( شاہ نواز فیاض)
اٹھارہ سو ستاون کے بعد ہندوستان کی سیاسی ،سماجی،تہذیبی اور تعلیمی زندگی میں ایک غیر معمولی تبدیلی رونما ہوئی۔اس وقت ہندوستانیوں ،خاص طور سے مسلما نوں کا سب سے بڑا مسئلہ صرف جدید تعلیم حاصل کرنے کا ہی نہیں تھا، بلکہ تعلیم سے عام بیزاری کوبھی دور کرنا تھا۔ مسلمانوں کو سر سید احمد خاں نے جدید تعلیم سے روشناس کرانے کابیڑہ اٹھایا اور اس کی توسیع و اشاعت کے لئے جامع منصوبے تیار کیے۔اور انہی منصوبوں نے ملک کی تعلیمی اور اصلاحی تحریکات میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہ بد قسمتی ہی کہے جائے گی کہ ان ساری کوششوں کے پیچھے تعلیمِ نسواں کی گنجائش نہ کے برابر تھی۔حقیقت تو یہ ہے کہ عورتوں کی اکثریت جاہل تھی اور ساتھ ہی ساتھ وہ فرسودہ خیالات وعقائد اور غلط رسم ورواج کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی تھیں۔
سر سید کے رفقاء میں سب سے پہلے مولوی نذیر احمد نے عورتوں کی تعلیم کی اہمیت اورضرورت کو محسوس کیا اور اس کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا۔اور ان کے بعد حالی ،سرشار، شرر، رسوا،پریم چند اور تقریباََ تمام مصنفین نے اپنی تصنیفات کے ذریعے نہ صرف عورتوں کو تعلیم کی طرف توجہ دلائی ،بلکہ عورتوں کے اندرایک زمانے سے جاری سماجی و معاشرتی خامیوں کو بھی دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی۔
اردو ناول کی تاریخ میں علا مہ راشد الخیری کا شمار ایسے ہی ادیبوں میں ہوتا ہے۔ وہ صحیح معنوں میں مولوی نذیر احمد کے سچے جانشین تھے۔انہوں نے اپنی تقریباََ تمام تصانیف میں عورتوں کے مسائل اور ان کی پسماندگی ،ذہنی کشمکش اور الجھنوں کو اپنا موضوع بنایا۔علامہ راشدالخیری ایک مٹتی ہوئی تہذیب اور بکھرتی ہوئی اجتماعی زندگی کے نوحہ گر دکھائی دیتے ہیں ۔مگر ان کے ناولوں میں کچھ نقطے ایسے اور بھی ہیں جوہماری توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہیں جیسے ہوش ربا تبدیلیوں کے اس دور میں بھی علامہ راشد الخیری نے ماضی کے احساس کو برقرار رکھا اور اس سلسلے میں وہ ایک مربوط اور منظم اخلاقی موقف میں ثابت قدم بھی رہے۔دوسرے یہ کہ انہیں ہند اسلامی تہذیب کے منتشر ہوتے ہوئے شیرازے اور اس کے واقعاتی سیاق کا علم ہی نہیں بلکہ تجربہ بھی تھا۔علامہ راشدالخیری کا مشاہدہ وسیع اور ان کی بصیرت تیز تھی۔اس کے علاوہ اپنے مشاہدوں،تجربوں اور بصیرتوں کو قصے ،کہانی کی زبان میں منتقل کرنے کا سلیقہ بھی رکھتے تھے۔اسی لئے ان کے فن،کارنامے اور مسلم عورتوں پر اس کارنامے کے مجموعی اثرات کا جائزہ اور مطالعہ ہر لحاظ سے قابلِ توجہ ہے۔
علامہ راشدالخیری کی زندگی کا صرف ایک مقصد رہا۔اوروہ مقصد اصلاحِ نسواں تھا۔ علامہ خیری اس مقصد کے لئے زندگی کے آخری ایام تک اپنے قلم سے جہاد کرتے رہے ۔انہوں نے ادب کی جس صنف میں طبع آزمائی کی، خواہ وہ صحافی رہے یا نظم نگار،یا پھر ناول یا افسانہ نگار،ان کا مقصد صرف اور صرف اصلاح وتربیتِ نسواں ہی رہا۔اپنی تصنیف شبِ زندگی میں نیک بیوی کے متعلق لکھتے ہیں:
