(ناصر عباس نیر)
صارفیت، پوسٹ انڈسٹریل صورتِ حال ہے۔ انڈسٹریل عہد میں پیداوار پر زور تھا، مگر پوسٹ انڈسٹریل صورتِ حال اشیا اور پیداوار کے صرف پر توجہ دیتی ہے اور ظاہر ہے ایسا اس وقت ہو سکتا ہے جب پیداوار کی رفتار نہایت تیز ہو چکی ہو اور اس رفتار پر کنٹرول باقی نہ رہا ہو۔ جب پیداوار ضرورت سے کہیں زیادہ ہے تو اس کا صَرف بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ صَرف کے لیے مارکیٹ اور انسانی ضرورتوں کا ہونا ضروری ہے۔ موجودہ فری مارکیٹ اکانومی کے پیچھے اصل ہاتھ صارفیت کا ہے۔ مارکیٹ اکانومی نے ریاست کے رول کو کم زور کر دیا ہے اور انسانی ضرورتیں پیدا کرنے کے لیے میڈیا سے مدد لی جا تی ہے۔ میڈیا اشتہارات کے ذریعے نئی نئی انسانی ضرورتیں’’تخلیق‘‘ کرتا ہے۔ پہلے انسانی ضرورتوں کو مدّنظر رکھ کر چیزیں پیدا کی جاتی تھیں، مگر اب چیزیں سامنے رکھ کر ضرورتیں پیدا کر لی جاتی ہیں۔ اب میڈیا صارفیت اور مارکیٹ کا باقاعدہ پارٹنر ہے۔
میڈیا ہمارے عہد۔۔۔ اور مابعدجدیدصورتِ حال کا غالب عنصر ہے۔ ابتدا میں میڈیا (برقی و طباعتی) کا کردار زیادہ تر ثقافتی تھا۔ اطلاع و تفریح کا متوازن متزاج تھا، مگر اب میڈیا تجارتی ہو گیا ہے۔ یہ کہنا کچھ غلط نہ ہو گا کہ میڈیا اب ایک سپر مارکیٹ ہے۔ میڈیا پر ظاہر اور پیش ہونے والی ہر شے، براے فروخت ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ خبر، فلم، ڈراما، گانا، کھیل، ٹاک شو، مذہبی پروگرام، طبّی مشورے۔۔۔ ہر شے ’’تجارتی نیت‘‘ سے پیش ہوتی ہے۔ نتیجہ در نتیجہ یہ ہے کہ ان سب کے مقاصد بد ل گئے ہیں۔ یعنی خبر پیش کرنے کا مقصد کسی واقعے کی غیر جانب دارانہ، حقیقی تصویر پیش کرنا نہیں بلکہ اسے بیچنا ہے۔ غیر جانب داری کا دعویٰ یا اس پر عمل بھی اسے بیچنے کی غرض سے ہے۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اب بیچنے کا مفہوم بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ فقط پر اڈکت نہیں بیچی جاتی، خیال، تصورات، عقائد، انسانی جسم، آئیڈیا لوجی، آرٹ، سیاسی ایجنڈا بھی بیچا جا تا ہے۔ معاشی عالم گیریت کے مقاصد بھی یہی ہیں۔
میڈیا فقط تجارتی ہی نہیں ہوا اور اس نے محض ہر شے کو قابلِ صَرف ہی نہیں بنایا، یعنی Commoditification کا عمل ہی نہیں کیا، ایک نئی ور چویل اور ہائپر رئیلٹی کی حامل دنیا بھی تخلیق کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم عکسوں اور امیجز کی دنیا میں جی رہے ہیں، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حقیقی اور فطری دنیا سے ہم اگر ایک سرکٹ نہیں گئے تو اس سے ہمارا رشتہ کم زور ضرور پڑ گیا ہے۔ میڈیا کے عکس اور امیجزبہ ظاہر باہر کی دنیا کے ہیں اور اس طرح بہ ظاہر لگتا ہے کہ میڈیا ہمارے اور باہر کی دنیا کے درمیان محض ایک ’’ذریعہ‘‘ ہے۔ مگر میڈیا ذریعہ نہیں، خود مختار ہے۔ میڈیا باہر کی حقیقت کو بعینہٖ پیش نہیں کرتا (اور نہ کر سکتا ہے) بلکہ اس حقیقت کو ’’ری کنسٹرکٹ‘‘ کرتا ہے۔ ہم ٹی وی سکرین پر باہر کی اصلی تصویر نہیں، ایک تشکیلی حقیقت دیکھتے ہیں۔ بادریلا اسے ہائپر رئیلٹی کہتا ہے، یعنی ایک ایسی ’’حقیقت‘‘ جو حقیقت نہیں، مگر جس کا اثر حقیقت سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ امبر ٹو ایکو نے اسے ’’مستند فریب‘‘ (Authentic Fake) کہا ہے۔ اسی ضمن میں بادریلا نے شبیہ یا (Simulacara) کی اصطلاح بھی برتی ہے۔ شبیہہ، ہائپر رئیلٹی سے آگے کی چیز ہے۔ اسے ہائپر رئیلتی کی نقل کہنا درست ہوگا، یعنی نقل کی نقل۔ افلاطون کا اعیان کا تصور!افلاطون نے دنیا کو اعیان کی نقل کہا (گویا دنیا کو ’’ہائپرریل‘‘ کہا) اور آرٹ کو دنیا کی نقل اور اس طرح آر ٹ کو نقل کی نقل قرار دیا اور حقیقت سے دو درجے دور۔ شبیہہ بھی حقیقت سے دو درجے دور ہے۔ افلاطون دنیا کو اعیان پر اور آرٹ کو دنیا پر منحصر ٹھہراتا ہے۔ مگر بادریلا ہائپر رئیلٹی اور شبیہہ کو اپنے آپ میں مکمل اور خود مختار قرار دیتا ہے۔ مابعدجدید حقیقتیں اپنے سر چشمے یا Origin سے کٹی ہوئی ہیں، مگر اسے خسارہ قرار دیتی ہیں نہ المیہ، بلکہ اسے اپنی اصلی صورتِ حال قرار دے کر مطمئن ہوتی ہیں۔
ہائپر رئیلٹی کے تصور کو لسانی نشان کے ساختیاتی تصور کے مماثل بھی قرار دیا گیا ہے۔ ساختیات، لسانی نشان کو بلا جواز اور Abitrary قرار دیتی ہے۔ یعنی لسانی نشان جس شے کے لیے برتا جاتا ہے، اس شے سے کوئی ناگزیر، فطری اور منطقی ربط نہیں رکھتا، (کسی شے کے لیے کوئی لازمی او ر لسانی نشان موجود نہیں۔ لسانی نشانات ثقافتی سطح پر پیدا کیے جاتے ہیں) چوں کہ نشان، شے کی اصلیت سے لازمی اور منطقی ربط نہیں رکھتا، اس لیے وہ شے کا حقیقی ترجمان ہے، نہ اس کا قایم مقام، بلکہ شے کا محض کنونشنل نمایندہ ہے۔ کچھ یہی صورتِ حال ہائپر رئیلٹی کی بھی ہے۔ وہ بھی حقیقت کی حقیقی ترجمان نہیں ہوتی، اسے دو بارہ تشکیل دیتی ہے۔ جس طرح ہم لسانی نشان کے ذریعے خارجی حقیقت سے نہیں، لسانی نشان میں لکھی گئی حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں، اسی طرح ہائپر رئیلٹی ہمیں خارجی حقیقت سے کماحقہٗ آگاہ نہیں کرتی، بلکہ ’’میڈیم‘‘ کے ذریعے تشکیل دی گئی حقیقت سے روشناس کراتی ہے۔ تاہم لسانی اور برقی میڈیم میں فرق ہے۔
