عزت، غیرت اور شرم تلے عورت
از، ارشد محمود
عزت کیا ہے؟ لغت کے مطابق ’’کسی شخص کی قدر اس کی اپنی نظروں میں‘‘ (value of a person in one’s own eyes) اور تعریف کے مطابق’’وہ ضوابط جو روایتی معیارِ کردار تشکیل کرتے ہیں ‘‘ (rules forming conventional standard of conduct)۔
لیکن عزت ایک اور بھی ہے، جس کا ہم یہاں ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ عورت کے جنسی کردار کو بھی عزت کہتے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، یہاں عورت کو اپنی جنس پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس کی ذاتی زندگی اور مستقبل کے بارے میں سب فیصلے اس کے مردرشتے داروں نے کرنے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بچی جب کسی کے گھر پیدا ہوتی ہے، اس کے خاندا ن میں محض ایک فرد کا اضافہ نہیں ہو تا بلکہ ایک ’’مسئلے‘‘کی آمد ہوتی ہے، اور وہ ہے ’’عزت‘‘کامسئلہ۔ بیٹی کی پیدائش پر مرد رشتے داروں کے سر اندر ہی اندر شرم سے جھک جاتے ہیں۔بیٹی کا باپ اور بہن کا بھائی کہلوانا کوئی فخر کی بات نہیں، اس لیے کہ وہ محض بیٹی یا بہن ہی نہیں، وہ ایک شرمناک چیز ہے۔ ایک ایسی ہستی ہے جو پاک باز معاشرے میں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے !اور سارا مرد معاشرہ جس کی تاک لگائے بیٹھا ہے۔
اگر خدا خدا کرکے اس کی بلوغت تک اس کی عزت بچانے میں کامیاب رہیں،پھر بھی ایک دن سر جھکا کر کسی مرد کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ بیٹی کی وجہ سے مردوں کی مردانہ قسم کی حرکتیں کم ہو جاتی ہیں اور وہ سوسائٹی کے سامنے شرمندہ سے رہتے ہیں۔ بیٹی نہ فرد ہے اور نہ انسان، وہ ایک غیر محفوظ (vulnerable) قسم کی چیز ہے جس کی ہر دم حفاظت ضروری ہے۔
’’خطرہ‘‘اس قدر شدید ہو تا ہے کہ بچپن سے ہی لڑکیوں کے لیے اونچا بولنا اور ہنسنا منع کر دیا جاتا ہے، اس لیے کہ اگر بچی کو چھوٹی عمر میں ہی کنٹرول نہ کیا گیا تو وہ بڑی ہو کر رسوائی کا سبب ہو سکتی ہے۔ لہٰذا چھوٹی عمر میں ہی بچی کو سمجھ آجاتی ہے کہ کون سی بات خاندان کے لیے شرمناک اور خلافِ عزت ہے۔ عورت کو کنٹرول کرنے میں نہ صرف فیوڈل اور قبائلی سماجی اقدار کا سہارا لیا جاتا ہے، بلکہ مذہب بھی اس سلسلے میں ایک ہتھیار کا کام کرتا ہے۔ مردوں کے لیے عورت کو اس کا کمتر اسٹیٹس (status)یاد کروانے کے لیے یہ سطر ہی کافی ہے کہ ’’مرد ہی عورتوں کے محافظ اور وہی ان کی کفالت کرنے والے ہیں، کیونکہ خدا نے بعضوں کو بعض پر فوقیت دی ہے۔ ‘‘
غریب اور قبائلی علاقے میں لڑکی کے جنسی رویے پر ذرا ساشک اس کے قتل کا سبب بن سکتا ہے۔ جب کہ شہری مڈل کلاس کی لڑکی کو کسی ایسے الزام کے نتیجے میں گھر کے کمرے میں بند کر تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے، اسے اخلاقیات اور خاندان کی عزت پر لیکچر دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ خاندان کا نظریہ عورت کے اندر احساسِ گناہ (guilt) پیدا کرتا ہے۔ ایسے معاشروں میں عورتیں خود بھی عورتوں کے سوشل کنٹرول کا ذریعہ بنتی ہیں۔ خواتین کی آپس میں گپ بازی (gossip) کسی دوسری عورت کو طے شدہ ضوابط کے باہر جانے سے روکتی ہے، اس لیے کہ نیک نامی (moral reputation) اس قدر اہم ہوتی ہے کہ ذرا سی افواہ کسی عورت کی زندگی برباد کر سکتی ہے۔ عورت کاگھر والوں کی توقعات پر پورا اترنا نہایت اہم ہے، اور لڑکیوں کی تربیت (conditioning) ایسی کی جاتی ہے کہ وہ خودبخود اس طرح محسوس کرنے لگیں۔ کسی عورت نے جونہی ادھر اُدھر تانک جھانک یا کسی مرد سے دوستی کی، وہ بات فوراً دوسری عورتوں کے ذریعے افواہ بن کر پورے خاندان اور آبادی میں گھوم جاتی ہے۔ عورت پر ظلم مرد کی طرف سے بھی ہوتا ہے اور عورت کی طرف سے بھی، بلکہ شاید زیادہ ظلم خود اپنی ہی ہم جنس کی طرف سے ہوتا ہے۔
ماں، ساس،دیگر بوڑھی رشتے دار عورتیں اور ہمسائیاں سب عورت کو مردوں کے بنائے ہوئے ضابطۂ اخلاق میں باندھنے میں مدد کرتی ہیں۔ اس کے بعد ہمارے ہاں بچیوں اور نوجوان لڑکیوں کو کنٹرول کرنے میں ان کے اسکولوں کی اُستانیاں بھی بڑا رول ادا کرتی ہیں۔ یہ سوشیالوجی کا بڑا اہم سوال ہونا چاہیے کہ عورتیں عورت کی دشمن کیوں ہیں۔ جذبۂ انتقام کے تحت؟ سب ظلم اور پابندیاں ان پر ڈھائی گئیں، لہٰذا ان کی کوئی ہم جنس ان زیادتیوں سے کیوں بچے۔ لیکن اس کا سارا فائدہ مردوں کو ہوتا ہے۔ ان کے بنائے ہوئے نظام کی حفاظت عورتیں خود ہی کرنے لگ جاتی ہیں۔ بسااوقات شدید پابندیوں والے گھر انے کی لڑکیاں کسی بھی مرد کے ساتھ شادی کرکے اپنے ماں باپ کے گھر کو جلدازجلد چھوڑ دینے کو ترجیح دیتی ہیں یا کسی بھی ایسے آدمی کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں جوان کے ساتھ ہمدردی کے دو بول بولتا ہے۔
چونکہ عزت کو عورت کے جنسی رویے سے منسلک کیا جاتا ہے، چنانچہ لڑکیوں کی شکل وصورت اور ان کے لباس کی وضع قطع بہت اہم ہو جاتے ہیں۔ سوسائٹی میں ان کے جو معیار رائج ہوتے ہیں، لڑکیوں کو اس کی سختی سے پابندی کرنے کو کہا جاتا ہے۔ ان کو مسلسل یاد کروایا جاتا ہے کہ وہ اپنا دوپٹہ یاچادر اوپر لیں۔ انھیں ٹانگیں پھیلا کر بیٹھنے سے منع کیا جاتا ہے۔ انھیں بات کس طرح کرنی چاہیے، ان کی چال کس طرح کی ہونی چاہیے۔ اجنبی سے آنکھیں ملا کر بات نہیں کرنی، تنگ اور جسمانی خدوخال کو ابھارنے والے کپڑے نہیں پہننے، اکیلے کہیں نہیں جانا،مہمانوں کے پاس نہیں بیٹھنا۔ چھوٹی عمر میں ہی بچی کو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنا بند کروادیا جاتا ہے۔ وقتی طور پر بچی پریشان ہوسکتی ہے کہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کیا جارہا ہے، اس کی ذات میں کیا خرابی ہے، کیوں وہ نارمل انسان کی طرح نہیں رہ سکتی؟ ظاہر ہے اس کی شخصیت ٹوٹ جاتی ہے۔ لیکن جلد ہی ان ٹکڑوں کو جوڑ کروہ خود کو اس کردار کے لیے تیار کرتی ہے جو سوسائٹی نے اس کے لیے تجویز کیا ہوتا ہے۔ بچی کو کہا جاتا ہے کہ یہ سب تمھاری بھلائی کے لیے ہے۔ چنانچہ بہت سی عورتیں فرمانبردار ہونے میں فخر محسوس کرنے لگ جاتی ہیں، اور وہ سب کچھ کرکے جو سماج ان سے توقع کرتا ہے، مزید پابندیوں سے بچنے کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔ اگر لڑکی ان غیر تحریر شدہ قوانین پر عمل نہیں کرتی تو ماں باپ اس لڑکی کے مستقبل کے بارے میں خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔
عربی زبان میں کنوارپن کے لیے ’’عذرا‘‘ (virgin) کا لفظ استعمال ہو تا ہے۔ لیکن یہ غور طلب بات ہے کہ اس کے متبادل میں مردوں کے لیے اسی طرح کا معنی دینے والا کوئی مذکر لفظ موجود نہیں ہے۔ یعنی کنوارپن صرف لڑکی کے لیے ہے، مرد کے لیے نہیں۔کنوارے مرد کے لیے کہا جائے گا کہ ابھی اس نے کوئی جنسی تجربہ نہیں کیا۔ جو لڑکی اپنا کنوارپن کھو بیٹھے، اسے جسمانی یا اخلاقی موت دے دی جاتی ہے۔ شادی کی رات اگر وہ سماج کے خود ساختہ معیار کے مطابق ’’کنواری‘‘ نہیں پائی گئی تو صبح اسے طلاق دی جا سکتی ہے اور یہ طلاق اسکینڈل کے ساتھ وابستہ کر کے دی جائے گی اور آناً فاناً محلے برادری میں خبر پھیل جائے گی۔ ایسی لڑکی معصوم ہی کیوں نہ ہو، لیکن وہ اسے ثابت نہیں کر سکتی۔ عرب ممالک میں لڑکیاں شادی سے پہلے ڈاکٹر سے پوچھنے جاتی ہیں کہ آیا ان کا پردۂ بکارت ابھی اصلی حالت میں ہے یا نہیں۔ ورنہ دوسری صورت میں آپریشن کے ذریعے اسے بحال کرایا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں غیرت کے نام پر قتل بھی عام ہیں۔ مرد رشتے دار عورت کے کسی مرد کے ساتھ تعلقات کے شبہے پر اسے قتل کردیتا ہے۔ ایسے مجرموں کے ساتھ سماج،ریاست اور عدلیہ رعایت اور نرمی کے ساتھ پیش آتی ہے۔ اس طرح کے جرائم ہمارے ہاں قبائلی اور دیہاتی ماحول میں زیادہ ہوتے ہیں۔ انھی غیر سائنسی تصورات کے جلو میں لڑکی کے لیے پہلا حیض صدمہ انگیز تجربہ ہو تا ہے۔ چونکہ لڑکیوں کو کہا جاتا ہے کہ پردۂ بکارت پھٹنے سے لہو بہتا ہے، وہ بے چاری پہلے حیض کو اپنے کنوارپن کے چلے جانے پر محمول کرتی ہے۔ جنسی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے اسے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا۔ اکثریت کے ذہنوں میں بہت سے ایسے سوالات ہوتے ہیں جن کے سائنسی جواب ان کے پاس نہیں ہوتے۔ ماؤں کے ذہنوں میں بھی اور ہی طرح کے خوف پل رہے ہوتے ہیں۔ حیض پر ان کا پہلا سوال ہوتا ہے: ’’کوئی مرد تو تمھارے پاس نہیں آیا؟ ‘‘یا ’’تم کہیں گِریں تو نہیں؟‘‘ اس طرح کی یقین دہانی کے بعد وہ بیٹی کو اصل صورتِ حال سے آگاہ کرتی ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ لڑکیاں پڑھنا چاہتی ہیں، لیکن باپ بھائی انھیں پڑھانے کے حق میں نہیں ہوتے، تاکہ وہ اپنے قریب رکھ کر اس کو کنٹرول کرسکیں۔ تعلیم کے لیے انھیں چار دیواری سے باہر جانا ہوگا۔ اسی لیے لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی ناخواندگی کی شرح کئی گنا زیادہ ہے۔ لڑکیوں کے تعلیمی مضامین کا فیصلہ بھی ماں باپ کرتے ہیں۔اس میں بھی ’’عزت‘‘ کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ لڑکوں کے لیے دیکھا جاتا ہے کہ کون سی جاب ’’باعزت‘‘ہے۔ انھیں انجینئر نہیں بننے دیا جاتا، قانون اور صحافت کے شعبے میں بھی عام طور پر نہیں جانے دیا جاتا۔ لڑکیوں کی سرگرمیوں کو مسلسل محدود رکھنے سے ان کے اندر باہر خوف پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ گھر سے باہر خود کو بے چین (uncomfortable) محسوس کرنے لگ جاتی ہیں۔
