عام انتخابات 2018 نصیرآباد ، جعفرآباد میں سیاسی دنگل کا پیش منظر
(نورمحمد جمالی)
سر زمین بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں طویل پہاڑی سلسلوں اور ریگستان کے ساتھ ساتھ ساحلی سمندری پٹی کے علاوہ نصیرآباد واحد ڈویژن ہے جسے دریائے سندھ سے نکالے گئے کھیرتھر کینال اور پٹ فیڈر کینال کے ذریعے کھیت کھلیانوں سےسر سبز و خوبصورت بنایا جا رہا ہے
اس ڈویژن میں جعفرآباد، نصیرآباد، جھل مگسی اور صحبت پور کے اضلاع شامل ہیں یہ علاقہ بلوچستان کا گرین بیلٹ کہلاتا ہے۔
دو سابق وزراء اعظم میرظفراللہ خان جمالی اور ہزار خان کھوسہ کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے جبکہ چیئرمین سینٹ و سابق وزیراعلی میرجان محمد جمالی و کئی ایک وزرا اعلی بلوچستان و وفاقی وزرا کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ اس علاقے کو بدقسمتی سے ان بڑے عہدوں کے باوجود محرومیوں ،پسماندگی،بےروزگاری اور ذرائع مواصلات سے محروم رکھا گیا ہے۔
ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، مٹی گردوغبار کیچڑ میں دھنسے کچے پکے راستے،تباہ ہوتی صنعتیں، ایک عشرے سےریلوے سروس کی معطلی، تعلیمی اداروں کی خستہ حالی، ہسپتالوں سے محروم، برباد و ویران فصلیں، کرپشن و لوٹ مار کا جمع بازار، بدامنی،چوری ڈکیتی، بجلی و پانی کے ساتھ گیس کی عدم فراہمی، سیلاب، آربی او ڈی تھری سم نالے کا پانچ سالہ عذاب، ۔۔باقی رہی سہی کسر زرعی پانی کی دن دھاڑے چوری نے پورے علاقے کو غربت و افلاس کی بھٹی میں جھونک دیا۔
تقسیم ہند اور خصوصا ون یونٹ کے خاتمے کے بعد جمالی، کھوسہ،عمرانی اور مگسی قبائل نے سیاسی و انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرکے غریب عوام پر نصف صدی سے زائد عرصے سے حکمرانی کررہے ہیں ان غریبوں نے تاج برطانیہ کے گوروں کے بعد کالے آقاوں کی غلامی بھی باآسانی قبول کرلی۔ جھل مگسی میں مگسی قبیلے کو پی ٹی آئی کے سردار یارمحمد رند کا سامنا ہے، جعفراباد میں جمالی کے مقابل کھوسہ نے سدا مضبوط حلیف کا کردار ادا کیا۔ کئی دہائیوں تک ایک دوسرے کے دست و گریبان رہنے والے دونوں بڑے قبائل جمالی و کھوسہ بمعہ بلیدی لہڑی اور ابڑہ ایک مسلم لیگ ن کی سیاسی چھتری تلے سابق چئیرمین سینٹ میرجان محمدجمالی اور ظہور خان کھوسہ کی قیادت میں جمع ہوگئے۔ میرجان محمد جمالی پی بی 25 جعفرآباد سے بلوچستان اسمبلی کے ممبر ہیں جبکہ ان کی ہم شیرہ راحت بی بی پی بی 26 سے صوبائی اسمبلی کی ممبر ہیں۔
اس کے علاوہ اس لیگی اتحاد گرینڈ الائنس میں نصیر آباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی و رہنما بھی شامل ہیں جن میں صوبائی اسمبلی کے ممبر میرجان محمدجمالی، سابق صوبائی وزیر اظہارخان کھوسہ ،فائق جمالی، میر عبدالغفور لہڑی،میرسلیم خان کھوسہ، عطاءاللہ خان بلیدی،سردارزادہ بہرام خان جمالی، سابق نگران وزیراعظم ہزار خان کھوسہ اور دیگر بڑے نام شامل ہیں اس لیگی اکٹھ کے سربراہ میرجان جمالی اور ظہورخان کھوسہ ہیں
