیس بک کی وجہ سے بوالہوسی اختیار کی ہے۔جن چند حضرات کو ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں،وہ مشاعری شروع کرنے سے پہلے اچھے خاصے معقول انسان تھے،مشاعری کے بعد گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔خود تو شاید مزے میں ہوں مگر بیوی،بچوں کی زندگی اجیرن ہے۔ان کا طریقِ واردات ملاحظہ ہو:یہ سب سے پہلے عروض سیکھتے ہیں۔ عجیب و غریب ردیفیں تلاشتے ہیں،دوسرے شعرا کے کلام کے کان مروڑتے ہیں،رسائل اور کتابوں سے نظموں کے بالخصوص نثری نظموں کے ٹکڑے اُٹھا کر ان کو اپنے عروضی پیمانوں میں فٹ کرتے ہیں۔ ایک حمد اور ایک نعت خصوصی طور پر تیار کرتے ہیں،علاوہ ازیں قومی اور عالمی دنوں کی مناسبت سے بھی ایک ایک نظم یا غزل تیار رکھتے ہیں۔جون ایلیا کی نقل میں چونکانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے بے سروپا استعارے،تشبیہیں،تمثالیں،تلازمے گھڑتے ہیں ، کچھ تومنفرد نظر آنے کے شوق میں بال بڑھا لیتے ہیں،میلی میلی چادریں لپیٹ کر پھرتے ہیں،انگوٹھیاں اور کڑے پہنتے ہیں،ان میں سے کچھ برانڈڈ شرٹیں پہن کر ادبی اشرافیہ کا حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔اپنی عروضی تک بندی کو فیس بک کی زینت بناتے ہیں۔اکثر اپنی مشاعری کو اپنے جیسے کسی دوسرے مشاعر کی نذرکرتے ہیں،جواب آں غزل کے طور پر دوسری جانب سے بھی اسی طرح کی نذریں وصول ہوتی ہیں۔پھر ایک دوسرے کی مشاعری پر واہ واہ ہوتی ہے،اب تک کے تمام پڑھے ہوئے خوبصورت تعریفی لفظوں کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔یعنی من ترا حاجی بگویم،تو مرا حاجی بگو۔۔یہ حضرات اپنے گاؤں،گوٹھ،چک،گلی،محلے میں اپنے کچھ دوستو ں کے ساتھ مل کر ایک ادبی تنظیم کی بنیاد رکھتے ہیں،اس کے سر پرست،بانی صدر،یا چیئرمین وغیرہ خود بنتے ہیں،اپنے دوستوں سے چندہ اکٹھا کرتے ہیں،پچاس سو شیلڈیں بنواتے ہیں اور ایک مشاعرہ کراتے ہیں،جس میں پینتیس مہمانان خصوصی،چالیس مہمانان اعزاز،ڈیڑھ سو کے قریب مقامی اور غیر مقامی شعرا شریک ہوتے ہیں اور اگر محلے میں کوئی باہر ملک سے اپنے گھر چھٹیاں گزارنے آیا ہوا ہو تو اسے بھی بیرون ملک کے شاعر کے طور پر شامل کر لیتے ہیں۔اگر ایک آدھ میک اپ زدہ خاتون بھی مل جائے تو مشاعرے کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ سرکاری عمارت کے چوکیداروں کے علاوہ کوئی بھولا بھٹکا ادھر آ نکلے تو اسے بھی سامعین میں شامل کر لیتے ہیں۔ اس طرح مشاعری کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور ان مشاعر خواتین و حضرات کو گاؤں گاؤں گھومنے پھرنے اور منجن بیچنے کا موقع ملتا رہتا ہے ۔
اب ’’جدید‘‘ لب و لہجے کے ان ’’منفرد‘‘ شعرا کا نمونہء کلام ملاحظہ کریں اور دل کھول کر داد دیں:
*ترے کردار پہ خاک ،اخ تھو
تری دستار پہ خاک،اخ تھو
*میری تو جب لکھی ہے،میں نے تب ہی جانا ہے
پر تو نے کسی دن میرے ہاتھ سے مر جانا ہے
*مجھے چائے نہیں پینی
ابھی پی کر میں آیا ہوں
*سڑک سے کار گزری ہے
کسی کا یار بچھڑا ہے
*چار الفاظ کا مجموعہ ہے حسن تمھارا
فیشل،فاؤنڈیشن،کریمیں اور مسکارا
*میں اس رستے سے گذرا ہوں
جہاں تم سے میں بچھڑ اتھا
*مجھے دیکھا تو فرمایا
یہ احمد خان ہے شاید
*مجھے اقبال،سوہنا خان بے وس ٹھیک کہتا تھا
جہاں گہری محبت ہو وہاں شادی نہیں کرتے
***نوٹ:قدیم لب و لہجے کے کسی غیر معروف،بد صورت شاعر کی تلاش ہے اگر کسی دوست کو معلوم ہو تو اطلاع دے کر شکریے کا موقع دیں۔