عاشق جنات، ذہنی امراض اور ہمارے سماجی رویے
از، فارینہ الماس
یہ کئی سال پہلے کی بات ہے ،جب مجھے سندھ کے شہر ’’حیدر آباد‘‘ میں زندگی کے کچھ دن بتانے کا موقع ملا۔ شہرکی ایک سڑک کے کنارے ایک بزرگ ’’پیر مکی شاہ‘‘ کا آستانہ موجود ہے اور اسی نسبت سے اس سڑک کو بھی ’’پیر مکی شاہ روڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں پر جمعرات کو تقریباً بارہ بجے کے بعد کچھ خواتین کی بلند و بالا چیخیں گونجا کرتیں جو وہاں سے گزرتے ہر شخص کا دل دہلا دینے کا کام کیا کرتیں۔ مجھے بہت تجسس ہوا کرتا کہ آخر یہ آوازیں کیوں گونجا کرتی تھیں۔ ایک شام میرا تجسس مجھے وہاں لے گیا۔ اس وقت میں بہت کم سن تھی لیکن وہ منظر جو میں نے دیکھا آج تک میری یاد داشت میں محفوظ ہے۔
مجھے وہاں کچھ عورتیں اپنے حال کی مست کیفیت میں مبتلا نظر آئیں۔ ان میں سے اکثر کم سن لڑکیاں تھیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کے اہل خانہ انہیں دور دراز کے گاؤں گوٹھوں سے یہاں ہر جمعرات کو لایا کرتے تھے۔
ان کی فہم کے مطابق ان لڑکیوں پر جنات عاشق تھے اور اس مزار پر آ کر جب وہ مضطرب و بے گانہ کیفیت سے حال کھیلا کرتی تھیں تو پیر مکی شاہ کی دعا سے یہ جنات کچھ عرصے میں ان کا پیچھا چھوڑ دیا کرتے تھے ۔گو کہ اس وقت کم سنی اور کم فہمی نے مجھے ان لڑکیوں کی مجذوب کیفیت سے بہت خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا تھا لیکن جیسے جیسے وقت بیتا اور شعور کے دروازے کھلنے لگے تو مجھے اپنے خیال میں آنے والی وہ جواپنے بازوؤں میں ادھ موئے پھولوں کے ہار لپیٹے، پیروں میں بیڑیوں کی طرح اپنے ہی دوپٹے لپیٹے ،آنکھوں میں ڈھیروں وحشت سمیٹے،کبھی بے سدھ دھمال ڈالتی اور کبھی آڑھی ترچھی لیٹ کر شکستہ چھت کو گھنٹوں خاموشی سے تکتی جاتیں تو کبھی رات کے آخری پہر ہولناک چیخوں سے سب کے دل دہلا دینے والی لڑکیاں تھیں۔
ان سے بے حد ہمدردی سی ہونے لگی ۔بلا شبہ وہ گھٹن آلود اور پر تعفن رسم و رواجات کی دیواروں میں چنی گئی تھیں اور اس ماحول سے فرار چاہتی تھیں ۔۔۔وہ آزاد ہونا چاہتی تھیں ۔۔۔لیکن جب ہوا کی گزر کے لئے مہیا ہر درز ساکت ہو گئی تو ان کی کئی طرح کی الجھنوں نے انہیں نفسیاتی و دماغی عارضوں میں مبتلا کر دیا۔ جن کا علاج جھاڑ پھونک یا ٹونا ٹوٹکا نہیں بلکہ دماغی و نفسیاتی علاج معالجے کے شفا خانے تھے۔ جو انہیں دستیاب نہ تھے۔
متعلقہ: شمشان گھاٹ کہانی، محمد عاطف علیم
اسی طرح پنجاب کے علاقے ’’بورے والا‘‘ کے قریب ایک صوفی بزرگ ’’باباحاجی شیر دیوان ‘‘کے مزار پر بھی ملک بھر سے ذہنی عارضوں کا شکار مریض لائے جاتے ہیں۔ انہیں وہاں زنجیروں سے جکڑ کر چار دیواری کے اندر مبحوس کر دیا جاتا ہے ۔جہاں وہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز، سردی، گرمی ،آندھی ،طوفان میں پڑے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی حالت انتہائی قابل رحم ہو جاتی ہے اور ان کی حالت درستگی کی بجائے مذید بگڑنے لگتی ہے اور کبھی کبھار تو ان کی حالت کی درستگی کی امید لیے بیٹھے ان کے گھر والے آخر کار اس امید کواس وقت ہمیشہ کے لیے کھو دیتے ہیں جب ان کا مریض وہیں پڑے پڑے زندگی کی بازی ہار بیٹھتا ہے۔
