شاہد احمد دہلوی، فنِ موسیقی اور مضامینِ موسیقی
از، یاسر اقبال
فنونِ لطیفہ۔۔۔جس کاانسانی نفسیات سے بہت گہرا تعلق ہے۔ فن انسان کے جذبات و احساسات کو جِلا بخشتا ہے جس کا تجزیہ انسانی ذہن میں ہوتا ہے۔ مصوری ،مجسمہ سازی، خوش نویسی اور موسیقی وغیرہ یہ سب فنون اپنی اپنی جگہ اثر انگیز ہیں لیکن فنِ موسیقی کی لطافت اور معنویت کی اہمیت اپنی جگہ منفرد ہے۔انسانی دل و دماغ پر اثر کر کے داخلی کیفیات میں تبدیلیاں برپا کرنا صرف فن موسیقی ہی کا کام ہے۔یہی وجہ ہے کے ہر دور میں فنون لطیفہ کی اہمیت مسلم رہی ہے اور ہر سطح پر اس کی ترویج و ترقی ہوتی رہی۔ویسے تو اس فنِ لطیف کی حیثیت مثلِ بحرِبیکراں کی سی ہے اوراس کی لا محدودیت بھی اس کا ایک امتیازی وصف ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا غوطہ زن اس کی تہوں تک نہیں پہنچ پاتا۔زیرِ نظر تحریر ایک ادیب و فنکار کے اُن مضامین کا مختصر سا جائزہ ہے جو موصوف نے فنِ موسیقی پر تحریر کیے اورجن کی طباعت لوک ورثہ کی وساطت سے مضامینِ موسیقی کے نام سے ہو چکی ہے جس میں اس فنکار کی فن موسیقی سے جُڑی ہوئی صلاحیتوں کا عرفان ہوتا ہے۔شاہدا حمد دہلوی نہ صرف پڑھے لکھے ادیب تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ علم موسیقی پر بھی انھیں ملکہ حاصل تھا۔فنِ موسیقی کے ایک زیرک نقاد تھے جنھوں نے علم موسیقی کے رموز و اوقاف کو مدلل انداز میں بیان کیا ہے۔
’’ مضامینِ موسیقی‘‘ شاہداحمد دہلوی کے اُن مضامین کا مجموعہ ہے جس میں علمِ موسیقی کے قواعد و ضوابط کو نہ صرف عمدگی سے بیان کیا ہے بلکہ برصغیر پاک و ہند میں مختلف ادوار کے حوالے سے فنِ موسیقی کے اسالیب، جو مختلف اداور میں رائج رہے ان کا بھی ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔برِ صغیر کی موسیقی کا ارتقائی مرحلہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا اُردو زبان کا رہا ہے۔جس طرح اردو زبان مختلف اصنافِ سخن کی شکل میں ہر دور میں محوِسفر رہی ہے کبھی مثنوی کی شکل میں تو کبھی قصیدہ،مرثیہ اور غزل کی شکل میں ،یہی صورتحال برِصغیر کی موسیقی کی رہی ہے۔اصنافِ موسیقی کبھی دُھر پد کا بول بالا رہا تو کبھی خیال ، ٹھمری اور غزل کی موسیقی میں روایت قائم رہی۔فنونِ لطیفہ میں جتنی سر پرستی فنِ موسیقی کی رہی ہے کسی اور فن کی نہیں ہوئی مسلم بادشاہ نہ صرف اس فن کے قدر شناس تھے بلکہ اکثر خود بھی اس فن کے غوطہ زن تھے ۔ بہرحال اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ برِصغیر میں مسلم اقوام کے آنے اور مسلم حکمرانوں کی قدردانی سے ہی فنونِ لطیفہ کو فروغ ملا۔
ذیل میں شاہد احمد دہلوی کا مختصر سا تعارف فن موسیقی کے چندموضوعات کے ساتھ کرایا گیا ہے ۔شاہد احمد دہلوی علم موسیقی کے ایک کام یاب نقاد اور فنکا ر تھے۔موسیقی کے بارہ سروں کی کیفیت اور ہر سُر کے صوتی آہنگ کا مکمل شعور رکھتے تھے۔ادبی لحاظ سے تو وہ ایک قد آور انسان تھے ہی لیکن علمِ موسیقی کا ذوق بھی ادبی ذوق سے کم نہ تھا۔یہی وجہ تھی کے بڑے بڑے گائیکوں کو بھی ان کے دلائل کا قائل ہونا پڑتا تھا۔
