(معصوم رضوی)
ہمارے ایک دوست ایسے ہیں جن کے پاس دنیا بھر کی معلومات کا ذخیرہ ہے، اسی لئے دوست علامہ گوگل کے نام سے پکارتے ہیں، خیر خود انہیں بھی یہی نام پسند ہے۔ سیاست، روحانیات، تاریخ، ٹیکنالوجی، فلسفہ، عالمی حالات و روایات، پکوان، ادب، فنون لطیفہ، تہوار غرض کوئی موضوع ان کی دسترس سے باہر نہیں۔ بات شروع کرتے ہیں تو سلسلہ کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے مگر مجال ہے کہ دلچسپی کم ہو سکے۔
ایک شام اچانک وارد ہوئے، بولے چائے پلاؤ، فکر میں کھوئے بیٹھے رہے، میں نے پوچھا علامہ کیا ہو رہا ہے، پاناما کا کیا بنے گا، بولے ہاں بھئی پاناما کی کیا بات ہے، کیا کیلے ہوتے ہیں، ایسے توانا کہ جوان دو کھالے تو پیٹ بھر جائے، مگر بھائی مزہ نہیں ہے۔ کاغذی کیلوں کی بھی بڑی تعریف سنی تھی، کلکتہ والے، بڑے مشہور، کھا کر دیکھے مزے کے تو تھے مگر وہ بات کہاں مولوی کی سی، بھیا پاکستان کے چتی دار کیلے کا کوئی جوڑ نہیں، ایسا مزہ کہیں نہ ملا۔ وجہ بھی سن لو کیمیائی کھاد استعمال تو ہو رہی ہے مگر دنیا کے مقابلے میں خاصی کم، قدرتی زمین میں اگنے والی سبزی، پھل کی بات ہی اور ہے۔ کچھ پتہ ہے امریکہ اور یورپ میں اب مصنوعی کھاد کے بغیر قدرتی طور پر اگائی جانیوالی سبزی اور پھل سونے کے مول ملتے ہیں، Organic Agriculture کہا جاتا ہے، 1920 کے لگ بھگ دریافت ہوئی، بتائو یار قدرت نے جو کچھ دیا پہلے اسے برباد کیا اور اب صدیوں بعد دوبارہ قدرت کو دریافت کیا جا رہا ہے۔
ارے بھائی آپ کو نہیں پتہ ایوب دور میں امریکی صدر جانسن نے گندم کی امداد پاکستان بجھوائی تو ساتھ کیمیائی کھاد بھی ڈولی میں بیٹھ کر آئی اور امریکی سنڈی کا جہیز ساتھ لائی۔ اب اس سنڈی کو مارنے کیلئے کیمیکل بھی امریکہ سے درامد کیا جاتا ہے۔ بھائی یہ ہے کامیاب تجارت کا راز، وہ امریکی کہاوت ہے نا، There’s no free lunch in the world تو بھائی امداد بھی مفت میں نہیں ملتی، بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ سانس کیلئے وقفہ لیا تو ڈرتے ڈرتے پوچھا علامہ میں نے پاناما لیکس کیس کے متعلق پوچھا تھا، حیرانگی سے بولے تو میں کیا آپ کو بھیرویں سنا رہا تھا۔ اتنی تفصیل کے بعد بھی آپ کو پتہ نہ چلا تو میں کیا کر سکتا ہوں۔
علامہ گوگل خفا ہو جائیں تو منانا مشکل ہوتا ہے لہٰذا موضوع بدلتے ہوئے پوچھا حسین حقانی کی نئی حرکت پر آپ کی کیا رائے ہے، چائے کی چسکی لیتے ہوئے بولے ذھین آدمی ہے، بھئی دیکھو اتنا پڑھا لکھا، پرپیچ اور با صلاحیت آدمی سیاسی بونوں کے درمیان ڈنڈاڈولی تو کھیلنے سے رہا۔ جامعہ کراچی میں جمیت کا صدر، ضیاالحق دور میں ملکی سیاست میں سرگرم، 88 میں نواز شریف کی سیاسی مہم کا گرو گھنٹال، 93 میں بے نظیر بھٹو کا ترجمان، آصف زرداری دور امریکہ میں سفیر، میمو گیٹ تو یاد ہو گا ناں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں نے اسے استعمال کیا یا سیاسی جماعتوں کو اس نے۔ ویسے بھی شیخ رشید تو بہت پہلے کہہ چکے ہیں حسین حقانی ڈیلی ویجز والے آدمی ہیں۔ یار اب تو وہ امریکی شہری ہے آپ حسین حقانی کو چھوڑو اور حقانی نیٹ ورک کی خیر مناو۔ عرض کیا کمیشن بھی تو بن رہا ہے، دھیمے سے جواب ملا کمیشن بن رہا ہے تو جانو کچھ نہ ہو گا بس تمھارے میڈیا کو بیچنے کو نیا موضوع مل گیا۔ پاناما کے زلزلوں میں پھنسی ن لیگ بھی کچھ موج مستی کر لیگی پیپلز پارٹی کیساتھ، اللہ اللہ خیر صلیٰ، ویسے بھیا حقانی نے کون سی نئی بات کی ہے، سب کو پتہ تھا۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہی کچھ ہوتا رہا۔
