(یاسر اقبال)
رقص کو بجا طور پر اعضاء کی شاعری کہا جاتا ہے۔ مشہور فرانسیسی شاعر و نقاد پال ویلری نے بھی ناچ اور چال کے حوالے سے ایسی بلیغ بات کہی جو بالآخر شعر و نثر کے صریح تقابل پر منتج ہوتی ہے:
“Poetry is to prose as dancing is to walking.”
Paul Valery
شعر اور نثر میں زبان کا وہی کردار ہے ، جو ناچنے اور چلنے میں جسم کا۔ جس طرح سے ناچ اور چال میں جسم کے انداز بدل جاتے ہیں ؛ شعر اور نثر میں زبان کا اسلوب مختلف ہو جاتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد پال ویلری کی مذکورہ مثال کے ذریعے سے شعر اور نثر میں فرق واضح کرنا ہے۔ جسم اور زبان کے ان ہر دو وظائف میں فرق کرنا ہے: جو ناچنے اور چلنے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں؛ جو شعر اور نثر کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔
پال ویلری کے اس تقابل کی بنیاد پر غور و فکر کیا جاۓ اور نئے تنقیدی نظریات کو پیشِ نظر رکھاجاۓ تو درج ذیل چھے اہم امتیازات قائم ہوتے ہیں:
ناچ اور چال میں پہلا سادہ سا امتیاز یہ ہے کہ ناچ میں جسم کا ایک ایک انگ بہم ہوتا ہے۔ ہر انگ ناچ میں برابر، بھر پور اور مربوط انداز سے شریک ہوتا ہے جب کہ چال میں ایک دو اعضا کسی سمت ترسیل میں بھرپور حصہ لیتے ہیں باقی تمام اعضا اسی سمت ایک ڈھال اختیار کرتےہوۓ نسبتا کم سرگرمی دکھاتے ہیں۔
اسی طرح سے شعر میں زبان اپنے ہر پہلو کے ساتھ بھر پور انداز سے فعال ہوتی ہے؛ جہاں ایک ایک لفظ اپنی تمام ممکنہ معنوی اور صوتی کیفیات ظاہر کرتے ہوۓ، دیگر الفاظ کے ساتھ اپنے معنوی التزام اور صوتی ارتباط کو بروے کار لاتے ہوۓ، جلوہ گر ہوتا ہے۔ جب کہ نثر میں زبان کا وہ پہلو فعال ہوتا ہے جس کا تعلق ایک طے شدہ معنی کو کسی سمت ٹھیک ٹھیک پہنچانے سے ہو، جسے ہم معنی کی ترسیل کہتے ہیں۔
ناچنے اور چلنے میں دوسرا بڑا فرق مدعا کے تعین کا ہے۔ ناچنے کا مدعا عموماً کیا ہوتا ہے؟ ناچنے کا مدعا/ مقصد کہیں پہنچنا نہیں ہوتا، بل کہ ناچ ہی مدعا ہوتا یعنی جو بھی مدعا ہوتا ہے وہ ناچ کے اندر ہی ہوتا ہے۔ اگر رقاص سٹیج پر ناچتے ہوۓ ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر پہنچ بھی جاۓ تو ہم سمجھتے ہیں کہ مقصد وہاں پہنچنا ہرگز نہیں ہوتا مقصد ناچ ہی میں مضمر ہوتا ہے جس کا اظہار کیا جا رہا ہوتا ہے، اور اس مقصد کو اظہار سے الگ نہیں کا جا سکتا۔ رقص کا مدعا رقص ہی ہے۔ جب کہ چلنے کا واضح طور پر ایک بیرونی مقصد یا مدعا ہوتا ہے جو چلنے سے پہلے اور چلنے سے الگ موجود ہوتا ہے یعنی کہیں پہنچنا ہوتا ہے۔ جب مقصد حاصل ہو جاتا تو چلنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
یہی معاملہ شعر اور نثر کے ساتھ ہے۔ شعر کا مدعا عموماً کیا ہوتا ہے؟ بنیادی طور پر شعر کا مدعا ، شعر سے باہر پہلے سے موجود بات کو پہنچانا نہیں ہوتا بل کہ شعر کے اندر بات کو پیدا کر کے اس کو پرکشش اور پر معنی “بنانا” ہوتا ہے (یونانی میں poet کا لفظی مطلب maker یعنی “بنانے والا” ہے)، یعنی شعر کسی بیرونی مدعا و مقصد کا “ذریعہ” نہیں بنتا، شعر کا اصل مدعا شعر ہی ہوتا ہے۔ دراصل اقلیمِ شعر میں قدم رکھتے ہی مدعا عنقا ہو جاتا ہے اور ایک “عالمِ تقریر” رہ جاتا ہے۔
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