’’بیٹی ہو کر ماں باپ کے، بہن بن کر بھائی بہنوں کے،چھوٹی ہو کر بڑوں اور بڑی بن کر چھوٹوں کے حقوق اور خیال مرتے دم تک فراموش نہ کئے ، بیوی بنی تو ایسی کہ شوہر اور شوہر کے گھرانے والے ہر وقت اس کا کلمہ پڑھتے ۔ما(ماں) ہوئی تو ایسی ہوئی کہ بچہ کامل تین سال تک اس ملک میں اور اس مقام میں اس شہر میں اور ان لوگوں میں رہا جہاں خدا کا نام لینا گناہ اور مذہب کا خیال کرنا حرام مگر ایک وقت کی نماز قضا نہ ہوئی۔‘‘(1)
درج بالا اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک نیک خاتون کا اثر اس کے اپنے بچوں پر کس طرح سے ہوتاہے۔ اور اس اقتباس سے اس بات کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ ماں کی گود بچے کے لئے پہلا مکتب ہوتی ہے۔
ناول نگاری کے پہلے دور کے ناول نویسوں میں نذیر احمد نے ہندوستانی معاشرے کی سب سے زیادہ جیتی جاگتی تصویر کھینچی تھی۔خاص طور سے مسلم عورتوں کے حالات اتنے اچھے اور منظم ڈھنگ سے پیش کرنا انہیں کا حصہ تھا۔علامہ راشد الخیری نے بھی اپنے لئے انہی موضوع کا انتخاب کیا ۔یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے تاریخی ناول بھی لکھے ہیں ۔لیکن ان کا خاص موضوع مسلم عورتوں کی معاشرت ہے۔نذیر احمد اور ان کے ہم عصروں کے زمانے میں مشرقی تہذیب کی تھوڑی بہت جان باقی تھی ۔اور عورتیں اپنی تہذیب کے بچے ہوئے سرمائے کو لیکر اپنے گھروں تک محدود ہو گئیں اور بَر خلاف مردوں کے کہیں زیادہ سکون سے اپنی زندگی کے شب و روز گزارتی رہیں ۔لیکن انیسویں صدی کے آواخر میں معاشیات نے اس نظم کو درہم برہم کر دیا۔ایک طرف آمدنی کے ذرائع گھٹ رہے ہیں تو دوسری طرف زندگی کی اورضرورتیں بڑھنے سے پرُسکون زندگی میں خلل پڑ گیا۔
انگریزی تعلیم اور مغربی تہذیب کے اثر سے مردوں اور عورتوں کی زندگی کی راہیں الگ الگ ہو گئیں ۔عام مدرسوں کے کھل جا نے کے بعد گھر کے مکتب بند ہو گئے۔جبکہ اس سے پہلے گھر کے مکتب ہی عورتوں کے لئے سب سے بڑی تعلیم گاہ سمجھے جاتے رہے ہیں ۔جب عورتوں کی سب سے بڑی درسگاہ بند ہو گئی اور لڑکے اسکول میں پڑھنے لگے، لیکن لڑکیاں زمانے کی پابندیوں اور پردے کی وجہ سے وہاں نہیں جا سکیں۔اس لئے ان کی تعلیم ہی بند ہو گئی۔جدید تعلیم و تربیت کی روشنی کے سامنے قدیم تعلیم و تربیت کی روشنی ،مردوں کے نزدیک اس حد تک کم ہو گئی کہ عورتوں کا دل بھی اس سے بے پرواہ ہو گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مطلق جہالت نے عورتوں کے حالات کوبد سے بد تر کر دیا۔اس پستی کا سب سے زیادہ ذمہ دار مرد اساس معاشرہ تھا۔ وہ عورتوں کو اور بھی کمتر اور ذلیل سمجھنے لگے۔
