(پروفیسر فتح محمد ملک)
جب قوموں پر زوال اور ادبار کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں تو اُن کے زوال پسند افراد اپنے آباو اجداد کے کمالات کی تحسین کی بجائے تردید میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ آج ہم پر بھی وہی نازک وقت آن پڑا ہے۔ شہیدِ ملت لیاقت علی خان نے برطانوی ہند کی عبوری کابینہ کے وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے جو قابلِ صد تحسین بجٹ پیش کیا تھا وہ برصغیر میں اقتصادی منصوبہ بندی کا ایک یادگار کارنامہ قرار پایا تھا مگر جناب ارشاد احمد حقانی کو اِس بجٹ کی یہ نادر و نایاب خوبی ہی اِس کا سب سے بڑا عیب نظر آتی ہے۔ اُنہیں اِس بجٹ سے سب سے بڑا گلہ یہ ہے کہ اِس بجٹ میں لیاقت علی خان نے ہندو سرمایہ داری کے تقدس کو پامال کر کے رکھ دیا تھا۔بات یہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے فوراً بعد کے مشکل ترین اقتصادی بحران سے نجات کی خاطر لیاقت علی خان نے امیروں پر ٹیکس عائد کیے تاکہ مسلم لیگ اور کانگریس ہر دو سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور میں کیے گئے عوامی بہبود اور معاشی انصاف کے وعدے ایفا کر سکیں۔اِس بجٹ کو فقط مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ ہندوؤں کے منصف مزاج اور وسیع النظر طبقے نے بھی نہایت پرجوش انداز میں سراہا تھا ۔ بجٹ تجاویز سامنے آتے ہی برصغیر کی رائے عامہ نے اِس بجٹ کو غریب آدمی کا بجٹ قرار دیا تھا۔ اِس کے برعکس ہندو اجارہ دار سرمایہ داری کے ترجمان سردار پٹیل کی قیادت میں اِس بجٹ کو فرقہ وارانہ بجٹ قرار دیا گیا۔سردار پٹیل اور اُس کے ہمنواؤں کا استدلال یہ تھا کہ مسلمان تو ہیں ہی غریب سرمایہ دار فقط ہندو ہیں۔ اِس لیے شہیدِ ملت کا یہ بجٹ ہندوؤں سے سرمایہ چھین کر غریب مسلمان عوام پر نچھاور کرنے کا ایک مؤثر وسیلہ ہے۔جناب ارشاد احمد حقانی ہندو سرمایہ داری کے ترجمان سردار پٹیل کے اس نقطۂ نظر کودرست قرار دیتے ہیں۔ ۶جنوری ۲۰۰۹ء کے ’’حرفِ تمنّا‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:
’’جب لیاقت علی خان نے پہلا بجٹ پیش کیا تو اس میں انہوں نے ہندو سرمایہ داروں (مسلمان سرمایہ دار تو بہت کم تھے) پر بھاری ٹیکس لگائے جس سے پھر مسلمانوں میں واہ واہ ہوئی (مجھے آج تک مسلمانوں کے ردعمل کی تفصیل یاد ہے) لیکن ظاہر ہے کہ ان بجٹ تجاویز نے ہندو سرمایہ کاروں (اور با ایں وجہ سیاستدانوں) میں بڑی تلخی پیدا کی اور یہ بھی ان عوامل میں سے ایک عامل بن گیا جس نے عبوری حکومت کے تجربے کو تلخ بنا دیا ۔ اگر یہ تلخ تجربہ یا تجربات نہ ہوئے ہوتے تو کانگرسی قیادت کابینہ مشن پلان کی نامنظوری تک شاید نہ جاتی لیکن قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ آج کی پاک ہند قیادت کو ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور اب بھی کسی قسم کے دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ ہو جانا چاہیے۔ میں آج بھی جب کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر غور کرتا ہوں تو میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔‘‘
ہم اِس پہ خوش ہیں کہ کیبنٹ مشن کے متحدہ ہندوستان کے مجوزہ منصوبے کی شکست وریخت کے بعد ہمیں قیامِ پاکستان کی خاطر مزید چند برس انتظار کرنے کی بجائے فوراً کے فوراً پاکستان مل گیا۔ اِس کے برعکس حقانی صاحب کا د ل آج تک اِس دُکھ میں مبتلا ہے کہ ہندوستان کو متحد رکھنے کا برطانوی استعماری فارمولا کیوں ناکام ہو کر رہ گیا تھا اور یوں برطانوی ہندکی تقسیم یعنی پاکستان کا قیام کیوں عمل میں آگیا تھا؟ اب آئیے غریب آدمی کے بجٹ کے اغراض و مقاصد کی جانب۔ شہیدِ ملت لیاقت علی خان نے ۲۸فروری ۱۹۴۷ء کومرکزی اسمبلی میں اپریل سن سینتالیس سے مارچ اڑتالیس تک کا بجٹ پیش کرتے وقت اپنی تقریر میں بجٹ کے اہداف پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا تھا :
“India is a land of glaring contrasts and disparities….The conditions created by the last war served to accentuate these disparities; the rich became richer and the poor poorer. This meant the concentration of wealth in fewer and fewer hands and, inevitably, the use of that wealth for the purpose of tightening the stranglehold of Big Money over the economic life of the country as a whole by the acquisition of businesses, companies, public utilities, and the press. A set of conditions in which the few are able to wield such vast power over the many can hardly be regarded as anything but a negation of the principles of social justice. And although I am not one of those who consider the abolition of private property and the complete equalization of incomes as the only remedy for these ills, I do believe in the Quranic injunction that wealth should not be allowed to circulate only among the wealthy, and the stern warning given against accumulations of wealth in the hands of individuals. It is against this background that my budget proposals have been formulated although I am afraid I cannot claim that they represent anything more than the first stage of a policy of social justice and development which it will require years to bring to full fruition.”
