ول ڈورانٹ نے ایک بار کہا تھا کہ ’’زندگی انسان کے لئے مجہول دائرے کا نام ہے، جس میں وہ اداس و بیکس اسیر ہے۔ ‘‘ لیکن یہی انسان صدیوں سے اس مجہول دائرے میں گھومنے کے باوجود اپنی تمام تر خواہشات اور ترقی کو مہمیز دیتا ہوا پایا گیا ہے ۔ ہم معلوم انسانی تاریخ جو کسی طور پر چھ سات ہزار برسوں سے زائد نہیں، سے پہلے کی کئی ایک اساطیری داستانوں اور ایشیائی مذاہب کی روائتوں میں مدر سری نظام کو کسی حد تک موجود دیکھتے ہیں ۔ گو اس کے بعد پدر سری نظام اپنے دوام کو تاریخ کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔
تاہم یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انسانی ارتقاٗ بالآخر اپنے
تمام تر فلسفیاتی و نفسیاتی رحجانات اسکے قائم کردہ ثقافتی اور عمرانی حوادث و تجارب کے نام ہے ۔ جوتاریخ میں اپنا سائیکل پورا کرتا ہوا اُسی مقام پر ہزاروں سال بعد لوٹ آتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ انسانی نفسیات میں ضد کا جوہر ہے جو بذات خود ایک ایسا عنصرہے، جو اسے کسی قیمت پر نچلا نہیں بیٹھنے دیتا اور ہمہ وقت اس کے ذہنی تکثیفی عمل کو مسلسل حرکت میں رکھ کر اسے تحلیل و تطہیر کرتا رہتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیئے کہ ’سٹبّورن‘ ہونا ایک جوہر ی سینٹری فیوجیکل آلہ ہے جو ایٹمی جوہر کو مسلسل متحرک عمل سے افزودہ کرتا رہتا ہے۔ جس سے خوردبین سے دیکھا جانے والا ایٹمی ذرہ قوت کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔
ایسی ہی صورت حال آج کی تیزی سے بدلتی دنیا کے سامنے ہے۔ ابھی ماضی قریب میں ایک ریفرنڈم کے نتیجہ میں یورپی یونین سے نکل جانے کے بعد سلطنت برطانیہ اپنی نئی وزیر اعظم تھریسیا مَے کو چن چکی ہے جو سابقہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کیبنٹ میں وزارت داخلہ کو دیکھ رہی تھی۔ بریگزٹ کے دور رس اثرات پر ابھی عالمی سیاسی تجزیہ نگار کچھ کہنے سے اجتناب برت رہے ہیں، کچھ اپنے اندیشوں کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ بریگزٹ ایک ایسا تاریخی فیصلہ ہے جو انگلستان کے عوام پر ہی صرف اثر انداز ہی نہیں ہوگا بلکہ صدیوں سے قائم اسکی امپیریل مائٹی اور ’مونارک‘ بھی اپنے وجود کے تحلیل ہونے کے خوف میں مبتلا ہے۔
لیکن فی الوقت سلطنتِ برطانیہ اور اسکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے فوری نوعیت کے فیصلوں سے یہ اندازہ کر لینا کافی ہوگا کہ برطانیہ آنے والے دنوں میں اپنے عالمی سیاسی کردار کو دیگر اور فوری نوعیت کے کِن ا ندیشوں کے تناظر میں دیکھ رہا ہے۔ اِن اندیشوں کے پیچھے یورپی تہذیبوں کے اتصال و انصرام سے ہٹ کر اپنی الگ شناخت کو’’ ا ئسو لیشن ‘‘ میں قائم رکھنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ جو بریگزٹ کا جوہرِ اعلیٰ ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ہی برطانوی ذہن کی داد نہ دینا زیادتی ہوگا کہ انہوں نے اس ’’ائسولیشن‘‘ کو مستقبل کے کئی ایک ممکنہ خطرات سے محفوظ کر لیا ہے۔
تھریسیا مَے کی تقرری کے پیچھے وہ برطانوی نسلی امتیاز پوشیدہ ہے جس کی بنیاد پر انہوں نے ایک طرف یورپ سے آنے والے امیگریشن کی سیلاب پر بند باندھا ہے ۔ اور یہی در حقیقت یورپی یونین سے انخلا کی پہلی ان کہی وجہ ہے۔ اس سے پہلے ۲۰۰۹ ء سے ٹوری پارٹی اپنے برسراقتدار آنے کے بعد ایشیائی امیگریشن کو ممکنہ حد تک قانونی دائرے میں روک چکی تھی ، جس میں اسلامی انتہا پسندوں کے سیلاب کو روکنا بھی شامل تھا۔
والدین کی وفات کے بعد ذہنی طور پر تنہا رہنے والی ۵۹ سالہ تھریسیا مے ایک روایتی نسل پرست انگریز خاتون ہے۔ وہ اپنے چھ سالہ وزارت داخلہ کے دور میں سخت فیصلے کرنے میں معروف ہے۔ وہ خاموش طبعیت رکھتی ہے اور اکثر اپنے کام سے کام رکھتی ہے ۔ وہ برطانیہ کے عوام کو ’’یونائٹڈ کنگڈم‘‘ کے نام سے ایک محفوظ ، ترقی یافتہ اور انسان دوست ( زیرِ سطح معنوں میں انگریز دوست ) ہیون Heaven دینے کا ارادہ کرتی ہے۔ وہ ایک مکمل خاتون کے روپ میں اپنے گھر کو ہر قسم کے کرب و ابتلا سے محفوظ، معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا طاقت ور ملک دیکھنا چاہتی ہے۔ چونکہ اس وقت برطانیہ بریگزٹ کے فوری اثرات کا سامنا کر رہا ہے جس میں سب سے اہم اسکی کرنسی کا عالمی منڈی میں گرنا ہے۔ دیگرے بے یقینی ، خلفشار اسکی جائیدادوں کی قیمتوں کا گر جانا اور خرید و فروخت کا رک جانا ایک اہم مسلہ ہے۔ وہ ان سب مسائل سے نبٹا چاہتی ہے اب وہ اسکی وہ کیا قیمت ادا کرتی ہے ، اس پر اسے کچھ زیادہ تردد نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس نے( برطانوی اخبارات کے مطابق) ایک عجیب و غریب عادات کے مالک ( اِن ڈفیرنٹ رویوں کا حامل ) سابقہ مئیر لندن بورس جانسن کی تقرری بطور وزیرِ خارجہ کر دی ہے جس پر پوری دنیا حیران ہے۔ تھریسیا کا یہ عمل یورپی یونین کے سیاسی و حکومتی لیڈران کے لئے ایک مشکل چوائس ہے۔ کیونکہ پہلے ردِ عمل کے طور پر فرانس کے وزیرِ خارجہ زان مارک نے انہیں جھوٹا شخص قرار دے دیا ہے تاہم جرمن وزیرِ خارجہ بورس جانسن کو ایک بکھرا ہوا شخص سمجھتے ہیں اور روس اس تقرری پر مسکرا اٹھا ہے کیوں ؟ اسکی وجہ ابھی سامنے نہیں آئی لیکن اسکا مسکرانا معنیٰ خیز ہے۔برطانوی بورس جانسن وہی شخص ہے، جسے بریگزٹ کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے جو سوشل لبرل کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ برطانیہ کا یورپی یونین سے نکل جانے پر براعظم یورپ ایک اکائی کی طرح اپنے وجود کی سلامتی کی تگ و دو میں مبتلا ہے ، کیونکہ گزشتہ چند ماہ سے اسلامی انتہا پسندوں کے پے در پے حملوں نے اسے نڈھال کر دیا ہے۔ بریگزٹ کے فوراً بعد کچھ چھوٹے ممالک نے بھی عندیہ دیا کہ وہ بھی اپنی اسمبلیوں سے رابطہ کرتے ہیں اور ایسے ہی ریفرنڈم کا انتظام کرتے ہیں ۔ اس سے فوری طور پر یورپ میں ہڑبونگ مچ گئی تھی۔ ایسے میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل ایک باہمت خاتون اور مضبوط سیاسی یورپی سربراہ کے طور پر سامنے آئی اور اس نے ایک سٹیٹس پرسن کا کردار اختیار کرتے ہوئے ان ممالک کے ایسے کمزور فیصلوں پر انہیں تادیبی کاروائی کا سندیسہ دیا، جس سے فوری طور پران ممالک میں بریگزٹ جیسے فوری فیصلوں کا اندیشہ ٹل گیا۔ گزشتہ برس انجیلا مرکل اس سے پہلے بھی شامی امیگریشن کے معاملے میں پورے یورپ میں یورپی یونین کی سطح پر سخت انسانی موقف اختیار کر چکی تھی جس پر انہیں پوری دنیا سے ’’ماما مرکل‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا تھا ۔
ایسے وقت میں جب فرانس ، ہالینڈ ، بلجیم اپنے داخلی لیکن مسلم انتہا پسندی کے مسائل سے نبرآزما ہیں۔ روس اپنے وسیع تر مفادات کی وجہ سے پہلے ہی سے یورپ میں رہتے ہوئے یورپ سے منافرت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ لہذا یورپی یونین کو ایک مضبوط سیاسی شخصیت کی ضرورت ہے اور وہ اس وقت صرف انجیلا مرکل کی ذات ہے۔
انجیلامرکل دنیا کی چوتھی بڑی معاشیات جرمنی کی چانسلر ہونے کے باوجود نہایت سخت کوش اور محنتی خاتون ہیں۔ سیاسی طور پر انہیں جرمنی کی آئرن لیڈی کہا جاتا ہے۔ فیصلے کرنے میں وہ جلد باز ہیں لیکن انسانی قدروں کے حوالے سے انکا ریکارڈ بے داغ ہے۔ تاہم مغربی اخبارات انہیں تانیثی اقدار کی حامی بھی کہتے ہیں جسے انہوں نے کبھی جھٹلایا نہیں۔
ایسی صورت حال میں یورپ میں رونما ہوتی ہوئی عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں جب ہم پوری دنیا پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو دنیا کی مضبوط ترین جمہوریت اور یونیلیٹرل طاقت یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کے نومبر ۲۰۱۶ میں ہونے والے صدارتی الیکشن ایک نئی جہت کو آشکار کرتے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن بظاہر دو بڑے صدارتی امیدوار ہیں ۔ ملکی سطح پر ڈونلڈ ٹرمپ کنزیویٹو پارٹی ری پبلیکن کا امیدوار ہے جو صدارتی پرائمریز وِن کر چکا ہے ۔ دوسری طرف ڈیموکریٹس کی امیدوار ہیلری کلنٹن ہے، جو پرائمریز جیتنے کے بعد اپنی ہی پارٹی کے دوسرے صدارتی امیدوار سینڈرز کی حمایت حاصل کرچکنے کے بعد الیکشن کی دوڑ میں سرِ فہرست ہیں ۔ بظاہر ٹرمپ پرجوش تقریروں سے عوامی رائے عامہ کو دو نکاتی ایجنڈا پر متفق کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ جس میں مسلمانوں کے ساتھ ترجیحی سلوک ، اسکی نسل پرستی و کرسچین بنیاد پرستی اسکا پہلامینی فسٹو نقطہ ہے۔ جبکہ دوسرا نقطہ، امریکی معاشیات کی عالمی بحالی۔ یہی وہی نقطہ نظر ہے جو جارج ڈبلیو بش نے ۲۰۰۰ کے الیکشن میں اٹھایا تھا۔
امریکہ کا الیکشن اس بار کئی ایک لحاظ سے اہم ہے کہ عالمی یہودی لابی جو اپنے مقدم فلسفہِ حیات کے طور پر اپنی معاشی ترجیحات کو کسی قیمت پر عالمی کساد بازاری کی نذر نہیں ہونے دیتے اور اگر ایسا ہوا تو سب سے بڑی منڈی امریکہ کی ہی ہے جو اس کساد بازاری کا شکار ہوگی۔ لہذا وہ ابتدائیہ کے طور پر اس وقت گرتے ہوئے برطانوی پونڈ کو کسی قیمت پر ڈالر پر اثر انداز نہیں ہونے دینگے اور اس سے بچنے کا واحد طریقہ دنیا میں مزید خلفشار اور جنگ کا سماں پیدا کرنا ہے ۔ ایسی ممکنہ صورت میں منافرت کا شہنشاہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک بہترین صدارتی امیدوار ہے جو جنگجوانہ ذہنیت رکھتا ہے۔ اسلامی انتہا پسندی کے نام پر کرسچین انتہاپسندی کو مہمیز دیتا ہے۔ تاہم یہ امر قریں از قیاس ہے کہ چونکہ امریکہ میں نائن الیون کے بعد متوازن طبقے کی سیاست دوبارہ جڑیں پکڑ چکی ہے لہذا ایسے میں امریکہ میں موجود مضبوط سیاسی ڈیموکریٹک عناصر صدارتی ایکشن میں ایک متوازن اور کامیاب کردار ادا کرسکتے ہیں اسی لئے وہ اس بار بردبار اور تجربہ کار اور مدبر ہیلری کلنٹن کو سامنے لائے ہیں ۔ ۶۹ سالہ ہیلری کلنٹن پہلی صدارتی امیدوار کا نام کما چکی ہیں۔ وہ شکاگو کے مضافات سے تعلق رکھتی ہیں اور امریکن سماج میں پلی ہوئی ایک ورکنگ وومن کا شیڈو رکھتی ہیں تاہم نانی بن جانے پر انہیں نرم رو خاتون بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اس وقت ایف۔ بی۔ آئی کی ایک ’ای میل انکوائری‘ کا بھی سامناکر رہی ہیں ، جس کے متعلق خیال ہے کہ وہ صدارتی الیکشن جیتتے ہی استثنا حاصل کر لیں گی۔
اس کے علاوہ امریکن ڈیموکرٹک اسٹیبلشمنٹ ( سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ )جو پہلے سے ہی کراسسز کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود وہ عالمی سیاست میں تسلسل کا ارتکاز چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ٹرمپ کو کسی قیمت پر وہ الیکٹرول پلڑے میں جگہ نہیں دیتے۔ ایسی صورت میں واحد امیدوار ہیلری رہ جاتی ہیں جن کے جیتنے کا امکانات کافی روشن ہیں ۔ تاہم عالمی میڈیا کے سرکردہ اربابِ اختیار انہیں دباؤ میں رکھ رہے ہیں۔
اور یہی اس وقت اس مضمون کا پریمائس ہے کہ ہیلری کے برسرِاقتدار آجانے کے بعد عالمی طاقت اس تانیثی مثلث کے ہاتھ میں ہوگی جس کے اوپری سرے پر ہیلری اور دیگر دو متوازن سِروں پر انجیلا مرکل ( جو اپنا اگلا الیکشن لڑنے کا عندیہ بھی دے چکی ہیں) اور تھریسیا مے کھڑی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں دنیا بھر میں قیام امن کے لئے یہ تینوں خواتین کیا عالمی سربراہی کا کثیر الجہت بوجھ اٹھا پائیں گی؟
تاہم دو ہزار سترہ کے آغاز سے دنیا بھر کے عوام ایک نئے عہد کی شروعات کواس خوشگوار حیرت سے دیکھنے کی متمنی ہیں، جس میں تاریخ کی اُن نامعلوم اساطیری روایات کو دوبارہ زندہ ہونا ہے کہ زندگی انسان کے لئے مجہول دائرے کا نام ہے۔
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔
نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔
نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔
عورت اور صنفی تفریق : ارتقائی تناظر میں از، عمیر ملک عورت اور مرد میں صنف کی بنیاد پہ تفریق قدیم ترین انسانی معاشرے کی جڑ ہے۔ معاشرے کی بنیاد دونوں اجناس کے سوسائٹی میں […]
1 Comment
نئی شروعات ’’ ایک روزن ڈاٹ کام ‘‘ پر مبارک باد قبول کیجیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی شروعات ’’ ایک روزن ڈاٹ کام ‘‘ پر مبارک باد قبول کیجیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