(حنا جمشید)
ایک عمدہ ناول ایک تخلیق کار کے ذہنی و فکری ارتقاء کی باضابطہ تکمیل ہے اور اگر یہ فکراپنی ابتداء سے ہی پختہ‘ روشن اور بھرپور ہو تو پڑھنے والوں پر سوچ کے کئی در وا کر جاتی ہے۔یوں ناول کی اسی بصیرت میں اسکی مقبولیت اور اس کی دائمی قدرو قیمت کا رازپنہاں ہوتا ہے۔خوش قسمتی سے عبد اللہ حسین کا تعلق بھی انہی ادیبوں میں سے ہے جن کی پہلی تخلیق نے دائمی مقبولیت کی وہ جست بھری کہ انھیں شہرت کے بلند آسماں پہ جا بٹھایا۔ صرف ۳۲ سال کی عمرمیں قیامِ پاکستان اور فسادات کے پس منظر میں تخلیق کئے جانے والے عبداللہ حسین کے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ (۱۹۶۳ء)نے جہاں ایک طرف انھیں شہرت کی بلند پروازیاں عطا کیں وہیں دوسری طرف ان کے اس ناول کو کئی جگہوں پر منفی تنقید اور چربہ سازی جیسے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔مثلاََ قراۃالعین حیدر نے اپنی آپ بیتی میں الزام لگایا کہ:
’’اداس نسلیں ‘‘ کے متعدد ابواب میں ’میرے بھی صنم خانے‘سفینہ غمِ دل ‘ آگ کا دریا اور
شیشے کے گھر کے چند افسانوں کے ا سٹائل کا گہرا چربہ اتارا گیا ہے۔خفیف سے ردو بدل
کے ساتھ پورے پورے جملے اور پیراگراف تک وہی ہیں ۔۔‘‘
( کارِ جہاں دراز ہے۔ص۶۹۲)
تاہم عبداللہ حسین نے ہمیشہ اس مطابقت کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کا جواب قراۃالعین حیدر سے فکری طور پر متاثر ہونا ہی قرار دیا۔اگرچہ ’’اداس نسلیں ‘‘کے بعد عبد اللہ حسین کے دیگر کئی ناول سامنے آئے جن میں ’باگھ ، نشیب ،رات،قید اور نادار لوگ ‘شامل ہیں۔ لیکن پھر بھی عبداللہ حسین کی پہچان کا بنیادی حوالہ ان کا پہلا ناول ’’اداس نسلیں ہی رہا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ ’’اداس نسلیں ‘‘کی بار بار تکرار و تذکرے سے چڑ جاتے اور کہتے:
’’لگتا ہے پچھلے پچاس سال پہلے لکھے ناول کے بعد کے میرے کام کو لوگوں نے پڑھا
ہی نہیں۔اسی لئے وہ اداس نسلیں کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں۔حالانکہ میں نے اس کے
بعد بھی بہت بہتر کام کیا ہے۔۔‘‘
(عرفان جاوید’’یاداشتیں‘‘مشمولہ جنگ سنڈے میگزین۔ص۱۳)
اداس نسلیں کے بعد عبداللہ حسین کا وہ ناول جس میں ان کی فنی انفرادیت اور بصیرت بھرپور طریقے سے اپنے نقطۂ عروج پہ نظر آتی ہے وہ ’’نادار لوگ‘‘ہے۔جو سانحہ مشرقی پاکستان کے تکلیف دہ سیاسی اور سماجی حالات کے تناظر میں تخلیق کیا گیا ہے ۔لیکن بد قسمتی سے عبد اللہ حسین کا یہ ناول بھی ادبی سرقے کے الزام سے نہ بچ سکا۔واضح رہے کہ عبد اللہ حسین کے اس ناول پہ خورشید قائم خانی سہ ماہی ’’معاصر‘‘ میں ایک اپنے ایک مضمون میں الزام لگایا کہ ان کا یہ ناول خدیجہ گوہر(فریال گوہر کی والدہ)کے تحریر کردہ انگریزی ناول The Comming Season’s yieldجو انھوں نے ۱۹۶۵ کی پاک بھارت جنگ کے تناظر میں لکھا تھا اورجس کا اردو ترجمہ خود’ خورشید قائم خانی ‘نے ’’اُمیدوں کی فصل ‘‘ کے نام سے کیا تھا کا چربہ ہے۔ دونوں ناولوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے عبداللہ حسین کے ناول’’ نادار لوگ‘‘ کے بیشتر کردار ‘مناظر ‘واقعات یہاں تک کہ کہانی کے بیان میں بھی کئی جگہوں پر حد درجے کی مماثلت قاری کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیتی ہے۔