شاہد احمد دہلوی نہ صرف موسیقی کے علمی مبادیات سے آگاہ تھے بلکہ عملی طور پر بھی ماہرانہ دسترس رکھتے تھے۔فنِ موسیقی کے تناظر میں لکھے جانے والے مضامین جن میں ہم اور ہماری موسیقی،ہماری کلاسیکی موسیقی، تجدید موسیقی، سر نویسی، ہندوستانی موسیقی ،مشرق وسطیٰ میں موسیقی، پاکستانی موسیقی جیسے موضوعات شامل ہیں۔ ان موضوعات سے شاہد احمد دہلوی کی موسیقی سے وابستگی کا پتا چلتا ہے۔جب ہم فنونِ لطیفہ پر بات کرتے ہیں تو ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ فنونِ لطیفہ پر بہت کم تحریر ہوا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بعض فنون ایسے ہیں جن پر عملی طور پرتو فنکا دسترس رکھتے ہیں لیکن فن کی باریکیوں کو علمی طور پر سمجھ کر ان کی وضاحت نہیں کر سکتے اور بیشتر ایسے ہیں جولکھنے کا ہنر بھی نہیں جانتے۔
کسی بھی فن کی ترویج و ترقی کے لیے علمی و عملی دونوں لحاظ سے مکمل جان کاری رکھنا ضروری ہوتا ہے۔فنونِ لطیفہ میں موسیقی ایک ایسافن ہے جس کی مشکل پسندی اور جامعیت خوداس فن کی ایک اہم خوبی ہے اور اس مشکل پسندی اور جامعیت کو علمی لحاظ سے سمجھنا ہی ایک فنکار کی اصل صلاحیت ہوتی ہے جو اسے دیگر فنکاروں سے ممتاز رکھتی ہے۔شاہد احمد دہلوی کا یہی امتیازی وصف تھاکہ وہ نہ صرف دونوں لحاظ سے علمِ موسیقی کو جانتے تھے بلکہ فن کی باریکیوں کو سائینٹفک طریقوں سے سمجھتے تھے۔شاہداحمد دہلوی نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کی قدیم موسیقی کی خصوصیات پر جو ناقدانہ رائے قائم کی ہے اس رائے کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ممالک کی موسیقی اور آج کی موسیقی میں کچھ خاص فرق نہیں ہے لیکن اس کی موجودہ ساخت کا جائزہ لیا جائے تو وہ اثرات واضح ہو جاتے ہیں جن سے اس کی تشکیل ہوئی ہے۔
موسیقی کے فنکار کے لیے ضروری ہے کہ اسے آلاتِ موسیقی سے بھی واقفیت ہوکیونکہ موسیقی نام بھی آہنگ آواز کا ہے ساز کی آواز اور فنکار کی آواز میں اگر ہم آہنگی نہ رہے تواس سے پیدا ہونے والی آواز کے اعصابِ انسانی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔آلاتِ موسیقی سے بھی شاہد احمد دہلوی مکمل آگاہ تھے ۔آلاتِ موسیقی کی ہیئت اور ان کی فنی و تاریخی اہمیت کی بڑی عمدگی سے وضاحت کی ہے۔آلاتِ موسیقی کے حوالے سے شاہد احمد دہلوی کا مضمون’’ ہندوستای موسیقی کے ساز‘‘ کے عنوان سے ،جو ۱۹۴۶ء میں شائع ہوا اس مضمون میں مشرقی سازوں کی ساخت کے حوالے سے مختصر مگر جامع جائزہ لیا گیا ہے۔آلاتِ موسیقی کا ساتھ ساتھ راگوں کے سنگم اور ان کے آلاپ و اشکال سے بھی آشنا تھے اور راگ راگنیوں کی فنی اشکال کو اس طرح تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ہر راگ کی پہچان اس کے ٹھاٹھ، وادی اور سم وادی سرُ کے ساتھ کرائی ہے۔
