صاف پانی: صحت مند زندگیوں کی اہم ضرورت
از، سعد الرحمٰن ملک
پانی کرہ ارض پر زندگی کا اہم جزو ہے جو انسانی جسم کی بناوٹ اور اس کی مشینری کے اہم افعال سر انجام دیتا ہے۔ صاف پانی صحت مند زندگی کی ضمانت ہے اور ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔پاکستان کو دہشت گردی، کرپشن اور توانائی کے بحران جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے لیکن اعدادوشمار کے مطابق صاف پانی کا فقدان مندرجہ بالا تمام مسائل سے زیادہ خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے۔”پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز” کی نگرانی میں ملک بھر کے 24 اضلاع اور 2807 دیہات سے اکٹھے کیے گئے پانی کے نمونوں کے ٹیسٹ کیے گئے تو یہ خوفناک انکشاف ہوا کہ 62 سے 82 فیصد پینے کا پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان ٹیسٹوں کے نتائج سے پتا چلا ہے کہ پانی کے اکثر نمونے بیکٹیریا، آرسینک (سنکھیا)، نائٹریٹ اور دیگر خطرناک دھاتوں سے آلودہ تھے۔
رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب میں اٹک کے مقام پر 85 فیصد‘بہاولپور50‘فیصل آباد45‘ گوجرانوالہ 68 ‘ گجرات اور قصور میں 78 فیصد ‘ لاہور‘میں 24فیصد‘ ملتان میں 48 فیصد‘ راولپنڈی میں 73 ،سرگودھا 77 شیخوپورہ 44 اور سیالکوٹ کے پانی میں 45 فیصد آلودگی پائی گئی جب کہ لاہور‘ ملتان ‘ سرگودھا ‘ قصور اور بہاولپور کے پانی میں سینکھیا کی مقدار موجود ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
پینے کے صاف پانی کی کمی کے باعث لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کے مطابق ملک میں زیادہ تر بیماریاں مضرِ صحت پانی سے پیدا ہو رہی ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ بیکٹیریا سے آلودہ پانی ملک میں ہیپاٹائٹس، خسرے اور ہیضہ جیسی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے جب کہ پانی میں آرسینک کی زیادہ مقدار ذیابیطس، سرطان، پیدائشی نقص، گردوں اور دل کی بیماریوں کا موجب ہے۔ اسی طرح صنعتی شہروں میں کیمیائی مادوں کی پانی میں ملاوٹ ہونے کے باعث لوگ یرقان،جلد اور سانس کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آلودہ پانی گیسٹرو، ٹائیفائیڈ، انتڑیوں کی تکالیف، دست، قے ، خون آنا اور آنکھوں سمیت بالوں کی مختلف بیماریاں کا بھی باعث بنتا ہے۔پینے کے پانی میں دھاتوں کی آمیزش بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشونما پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ کیمطابق ہر سال تقریباََ دو لاکھ تیس ہزار بچے مضرِ صحت پانی کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ملک کے مختلف علاقوں میں مضر صحت پانی کے استعمال سے ڈائریا کے سالانہ دس کروڑ کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ہسپتالوں میں چالیس فیصد اموات کی وجہ بھی آلودہ پانی ہی ہے۔
اگر آلودہ پانی سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ مالیاتی لحاظ سے کیا جائے تو یہ صورت حال مزید تشویش ناک ہے کہ ہمیں گندے پانی سے ہونے والے امراض اور دیگر مسائل کی وجہ سے سالانہ ایک سو بارہ ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے جب کہ صحت کی خرابی اور آمدنی میں کمی سے روزانہ تیس کروڑ روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کی اکثریت پینے کے لیے زیر زمین پانی پر انحصار کرتی ہے جو دیہی علاقوں میں ہینڈ پمپ جب کہ شہری علاقوں میں موٹر پمپ کی مدد سے نکالا جاتا ہے۔