ہمیں باہر نکلنے پر اکثر اپنے گردوپیش کبھی کسی باغ کے باہر تو کبھی فٹ پاتھ کی راہ داری پر ، کبھی کسی بازار یا اکثرکسی مزار کے باہر ایسا کوئی کردار دکھائی پڑجاتا ہے جو اپنے دماغی و ذہنی عارضوں کی ایسی انتہاؤں تک جا پہنچتا ہے کہ جہاں سے اس کا واپس لوٹنا بہت ہی دشوار بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے ۔اس کی یہ حالت ایسے مرض کا بر وقت علاج نہ ہو پانے کے باعث ہوتی ہے۔ یہ تو شدید عارضوں کا شکار ایسے مریض ہیں جو سرے راہ بھی مل جاتے ہیں اور دماغی امراض کے ہسپتال یا اداروں میں بھی موجود ہیں۔ اور معمولی نوعیت کے عارضوں کا شکار مریض وہ ہیں جو ہر دوسرے گھر میں موجود ہیں، جن کی بیماری اور اس کی نوعیت سے وہ خود بھی واقف نہیں۔ ڈپریشن،تناؤ اور فرسٹریشن کی طرح کے کئی ایسے امراض جن کا بر وقت علاج نہ ہو تو بیماری کی شدت اور نوعیت دونوں ہی بڑھ جاتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہو چکا ہے جہاں ذہنی امراض بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔غالباً ان میں وہ ممالک ہی شامل ہیں جو معاشی و سماجی طور پر عدم استحکام کا شکار ہیں۔جہاں خانہ جنگی اور دہشت گردی کے حوادث میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ جہاں اشیاء کے نرخ آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں اور زندگی کے نرخ وقت کے ساتھ ساتھ نہایت ارزاں ہوئے جاتے ہیں ۔ موجودہ تحقیق کے مطابق تقریباً چالیس فیصد پاکستانی کسی نا کسی ذہنی عارضے کا شکار ہیں۔ ان میں شدید اور معمولی نوعیت دونوں ہی طرح کے عارضے شامل ہیں ۔تحقیق کے مطابق پاکستان کی خواتین مردوں کی نسبت ذیادہ تعداد میں ان عارضوں کا شکار ہیں۔
یوں عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ سے ذیادہ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں۔یہاں نفسیاتی مسائل کو بڑھاوا دینے والے عوامل میں بیروزگاری،غربت ،دہشت گردی،خودکش دھماکے، جرائم میں بڑھتا اضافہ ،خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ اورمہنگائی سرفہرست ہیں۔ یہ عوامل افراد معاشرہ کو عدم تحفظ،بے یقینی، اور شخصی توڑ پھوڑ کا شکار بنارہے ہیں۔ ایک ماں اپنے بچے کو اسکول بھیجنے اور ایک بیوی اپنے شوہر کو دفتر بھیجنے کے بعد دن بھر مضطرب رہتی ہے اور ایک انجانا سا کھٹکا اسے تمام وقت الجھائے رکھتا ہے۔ یہ ان دیکھا اور غیر مرئی سا خوف انسانی دماغ کو کس قدر الجھاؤ اور کرب میں مبتلا کر دیتا ہے اور اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں؟ یہ انسان بر وقت نہیں جان پاتا حتیٰ کہ وہ تو اس وقت بھی لاعلم ہی رہتا ہے جب یہ تمام تر مسائل اسے کسی ذہنی عارضے کی طرف لے جا رہے ہوتے ہیں۔