میر جان محمدجمالی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن اور صوبائی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں ان کو مسلم لیگ کے سربراہ و وزیراعظم پاکستان نے اس وقت اسپیکرشپ سے ہٹادیا جب جان محمد جمالی نے نصیرآباد کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ یا اور سینٹ انتخابات میں پارٹی برخلاف اپنی دختر نیک اختر ثنا جمالی کو سینیٹر بنانے کی حتی الامکان کوشش کی اس بارگیننگ کے نتیجے میں ان کی صاحبزادی تو نا جیت سکیں مگر ووٹوں کے توڑ مروڑ نے مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر سردار یعقوب ناصر کو شکست سے ہمکنار کر دیا۔ جس کی پاداش میں جان جمالی صاحب کو اسپیکرشپ سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔
بی این پی مینگل کےسربراہ و سابق وزیراعلی بلوچستان سرداراختر جان مینگل نے سینٹ انتخابات میں جان جمالی کو سپورٹ کیا تھا گزشتہ دنوں سردار اختر مینگل جب نصیرآباد آئے تو جان جمالی سے بھی انہوں نے خصوصی ملاقات کی۔۔مسلم لیگ ن کے اس گرینڈ الائنس کے سربراہان کہہ چکے ہیں کہ ماضی کی محرومیوں ناانصافیوں کا ازالہ کرنے کے لئے یہ اتحاد عوامی امنگوں کی ترجمانی کے لئے بنایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید قبائلی عمائدین خصوصا مگسی ڈومکی اور عمرانی عمائدین کی بھی جلد اس اتحاد میں شمولیت کی پیشن گوئی کی۔
اس اتحاد پر بلوچستان کے بزرگ سیاستدان و سابق وزیراعظم پاکستان میر ظفراللہ خان جمالی نے اپنا تبصرہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کے نام پر سیاست کرنے والے پارٹی سے مخلص نہیں سیاست عزت دینے اور عزت لینے کا نام ہے مگر مفاد پرست سیاستدانوں نے اسے اپنا روزگار بنا لیا ہے،نصیرآباد ڈویژن کی سطح پر اتحاد بنانے والے دعوے داروں نے پانی نہیں دیکھا اور کپڑے پہلے اتار دیئےاتنی تیزی نا دکھاو گرنے کا خدشہ ہےنام نہاد اتحاد صرف دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں بچانے کی ناکام کوشش ہے۔ن لیگ کی رٹ لگانے والوں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 267 میں کچھی جھل مگسی کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو کس طرح سپورٹ کیا؟جو اپنی جماعت سے مخلص نہیں وہ عوام کا بھلا کیاکریں گے، اتحاد سے سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں یہ لوگ دھوکہ کھائیں گے ۔
یاد رہے کہ میر ظفراللہ خان جمالی بھی نصیرآباد این اے 266سے مسلم لیگ ن کے منتخب ایم این اے ہیں
بادی النظر میں یہ اتحاد ظفراللہ خان جمالی کو آنے والے 2018 کے انتخابات میں ہرانا اور پی بی 25 اور 26 جعفرآباد کی صوبائی نشستیں بچانا ہے۔
ماقبل میرظفراللہ خان جمالی اور میر جان محمدجمالی میں طویل عرصے سے سیاسی اختلافات خاموش سرد جنگ کی صورت جاری تھے اوستہ محمد و جعفرآباد لوکل باڈی انتخابات میں یہ اختلافات اس وقت کھل کر سامنے آگئے جب میرجان محمدجمالی صاحب کے ایک فرزند نے لوکل باڈی میں بڑھتے شکست کے آثار دیکھ کر اوستہ محمد میں گھنٹہ گھر میں واقع میرظفراللہ خان جمالی کے پیٹرول پمپ پر دن دیہاڑے فائرنگ کردی۔ بعد ازاں بلوچی میڑھ لے کر ظفراللہ خان جمالی کے پاس گئے اور ان کو منا لیا مگر لگتا ہے کہ دل تا حال صاف نہ ہو سکے۔ دوسری طرف جمالی قبیلے کی تیسری بڑی قوت گوٹھ علی آباد جمالی کے میر حیدرخان جمالی اور سربراہ جمالی اقوام میر ذوالفقارعلی خان جمالی نے پی پی پی کے صوبائی صدر علی مدد جتک اور صادق عمرانی کی موجودگی میں پی پی پی میں شمولیت کا اعلان کرکے خطرے کی گھنٹی بجادی ساتھ لیگی الائنس کو مسترد کردیا اور غیرجمالی کی حمایت سے انکار کرکے ظفراللہ خان جمالی کی حمایت کا بھی اعلان کر دیا۔
ان سیاسی شطرنج کی بساط کے مہروں کی اکھاڑ پچھاڑ اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پورا علاقہ محرومیوں کا گڑھ بن چکا ہے سڑکوں کی خستہ حالی، صفائی کی ناگفتہ بہ حالت، بدنظمی،لاقانونیت کے ہاتھوں غریب لوگ اور تاجر ہندو اقلیت کے کاروباری افراد خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں،اوچ پاور پلانٹ سے بلا تعطل بجلی دینے کا وعدہ تاحال وفا نا ہوا،گرین بیلٹ کے سب سے بڑے کاروباری شہر اوستہ محمد میں ایک سو سے زائد رائس ملیں لاکھوں ٹن چاول صاف کرکے غیر ملکی زر مبادلہ حاصل کر رہے ہیں مگر بجلی کے بحران نے اس صنعت کو بھی اپاہج بنا کر رکھ دیا۔
اوستہ محمد میں تاج برطانیہ سے قائم ریلوے کا نظام ایک عشرے سے معطل ہے ریل سروس بند ہونے کے بعد با اثر لینڈ مافیا نے نا صرف ریلوے کی اراضی و تنصیبات پر ہاتھ صاف کئے بلکہ کئی کلو میٹر تک ریلوے ٹریک تک دن دھاڑے اکھاڑ کر بیچ دیا گیا۔۔مگر ریلوے سمیت کسی ادارے نے نوٹس نہیں لیا گرلز کالج بیس سالوں سے اپنی عمارت کی منتظر ہے۔۔پورے علاقے میں ترقیاتی کام برائے نام ہی ہوئے جبکہ تمام محکموں کی کرپشن و لوٹ مار بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
مسلم لیگ ن کے اس نصیر آباد ڈویژن اتحاد نے گزشتہ روز سی پیک معاملے پر بھی آواز اٹھانی شروع کردی کہ اوستہ محمد و جعفرآباد کو بھی گوادر رتودیرو ہائی وے سے لنک کرکے اس علاقے کو بھی اس عالمی منظرنامے میں شامل کیا جائے ۔ان باتوں کے علاوہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لئےمیرظفراللہ خان جمالی کون سا ترپ کا پتا کھیلیں گے؟ قومی اسمبلی کے لئے اتحاد کے متوقع امیدوار ظہور کھوسہ کیا زیرک سیاستدان ظفراللہ خان جمالی کو چت کر پائیں گے؟
صحبت پور،نصیرآباد،جعفرآباد،اوستہ محمد، چھتراور،گنداخہ کے عوام اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالیں گے؟کیا یہ اتحاد سابق پی بی 25 امیدوارمیرعطا اللہ خان بلیدی کی سیاسی موت ثابت ہوگا یا اتحاد کے اگلے لوکل باڈی انتخابات میں حمایت کا لولی پاپ ہی کافی ثابت ہوگا ؟اس نئے اتحاد سے کس کو فائدہ کس کو نقصان ہوگا؟ ڈومکی مگسی عمرانی و دیگر قبائل کس طرف دیکھ رہے ہیں؟پی ٹی آئی کچھ کر پائے گی؟ مذہبی جماعتیں کہاں غائب ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب وقت ہی دے گا مگر فی الوقت زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ پورا نصیرآباد ڈویژن غربت محرومی اور پسماندگی میں پس رہا ہے اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.