باہر انھیں اس طرح محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہو۔ عورت پر ایک اور بڑا خوف یہ ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کو دوسرے لوگ جج کر رہے ہیں151 اور انھیں ایسا کرنے کا اختیار ہے۔ لڑکی عزت ہے، لہٰذا اس کی قریب سے نگرانی اور اس پر نگاہیں رکھنا سماج کی ذمے داری ہے۔ اسے کنٹرول کرنا ہے، جیسے جانوروں اور دیگر پراپرٹی کو کیا جا تا ہے۔ جب کہ لڑکا ہونے کی صورت میں کسی ایسی ذمے داری کی ضرورت نہیں۔ لڑکے لڑکی کا فرق پیدائش سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ شادی کے وقت دعا: ’’تم خوش رہو، اﷲ تمھیں بیٹا دے۔ ‘‘ عورت حاملہ ہوتی ہے تو لڑکے کی اُمید لگائی جاتی ہے۔ لڑکی پیدا ہو گئی تو اس پر سب افسوس کا اظہار کرتے ہیں، اور ماں کو تسلیاں دینی شروع کر دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات تو صرف لڑکیاں پیدا ہونے پر طلاق دے دی جاتی ہے۔
بیوی کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔ بچی پیدا ہونے پر ماں پریشان ہو جاتی ہے۔ خود کو غیرمحفوظ (insecure) سمجھنے لگتی ہے۔ اس کے میکے کے رشتے دار پریشان ہو جاتے ہیں کہ کہیں ان کی بیٹی کو طلاق نہ ہو جائے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ جو نہی زچہ کو نرس یا ڈاکٹر نے بتایا کہ ’’ایک خوبصورت بچی پیدا ہوئی ہے، ‘‘ ماں صدمے سے بے ہوش ہو گئی۔ ہمارے معاشرے میں غربت اور کثیر آبادی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ایسے بے شمار گھرانے ہیں جو صرف بیٹے کی اُمید پر لڑکیوں کا ڈھیر لگا لیتے ہیں۔اور اگر بیٹا ہو بھی جائے تو پھر بھی اس کی جوڑی بنائی جاتی ہے، اس سے قطع نظر کہ اس طرح بچوں میں اضافہ کرکے وہ غربت کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ یہ سب اس پسماندہ کلچر کے مسائل ہیں جو ہمارے ملک میں رائج ہے، اور اسے توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے نہ اجازت دی جاتی ہے۔
پدرسری نظام میں مردوں کو سخت جان،آزاد، خود مختار اور صاحبِ عقل سمجھا جاتا ہے، جب کہ عورتوں کو جذباتی، تسلیم خو اور اطاعت پر مائل ہو جانے والا۔ بچی کو خاندان کے سب افراد فرمانبرداری، دستبر داری اور قبول کرلینے کی عادت اپنا نے پر مجبور کرتے ہیں۔ اور انکار پر سزا دی جاتی ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ نافرمانی عیب ہے، شرمناک بات ہے۔ لیکن یہ اصول لڑکوں پر لاگو نہیں ہو تا۔ لڑکے اور لڑکی کے بیچ میں اہلِ خاندان کے رویے میں فرق ہی دونوں کی شخصیت کی تعمیر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ دونوں کو مختلف رول ادا کرنے کے لیے باقاعدہ condition کیا جاتا ہے اور ان سے مختلف توقعات باندھی جاتی ہیں۔ لڑکوں کو کہا جاتا ہے کہ انھیں مضبوط بننا چاہیے، جب کہ لڑکی کو نرم خو ہونے کو کہا جاتا ہے۔
انھیں خوفزدہ کیا جاتا ہے، ان کی جسمانی کمزوری کا انھیں احساس دلایا جاتا ہے، انھیں ضد اور تقاضا کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ لڑکوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ باہر کھیلنے جائیں،درختوں پر چڑھیں اور سیکھیں کہ خود کا دفاع کس طرح کرنا ہے۔ اور لڑکیوں کی تربیت بالکل اس سے مختلف کی جاتی ہے۔ انھیں بچپن سے ہی اپنے رشتے دار ہم عمر لڑکوں کے ساتھ مل جل کر کھیلنے سے منع کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے: ’’اچھی لڑکیاں گھر میں ہی ٹھہرتی ہیں۔ ‘‘ انھیں دوستوں کے گھر نہیں جانے دیا جاتا،کہ اس کا سامنا اس کی دوست کے بھائیوں سے ہو سکتا ہے، جو شرمناک بات ہے۔ یہ خوف اس حد تک چلا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان لڑکیوں کی کمی نہیں جویہ سمجھتی ہیں کہ لڑکوں کے پاس بیٹھنے سے ہی وہ حاملہ ہو سکتی ہیں! حتیٰ کہ وہ بھائیوں سے بھی دور ہو کر بیٹھتی ہیں۔ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شرمیلی اور چھوئی موئی بن کر پیش ہو ں۔لڑکی کے رونے پر اسے خاموش ہو جانے کو کہا جاتا ہے جب کہ لڑکے کورونے پر طعنہ دیا جاتا ہے۔ انھیں رونا نہیں چلاّنا سکھایا جاتا ہے۔ عورتوں کے زیادہ رونے کی وجہ بھی یہ ہے کہ فیصلے اور منانے کی ہر صلاحیت سے تہی ہونے کے بعد رونا ہی ان کو اپنا ہتھیار دکھائی دیتا ہے۔عورتوں کو ہمارے معاشرے میں یہ کہہ کر صاحبِ اختیار (decision making) عہدہ دینے سے گریز کیا جاتا ہے کہ وہ جذباتی ہونے پر مائل ہوتی ہیں، لیکن بعد میں انھیں جذباتی ہونے کی سزا بھی دی جاتی ہے۔
اگر چہ تعلیم اور معاشی خوشحالی سے اعتدال پسند انہ رویے پیدا ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی درمیانہ طبقے میں اس بات کی یقین دہانی رکھی جاتی ہے کہ عورتیں روایتی سماجی اقدار کے ساتھ مضبوطی سے چمٹی رہیں۔انھیں خود سے سوچنے کی آزادی نہیں دی جاتی۔ ان سے جذباتی رد عمل کی ہی توقع کی جاتی ہے تاکہ اہم فیصلے گھر کے مرد حضرات ہی کرسکیں۔ عورتیں اگر جذبات سے جلد مغلوب ہو جاتی ہیں تو اس کی وجہ سماج میں انھیں دی ہوئی نہایت محدود جگہ (limited social space) ہے۔ پہلے انھیں ’’عورت‘‘، ’’صنفِ نازک‘‘اور ’’جذباتی ‘‘بنایا جاتا ہے، ان سے معاشرے کے طے شدہ نسوانی امیج کی اُمید کی جاتی ہے، اور پھر انھیں جذباتی اور نسوانی کہہ کر روز مرہ زندگی کے بارے میں فیصلے کے اختیار سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اگر عقل استعمال کرنے کی اجازت ہی نہ دی جائے گی تو فطری طور پر جذبات کا استعمال زیادہ ہو جائے گا۔ عورت کو ایک خود مختار فرد (person) بننے کی اجازت نہیں؛ وہ صرف کسی کی بہن یا بیٹی، بیوی یا ماں ہو کر رہ سکتی ہے۔ بچپن میں ان کی پرورش اس طرح کی جاتی ہے کہ اپنے ہر کام کے لیے فیملی کی دست نگر رہتی ہے، اور شادی کے بعد خاوند کی۔ ہر عورت کو اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی یہ خیال ضرور آتا ہے کہ کاش وہ لڑکا ہوتی تو بہتر پوزیشن میں ہوتی۔ سوسائٹی، عورت ہوتے ہوئے، اسے شخصیت کا مالک نہیں بننے دیتی۔ تعلیم یافتہ اور کمانے والی عورت کو بھی بالآخر اپنے خاوند کی خواہشات کے مطابق ڈھل جانا پڑتا ہے، ورنہ ان کی فیملی لائف بڑے تناؤ کے ماحول سے دو چار ہو جاتی ہے۔