تاہم ان سب باتوں سے قطع نظر عبد اللہ حسین کا ضخیم ناول ’’نادار لوگ ‘‘ سانحہ مشرقی پاکستان کے سیاسی و سماجی حالات کے اتار چڑھاؤ کی اذیت و کرب سے بھرپور داستان ہے۔تخلیقی حوالے سے دیکھا جائے تو اس ناول میں شعور کی رو کی تکنیک کوفنکارانہ مہارت سے برتتے ہوئے عبداللہ حسین نے حال سے ماضی کے سفر کو بڑے عمدہ طریقے سے اپنی تحریر کا حصّہ بنایا ہے۔یہاں ’’حال‘‘ ایک استحصال شدہ سامراجی معاشرے میں اپنی زندگی کی بقاء کے لئے جدو جہد کرتی ایک پسماندہ نسل کی غمازی کرتا ہے جہاں ’’ماضی‘‘ دم توڑتی اقدار اور روایات کے تحت بے حسی اور بیگانگی جیسے رویوں کی اوک سے بار بارچھلکتاہے۔ایک مربوط پلاٹ کے تحت تخلیق کئے گئے اس ناول کا بیشتر حصہ مغربی پاکستان کے جنوبی دیہات اور قصبوں سے تعلق رکھتا ہے تاہم عبد اللہ حسین ان قصبوں اور دیہاتوں کے مسائل کو شہری و ملکی مسائل کے ساتھ ایک متوازن سطح پہ اُستوار کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ دیہات کے انہی کسانوں اور مزدوروں کو اپنے بنیادی کرداروں کی شکل میں ڈھالتے ہوئے عبداللہ حسین نے ملک کے اُس وقت کے داخلی انتشاراور عدم استحکام کی بنیادی وجوہات کا بھی تعین کیا ہے۔
بنیادی طور پر نادار لوگ ایک ایسی نادار قوم کی کہانی ہے جو نسل در نسل غلامی کا طوق پہنے‘ اپنے اوپر مسلّط کئے جانے والے ہر ڈکٹیٹر‘ سیاست دان یا جاگیر دار کے آگے اپنا سر مشیتِ ایزدی سمجھ کر جھکا دیتی ہے۔ عبد اللہ حسین نے غلامی کے اس تکلیف دہ دائرے کی لکیروں کو بڑی ابتدائی سطح سے واضح کیا ہے۔ ناول میں اینٹوں کے بھٹّوں پہ کام کرنے والے مزدور مرد ‘عورتیں اور بچے جو نسل در نسل ایک کنبے سے دوسرے کنبے تک خریدے اور بیچے جانے کے اذیت ناک مرحلے سے گزرتے ہوئے نسلِ انسانی کی ارزانی اور بے وقعتی پر اور ہماری ذہنی و اخلاقی پسماندگی پہ بھرپور چوٹ کرتے ہیں۔بقول عبداللہ حسین:
’’اس پیشگی رقم سے ان کے سارے کنبے کی زندگی کا سودا طے پاتا ہے۔پیشگی کی رقم کا تعین ہی اس بنیاد
پر ہو تا ہے کہ کنبے میں کتنے کام کرنے والے ہاتھ ہیں۔نہ عورت کا سوال نہ بچے کا‘پانچ سال سے لے
کر اسّی سال کی عمروں تک صرف ہاتھوں کی تعداد گنی جاتی ہے اور پیشگی طے پاتی ہے۔‘‘
(نادار لوگ۔ص۱۴۸)
’’نادار لوگ‘‘میں عبداللہ حسین نے حیاتیاتی سطح پر زندگی سے نبرد آزما جاگیردارانہ سامرجیت کا شکار‘ہماری قوم کی اس بے حسی اور بیگانگی کو اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے جس میں وہ قناعت کی چھید بھری چادر تانے کسمپرسی کی حالت میں ہر حکو مت میں خود محفوظ تصوّر کرتے ہیں اور چپ چاپ اپنا استحصال ہوتادیکھتے ہیں ۔مگر منہ سے اس ظلم کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کرتے۔وہ جاگیر دار ‘صنعت کار اور سیاست دان سب کو اپنا حق غضب کرتے دیکھتے ہیں لیکن اسے اپنی قسمت کا لکھا جانتے ہوئے کبھی اپنے حق کا دفاع نہیں کرتے۔اور اگر کبھی خوش قسمتی سے کوئی ان کے حقوق کا علم لے کر آگے بھی بڑھتا ہے تو ان کی بے یقینی ‘ عدم اعتمادی اور سماجی بیگانگی اسے اپنا رستہ بدلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