مسلم عورتوں کی یہ افسوسناک صورتِ حال علّامہ راشدالخیری کے پیشِ نظر تھی۔انہوں نے دیکھا کہ عورتیں اپنی جہالت،تعصّب ،تنگ نظری اور ساتھ ساتھ مردوں کی خود غرضی اور غفلت کی وجہ سے جانوروں کی سی زندگی گزار رہی ہیں۔غیرت اور حمیّت نے انہیں عورتوں کی حمایت میں قلمی جہاد کرنے پر مجبور کر دیا۔ علّامہ راشد الخیری نے اس وقت کی ایک بے بس عورت کا کتنا خوبصورت اور جیتا جاگتا نقشہ کھینچا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’مجھ کو اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ ان کو اپنے رنگ پر ڈہالوں (ڈھالوں)یا خود ان کے ڈہنگ(ڈھنگ)پر ڈہلجاؤں(ڈھل جاؤں)،ان کو اس طرف توجّہ کرنے کی فرصت نہ موافقت کی ضرورت مرد بچّے جو جی چاہا کیا۔جوجو منہ میں آیا کہا،مصیبت تو میری تھی عورت ذات جو پڑے وہ اٹھاؤں ،جو آئے وہ بھگتوں،کوشش شروع کی مگر اختلافِ مزاج کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے آسمان زمین کا فرق اور مشرق مغرب کا بعد۔میرے اختیار میں ہو تو اپنی روٹی محلّہ بھر میں تقسیم کروں اور بچے بچائے ٹکڑوں سے پیٹ بھر وں، ان کا بس چلے تو معصوم بچّہ بلکتے کا بلکتا رہ جائے ،اور اس کے ہاتھ سے جلیبی چھین کر صاف چٹ کر جائیں۔‘‘(2)
علّامہ راشد الخیری، عورتوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کی معاشی حیثیت کو بلند کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے عورتوں کے مسائل کو عورتوں کی نظر سے دیکھا اور ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر اس کا مداوا کرنے کی سعی کی اور اس کوشش میں ان کی نظر عورت کی زندگی کے ہر پہلو پر گئی۔اور اس طرح سے ہمارا ادب پہلی مرتبہ عورت کی معاشرتی حیثیت کا صحیح مصوّر ا ور مفسّر بننے کے علاوہ ان کی ذہنی اور جذباتی زندگی کا آئینہ دار بنا۔یوں زندگی کا ایک ایسا گوشہ جس پر اب تک لوگوں کی نظر نہیں گئی تھی۔ایک اچھّے ادیب کے صحیح اور باریک بین مشاہدے کی وجہ سے جیتا جاگتا ہو کر سامنے آیا۔
سر سیّد احمد خاں نے جدید تعلیم کی طرف توجّہ کی۔ انہوں نے علی گڑھ میں ایم۔او۔ کالج کی بنیاد ڈالی ۔اور اس کے نتائج بھی مثبت برَآمد ہونے لگے۔لیکن اس کشمکش اور عصری تعلیم کے دور میں تعلیمِ نسواں پر کوئی توجّہ نہیں دی گئی۔اور اس کمی اور محرومی کا احساس علّامہ راشدالخیری کو شدّت سے تھا۔انکی حالتِ زار اور ان کے اندر تعلیم و تربیت کا فقدان تھا ۔اور ستم بالائے ستم کی عورتوں کے حقوق پر مردوں کا جبراً قبضہ تھا ۔ سما ج کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے خاندان میں بھی ،وہ غلامی کی زندگی گزر بسر کرنے پر مجبور تھیں۔ اور اس پورے حالات سے علّا مہ خیری بخوبی واقف تھے۔بلکہ یوں کہیں کہ وہ چشم دید گواہ تھے۔سماج میں بہت سارے ایسے جاہلا نہ رسم و رواج تھے جسے عقیدے کی حیثیت حاصل تھی۔