واضح رہے کہ میڈیم غیر جانب دار نہیں ہے۔ یہ میڈیم لسانی ہو، برقی ہو، یا تصویری ہو یا صوتی ہو، میڈیم کسی چیز کو بعینہٖ پیش نہیں کرتا۔ وہ چیز کی نوعیت، نہج اور مقاصد تک کو بدل دیتا ہے۔ اس طرح ہم حقیقت کا بہ راہِ راست نہیں، بالواسطہ تجربہ کرتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ہم Mediated حقیقتوں میں جی رہے ہیں۔ مابعدجدید مفکرین نے زیادہ تر ٹی وی اور کمپیوٹر کے میڈیم کی بات کی ہے۔ مابعدجدید عہد کو ڈیجیٹل یا ای ایج بھی کہا ہے۔ محض اس لیے نہیں کہ ان کی بہتات ہو گئی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ انھوں نے ہمارے تصورات کو انقلابی طورپر تبدیل کر دیا ہے، بالخصوص ان چیزوں کے بارے میں تصورات جو ٹی وی یا کمپیوٹر سکرین کی وساطت سے ہم تک پہنچتی ہیں۔ اس ضمن میں بنیادی تحقیق فرانسس لیوتار نے کی ہے۔ لیوتار کا مؤقف ہے کہ مابعدجدید عہد میں علم کی ترسیل کے ذرائع نے علم کی نوعیت کو بدل دیا ہے۔ اب علم بجائے خود مقصد نہیں رہ گیا۔ وہ ’’انفارمیشنل کموڈیٹی‘‘ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ علم اطلاع ہے، جسے صَرف ہونا ہے۔ علم سے وابستہ بے غرض دانائی کا تصور رخصت ہوتا جا رہا ہے۔ علم اب مارکیٹ کی چیز ہے، اسے خرید ا اور بیچا جا تا ہے۔ دیگر اشیا کی طرح اس کے بھی (انٹلکچویل) پراپرٹی رائٹس ہیں۔ اب دنیا، علما اور جہلا پر مشتمل نہیں ہو گی، بلکہ ’’انفارمیشنل کموڈیٹی‘‘ رکھنے والوں اور اس سے محروم لوگوں میں تقسیم ہو گی۔ لیوتار نے مابعدجدید عہد میں علم کی صورتِ حال کی ہمت شکن تصویر پیش کی ہے۔ دراصل اس کے سامنے مغربی دنیا ہے، جہاں ہر چیز Digitalized ہو گئی ہے اور یہ احساس عام ہے کہ صرف وہی شے باقی رہ سکتی ہے جو ڈیجیٹل ہو سکتی ہے۔ اور ڈیجیٹل ہونے کا مطلب، شے کا کموڈیٹی میں بدلنا ہے اور کموڈیٹی اپنے آپ میں کوئی جو ہر نہیں رکھتی، اُس کی قیمت اور معنویت اس کے صَرف ہونے میں ہے۔ یہ ایک ایسا مقام ہے ،جہاں علم کا متبادل تصور پیش کرنے کی جتنی ضرورت ہے، اس سے زیادہ گنجایش ہے۔مگر یہاں سب سے بڑا چیلنج علم کی سپر مارکیٹ کاہے ،جس پر صارفیت کا اجارہ ہے۔اور جن معاشروں میں علم کا متبادل تصور پیش کرنے کی ’ثقافتی اہلیت ‘ ہے ،وہ صارفیت کے اجارے کے خاتمے کے لیے درکار اہلیت سے محروم ہیں۔اور شاید اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اس ساری صورتِ حال سے ہی لا تعلق ہیں۔
Never read a better article on this topic in Urdu. Sir, its a great contribution because in our country the masses are in complete oblivion regarding the state of knowledge and society in this ‘hyperreal’ world. Still they talk about knowledge the way it was conceived in the Middle Ages but when it comes to practice they behave in accordance with the Postmodern concept of knowledge as commodity and information. This dichotomy in theory and practice is the product of our distance from philosophy and contemporary intellectual debates.