ناول کے تین بنیادی کردار’ اعجاز،کیپٹن سرفراز اور بشیر‘ بظاہراپنی اپنی جگہ مربوط اور متحرک کردار ہیں ۔لیکن یہی کردار بدلتے ہوئے حالات و واقعات کے تحت شکست و ریخت کے جس ذہنی اور روحانی کرب و اضطراب سے گزرتے ہیں اس کی الگ داستان ہے۔سکول ماسٹراعجاز جو مزدور یونین کے حقوق کی خاطر جدوجہد میں اپنی ساری زندگی وقف کر دیتا ہے لیکن جسے صلے میں محض منافقت ملتی ہے۔غریبوں کے لئے آواز اُٹھانے والاپُر جوش بشیر جو آخر کار معاشرے سے اپنے ساتھ ہوئی زیادتیوں کا انتقام لینے کے لئے ایک منفی کردار کا روپ اختیار کر جاتا ہے اور کیپٹن سرفراز جو مشرقی پاکستان کے تحفظ کی خاطر ۱۹۷۱ ء کی پاک بھارت جنگ میں شامل ہوتا ہے اور بطور جنگی قیدی بھارت کے کیمپ۔۹۸ میں ایک اذیت و کرب سے بھرپورتکلیف دہ قید کاٹتا ہے ۔اور پھر طویل عرصے کی وطن واپسی کے بعد جب اُسے اندرونی سازشوں کے تحت غدار کاالزام لگا کر اس کے عہدے سے برطرف کیا جاتا ہے تو اس کی ذات کا المیہ منافقت بھرے اس معاشرے میں ہر شخص کا المیہ بن جاتا ہے۔تینو ں کردار اپنے اپنے اندر اس دور کی مضطرب سیاسی‘سماجی اور معاشرتی تکلیف دہ صورتحال کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔
ناول کے نسائی کردار’نسرین‘نسیمہ ‘سکینہ اور کنیز‘ اگرچہ مرد کرداروں کی ماند مظبوط‘ متحرک اور فعال تو نہیں تاہم یہ کردار ہمارے معاشرے میں عورت کو دئیے گئے مقام کے عین مطابق تراشے گئے ہیں جہاں جاگیر دارانہ سماج میں عورت کو مرد ہمیشہ اپنے سے کم تر شے سمجھ کے استعمال کرتا ہے۔پھر چاہے وہ بھٹے پہ کام کرنے والی کنیز ہو یا یونیورسٹی میں پڑھنے والی نسرین‘وہ ایک ایسی محکوم اور مجبور عورت ہی رہتی ہے جسے ازل سے مرد کی راحت کے لئے تخلیق کیا گیا ہے ۔اور جو اس کی مرضی کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔مردانہ سماج کا پہنایا گیازبردستی اورمحکومی کا یہ ہا ر ہمیشہ اس کی اپنی شناخت کو مسخ کرتا رہتا ہے۔
اگرچہ عبداللہ حسین کی تخلیق کی اصل بنیادی جہت ناول میں ۱۹۷۱ ء کے اس سیاسی اتار چڑھاؤ کی تصویر کشی کرنا تھا جس کے پس منظر میں اقتدار کی درہم برہم ہوتی کرسیاں ‘ ملکی وبین الاقوامی سطح پر بنتے بگڑتے شکوک و شبہات‘فوجی آمریت و ڈکٹیٹر شپ کے اندوہناک نتائج اوران سب حالات کے تحت پیدا ہونے والی خطرناک صورتِ حال جس نے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے دور لے جا کر کھڑا کر دیا ۔اور ان دونوں مشرقی مغربی ’’پاکستانوں‘‘ کے درمیان تعصّب کی نہ ختم ہونے والی بے رُخی کو تقویت دی۔ان بگڑتے ہوئے حالات کو بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ:
’’اسمبلی کا اجلاس ابھی تک نہ ہوا تھا اور نہ ہی اس کی کوئی صورت نظر آ رہی تھی۔ڈکٹیٹر شپ کی مختلف
بوتلوں میں بند جو حقوق کے جن ہاتھ پیر مارتے رہے تھے جب بوتلیں توڑ کر باہر نکلے تو جمہوریت
نے ایک عفریت کو جنم دے دیا تھا۔ایک طرف ملک کے دونوں بازوؤں کی آپس میں چپقلش
خطرناک حد تک گہری ہوتی جا رہی تھی دوسری طرف مارشل لاء کی جکڑا بھی قائم تھی۔‘‘
(ایضاََ۔ص۴۰۶)
