(اصغر بشیر)
ہم اندھیروں میں رہنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں کنکر ہیں لیکن ہمیں سر نظر نہیں آتے۔ خیالات کے تفنن سے تنگ آکر ہم اپنا ہی سر پھوڑ لیتے ہیں اور اپنا ہی منہ نوچ لیتے ہیں۔یہ روایات اب بدل رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی جدت سےمعاملات ِ زندگی میں کچھ فرق آیا ہے۔ ہم بطور انسان اپنی ذات کے اقرار اور خود سے فرار کے بے تہاشا طریقے اور ذرائع ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کا انسان پہلے سے زیادہ تنہائی کا شکار ہے، اس تنہائی کا احساس اس وقت تک بھیس بدل بدل کر سامنے آتا رہتا ہے جب تک اس کے ساتھ بالمشافہ ملاقات نہیں کر لی جاتی۔ اس احساس کا سامنا کیوں کر اور کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا شخصی جواب ہمارا شخصی بیانیہ طے کرتا ہے جبکہ اجتماعی جواب ہماری اجتماعی و قومی سوچ کا علمبردار ہوتا ہے۔
دوسرے تمام فنون کی طرح بیانیہ طے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو ما بعد الطبیعات کے دائرہ کار سے نکال کر سائنسی پیمانوں کے مطابق سوچا سمجھا جانے والا مظہر تصور کریں ۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے تحت ہم لوگ اپنے اعمال و خیالات کو مختلف اصولوں کی کسوٹی پر پرکھنے کے قابل ہونگے۔ہمیں چیزوں کو ان کے مقام پر رکھنا آنا چاہیے ۔ ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ شاعر کا اصل کام تخیل کو مدھر اور دل آویز الفاظ اور ترنم میں پرونا ہے۔ لیکن ہم نے شعراء کو ہی اپنی فکر کا منبع سمجھ لیا ہے۔ اسی محلے کے مولوی صاحب سے اگر ہم اپنے بچوں کی کیرئیر کونسلنگ کریں گے تو یقیناً اس کے نتائج کچھ حوصلہ افزاء نہیں ہونگے۔
اس سلسلے میں دوسرا قدم اپنے ورلڈ ویو پر سوال اٹھانا ہوگا۔ اپنے طے شدہ نقطہ نظر سے سوال پوچھنا اور غیرتسلی بخش جوابات کی نئی تشریحات تلاش کرنا انسان کو حقیقت کے قریب ترین لے جاتا ہے۔پھر غیر تسلی بخش سوالات کے جوابات تلاش کرنا انسانی زندگی کو نیا رنگ اور جذبہ عنایت کرتا ہے۔ غور و فکر کی مسلسل مشق سے ہی انسان اپنے شعور اور لا شعور سے تعلق حاصل کر سکتا ہے۔ معلومات کو یاد کرنے سے انسان پڑھالکھا نہیں کہلا سکتا۔ تعلیم یافتہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی سوچ میں سنجیدگی ہو جوکہ کسی بھی عمل کو سائنسی بنیادوں پر پرکھ سکنے کی صلاحیت رکھتی ہو جیسے ارسطو نے کہا کہ پڑھا لکھا ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی بھی نظریے کو قبول کیے بغیر اپنے دماغ میں جگہ دینے کے قابل ہوسکے۔
ابتدائی انسانی بیانیوں میں تنہائی اور احساسِ عدم تحفظ بنیادی عامل رہا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ہم آج بھی انسانی ذہنی ارتقاء کی ابتدائی منازل طے کر رہے ہیں۔ اسی لیے ہم خود کو تنہا محسوس کرتے ہوئے ایک طرف تو ہر اجنبی انسان کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں، اگر دشمن تصور نہ بھی کریں، اس انسان سے عدم تحفظ کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم ہر نئی چیز سے خود کو حتی المقدور کوشش سے بچائے رکھتے ہیں ۔ یہی اجتماعی معیار پر آکر ہمارا بیانیہ یوں طے کرتی ہے کہ ہمیں دنیا کی ہر قوم اپنی دشمن نظر آتی ہے۔ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ہم ہر قوم کو کسی نہ کسی تصوراتی محاذ پر اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی خطے میں کچھ بھی ہو رہا ہو، ہم اسے ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں ۔ پھر اس پر یہ امید و یقین بھی رکھتے ہیں کہ ہم جو سوچ رہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ اس لیے ہمارا حق ہے کہ دوسرے بھی اس کو ٹھیک سمجھیں۔
ہمارے بیانیے کا دوسرا اہم پہلو کسی مافوق الفطرت قوت پر یقین رکھنا ہے۔ یہ حالت بالکل ویسی ہی ہے جیسی ابتدائی دور کے ذہن ِ انسانی میں پائی جاتی تھی۔ جب انسان نے قدرتی عوامل پر غور و فکر کرنا نہیں سیکھا تھا اور اسے ہر قدرتی عمل کے پیچھے کسی نہ کسی فرشتے یا کسی اور قوت کا ہاتھ ہوتا تھا۔ پھر جیسے جیسے انسانی سوچ نے ترقی کی ویسے ویسے مختلف مظاہر کے پیچھے چھپے عوامل کو منظر عام پر لایا جانے لگا۔ ان عوام کے موثر ہونے پر یقین صرف اس صورت میں انسان کو ہو سکتا ہے جب انسان اس پر یقین کرئے گا۔ اگر ایک انسان اس کو موثر نہیں مانتا ، تو اس کے سامنے جتنی مرضی دلائل دئیے جائیں وہ اس کو غیر موثر ہی تصور کرئے گا۔
ہم تہذیبی ارتقاء کے جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں نظریات کی جنگیں روزمرہ کی زندگی میں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔ اپنے روزمرہ کے اعمال کے محرک کو سمجھ کر ہی ہم اپنے بیانیے کی اصل تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چند سوالات کے جوابات ہمیں اچھے اور برے کی پہچان دے سکتے ہیں۔ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کیسے ہے؟ کیا اس سے بہتر بھی کچھ ہو سکتا ہے؟