عورت سسرال میں ہو،یا میکے میں،اسکی حیثیت ایک غلام سے زیادہ کی نہیں تھی۔دورِجاہلیت کی طرح اس سماج میں بھی لڑکیوں کے پیدا ہونے سے خوشیاں نہیں منائی جاتی تھیں ،بس فرق اتنا ہے کہ وہاں لڑکیوں کو زندہ در غور کر دیا جاتا تھا اور یہاں زندہ رکھ کر ساری عمر گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور کر دیا جاتا تھا۔شادی کے بعد والدین ان کا ترکہ تک نہیں دیتے ،ایسے سماج کی کیا حقیقت ہے؟جس سماج میں بیوہ کی کوئی حیثیت نہیں ۔حد تو یہ تھی کہ بیوہ کی دوسری شادی بھی نہیں ہوتی تھی۔اس کے بَر خلاف، مرد جو ایک بیوی کی ساتھ انصاف نہیں کر سکتے تھے وہ کئی کئی شادیاں رچا لیتے تھے۔علّامہ راشدالخیری عورتوں کی اس بے بس اور لا چار زندگی سے اچھّی طرح واقف تھے۔اور اسی درد اور اذیّت کو محسوس کر کے انہوں نے عورتوں کی اصلاح و تربیت اور ان کے حقوق کی بازیافت کی کوشش کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا۔ اس وقت عورت کتنی بے بس تھیں اس کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے:
’’مردوں کے مقابلہ میں مساوات کا خیال کبھی پاس آکر پھٹکنے ہی نہ دیا،اب اپنی حالت ظاہر اوراپنا درجہ روشن تھا نتیجہ یہ ہوا کہ مصیبت کی گھڑیاں اور ذلّت کی کڑیاں ،ماں کا دودھ اور شہد کا گھونٹ بنیں ۔کلیجہ چھلنی ہوتا تھا،دل پر گھونسے لگتے تھے مگر تیوری پر بل اور زبان پر شکایت نہ آئی تھی…………….کتّوں سے بدتر زندگی اور لونڈیوں سے ابتر حالت تھی،کیا جو کر سکتی تھی اور کرتی رہی جو ہوتا تھا مگر ان کوششوں کا نتیجہ اس غلامی کا انجام ،پتّھرپر کیا جونک لگتی ۔شوہر وہی جان کا دشمن اور ساس ویسی ہی خون کی پیاسی ہیں۔‘‘(3)
اس میں ذرا بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ علّامہ راشد الخیری تقریباً چالیس سال تک مسلسل حقوقِ نسواں کے لئے اکیلے اپنے قلم کے ذریعے بادِمخالف کا ڈٹ کر سامنا کرتے رہے۔صرف قلم ہی کے ذریعہ نہیں بلکہ جب اور جہاں موقع ملا،تقریروں سے بھی انہوں نے حقوقِ نسواں کی بات کی۔ایسا نہیں ہے کہ علّامہ خیری صرف عورتوں کے حقوق کے لئے ہی لکھتے رہے۔بلکہ انہوں نے عورتوں کی اصلاح اور فرائضِ نسواں کے متعلّق عصمت، سہیلی اوربنات جیسے رسالے بھی جاری کئے۔تاکہ عورتوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے فرائض سے بھی روشناس کرایا جا سکے۔اورمعاشرے میں سعادت مند بیٹیاں ،فرمانبردار بیویاں اور عاقبت اندیش مائیں پیدا کی جا سکیں۔عصمت کے متعلّق خود علّامہ راشد الخیری نے’’تمدّن‘‘میں لکھا ہے:
’’لڑکیوں کو بتائے گا کہ کوار پتے کی زندگی ان کو کس طرح گزارنی ہے۔ماں باپ کا ادب بہن بھائیوں کی خدمت ۔بڑوں کی تعظیم چھوٹوں سے محبّت ان کا فرض منصبی ہے۔جس نئی دنیا میں ان کو شامل ہونا ہے اس کے لئے انہیں کیا تیاری کرنی ہے ۔جوجو دقّتیں ان کو پیش آئیں گی ان کو کس طرح رفع کرنا۔ساس نندوں کے ساتھ ان کے تعلّقات کیسے ہونے چاہیئیں۔لڑکیوں کو خانہ داری ۔گھر کے حساب کتاب بچّوں کی پرورش میں عصمت سے مدد ملے گی۔اور وہ بتائے گا کہ جس آمدنی کو وہ بے غل و غش خرچ کر رہی ہیں وہ کس محنت و مشقّت سے پیدا کی گئی ہے اور جو بچّے قدرت نے ان کے سپرد کئے ہیں ان کی ذمّہ داریاں ان پر کیا ہیں۔کیا طریقہ ہیں جن سے یہ بچّے پَل پلا کر جب گھر بار کے ہوں گے تو عزّت سے زندگی بسر کریں گے۔‘‘(4)