چونکہ راگ کا نفسیات سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور راگ جذبات و احساسات کا مکمل آئینہ ہوتے ہیں۔راگ کے سروں کو اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ سننے والوں میں دکھ و غم،مسرت، خوف و ہراس وغیرہ کے اثرات پیدا کیے جاتے ہیں۔ انسان تو کجا جانوروں پر بھی راگوں کیاثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ نغمہ حدی سن کر اونٹوں کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔سپیرے کی بین پر ناگ جھومنے لگتا ہے۔ دراصل راگ ہر مزاجی کیفیت کے ترجمان ہوتیہیں۔ اس حوالے سے شاہد احمد دہلوی نے اپنے مضمون ’’ ہماری کلاسیکی موسیقی ‘‘ میں راگوں کی نفسیاتی کیفیات کے حوالے سے راگ کا’’رس والا نظریہ‘‘ کی بامعنی وضاحت کی ہے کہ کس طرح راگ احساسات و جذبات کو جنم دیتے ہیں اور اثرات مرتب کرتے ہیں۔راگوں کو سننے اور سمجھنے اور ان سے پیدا ہونے والی نفسیاتی کیفیت کو محسوس کرنے کے لیے ایک خاص طرح کا ذوق پیدا کرنا پڑتا ہے اور ایک بدرجہ اعلیٰ صلاحیت پیدا کرنا پڑتی ہے۔
یہ اصول صرف موسیقی کو سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ جملہ فنون لطیفہ کی اثر انگیزی کو سمجھنے اور محسوس کرنے کے لیے ہے۔شاہد احمد دہلوی کے فنِ موسیقی پر تحریر کردہ مضامین جن میں بلا کی ادبی و فنی چاشنی موجود ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندرفنونِ لطیفہ کو سمجھنے اور فن کی لطافت کو محسوس کرنے کی اعلیٰ درجے کی بصیرت موجود تھی۔فن کو اس کے قواعد و ضوابط کے ساتھ سمجھنا اور سمجھانا ہی فنکا ر کی اصل خوبی ہوتی ہے اور یہی خوبی شاہد احمد دہلوی میں بدرجہء غایت موجود تھی۔
’’سُر نویسی‘‘ موسیقی کا بنیادی مرحلہ ہے ۔سات سروں کو ان کے صوتی آہنگ کے فرق کے ساتھ سمجھنا اور ہر راگ کی آروھی امروھی کا مکمل ادراک رکھنا بہت ضروری ہے۔سر نویسی فن موسیقی کی پہلی سیڑھی ہے ۔سر نویسی کی شاہد احمد دہلوی نے با معنی اورجامع وضاحت کی ہے،جس میں مغربی موسیقی اور مشرقی موسیقی کے مابین سرنویسی کے فرق کو علمی لحاظ سے واضح کیا ہے۔ان کی تحقیق کے مطابق مغربی موسیقی کی بنیاد ) Harmony) ہم آہنگی اور مشرقی موسیقی کی بنیاد(Melody) یعنی نغمگی ہے۔مغربی موسیقی میں نغمے ہم آہنگ سروں پر ترتیب دیے جاتے ہیں جبکہ مشرقی موسیقی میں مجرد سروں سے نغمے ترتیب پاتے ہیں۔
فنِ موسیقی ایک مکمل طور پر عملی فن ہے اس کا دائرہ کار صرف سروں تک محدود نہیں یہ فن اپنے اندر ایک مکمل دبستان کی حیثیت رکھتا ہے۔جس کے کئی شعبے ہیں اور ہر شعبہ علمی و فنی لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور فنکار کے لئے ضروری ہے کہ وہ موسیقی کے تمام شعبوں سے بخوبی واقف ہو تا کہ وہ نہ صرف اپنے فن کی بہتر طریقے سے ترویج کر سکے بلکہ فن کو مکمل اثر انگیز بنا سکے۔ اس حوالے سے علم موسیقی میں تین شعبے بڑی اہمیت رکھتے ہیں جن میں سر،لے اور تال شامل ہیں۔ موسیقی صرف سروں کا نام نہیں بلکہ لے ،تال اور راگوں کو مکمل طور پر سمجھ کر گانا ہی اصل موسیقی ہے شاہد احمد دہلوی کو نہ صرف راگوں کی پہچان تھی بلکہ سر،تال اور لے کا بھی بخوبی ادراک رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ علمی اور فنی دونوں لحاظ سے ایک منجھے ہوئے استاد تھے۔ہندوستانی موسیقی کے ابتدائی خدوخال اور اس کے ارتقائی مراحل کی دلائل کے سا تھ وضاحت کرنا ہی ان کی ایک خاص خوبی تھی۔اور یہ علمی ملکہ صرف ہندوستانی موسیقی میں حاصل نہیں تھا بلکہ ہند کی موسیقی کے علاوہ مغربی موسیقی کی تھیوری اور سازوں پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔فنِ موسیقی کے ایک اچھے نقاد ہونے کی حیثیت سے انھوں نے اس فن کے لئے اپنی تمام عمر وقف کر دی تھی۔ اور علم موسیقی کے سمندر میں ایسے غوطہ زن ہوئے کہ کئی فنی باریکیوں کو سامنے لائے۔جو برصغیر کے بڑے بڑے سنگیت کار پیش کرنے سے قاصر رہے۔
