( تنویر احمد تہامی)
ابھی کچھ دن ہوتے ہیں، ڈاکٹر عبدالسلام کی برسی گزری ہےمگر مجال ہے پورے ملک میں کہیں بھی سرکاری و نجی سطح پہ کوئی تقریب منعقد کی گئی ہو. جرم: موصوف کا تعلق اس طبقے سے تھا جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیت قرار دیا جا چکا ہے. ڈاکٹر صاحب کی علمی قابلیت سے صَرفِ نظر محض ان کے عقیدے کی بنیاد پہ کی گئی. ساری دنیا جس کی ذہانت کی معترف ہوئی، اس کے اپنے ملک میں اسے جوتے کی نوک پہ رکھا گیا۔
سوشل میڈیا پہ آج کل نئے آرمی چیف (Chief of Army Staff) کی تقرری کے حوالے سے بحث جاری ہے. تبھی کہیں سے خبر آئی کہ جن چار جنرلز کو سپہ سالار کے منصب کیلئے نامزد کیا گیا ہے، ان میں سے ایک صاحب احمدی !(Qadiani/Ahmedi) ہیں (جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے). بس پھر کیا تھا یہاں وہاں سے مسلمانوں کا ایمان جاگ اٹھا اور پرزور مطالبات کیے جا رہے ہیں کہ ہرگز اس شخص کو سپہ سالاری (new Army Chief) جیسے منصب کیلئے شمار نہ کیا جائے. جرم: وہی جو ڈاکٹر عبدالسلام سے سرزد ہوا تھا۔
قطع نظر اس سے کہ مذکورہ جنرل احمدی ہے یا نہیں، سوال اٹھتا ہے کیا اس ملک میں کسی بھی اہم عہدے پہ فائز ہونے کیلئے وہ عقیدہ (faith) اپنانا لازم ہے جسے ملک کی اکثریت نے اپنا رکھا ہے؟ اس سوال کے دو ہی جوابات ہو سکتے ہیں، ہاں، یا نہیں۔
اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو کچھ مزید سوالات جنم لیتے ہیں. اگر واقعتاً مسلمان ہونا آرمی چیف یا کسی بھی کلیدی عہدے پر فائز ہونے کیلئے شرطِ اوّل ہے، تو سر فرینک میزروے اور ڈاگلس گریسی کے متعلق کیا سمجھا جائے؟ یہ دونوں حضرات بالترتیب پاکستان کے پہلے اور دوسرے سپہ سالاران رہ چکے ہیں. مذکورہ بالا طبقے سے عناد کی بنیادی وجہ عقیدہ ختمِ نبوت Finality of Prophethood سے انکار ہے. اگر مذہبی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یقیناً میں بذاتِ خود اس طبقے کے مؤقف سے شدید اختلاف رکھتا ہوں. مگر اس کے باوجود میں ان کے شہری حقوق کے مکمل تحفظ کا بھی حامی ہوں. اگر صرف ختمِ نبوت سے انکار سپہ سالاری کیلئے نااہلیت کی وجہ ہے تو معذرت کے ساتھ، فوج کے پہلے دونوں سربراہان کا ختمِ نبوت کا عقیدہ بھی ہمارے ختمِ نبوت کے عقیدے سے قطعاً کوئی مطابقت نہیں رکھتا. اگر اس ملک میں اہلیت کا معیار ایمان ہے تو اقلیتوں (minorities) کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ کیا عقیدہ کسی بھی انسان کی صلاحیتوں پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟ جناح صاحب کے وہ دعوے کس کھاتے میں لکھے جائیں گے جو انہوں نے اقلیتوں کو مساوی شہری (equal citizenship rights) حقوق فراہم کرنے کے حوالے سے کئے تھے؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں صرف تین عہدوں کیلئے امیدوار کا مسلمان ہونا لازم قرار دیا گیا ہے. صدر، وزیرِاعظم، اور جنرل ضیاالحق کی قائم کردہ شرعی عدالتوں کے قاضی. اسکے علاوہ کسی بھی عہدے کیلئے عقیدے کی قید نہیں رکھی گئی. ایسے میں یہ مطالبہ کہ آرمی چیف Army Chief کیلئے کسی احمدی کو نامزد نہیں کیا جا سکتا، آئین (constitution) کھلم کھلا بغاوت کے مترادف ہے. آئین کے مطابق ہر احمدی کو کسی بھی دوسرے شہری کی طرح مکمل حق حاصل ہے کہ اگر اس میں صلاحیت ہے تو کسی بھی عہدے پر فائز ہو سکتا ہے.
مذکورہ بالا سوال کا جواب اگر نفی میں ہے، تو کچھ زمینی حقائق کا جائزہ لے لینا مناسب معلوم پڑتا ہے. اگر مسلمان ہونا اہلیت کی شرط نہیں ہے تو کیوں ڈاکٹر عبدالسلام Dr Abdul Salam کو اس اہل نہیں سمجھا گیا کہ ان کو جھوٹے منھ ہی سہی خراجِ عقیدت پیش کر دیا جائے؟ کیوں عوام الناس کے اذہان میں یہ بات راسخ ہے کہ کوئی غیر مسلم کسی کلیدی عہدے کا حقدار نہیں ہو سکتا؟ کیوں صرف احمدی کا لفظ استعمال ہونے پر ایک جنرل کی صلاحیتیں اور حب الوطنی (patriotism) مشکوک ہو گئی ہے؟ ایسے بہت سے کیوں اور بھی ہیں مگر طوالتِ تحریر سے اجتناب کیلئے میں یہیں رکوں گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم نہ تو کبھی اسلام کو سمجھا ہے اور نہ جمہوریت (democracy) کو۔ قرآن واضح الفاظ میں کہتا ہے، “لَا اِکرَاہَ فِی الدیِن.” مگر ہمارا عمومی رویہ شاید اس سے مختلف سمت میں چل رہا ہے. ایسے ممالک جہاں مسلمان اقلیت (Muslim minority) میں ہیں، وہاں ہم سیکولرزم(Secularism) کو جائز، بلکہ واجب قرار دیتے ہیں؛ جبکہ وہ ممالک جہاں اکثریت مسلمانوں (Muslim majority) کی ہے وہاں سیکولرزم حرام ہے، شیطان کا جال ہے۔ عرض صرف اتنی سی ہے کہ ذرا سوچئے!