اعدادو شمار کے مطابق اس وقت پنجاب میں پینے کا پانی کا بہترین انتظام موجود ہے جہاں صرف سات فیصد آبادی نہروں، کنوؤں یا ندی نالوں سے پانی کی ضروریات پوری کر رہے ہیں جب کہ دیگر آبادی پانی کے لیے زیر زمین ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ یہ صورت حال مستقبل میں مزید تشویش ناک ہوسکتی ہے کیوں کہ زیر زمین پانی کی سطح کم ہو جانے اور آبی آلودگی کی وجہ سے لوگ پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مضر صحت ذرائع اپنانے پر مجبور ہورہے ہیں۔کونسل کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں 24فیصد، خیبر پختونخواہ 46 فیصد اور بلوچستان میں 72 فیصد لوگ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے ندی نالوں، دریاوں، نہروں، کنووں اور جوہڑوں کا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
حکومت نے کئی علاقوں میں واٹر سپلائی سکیمز متعارف کرائی ہیں لیکن ان میں استعمال ہونے والے زنگ آلود اور نا کارہ پائپ لائنیں جو ندی نالوں یا تعفن زدہ جگہوں سے گزرتی ہیں تو لیکج کی وجہ سے فضلہ، گندا پانی اور دیگر خطرناک مرکبات اس کا حصہ بن جاتے ہیں یوں صاف پانی کی فراہمی کا منصوبہ بذات خود عوام کو مضر صحت پانی سپلائی کر رہا ہے۔کونسل نے 10 ہزار کے قریب واٹر سپلائی سکیمز کا سروے کیا جس کے مطابق 72 فیصد سکیمز آپریشنل تھیں اور 28 فیصد بالکل ناکارہ ہوچکی تھی۔ آپریشنل سکیمز میں سے بھی صرف 20 فیصد کا پانی صاف تھا جب کہ 80 فیصد آلودہ پانی سپلائی کر رہی تھی۔
صاف پانی کے ہر قطرے میں زندگی پوشیدہ ہے اس لیے اس کی حفاظت ہمارا انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے ۔معاشرتی سطح پر پانی کے استعمال میں کفایت اور صاف پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبو ں پر فوری توجہ نہ کی گئی تو پوری نوعِ انسانی کو مستقبل میں بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔پاکستان میں پانی کی آلودگی کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ شہروں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کی صرف 8 فیصد مقدار اور صنعتی آلودہ پانی کی محض ایک فیصد مقدار کو ہی ٹریٹمنٹ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔یہی پانی ہمارے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کا باعث بنتا جو انسانی زندگی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ صاف شفاف ،صحت مند اور منرلز سے بھرپور پانی فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔سمندری پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائے جائیں اورگھروں میں سپلائی ہونے والے پانی کے پائپس کو صاف رکھنے کا مستقبل نظام بنایا جائے۔
چھوٹے پیمانے پر آلودہ پانی کی صفائی کے طریقوں سے آگاہی دینے کے ساتھ شہریوں کو اس سے متعلق سستے آلات اور مشینیں بھی فراہم کی جا سکتی ہیں۔صاف پانی کو صرف پینے کے لیے استعمال کیا جائے جب کہ سمندر،دریا اور نہروغیرہ کے پانی کو کاریں دھونے،سڑکیں دھونے اور واش روم کے لیے استعمال کیے جانے کے انتظامات کئے جائیں۔ اس سلسلے میں اسکول ،کالجز ،جامعات اور مدارس کے علاوہ معاشی سطح پر دینی و سائنسی طرز پر شعورو آگہی کے پروگرام کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اس ضمن میں این جی اوز مختلف علاقوں میں اپنے فنڈز سے واٹر پلانٹ نصب کرنے کے علاوہ حکومت کے اشتراک سے مختلف طریقوں سے پانی کی صفائی اور کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے پروجیکٹس بھی شروع کرسکتی ہیں۔