علّامہ راشد الخیری چاہتے تھے کہ عورتیں تعلیم حاصل کریں تاکہ ان کے اندر علم دین کے ساتھ ساتھ معاشرت کا بھی شعور پیدا ہو سکے ۔عورتوں کی جواپنی ذمّہ داریاں ہیں وہ اس سے اچھّی طرح واقف ہو سکیں،اور دوسرے پر ان کے اپنے کیا حقوق ہیں ان کا علم ہو سکے۔اس طرح تمام کوششیں علّامہ راشد الخیری نے اسلام کے دائرے میں رہ کرکیں۔دینِ الہٰی نے جو حقوق عورتوں کو دیے ہیں وہ انھیں حاصل کریں۔
گویا کہ علّامہ راشدالخیری کے پیشِ نظر عورتوں کی اصلاح اور انکی تربیت اور ان کے حقوق ہی رہے۔علّامہ خیری عورتوں کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ علّامہ کو اپنی اس کوشش میں بہت حد تک کامیابی بھی ملی۔ان کی تحریروں اور تقریروں سے عورتوں کے اندر تعلیم کے تئیں بیداری پیدا ہوئی۔اور لوگوں کے نظریے بھی بدلے ،جو عورتوں کو باہر جانے سے روکتے یا اسے معیوب سمجھتے تھے،ان میں بھی عورتوں کی تعلیم کے تئیں مثبت رجحان پیدا ہوا ۔عورتوں کے حقوق کے متعلّق لوگوں کے رویّے میں بہت حد تک نرمی پیدا ہوئی۔علّامہ راشد الخیری کے متعلّق ضیاء الدّین احمد بَرنی نے بمبئی’’کرانیکل‘‘میں لکھا ہے:
’’مولانا کی کثیرالتعدادتصانیف سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی تمام زندگی صنفِ کمزورکی حمایت و وکالت میں بسر ہوئی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والی نسلیں ہمیشہ مولانا کی ممنونیت اور افتخار کے ساتھ یاد کریں گی کہ انہوں نے عورت کو وہی مقام دلانے کی لگاتار کوششیں کیں جو اسے اسلام نے عطا کیا تھا۔مولانا تقریباً پچاس سال تک مسلمان عورتوں کے حقوق کے لئے لڑتے رہے۔ان کی تمام کتابیں صرف ایک مقصد کی حامل ہیں یعنی صنفِ نازک کوقعرِذلّت سے نکال کر بامِ ترقّی پر لے جانا۔‘‘(5)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ علّامہ راشد الخیری نے اپنی ادبی زندگی کی شروعات ایک مقصد کے تحت کی تھی۔وہ اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے میں ایک انقلاب اور اصلاحی لہر پیدا کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مسلما نوں کے متوسّط طبقے کے مسائل ،خاص طور سے عورتوں کی تعلیم و تربیت اور انکے حقوق کی خاطر اپنی آخری عمر تک جدّو جہد کرتے رہے۔بقول اختر شیرانی کے:
خواتین اپنا خضر و مرشد و رہبر کہیں اس کو
تعجب کا نہیں موقع کہ پیغمبر کہیں اس کو
حواشی:
(1) شبِ زندگی حصہ اوّل،ایڈیشن بارہ،علامہ راشد الخیری ،ص۔12،عصمت بک ایجنسی،دہلی، فروری 1933ء
(2)شبِ زندگی۔اوّل،ایڈیشن بارہ، علّامہ راشد الخیری ،ص۔15،عصمت بک ڈپو ، دہلی۔ فروری 1933 ء
(3)شبِ زندگی۔اوّل،ایڈیشن بارہ،علّامہ راشدالخیری،ص۔17۔16 ۔عصمت بک ڈپو،دہلی۔ فروری1933 ء
(4)بحوالہ ،عصمت۔راشدالخیری نمبر،ص۔722 ،اگست 1964ء
(5)بحوالہ عصمت،راشد الخیری نمبر،ص۔749،اگست1964ء
خصوصی شکریہ:’’اُردو ریسرچ جرنل‘‘