دہشت گردی کے بڑھتے واقعات نے افراد کی سماجی و ثقافتی زندگی کے مواقعوں کو انتہائی محدود کر کے رکھ دیا ہے ۔سیرو تفریخ کے مواقع بھی گھٹتے جا رہے ہیں میلوں تہواروں کی رونقیں ماند پڑنے لگی ہیں ۔جس سے زندگی پژ مردگی اور بے رنگی کا شکار ہونے لگی ہے ۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان مثبت کی بجائے منفی سرگرمیوں اور منفی سوچ میں گھر جاتا ہے۔ افیون،چرس اور ہیروئن کے نشے یا سگریٹ کے دھویں میں سکون تلاش کرنے لگتا ہے۔ جو اس کے افعال کو بھی منفی سرگرمیوں کی طرف لے جانے کا باعث بنتے ہیں۔
خواتین میں نفسیاتی مسائل کے بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً جہیز کی استطاعت اور انتخاب کے نا مناسب پیمانے پر لڑکیوں کو پرکھنے کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں کی عمر اچھے اور مناسب رشتوں کے انتظار میں ہی ڈھلنے لگتی ہے۔ اکثر خواتین بنا شادی کے رہ جاتی ہیں۔ اور معاشرے کا ایسی لڑکیوں سے نامناسب برتاؤ انہیں کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار بنا دیتا ہے۔
دوسری طرف کار و کاری اور وٹے سٹے کی منحوس اور جاں سوز رسمیں ہیں جو لڑکیوں کے لئے شدید کرب کا باعث ہیں ۔ مسائل یہاں ہی ختم نہیں ہوتے ،شادی ہو جائے تو سسرالیوں کے نا مناسب رویے اور شوہر کی مار پیٹ جیسے واقعات بھی ایک لڑکی کو اپنے حوش و حواس سے بے گانہ کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ 55 سے 65 فیصد عورتیں ایسی بھی ہیں جو جنسی زیادتی کا شکار ہو کر ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ یہ تو وہ مسائل ہیں جو خالصتاً خواتین سے وابستہ ہیں ۔ان کے علاوہ ڈھیروں عوامل ایسے بھی ہیں جو پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں مثلاً تعلیم کا دوہرا نظام جو طلبہ کو احساس محرومی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ کم فیس والے اداروں کے بچوں کا ٹھیک سے انگریزی نہ بول پانا ان میں احساس کم تری کو جگاتا ہے اور جب ان کا مقابلہ زندگی کے کسی نا کسی مقام پر اعلیٰ اداروں کے تعلیم یافتہ پر اعتماد طلبہ سے ہونے لگے تو وہ انتہائی قسم کی فرسٹریشن کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
معاشرتی سطح پر قانون کی عدم دستیابی انصاف کے حصول میں ناکامی یا انصاف کی تاخیر جیسا معاشرتی المیہ بھی اہل معاشرہ کو محرومی اور ہزار الجھنوں کا شکار بنا رہا ہے۔معاشی و معاشرتی ناہمواری ،میرٹ کی عدم دستیابی اور کرپشن کی بڑھتی وباء لوگوں کا جینا اجیرن کئے ہوئے ہے ۔یہ سب وہ مسائل ہیں جن کی ذمہ دار ہماری حکومت کی بے حسی اور وہ ناکامی ہے جو ان عوامل پر قابو نہ پا سکنے کے باعث ظاہر ہوتی ہے۔ نفسیاتی الجھنوں اور عوارض کے بڑھاوے میں کسی حد تک ہمارے میڈیا کا بھی ہاتھ ہے ۔جو دن رات ایسے واقعات اور حادثات کی تشہیر کرنے میں جتا رہتا ہے جو ایک عام آدمی کو ہیجان اور ضطراب کا شکار بنا دیتے ہیں ۔معاشی و مادی دوڑ نے بھی انسان کو بے حال کر رکھا ہے۔ ہم مادیت پرستی کے جنون میں اپنی چھوٹی، بڑی خوشیاں منانا ہی بھول جاتے ہیں یا پھر ہمارے پاس انہیں منانے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔
یوں ہم اپنا آپ بھلا کر جینے لگتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی اس طرح گزاری تو جا سکتی ہے لیکن جی نہیں جاسکتی ۔ محبت کا حصول وقت کے ساتھ ساتھ انتہائی کٹھن اور نا ممکن ہوتا چلا جا رہا ہے ۔اور کیونکہ محبت انسان کی جبلت کا ایک اہم حصہ ہے سو اپنی اس جبلت سے دور ہو کر انسان خود کے لئے سوائے ناکامیوں ،محرومیوں اور بے زاریوں کے کچھ حاصل نہیں کر پاتا ۔اس کی طبیعت میں درشتی اور سختی آ نے لگتی ہے ۔اور وقت کے ساتھ ساتھ اس سے اس کا سکوں اور صبر دونوں ہی چھن جاتے ہیں اور وہ دو سو سے بھی زائد اقسام کے ذہنی و نفسیاتی عوارض میں سے کسی ایک میں خود کو جھونک لیتا ہے ۔ کمال تحیر کا باعث ہے یہ بات کہ اٹھارہ کروڑ کی آبادی والے ملک میں ماہرین نفسیات کی گنتی محض تین یا چار سو کے لگ بھگ ہے۔ حکومت اپنے بجٹ کا صرف دو فیصد حصہ ذہنی امراض کے لیے مختص کرتی ہے۔
صرف پانچ ایسے سرکاری ہسپتال ہیں جہاں نفسیاتی امراض کا علاج ممکن ہے ۔لوگوں میں تعلیم اور شعور کی کمی کے سبب ایسے عوارض سے لا علمی پائی جاتی ہے ۔یہاں تک کہ ملک کا پڑھا لکھا طبقہ بھی اس کا ٹھیک سے ادراک نہیں کر پاتا، یا اگر ادراک ہو بھی جائے تو اس ڈر سے اس کا اظہار نہیں کرتا کہ اسے معاشرے کے نا مناسب رویے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔غریب اور بے شعور لوگ تو ٹونوں ٹوٹکوں اور پیری فقیری میں ایسے مسائل کا حل ڈھونڈنے لگتے ہیں متوسط طبقے کے افراد معاشرتی نفرت سے بچنے کے لئے اپنے مرض سے نپٹنے کا خیال ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔اور ان مسائل کی شدت ان کے اندر بڑھنے لگتی ہے ۔اور کبھی کبھار تو وہ علاج سے ذیادہ بہتر راستہ خود کشی کو سمجھنے لگتے ہیں ۔طبقہء خاص ہی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ نفسیاتی معالج سے رجوع کر سکے لیکن اس سلسلے میں ایک مسئلہ خود نفسیاتی و دماغی عوارض کے ماہرین کو بھی درپیش ہے کہ ان کے پاس جدید طریقہء علاج اور تحلیل نفسی کے جدید طریقوں سے واقفیت عالمی معیار سے بہت کم ہے۔
شدید قسم کے دماغی عارضوں سے نپٹنے کے اہل ادارے یا تو موجود ہی نہیں اور اگر موجود ہیں تو وہ اہلیت میں بہت پیچھے ہیں۔پاکستان تو ایک ایسا ملک ہے جہاں اگر کوئی نوجوان نفسیات جیسے مضمون کو پڑھنا چاہے تو سب سے بڑی رکاوٹ خود اس کے گھر والے بن جاتے ہیں کیونکہ عموماً معاشرے میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ نفسیات پڑھنے سے ایک اچھا خاصا نارمل انسان بھی نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ گویا ہم آج ایک ایسے دور سے ہی گزر رہے ہیں جسے تاریخ میں یورپ کے زمانۂِ جہالت (dark ages )سے منسوب کیا جاتا ہے جب نفسیاتی مریضوں کو ایک پنجرے میں بند کر کے ان پر ٹکٹ لگا دی جاتی تھی۔
ایک معاشرتی المیہ یہ بھی ہے کہ ایسے مریضوں کو گھریلو اور معاشرتی دونوں ہی سطح پر انتہائی قسم کی بے حسی کا سامنا ہے۔ ہم ذہنی عارضے کا شکار انسان سے ہمدردی کرنے کی بجائے اس سے خوف کھانے لگتے ہیں۔ اور اس سے دور بھاگتے ہیں۔ ہم پہلے سے مروجہ معاشرتی رویوں اور خیالات کو ہی اپنا لینے میں عافیت جانتے ہیں اور تعلیم و شعور کو کم کم ہی استعمال کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایسے مریضوں کو آج بھی پاگل کا ہی نام دیا جاتا ہے اور اسے ایک پاگل سمجھ کر دھتکاردیاجاتا ہے ۔اور ہمارے رویے ان میں جینے کی امید کو اور بھی معدوم بنا دیتے ہیں۔
عموماً ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ شدید تنہائی کا شکار لوگ دماغی طور پر ایسے مسائل میں گھر جاتے ہیں ۔ایسے لوگوں کو گھر کی سطح پر اور اپنے معاشرے سے بھی خاص توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے جو بدقسمتی سے انہیں میسر نہیں ہو پاتی ۔ ابھی تو ایک خاص ایشو ایسے مریضوں سے ان اداروں میں ہونے والا سلوک بھی ہے جو انہیں بہتری کی طرف لانے کی بجائے مذید ابتری کی طرف لے جاتا ہے۔
ایسے امراض سے بچنے کے لئے معاشرتی سطح پر ہمیں مادیت پرستی، حرص و ہوس اور لالچ سے بچنے اور سادگی و قناعت کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یوگا اور ورزش جیسی صحت مند سرگرمیوں کے علاوہ ثقافتی سرگرمیوں سے بھی ذہنی صحت کو بحال رکھا جا سکتا ہے۔ کدورتوں اور نفرتوں کی بجائے در گزر، برداشت اور محبت جیسے خصائص خود ہماری ہی ذہنی صحت کے لیے نا گزیر ہیں۔خواب اپنی اہلیت اور حیثیت کے مطابق دیکھنا بھی زندہ رہنے اور خوش رہنے کا ایک گر ہے۔ ہاں اس سے بڑھ کر پانے کے لئے پہلے اپنی اہلیت اور قابلیت کو بڑھایا جائے اور پھر کوشش کی جائے تو شخصی مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔
یہ وہ عوامل ہیں جو خود ہمارے کنٹرول میں ہیں ۔اور وہ عوامل جن کی ذمہ داری حکومت و ریاست پر ہے ہمیں ان کے لئے آواز ضرور اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ ہمارے حکمران نا صرف ریاست کے وجود کے نگہبان ہیں بلکہ اس کی روح بھی ان کے رحم و کرم پر ہی ہوتی ہے۔
بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو کم عمری سے ہی ایسے مسائل کا شکار ہونے لگتے ہیں ۔اس سلسلے میں ان کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی اہلیت اساتذہ کرام میں ہونا چاہئے ۔لیکن بدقسمتی سے اساتذہ کا انتخاب ان کی ڈگریاں دیکھ کر تو کیا جاتا ہے ان کی اس اہلیت کو پرکھ کر نہیں ۔وہ اہلیت جو بچوں کی نفسیات کو سمجھنے میں مددگار ہو سکے ۔