تاہم عبد اللہ حسین نے ایک تجزیاتی مؤ رخ کے طور پراپنے ناول میں اُس وقت کی گزی تلخ تاریخ کے تکلیف دہ پس منظر‘حالات وواقعات اوران کے تحت رونما ہونے والے سنگین نتائج کو سموتے ہوئے ان تمام تاریخی عوامل اور شخصیات کو بھی نظر انداز نہ کیا جو ان حالات کی ذمہ دار تھیں۔مثلاََ ناول میں پاک بھارت جنگ میں پاکستان کو ہونے والی شکست اور مشرقی پاکستان کی علیحدیگی کی وجوہات کا تعین کرتے ہوئے انھوں نے کمیشن کی جو رپورٹ ترتیب دی اس میں ان تمام فوجی آمروں اور ڈکٹیٹروں کو منظرِ عام پہ لانے کی کوشش کی جو اس کارِ لائقہ میں برابر کے شریک رہے۔نیز یہ رپورٹ ان تمام عسکری حقائق سے بھی پردہ اُ ٹھاتی ہے جن کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔مثلاََناول کا مرکزی کردار اعجاز پریس کے سامنے اس رپورٹ کے حوالے سے چند حقائق کا انکشاف کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ:
’’ہمارے پہلے وزیرِ اعظم کے قتل سے لے کردو جنگوں ‘دو مارشل لاؤں‘سیاست کی متفرق قلا بازیوں
سے لے کر تیسری جنگ تک ہمارے علم میں کچھ نہیں آیا کہ کیا ہوا اور کیا نہیں ہو‘کس نے کیا کیا‘کیا
فیصلے ہوئے اور کس وجہ سے ہوئے اور اُن کے نتیجے کے طور پر جو مصیبتیں ہم پر نازل ہوئیں ان کا
ذمہ دار کون تھا؟ہم محض اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔‘‘
(ایضاََ۔ص۷۳۲)
’’جنرل یحییٰ خان‘جنرل عبدالحمید خان‘لفٹنٹ جنرل ایس۔جی ۔ایم پیرزادہ‘میجر جنرل عمر‘
لیفٹنٹ جنرل گل حسن اور میجر جنرل مٹھانے نے آپس میں مجرمانہ سازش کر کے پچیس مارچ
اُنیس سو اکہتر کو فیلڈ مارشل ایّوب خان سے غیر قانونی طور پر اقتدار چھینا تاکہ اقتدار جنرل یحییٰ
خان کے سپرد کیا جائے اور اگر اس مقصد کیلئے طاقت استعمال کرنی پڑے تو وہ بھی کی جائے۔‘‘
(ایضاََ۔ص۷۳۸)
’’لیفٹنٹ جنرل اے۔کے۔نیازی نے کمانڈر‘ مشرقی پاکستان کا عہدہ سنبھالتے ہی ما تحت
فوجیوں سے کہا:یہ دشمن کا علاقہ ہے۔جو اُٹھا سکتے ہو اُٹھا لو۔برما میں ہم یہی کام کیا کرتے تھے۔‘‘
(ایضاََ)
نادار لوگ عبداللہ حسین کا ایسا ناول ہے جس کی فنی پختگی اور فکری گہرائی اسے عبداللہ حسین کے دوسرے ناولوں سے ایک انفرادیت عطا کرتی ہے۔اگرچہ کہیں کہیں عبداللہ حسین کی تٖفصیلی منظر نگاری ‘طویل مکالمے اور جذبات سے بپھری ہوئی تقاریر قاری پر گراں گزرتی ہیں تاہم یہ تخلیق کار کی اپنی اندرونی گھٹن اور اعصابی تناؤ کے کتھارسس کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ جن کا نکاس بحرحال ضروری ہے۔
آٹھ حصوں اورتیئس ابواب پر مشتمل ناول میں باب نہم تک پہنچتے ہوئے عبد اللہ حسین نے ناول کو اپنے غیر منطقی انجام سے قطع نظر ایک ایسے دوراہے پہ لا کھڑا کیا ہے جہاں وہ خود متن اور قاری کے درمیان سے نکل گئے ہیں تا کہ متن کی تہہ در تہہ چھپی ہوئی معنویت قاری پر صحیح طور پر عیاں ہو سکے اور وہ خود فیصلہ کر سکے کہ عبد اللہ حسین نے نادار لوگ میں جس تاریخی شعور‘سیاسی بصیرت اور سماجی مطالعے کو اپنی تخلیق کا حصہ بناتے ہوئے اپنے ماضی کی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کی ہے اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔
Comments are closed.
Well said