ایک سروے کے دوران جب عورتوں سے پوچھا گیا کہ اگر انھیں دوبارہ موقع اور اختیار ملے کہ وہ اپنے خاوند کو منتخب کر سکیں، تو کیا اسی آدمی اور اسی طرح کی زندگی کو چنیں گی؟ حیرانی کی بات ہے کہ بیشتر عورتوں کا جواب اثبات میں تھا۔ وجہ یہ کہ عورت کے لیے یہ عزت کی بات نہیں کہ وہ اپنے خاوند کے علاوہ کسی اور شخص کے بارے میں سوچ بھی سکے۔ وہ سمجھتی ہے کہ وہ صرف ایک مرد کے لیے پیدا کی گئی ہے، تصور میں بھی کسی دوسرے کے بارے میں سوچنا حرام اور شرمناک ہے۔ اسے جیسا بھی خاوند مل جائے،وہ اپنے مقدر پر قانع ہوتی ہیں کہ یہی مردان کی قسمت میں لکھا گیا تھا۔ عورت کی ہر ممکن کو شش ہوتی ہے کہ جس کسی کے ساتھ بھی وہ بیاہ دی گئی ہے،اپنی شادی کو ہر حالت میں نبھائے رکھے، خواہ ہمیشہ کے لیے ناخوش زندگی ہی کیوں نہ گزارنی پڑے۔ لڑکیوں کو بچپن سے اس طرح پالا جاتا ہے کہ وہ اپنے ذہن میں ایک تصوراتی اور جذباتی دنیا بسا لیتی ہیں۔ انھیں ایک ایسے آدمی کے ملنے کی اُمید رہتی ہے جو آنکھیں بچھائے رکھے گا،اور ہمیشہ پیار اور مشفق رویے سے پیش آئے گا۔ لیکن عورت کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی۔ ہمارے سماج کے مرد اپنی بیوی کی ضروریات کو نہیں سمجھ سکتے، اس لیے کہ سوسائٹی نے ایسا کرنا سکھایا ہی نہیں ہوتا۔ طلاق کو عورت ازدواجی مسائل کا حل نہیں سمجھتی۔ آزاد اور خود مختار حیثیت کے بغیر طلاق اس کے مسائل میں کمی نہیں کر سکتی، چنانچہ صبر اور قربانی کے سوا کوئی راستہ نہیں ہو تا۔ اسے پتا ہے کہ طلاق کی صورت میں عورت خاندان کے لیے ساری زندگی کا بوجھ اور ذمہ داری بن جائے گی۔
ہمارے ہاں کی بچیاں ماں باپ کے سخت کنٹرول میں پلتی ہیں۔ غریب اور مڈل کلاس کی مائیں خود بھی کمزور،بے حوصلہ اور قنوطی ہوتی ہیں، چنانچہ بچیوں کے لیے بھی وہ اسی طرح کا رول ماڈل (role model) بنتی ہیں۔ ماں کو بچی کی ذات کم اور خاندان کی عزت زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ چونکہ ان لڑکیوں نے ماں کو مکمل اطاعت گزار (submissive) دیکھا ہوتا ہے، لہٰذا ان کے سامنے کسی مضبوط عورت کی کوئی مثال ہی نہیں ہوتی جس کی بنیاد پر وہ اپنا رویہ تشکیل دے سکیں۔ چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ ہماری لڑکیاں اگر چہ ماؤں کے سخت رویے پر شکوہ کرتی ہیں، لیکن آخر کا ر انھیں ہی سچا سمجھتی ہیں اور شادی کے بعد انھی کی مثال پر چلنا شروع کردیتی ہیں۔وہ جانتی ہے جتنا وہ سماج اور ماحول کے سامنے سر جھکائے رکھے گی معاشرہ اتنا ہی اچھا سمجھے گا، لہٰذا عورت کے اندر مفعولیت اور اپنی خواہشوں کو مارنے کا رجحان جنم لے لیتاہے۔ اس کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ سے لے کر تعلیم اور شادی تک کے سب فیصلے خاندان والے کرتے ہیں۔ وہ تسلیم خورہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتی ہے، بلکہ اسے اپنے مفاد میں موڑ دینے کا ذریعہ بنالیتی ہے۔ ایک ورکنگ عورت کی بہ نسبت گھریلو عورت خود کوزیادہ آرام دہ محسوس کرتی ہے، کہ بیرونی دنیا کی جدوجہد سے اس کی جان چھوٹی ہوئی ہے۔