ایدھی صاحب کی وفات : میں کچھ اور سوچ رہا ہوں
از، قاسم یعقوب
ایدھی صاحب کی وفات پہ جس طرح پوری قوم نے خراج تحسین پیش کیا ہے یہ ایک مثالی موقع قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہت عرصے بعد پوری قوم کی طرف سے ایک مشترکہ پیغام سامنے آیا ہے۔ایدھی صاحب کی موت پر ایدھی کی خدمات کو دہرایا جا رہاہے ،انھیں ایک پوری شخصیت میں جمع کر کے دیکھا جا رہا ہے۔ ایسے میں وہ بہت سوں سے بھاری نکلے ہیں۔فوجی افسران، سیاست دان، جج صاحبان، علما کرام اور زندگی کے دیگر متحرک اور اہم کرادروں میں اُن کی بظاہر نحیف اور غیر متاثر شخصیت بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ اُن کی موت نے اس حقیقت کو باورکروانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے کہ زندگی اور موت ایک ساتھ چلتے ہیں اور موت کی طرف قدم دھرنے کے بعد زندگی نمایاں ہو جاتی ہے۔ اکثر افراد میں زندگی کے طرف چلتے قدموں میں موت نمایاں ہوتی ہے۔زندگی اپنی پیشانی پہ موت سجائے ملتی ہے مگر ایدھی کی زندگی موت کی پیشانی پہ زندگی کا جھومر بن کے دکھائی دی ہے۔ایدھی زندہ ہو گئے ہیں یا یوں کہیں کہ اب انھیں ایک مکمل زندگی ملی ہے اور اُن کے چاہنے والوں کو ’’پورا ایدھی‘‘ دکھائی دیا ہے۔
ایدھی صاحب کی وفات پہ میں کسی اور نہج پہ سوچ رہا ہوں۔ میں پوری قوم کا نفسیاتی محاکمہ کرنے لگا ہوں۔میرے ذہن میں بہت سے سوال بن بگڑ رہے ہیں، بالکل پانی کے بلبلوں کی طرح۔ جن کا مسلسل دوام اُن کے تحرک کی نشان دہی توکرتا ہے مگر کسی ایک بلبلے پر بھی نظر نہیں جمانے دیتا۔ وقت کا ہر لمحہ جیسے اگلے لمحے کے اندر کھلتا ہُوا ملتا ہے اور اُسے کھولیں تو اگلا لمحہ کھل جاتا ہے ۔ بس وقت کا ایک احساس سا رہ جاتا ہے کہ وقت ہے ورنہ کسی لمحے کو بھی گرفت نہیں کیا جا سکتا۔میرے سوال بھی ایک احساس کو جنم دے رہے ہیں کوئی واضح سوال نہیں بن پا رہے:
میں سوچ رہا ہوں کہ ایدھی کو اتنا خراجِ تحسین کیوں دیا گیا ہے؟میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انھیں خراجِ تحسین نہیں دیا جانا چاہیے تھا۔ میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ اس خراجِ تحسین کی وجہ کیا ہے؟کیا اُن کو خراجِ تحسین دینے کی وجہ یہ ہے کہ اُن جیسا کام کوئی اور نہیں کر رہا؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ سٹیٹ اپنا کردارادا نہیں کر رہی؟ کیا خراجِ تحسین کی وجہ اُن کا خیراتی ادارہ کا سربراہ ہونا ہے؟
مجھے ایسے لگا ہے کہ ایدھی کا خراجِ تحسین اُن کے خیراتی ادارے کی وجہ سے ہے۔ہم خیرات صدقات اور ایمانیات کے بہت قریب رہنے والی قوم ہیں۔ہم بہ حیثیت قوم خیرات کے فلسفے پر کیوں یقین رکھتے ہیں؟اصل میں خیرات کا فلسفہ دائیں فکر کافلسفہ ہے۔ یاد رکھیے حقوق العباد اور خیرات دونوں ہی دائیں فکر کے مضبوط فلسفے سمجھتے جاتے تھے مگر حقوق العباد جسے انگریزی میں Human rights کہا جا تاہے بائیں فکر سے منسلک ہو چکا ہے۔ بائیں فکر نے Human Rights کو کچھ اس طرح زندگی کا حصہ بنایا ہے کہ دائیں فکر سے جیسے چھین لیا ہو۔ حقوق العباد کا فلسفہ تو دائیں فکر کے صفحات سے دھواں بن کر اڑتا ہُوا دکھائی دیتا ہے۔دائیں فکر مذہبی سماجیات تک محدود ہو گئی ہے یا کسی نقیض (Reaction) میں دائیں فکر نے خود کو عبادات تک محدود کر لیا ہے ہاں البتہ خیرات کا فلسفہ دائیں فکر کی کوکھ سے سماج کے خانے میں خامہ فرسائی کرتا نظر آ رہا ہے۔