چونکہ ہمارا موضوع شاہد احمد دہلوی کی سنگیت فہمی سے متعلق ہے لہٰذہ موضوع کے پیش نظر شاہد احمد دہلوی کی فن موسیقی سے آگاہی اور علم موسیقی پر لکھے گئے ان کے مضامین کا سرسری سا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔شاہد دہلوی کے مضامینِ موسیقی کا تاریخی پس منظر میں اگر مطالعہ کیا جائے تو جو ذہن میں عکس ابھرتا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ فن موسیقی کا زریں عہد تب شروع ہوا جب مسلمان قوم کی برِصغیر پاک و ہند میں آمد ہوئی یعنی اس فن میں جتنی بھی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور جو جو بلندیاں اس فن کو نصیب ہوئی ہیں وہ سب مسلمان حکمرانوں اور فنکاروں کی مرہونِ منت ہیں۔اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔لیکن تاریخی نقطہ نگاہ سے ہم مسلمانوں کی آمد سے پہلے فنِ موسیقی کو محض مذہب کا حصہ سمجھ کر اس کی فنی اہمیت کو محدود نہیں کرسکتے۔ موسیقی کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں نے شاہد دہلوی کے مضامین موسیقی میں فن موسیقی کو تاریخی لحاظ سے صرف ہندوستان کی فضا میں دیکھا ہے اور یوں نظر آیا ہے جیسے اس فن کا جنم بھومی صرف ہندوستان ہی تھا جہاں یہ فن پہلے مذہبی عقائد کے اظہارکا ذریعہ رہا بعد میں مسلمانوں نے آ کر اس کو مذہبی گرفت سے آزادی دلا کر ایک فن کی حیثیت سے پروان چڑھایا۔فنِ موسیقی کی ترویج و ترقی میں بلاشبہ مسلمان حکمرانوں اور فنکاروں کا بہت بڑا حصہ رہا ہے لیکن اس حقیقت سے قطع نظر ہم مسلم دور سے پہلے جو برصغیر کی ثقافت،تہذیب و تمدن اور دیگر فنون لطیفہ جو اس خطہ میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے جس ہیئت میں رائج تھے اور جس طریقہ سے فنکار فنون لطیفہ کی آبیاری کرتے رہے ، ان کی خدمات کو نظر انداز کرنا فن کی تاریخ کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے آنے سے برصغیر میں ایرانی اور عربی ثقافت اور برصغیر کی مقامی ثقافت کے امتزاج سے نہ صرف ایک شاندار تہذیب نے جنم لیا بلکہ فنون لطیفہ کی ترویج و ترقی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا لیکن فن موسیقی کے بارے میں مسلمانوں کے آنے سے پہلے صرف اتنا کہہ دینا کہ یہ فن مذہب سے وابستہ تھا۔اس سے فن موسیقی کا تاریخی پسِ منظر پوری طرح سمٹ کر سامنے نہیں آتا۔فن موسیقی ایک جامع اور مکمل فن رہا ہے اس کی گرائمر کے اصول و ضوابط صدیوں سے طے شدہ ہیں یہ فن نہ صرف علمی لحاظ سے بلکہ فنی لحاظ سے بھی ہر دور میں مکمل رہا البتہ اس کے مبادیات اور اسلوب میں ہونے والی تبدیلیاں ہر دور میں اس کے ارتقائی عمل کوآگے بڑھاتی رہیں اس لیے کبھی تو اس فن میں دھرپد کا راج رہا تو کبھی خیال ،دادرا،ٹھمری اور غزل کا۔ارتقاء کا عمل ایک فطری عمل ہے کائنات میں ہر چیز کا ارتقاء ہوتا رہا ہے خود انسان کو دیکھ لیجیے آج کا انسان زبان،شکل ،لباس،کلچر اور رہن سہن کے لحاظ سے پتھر کے زمانے کے انسان سے بہت مختلف ہے۔زندگی کا ہر شعبہ چاہے وہ کوئی فن ہی کیوں نہ ہو اس کا ارتقا ہر دور میں کسی نہ کسی صورت میں جاری رہتا ہے۔البتہ کچھ عناصر اس ارتقاء میں تیزی اور اضافے کا سبب بنتے رہتے ہیں۔اور یہی کچھ ہندوستان میں موسیقی کے ساتھ ہوا۔برصغیر کی موسیقی کا مزاج مسلمانوں کی آمد سے تیزی سے بدلنا شروع ہو گیا اور مسلم حکمرانوں اس فن کو اپنی خصوصی سرپرستی سے نوازتے رہے اور فنکاروں کی دل کھول کر پزیرائی کرتے رہے۔جس سے اس فن بہت جلد اپنی ایک الگ فنی شکل اختیار کر لی جو پہلے سے مختلف تھی۔جیسا کہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کئی ہزار صدیوں تک پھیلی ہوئی ہے اس خطے مختلف اقوام اپنے کلچر کے ساتھ جلوہ گستر رہی ہیں۔
بر صغیر کی موسیقی نہ تو تمام تر آریائی تمدن کی نمائندہ ہے اور نہ ہی اس کی موجودہ شکل و صورت صرف مسلمان فن کاروں کی مرہونِ منت ہے جیسا کے شاہد احمد دہلوی اس کی موجودہ ہیئت کو صرف مسلمان فنکاروں کی محنت کا ثمر بتاتے ہیں۔جبکہ کلاسیکی موسیقی کو تدریجی اور تاریخی نقطہ نگاہ سے دیکھا اور پرکھا جائے تو یہ بات واضح سامنے آتی ہے کہ کلاسیکی موسیقی کوئی الہامی فن نہیں جو آسمان سے نازل ہوا ہوبلکہ اسے یہ شکل انسان نے ہی دی ہے چاہے وہ انسان ہندوستان میں رہنے والاتھاایران یا توران میں، الغرض موسیقی کا ارتقاء ہر خطہ میں عہد بعہد جاری رہا۔ فن موسیقی کے حوالے سے مختلف اقوام کے مختلف دعوے رہے ہیں۔ہر ایک نے اس فن کا جائے پیدائش اپنے خطے کو قرار دیا ۔ایرانی اپنے تمدن کو یونان کے تمدن سے قدیم بتاتے ہیں ان کا دعوی ہے کہ آلات موسیقی کی ایجاد اور اس فن کی تکمیل ایران میں ہی ہوئی اور وہاں سے یونان اور دیگر خطوں کی طرف بڑھی ہے۔یونانی اس فن کی جنم بھومی اپنی سر زمین بتاتے ہیں اور اہل ہند بھی اس فن کا تعلق اپنے ساتھ جوڑنے کے مضبوط دلائل دیتے ہیں ۔بہرحال فن کی تاریخ کو کبھی بھی ایک عہد میں نہیں دیکھا جا سکتا۔فن کا تعلق فطرت سے ہے اور یہ عہد بعہد کسی نہ کسی شکل میں سر گرداں رہتا ہے۔کبھی مذہبی خیالات و احساسات کی ترجمانی کا وسیلہ بنتا ہے تو کبھی انسان اور انسانی زندگی سے جُڑی ہوئی کیفیات کا ترجمان ہوتاہے۔
شاہد احمد دہلوی کے مضامین موسیقی کا مجموعہ ایک علمی کتاب ہے جس میں برصغیر کے مسلم عہد کے تناظر میں فن موسیقی کے مختلف موضوعات جن میں ’’ہم اور ہماری موسیقی‘‘ ، ہماری کلاسیکی موسیقی ، کلاسیکی موسیقی میں ترمیم کی گنجائش ، تجدید موسیقی ، سر نویسی ، ہماری موسیقی اور مستقبل ، Tradition and change in Indo-Pakistan Classical Music اور موسیقی کے سازوں اور چند مسلمان گائیکوں کا تعارف ان کے گھرانوں کے ساتھ کرایا گیا ہے۔ان مضامین سے شاہد احمد دہلوی کی فن موسیقی سے وابستگی اور ان کی علمی و عملی قابلیت داد و تحسین کے لائق ہے ۔
اگر آپ یہ بھی بتادیتے کہ اس کتاب میں شامل مضامین کس نے درجنوں کتابوں اور رسالوں کی ورق گردانی اورپندرہ بیس لائیبریریوں کی خاک چھان کر جمع کیے ہیں تو کوئی ہرج نہیں تھا۔