بجٹ سازی کے درج بالا اصول آج بھی پاکستان اور بھارت ہر دو ممالک میں مثالی اصول ہیں۔ ہر دو ممالک میں گذشتہ ستر سالوں کے دوران اِن اصولوں سے انحراف کیا گیا ہے۔ درج بالا رہنما اصول معاشی انصاف اور معاشرتی مساوات کے قیام کی جانب اوّلیں قدم کی حیثیت رکھتے ہیں۔اپنی بجٹ تقریر میں شہیدِ ملت نے بتایا تھا کہ برطانوی ہند خوفناک تضادات اور ہولناک عدم مساوات کی سرزمین ہے۔جنگ عظیم نے اِس عدم مساوات اور اِن تضادات کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے۔دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئی ہے۔امیر امیر تر ہو گیا ہے اور غریب غریب تر۔دولت کے فقط چند ہاتھوں میں گردش کرتے رہنے کی اجازت نہ دینے کے قرآنی احکامات میری بجٹ تجاویز کا سرچشمۂ فیضان ہیں۔یہ حقیقت بڑی دلخراش ہے کہ تقسیمِ دولت سے متعلق قرآنی احکامات کی روشنی میں تیار کی گئی اِن بجٹ تجاویز پر جناب ارشاد احمد حقانی کا ردِعمل ہندو سرمایہ داری کے نگہبانوں سے مستعار ہے۔ غریب آدمی کا بجٹ سرمایہ داری نظام کے لیے واقعتا ایک سنگین خطرے کا سگنل تھا مگر مسلمانوں کے لیے تو یہ بجٹ اسلام کے انقلابی نظامِ معیشت کی آمد آمد کی نوید تھا۔ اِس لیے جناب ارشاد احمد حقانی سے اِس کی پذیرائی کی توقع تھی نہ کہ مذمت کی۔ ہرچند ہمارے حکمران طبقے کی ناکردہ کاری کے باعث قرآنِ حکیم کے انقلابی احکامات پر مبنی نظامِ معیشت ہنوز پردۂ اخفا میں ہے تاہم مستقبل میں اِس کا بروئے کار آنا دائرۂ امکان میں ضرور ہے ۔ بھارت میں تو اِس کے امکانات تک مفقود ہیں۔
یہ تجاویز معاشی انصاف اور معاشرتی ترقی کے فقط پہلے مرحلے کی ترجمان ہیں۔ اقتصادی تعمیرِ نو کا سفر ہمیں اِسی مرحلۂ اوّل سے شروع کرنا ہے۔سرمایہ داروں نے قدرتی طور پر اِن بجٹ تجاویز کے خلاف شور و غل مچانا تھا ، سو مچایا۔سردار پٹیل کی قیادت میں اسے فرقہ وارانہ بجٹ قرار دیا گیا۔اُن کے نزدیک اِن بجٹ تجاویز سے ہندو سرمایہ دار طبقے کے مفادات پر سنگین چوٹ پڑتی تھی اور غریب طبقات میں مسلمان غریبوں کی اکثریت کو فائدہ پہنچنا تھا۔ اِس لیے انہوں نے معاشی عدل و انصاف کی اس دستاویز کو ہندوؤں کے خلاف مسلمانوں کی شرارت قرار دیا۔ اس صورت حال کا ایک ضمنی نتیجہ یہ نکلا کہ سردار پٹیل اور انتہا پسند ہندو سیاست قیامِ پاکستان میں ہندو سرمایہ داری نظام کے لیے نجات کا سامان دیکھنے لگی۔اِس کے برعکس مولانا ابوالکلام آزاد سمیت کانگریس کے منصف مزاج عناصرکے ساتھ ساتھ ہندوؤں کا وسیع النظر ، صلح کُل اور انصاف پسند طبقہ بھی اِن بجٹ تجاویز کی تحسین میں پیش پیش رہا۔ اِس کی ایک مثال Indian Finance (Calcutta) کی ۲۲مارچ ۴۷ء کی اشاعت میں تحسین سے عبارت ہے۔ غریب آدمی کے اِس بجٹ پر انڈین فنانس کی رائے قابلِ غور ہے:
“It is inevitable that any system of taxation should impose more burdens on the majority community than on the minority; and if one community should have a higher proportion of the riches than the other, it can hardly be an argument for the Finance Member desisting from the measures which he should have proposed even with perfect freedom from communal bias.”
کاش جناب ارشاد احمد حقانی مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہندو فاشسٹوں کے طرزِ فکر کو اپنانے کی بجائے کم از کم کانگرسی مسلمانوں اور ہندو سوشلسٹوں کا اندازِ نظر ہی قبول کر لیتے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!