خیرات کیا ہے؟ خیرات کے ساتھ مسکینی، دلگیری اور محتاجی کے عناصر کیوں جوڑ دیے گئے ہیں؟ کیا خیرات کا فلسفہ حقوق العباد کا فلسفہ نہیں؟
خیرات کی فکر نے سماجی دائیں فکر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بائیں فکر والے عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق یا معاشرے کے اُن طبقات کے حقوق کی طرف رخ موڑ چکے ہیں جو حاشیے پر تصور کیے جا رہے تھے۔ بائیں فکر نے معاشرے کی سماجیات کو جنم دیا ہے اور اسی سماجیات (Social Philosophy)میں زندگی کی تشریح کی ہے۔ فرد کی گروہی حرکات، تحرکات، کرداریت(Behaviourism)کو معروضی (Objective)یا فطری طور پرسمجھانے کی کوشش کی ہے۔ خیرات کا فلسفہ انسانی بے بسی ، لاچارگی اور غریب الوطنی کو سماجیات کاحاشیہ تصور کرنے کی بجائے ماورائی یا وہبی حقیقت کے طور پر دیکھتا ہے جسے اللہ تعالیٰ یا حضورِ حق کی منظوری سے ختم کرنے پر زور دیتا ہے۔ آپ کو خیراتی اداروں اور خیراتی اعمال(Practices)میں سماجی یا معاشرتی کوتاہی نظر نہیں آئے گی بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی گئی ایک مشکل دکھائی دے گی جسے خدا کے نام پر ہی حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،بس وسیلہ خیرات (Charity)بنتی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں خیرات کا فلسفہ بہت پروان چڑھ رہا ہے۔ ہر صاحبِ ثروت آدمی خیرات کرتا ہے اور خیرات بھی مخصوص طریقوں سے۔مثلاًکسی یتیم بے سہارا بچوں کو لاکھوں روپے کی خیرات دے دی جاتی ہے مگر کسی یونیورسٹی یا کالج میں پڑھنے والے غریب بچوں کو خیرات دیناہی نہیں بنتا۔ وہاں Human Rights کام کرتے ہیں۔اسی طرح مدرسے کے یتیم بچے، فطرانے، ایمبولنس، مساجد میں پنکھے، ہسپتال، بلڈ بنک ، یتیموں کی شادیاں اور اسی قبیل کے دیگر فلاحی کام زیادہ مقبول اور جلد اپیل کرنے والے بن جاتے ہیں۔مگر سڑک بنوانا،پارکنگ کی جگہ وقف کر دینا، کسی آرٹ کے کام میں امداد دینا، کوئی یونیورسٹی یا کالج بنانا وغیرہ خیراتی کام نہیں کہلائے جاتے اور نہ ہی ان پر قوم رشک کرتی دکھائی دے گی۔
اصل میں خیرات کا تعلق براہِ راست مذہب سے جوڑ دیا گیا ہے اور Human Rights کا تعلق سماجی کاموں(Social Works)یالادینیت سے۔
Human Rightsکے کاموں پر کہا جاتا ہے کہ یہ ریاست کے کام ہیں جب کہ خیراتی کاموں کو ذات کی توفیق کا نام دیا جاتا ہے۔ آپ کو کسی مسجد میں چندہ دینے والے افراد تو دکھائی دیں گے مگرچائلڈ لیبر اوربھٹہ مزدوری کے خلاف، اقلیتوں اور عورتوں کے استحصال کے خلاف قانونی چارہ کی رقم کی جمع آوری کے لیے کوئی خیراتی نہیں ملے گا۔ اگر کوئی امداد دے گا بھی تو ایک سماجی خدمت ہو گی، ’’اللہ کی خوشنودی‘‘ اُس میں شامل نہیں ہو گی۔ایک خیراتی ہسپتال بنانے میں معاشرہ جس طرح خدا کے حضور قبول کرتا ہے اس طرح ایک اعلیٰ یونویورسٹی بنانے پہ نہیں کرتا۔ حالاں کہ دونوں میں مفت تعلیم اور علاج کی سہولت دی جاتی ہے۔مارگلہ کے پہاڑوں پہ مسجد بنانے والے تو بہت مل جائیں گے مگر درختوں کے بچانے کے لیے امداد یا مزید درخت لگانے کے لیے خیراتی ادارے نہیں ملیں گے۔