بس حقانی ناراض ہوا تو ہاتھ کر گیا زرداری کیساتھ، ارے ہاتھ پر یاد آیا دیکھو بیچاری وینا ملک کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا، اسد خٹک کنگلا نکلا، اف کیا زمانہ آ گیا ہے۔ ویسے یار خٹک ڈانس تو پرویز خٹک بھی خوب کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے لوگ گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہے ہیں مگر کپتان ابتک خٹک ڈانس کے سحر میں گرفتار ہیں۔ اچانک چونک کر پوچھا، ارے یہ تو بتائیں ریحام کا کیا حال احوال ہے، آپ کا تعلق بھی تو میڈیا سے ہے، کیا خبر ہے ان کی، میں نے عرض کیا پتہ نہیں، اب تو شاید میڈیا پر کہیں بھی نہیں ہیں، ٹھنڈی سانس لیکر بولے جلد بازی نے کہیں کا نہ رکھا بیچاری کو۔
علامہ گوگل بولنے پر آئیں تو کاما اور فل اسٹاپ نہیں لگتا، سگریٹ سلگانے کیلئے رکے موقعہ غنیمت جان پر پوچھا علامہ کراچی کی سیاست کس طرف جا رہی ہے۔ ڈھیر سارا دھواں اگلتے ہوئے بولے پتہ نہیں جا رہی ہے یا آ رہی ہے۔ پہلے کبھی نورانی میاں، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی میدان میں ہوتے تھے۔ خدا بھلا کرے ضیاالحق اسٹیبلشمنٹ کا، ان کا زور توڑنے کیلئے ایم کیو ایم کھڑی کر دی۔
اب ایم کیو ایم کا زور توڑنے کیلئے پی ایس پی کو کھڑا کیا مگر کام نہ بنا۔ بہرحال یہ کام ماشااللہ ایم کیو ایم نے خود ہی کر ڈالا۔ بھئی ہماری ایک کزن ہے، جب چھوٹے بچوں کیساتھ گھر آتی تھی تو داخل ہوتے ہی جو سامنے ملتا بچہ اس کی گود میں دے دیتی تھی، پھر ڈھونڈتے پھرو بچہ واپس کرنے کیلئے، گھنٹے سے پہلے نہیں ملتی تھی، تو بھائی کراچی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی گود میں ہے سمجھ نہیں آ رہا کہ کس کی گود میں ڈالا جائے۔ شہر کا کوئی والی وارث نہیں، بس سیاسی بڑبونگیوں سے کام چلایا جا رہا ہے۔ بھائی جی آپ کا میڈیا جتنا شورمچاتا رہے مگرحقیقت تو یہ ہے کہ پنجاب بدل گیا، اسلام آباد اور لاہور جائیں تو دیکھیں ترقی کیا ہوتی ہے۔
بھئی لاہور جائیں تو پھجے کے پائے اور ایبٹ روڈ کی کشمیری چائے ضرور پیئں ورنہ جانا بیکار ہے۔ خیر آپ کراچی والے تو بریانی پر قربان ہوئے جاتے ہیں، حالانکہ پنجاب میں آج بھی پلائو کا راج ہے۔ حضور مانیں نہ مانیں، بریانی خراب پکانے کیلئے خصوصی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ خراب ہو جائے تو سندھی، مزید خراب ہو تو مدراسی، اور بگڑے تو بمبئی، گجراتی اور نجانے کتنے علاقائی روپ دھار لیتی ہے ڈر ہے سلسلہ نیپال اور سری لنکا تک نہ پہنچ جائے۔ پلاؤ جیسی نفیس غذا پکانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسلام آباد میں سیور کا پلاؤ کھایا ہے، فرائیڈ چکن اور شامی کباب ساتھ، چاول کی ری فلنگ مفت، ایرانی چلو کباب تو جانو فرسٹ کزن ہے پلاؤ کی، کراچی میں صدر کے علاقے میں ایک ہی ہوٹل میں ملتا ہے، چمکتے بریاں چاولوں کے پہاڑ پر مکھن کی دمکتی جھیل اور خوش رنگ تلا ہوا مزیدار مرغ، صاحب بات یہ ہے عربوں کی لحم مندی اور رز بخاری بھی کچھ کم نہیں، خیر یہاں افغانی پلاؤ خوب ہے۔
علامہ اس تیزی سے پٹری پر پٹری بدل رہے تھے کہ نجانے کیوں سعد رفیق پر رحم آنے لگا۔ پانچواں سگریٹ ایش ٹرے میں بجھاتے ہوئے حسب عادت یکایک اٹھے، یار میں چلتا ہوں۔ عرض کیا علامہ کھانا کھا کر جائیے گا، انکار نہیں۔ زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے بولے بھائی بالکل انکار نہیں کرتا مگر خوشبو بتا رہی ہے تمھارے گھر بریانی پکی ہے آلو والی، کھانا کھایا تو جانو ساری تقریر بیکار، دھرم بھرشٹ ہو جائیگا، چلو اللہ حافظ