بالفرض شعر کسی بیرونی مدعا کا ذریعہ بن بھی رہا ہو یعنی شعر میں کسی بیرونی بات کی ترسیل ہو بھی رہی ہو تو ہو بہو نہیں ہو پاتی، بل کہ شعر میں آ کر بات بہت حد تک منقلب ہو جاتی ہے، شعر کے مزاج میں ڈھل جاتی ہے؛ ہم فوری سمجھ جاتے ہیں کہ شعر کا مدعا بات کا پہنچانا نہیں بل کہ شعر ہی میں بات کی (تمام تر شاعرانہ تقلیب سمیت) مکمل جلوہ فرمائی اور لطف اندوزی ہے۔ مدعا کو شعر کی عبارت، اشارت اور ادا سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ شعر “تمثال دار آئینہ” ہے جس کے تمثال آئینے سے باہر کسی واسطے میں نہیں دیکھے جا سکتے۔ یعنی “بات” کو شعر سے صحیح سالم نکال کر یا الگ کر کے دیکھا ہی نہیں جا سکتا، اس کے اندر ہی اس کی بھرپور معنویت سے لطف اندوز ہوا جا سکتا۔ قمر جمیل کا خوب صورت شعر ملاحظہ کیجیے:
رات دریا آئنے میں اس طرح آیا کہ میں
یہ سمجھ کر سو گیا دریا نہیں اک خواب ہے
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب
جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ کہ بظاہر نگاہ سے کم ہے
جب کہ نثر کا مدعا نثر سے باہر پہلے سے موجود کسی بات کو نثر کے ذریعے پہنچانا ہوتا ہے۔ نثر کا کوئی داخلی مدعا نہیں ہوتا بل کہ یہ کسی خارجی مدعا / مقصد کے ابلاغ یا ترسیل کا “ذریعہ” بنتی ہے۔ بات جب پہنچ جاتی ہے تو نثر سے الگ ہو جاتی ہے اور نثر کا مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے۔
ناچنے اور چلنے میں تیسرا فرق مدعا / مقصد کی ماہیت کا ہے۔ ناچنے کے مدعا کی ماہیت “اظہار” یا “کار کردگی” (کر کے دکھانا) ہے، جب کہ چلنے کا مقصد ابلاغ و ترسیل (یعنی پہنچنا) ہے۔ ناچنے میں جسم اظہار کرتا ہے، یعنی جو بھی اس کا مدعا ہوتا ہے، منہ سے نہیں بتاتا، کر کے دکھاتا ہے۔ رمز سے کام لیتا ہے ،اشارے کناۓ کرتا ہے، بھاؤ بتاتا ہے۔ چلنے میں جسم کہیں پہنچتا ہے۔ چلنے میں مقصد کا اظہار چال ڈھال یا رفتار سے ہو بھی رہا ہو تو اس کی حیثیت ثانوی ہی رہتی ہے چلنے کا اصل مقصد پہنچنا ہی رہتا۔
شعر “عالمِ اظہار” ہے۔ شعر میں بات کی سیدھی سادی ترسیل کی بجاۓ اصل مدعا بات کا فنکارانہ اظہار ہی ہوتا۔ یعنی شعر میں بات کی نہیں جاتی بل کہ بات کر کے دکھائی جاتی ہے۔ براهِ راست نہیں ، اشارے کناۓ سے علامات سے اظہار کیا جاتا ہے۔ ناچ کی طرح شعر میں بات کو perform کیا جاتا ہے۔ ناچ یا شعر میں کردار براهِ راست یہ نہیں کہتا کہ “مجھے ہنسی آرہی ہے” ، بل کہ ہنس کے دکھاتا ہے۔ فرح دیبا کا شعر ہے:
ہی ہی ہا ہا کے سب رشتے ہیں
چلو کریں ہم ہی ہی ہا ہا
یا یہ نہیں کہتا کہ مجھے دکھ ہے بل کہ دکھ کا اظہار کرتا ہے:
ہاۓ اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
نثر میں مدعا عموماً بات کی براهِ راست ترسیل ہوتا ہے کہ بات واضح طور پر پہنچ جاۓ۔ ایک بات جتنی بھی مشکل ہو اس کی پوری پوری ترسیل کی کوشش کی جاۓ۔
چوتھا فرق مدعا کی پہلو داری یا تہہ داری کا ہے۔ ناچ/شعر کے مدعا کی جو بھی کیفیت ہو، کثیرالجہت ہوتا ہے، کوئی ایک پہلو کوئی ایک تہہ نہیں ہوتی۔ بیک وقت کتنے خیالات، احساسات اور جذبات کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ اظہار ناچتا جسم کرے یا شعری زبان کرے ، اظہار کی غیر معین اور تہہ در تہہ صورت ناظر یا قاری پر کھلتی جاتی ہے؛ شعری زبان میں معنی: خیال کے پردے میں ہو، احساس کی صورت ہو یا جذبے کے رنگ میں؛ غیر معین اور تہہ در تہہ رہتا ہے۔ معنی ناظر یا قاری پر تہہ در تہہ کھلتا ہے، ہر آن نئی چھب دکھلاتا ہے، بشرطیکہ اس کو دیکھنا یا پڑھنا آتا ہو۔
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے
چاکِ قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
جب کہ نثر کی چال ایک ہی پہلو رکھتی ہے۔ چال کی ایک سمت اور منزل ہوتی ہے۔ چال جیسی بھی ہو، ٹیڑھی میڑھی، اٹھلاتی بل کھاتی، ایک وقت میں ایک سمت کی متحمل ہوتی ہے۔ معین معنی کی یک سمتی اور اکہری ترسیل، نثر کی خوبی شمار ہوتی ہے۔ کثرتِ معنی شعر کا حسن اور نثر کا عیب ہے۔ نثر کا مدعا تو معین معنی کی ترسیل و ابلاغ ہوتا ہے۔
پانچواں امتیاز یہ ہے کہ ناچتا جسم، اپنی آخری حد تک جتنی بھی تنظیم و ترتیب سے متحرک ہو سکتا ہو، ہوتا ہے۔ بعینہ شعری زبان، اپنی آخری حد تک جتنے بھی منظم و مرتب اور متوازن و متناسب انداز سے متحرک ہو سکتی ہو، ہوتی ہے۔ شعر، اوزان و اصوات کی سطح پر بھی اور الفاظ و معانی کی سطح پر بھی، زبان کی منظم ترین اور مرتب ترین صورت ہے۔ شعری زبان میں حد درجہ تنظیم و ترتیب ، تکرار و تقابل اور توازن و تناسب کے قرینے بآسانی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں:
تیری نگاهِ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل، غیاب و جستجو؛ عشق، حضور و اضطراب
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
ناچ اور چال میں چھٹا اہم فرق توانا اور بھرپور “تحرک” کا ہے۔ جسم/شعر اپنی متنوع کیفیات میں ہر آن متحرک نظارہ ہوتا ہے۔ قرات کے دوران میں شعری زبان کی ہر لحظہ نئی شان نئی آن ہوتی ہے۔ شعری زبان میں “تماشاۓ نیرنگِ صورت” اسی تحرک کا مرہونِ منت ہے۔ یہ تحرک معنوی جلوہ افروزی کی انتہائی صورت ہے۔ یہی توانا اور بھرپور تحرک معنی کو غیر معین رکھتا ہے۔ بیک وقت کبھی پھول ذہن میں آتے ہیں کبھی پریاں، ایک رنگ ڈوبتا ہے تو دوسرا ابھرتا ہے:
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن
مزید یہ کہ ناچ/ شعر مخصوص تکنیکی آہنگ کے بغیر ممکن نہیں۔ نثر کی چال جتنی بھی ترتیب میں آجاۓ اس کا آہنگ شعر کے رقص کے مقابلے میں سیدھا سادہ ہی رہتا ہے۔ نثری چال کا تحرک جتنا بھی برانگیختہ ہو جاۓ شعری رقص کے تحرک کے مقابلے میں سست رو ہوتا ہے۔
نظری طور پر، شعر و نثر میں حدِ فاصل ہے، پال ویلری سمیت شعر و نثر کے مزاج آشنا کئی نقاد یہ حدِ فاصل دیکھ چکے ہیں۔ ہمیں بھی دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ شعر و نثر کے ارتقاء کے میدان میں پیش قدمی کی جا سکے۔ عملی طور پر، ظاہر ہے، اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ شاعری میں نثر اور نثر میں شاعری در آتی ہے۔ شاعری کی بات کریں تو “خالص شعر” ایک منتہاۓ کمال ہے جس کی طرف شعر ہمیشہ سفر جاری رکھتا ہے۔ نثر کا معاملہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ادب میں کہاں کہاں نثر و شعر کی سرحدیں مل جاتی ہیں اور اکثر ہمارا سامنا “شاعرانہ نثر” سے ہو جاتا ہے۔ سو شاعرانہ نثر یہی ہے کہ اِٹھلاتے بل کھاتے مٹک مٹک چلا جاۓ۔ اگر کوئی کسی منزل پر ناچتے ہوۓ پہنچنا چاہتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔
واہ۔ بہت معلوماتی اور دلچسپ مضمون ہے۔ فرانسیسی نقاد کے نظریہ کی بہت واضع اور مدلل وضاحت کی ہے۔ شاعری اور نثر دونوں کو آدمی کا جسم دیئے انہیں چلنے اور ناچنے سے تشبیہہ دیے جانا دونوں کے فرق کے اظہار پر کھلا ابلاغ ہے۔