ایک معروف رئیل اسٹیٹ مالک بھی اپنی تمام خدمات کو بے کار سمجھتے ہیں اور انھیں اپنی ’’عظمت‘‘ ثابت کرنے کے لیے دنیا کی سب سے بڑی مسجد،دستر خوان جیسا ادارہ اور غریبوں کے لیے مفت ہسپتال کی سہولتیں مہیا کرنا پڑی ہیں۔ آپ کسی سے پوچھ لیں ؛دنیا کی سب سے بڑی مسجد بنانے سے ہی اُن کی بخشش ہو گی، پاکستان کا سب سے بڑا کرکٹ گراؤنڈ بنانے سے شاید انھیں جہنم بھیج دیا جائے۔
ایدھی صاحب پر یوں پوری قوم کا خراجِ تحسین کسی سوشل رفارمر کی موت کا غم کم اور ایک خیراتی ادارے کے سربراہ کی موت کا غم زیادہ ہے۔ آپ کو میری بات عجیب لگے گی مگر یہ حقیقت ہے کہ ہماری بہت ساری ہمدردیاں ، دکھ اور عظمت کے ملے جلے تاثرات کا بہت سا حصہ ایدھی صاحب کی خیراتی حیثیت کو چھونے کی وجہ سے پھڑپھڑا رہا ہے۔
ایک بہت مضبوط وجہ یہ ہے۔ لیکن آپ کو نہیں لگتا کہ ایدھی کی استقامت اور خدمت اس سے عقیدت کی وجہ ہے۔ خیرات وہ نہیں دے رہا، ورنہ بیت المال کی اہمیت اور وقعت زیادہ ہوتی۔ ایدھی نام ہے ایمانداری اور اعتبار کے ساتھ انسانیت کی خدمت کا۔ سو عقیدت اس کا حق ہے ۔ایدھی خیرات دے نہیں رہا، خیرات کی منصفانہ تقسیم کر رہا ہے جو بڑے حوصلے کی بات ہے۔
باقی رہ گیا مسجد وغیرہ بنا کے بخشش کا کام تو یہ آپ کے عمومی عقائد ہیں۔ رئیل سٹیٹ کنگ ہے، دانشور یا عالم نہیں لہذا اس کے عقائد پر بھی اسی طبقے کی حکمرانی ہے جو عام آدمی کے عقائد کا ٹھیکے دار ہے۔ بلکہ وہ بدنصیب تو فرتوتوں میں گھرا پڑا ہے۔
The question is why Pakistan need Edhi.The top govt officials who came to attend the funeral of Edhi and use the govt resources, why not they use this resources to help the needy and poor nation. So Pakistan doesn’t need Edhi.
عمدہ تحریر، آپ کی بات سے متفق ہوں کہ ہمارے ہاں بے چارگی دیکھ کر خیرات کی جاتی ہے۔ لیکن اگر ہم اسلام کے نقطہ ِنظر سے دیکھیں تو خیرات کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس میں بے چارگی کی حالت اور ہیومن رائٹس دونوں شامل ہیں۔ یہ ایدھی صاحب کی بصیرت تھی کہ انہیں خیرات کا یہ وسیع مفہوم (جو درحقیقت اسلامی اصولوں کے مطابق ہے ) سمجھ آگیا تھا۔ ہمارے ہاں دینی معلومات کی کمی کی وجہ سے لوگ ابھی تک اس چکر میں پڑے ہیں کہ کسی جگہ خیرات دینا جائز ہے یا نہیں؟ زکوٰۃ ایک فرض عبادت ہے اس لیے اس کی ادائیگی کی جگھیں بھی اللہ کی طرف سے مقرر ہیں۔ اس کے علاوہ نفلی صدقہ اور خیرات میں وسعت اور گنجائش رکھی گئی ہے ۔اور اسی گنجائش کا فائدہ اٹھا کر انسانیت کی خدمت کی جاسکتی ہے۔ ایدھی صاھب نے بھی یہی کام کیا۔ ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک آپ کی بیان کردہ بھی ہے۔اس کے علاوہ ان کا اخلاص ، عاجزی اورلوگوں سے خیر خواہی کا سچا جذبہ بھی ان کی نیک نامی اور لوگوں میں مقبولیت کی بڑی وجوہات میں سے ہیں۔ اللہ ان پر انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین