علامہ اقبال،علما اور اجتہاد: پارلیمنٹ سے اجتہاد کا کام لیا جا سکتا  ہے؟  

مصنف کی تصویر
سھل شعیب ابراہیم

علامہ اقبال ، علما اور اجتہاد: پارلیمنٹ سے اجتہاد کا کام لیا جا سکتا ہے؟

از، سھل شعیب ابراہیم

بیسویں صدی کی مسلم دنیا اور تخصیصی سطح پر مسلم ہندوستان کی فکری تاریخ میں علامہ اقبال  اپنے دائرہ  اثر  کی وجہ سے بہت اہم ہیں۔جب علمائے کرام  قومیت اور وطن  سے تعلق کی حمایت کر رہے تھے ،اس وقت اقبال نے  مسلم قومیت کی الگ شناخت کو   ناگزیر قرار دیا۔جہاں خانقاہی نظام کے تحت صوفیاۓ عظام کی تعلیمات میں ترک خواہشات اور نفی ذات کی روش کو قبول عام حاصل تھا،اس وقت اقبال خودی اور اثبات ذات کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔اسی طرح تقلید میں بندہے  ہوۓ   مسلمان  کو آئمہ اربعہ  کے فقہی دبستانوں سے باہر نکل کر دیکھنے کی آزادی میسر نہ تھی، وہاں علامہ صاحب نے ایک تسلسل کے ساتھ “اجتہاد” کو اپنا موضوع بنا کر  روایتی سوچ پر کاری ضرب لگا رہے تھے۔ وہ مذاہب اربعہ کی چار دیواری میں اصول دین کو پانبد کرنے کو جمود سے تعبیر کرتے ہیں۔

اقبال کے نزدیک احیاۓ اسلام صرف مسلمانوں کی سیاسی بالادستی سے ممکن نہیں  بلکہ قانون اسلام کے احیا سے مشروط ہے۔1904 میں اقبال کا ایک مضمون “قومی زندگی ” شائع ہوا جس میں اقبال یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ “۔۔۔قرآن و حدیث کے وسیع اصول کے تحت جو استد لال فقہا نے کی ہیں ،ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو خاص خاص  زمانوں کے لیئے  واقعی مناسب اور قابل عمل تھے مگر حال کی ضروریات پر کافی طور حاوی نہیں ۔۔۔قانون اسلامی کی جدید تفسیر کے لیئے ایک بہت بڑے فقیہہ کی ضرورت ہے جس کے قواۓ عقلیہ و متخیلہ  کا پیمانہ اس قدر وسیع  ہو کہ وہ مسلمہ اصول دین  کی بنا پر قانون  اسلامی  کو جدید پیراۓ میں مرتب و منظم  کر سکے ۔”(مقالات اقبال مرتبہ عبد الواحد)

اقبال یہ بھی تجویز دیتے ہیں کہ “۔۔۔معلوم ہوتا ہے  یہ کام ایک سے زیادہ دماغوں کا ہے اور اس کی تکمیل کے لیئے کم از کم ایک صدی کی ضرورت ہے ۔”اسلامی فکر کی تشکیل نو یا تشکیل جدید الہیات اسلامیہ  ان خطبات کا مجموعہ ہے جو اقبال نے مسلم ایسوسی ایشن مدراس کی دعوت پر پیش کیہے۔ان خطبات  کی تحریک  اقبال کے مقالہ “اجتہاد” سے ہوئے جو 1924 میں اسلامیہ کالج لاہور میں پڑھا گیا ۔بعد میں اسے مزید اضافہ و ترمیم کے ساتھ “اسلام کے نظام میں حرکت کا اصول “کے عنوان کے تحت پیش کیا گیا  اور اسی خطبہ کی وجہ سے ہندوستان اور ہندوستان کے باہر بھی اقبال کو شدید تنقیص کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔اس کی ایک مثال کچھ عرصہ قبل (1984) ریاض (سعودی عرب) میں ہونے والی کانفرنس ہے  جس کے حوالے سے  ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ  ایک  سوڈانی عالم کی تجریک پر قرار دیا گیا کہ اقبال کی تصنیف “تشکیل جدید الہیات اسلامیہ “کفریات پر مبنی ہے ،اس لیۓ مسلمان اسے پڑھنے سے گریز کریں۔ اقبال اجتہاد کو حرکت کے اصول کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسے زندہ اور مردہ مذاہب کے درمیان فرق قرار دیتے ہیں ۔زندہ مذہب وقت کے ساتھ بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ اور حالت تحرک میں ہوتا ہے اور “تغیر” تو خدا کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

اسلام کی سیاسی تاریخ کے مطالعہ کے بعد فکر اسلامی کی تشکیل جدید کا اجساس علامہ اقبال کے ہاں ایک تسلسل کے ساتھ ملتا ہے ۔وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ مسلمانوں نے “انتخاب”کے تصور پر توجہ نہیں دی ۔وہ فقہ کے اصول “اجماع” کو خالص جمہوری  روح کا حامل قرار دیتے ہیں۔اپنے ایک مقالہ “اسلام اور خلافت” جو لندن کے مجلہ “سو شیو لو جیکل ریویو”میں چھپا ۔اس میں اقبال نے اسلامی ریاست کا بنیادی اصول “انتخاب ” قرار دیتے ہوۓ لکھا ہے کہ “۔۔۔قرآن نے جو اصول اساسی قائم کیا ہے ، وہ انتخاب ہی کا اصول  ہے ۔اس اصول کے تحت کون کون سے فروعات و تفصیلات و جزئیات مستنبط ہوتی ہیں ،اس کا فیصلہ وقتی حالات و دیگر واقعات پر چھوڑ دیا گیا ہے جو مختلف زمانوں میں مختلف جگہوں پر پیدا ہو سکتے ہیں۔”

اقبال عہد جدید میں عالمگیر اسلامی خلافت کی ضرورت سے  انکار کرتے ہیں اور اپنے مشہور خطبہ اجتہاد میں یہ استدلال دیتے ہیں کہ تاریخ میں عالمگیر خلافت کا تجربہ کامیاب نہیں رہا ۔ پہلے تو وہ ملوکیت میں تبدیل ہوئے اور بعد ازاں خود مختار ریاستیں قائم ہو نے سے خلافت اپنی حیثیت کھو بیٹھی ۔لہذا واحد عالمگیر خلافت  کے اصرار سے مسلمان ریاستوں میں فساد و انتشار کا رستہ تو کھل سکتا ہے،اتحاد کا نہیں۔اقبال کے مطابق “۔۔۔فی الحال لازم ہے کہ ہر مسلم قوم  اپنے آپ میں ڈوب جاۓ اور صرف اپنے آپ پر توجہ  دے،جب سب اپنی اپنی جگہ طاقتور ہو جائیں تو جمہوریتوں کے ایک زندہ خاندان کی شکل اختیار کر لیں۔”

خلافت کا مسئلہ انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول میں کئی مباحث کا موجب بنا رہا۔جس زمانے میں اقبال “اجتہاد”کو موضوع بنا رہے تھے ،خلافت سے متعلقہ مباحث بھی ان کے سامنے تھے۔وہ خلافت اور اجتہاد کے باہمی تعلق سے بخوبی آگاہ تھے ۔جب تک خلافت اجتماعی رہی ،اجتہاد بھی اجتماعی رہا۔اقبال کے مطابق خلافت راشدہ میں اجتہاد کی اجتماعی روح کار فرما تھی۔اب بھی انفرادی اجتہاد کی بجاۓ اجتماعی (ریاستی)اجتہاد کا منہاج وضع کرنا ہو گا۔

علامہ کے نزدیک “اجماع” کا فقہی اصول جمہور کی آواز ہے اور اسے مجلس قانون ساز(پارلیمنٹ) کے پلیٹ فارم سے استعمال ہونا چاہیۓ۔بقول اقبال “مذہب اسلام میں اساسی قانون کی بنیاد اور شریعت کے تصریحی احکام کے بعد تمام تر قوانین کے لئے اصل اصول جمہور کی ر‏اۓ کا اتحاد(اجماع) ہے۔علامہ اجماع کو ایک ایسا اصول قرار دیتے ہیں جو جدید زمانے میں پارلیمنٹ کے ذریعے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

انفرادی اجتہاد کے حوالے سے اقبال کہتے ہیں کہ “میرا خیال ہے کہ یہ بات اموی اور عباسی خلفا کے مفاد میں جاتی تھی کہ اجتہاد کا اختیار مجتہد افراد کو دیا جاۓ اور ایک مستقل مجلس (اسمبلی) کی تشکیل کی حوصلہ افزائی نہ کی جاۓ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اسمبلی ان کے مقابلہ میں زیادہ طاقتور نہ ہو جائے۔”(اسلامی فکر کی تشکیل نو)زمانہ جدید کے تقاضوں کے مطابق بہت حقیقت پسندانہ مؤقف اختیار کرتے ہوۓ اقبال کہتے ہیں کہ “۔۔۔دور جدید میں متصادم فرقوں میں اضافہ (اور شدت)کو سامنے رکھتے ہوۓ اجماع کی صرف ایک ہی شکل نظر آتی ہے کہ اجتہاد کا اختیار مذاہب فقہ  کے انفرادی نمائندوں سے لے کر مسلم قانون ساز اسمبلیوں کے حوالہ کر دیا جاۓ۔صرف اسی طرح ہی عام آدمی جو مسائل پر گہری نظر رکھتا ہو ،قانونی مباحثہ میں حصہ لے سکتا ہے “(تشکیل جدید الہیات اسلامی)گویا اقبال اسلامی قانون سازی کے عمل اور تمام مباحث میں عام آدمی کی آواز کو بھی شریک کرنا چاہتے ہیں۔

اجتہاد کے بارے میں اقبال کے یہ خیالات اپنی جگہ مجتہدانہ  حیثیت رکھتے ہیں۔ان کے تصور “اجتماعی اجتہاد “کو پذیرائی ضرور حاصل ہوئی مگر اسمبلی سے اجتہاد کا کام ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔۔۔۔۔مجلس قانون ساز کو اجتہاد کے اختیارات سونپنے کے  بعد کیا خصوصی ماہرین  کی شرکت ،راہنمائ،اور راۓ کی ضرورت نہ ہو گی؟اگر علما کو بھی اس قانون سازی میں شامل کیا جاۓ  تو کس طرح؟کیا ایک سپریم ادارہ بنا کر  علما کو اونچے سنگھاسن پر بٹھا دیا جاۓ(جیسا کہ ایران میں انقلاب کے بعد ہوا ہے)۔

علامہ اقبال اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ “موجودہ  زمانے میں تو جہاں کہیں مسلمانوں کی کوئی قانون ساز مجلس قائم ہو گی ،اس کے زیادہ تر وہی لوگ ہوں گے جو فقہ اسلامی کی نزاکتوں  سے نا واقف ہیں “۔۔۔ مگر اقبال پارلیمنٹ کی رہنمائی یا  شریعت کی تعبیر کے لئے علماۓ کرام کی کسی مقتدر کونسل کے حامی نہیں (جس طرح ہمارے ہاں اسلامی نظریاتی کونسل کا آئینی اہتمام کیا گیا ہے)۔ علامہ اقبال کی راۓ میں علما کے بالادست ادارےکو قوت نافذہ مل جاۓ تو ایک طرح کی پاپائیت کی راہ ہموار ہو گی اور ریاستی ڈھانچہ کی جمہوری روح خطرے میں پڑ جاۓ گی۔وہ علما کی الگ مجلس بنانے کی بجاۓ یہ تجویز دیتے ہیں کہ “علما ء کو مسلم قانون ساز اسمبلیوں کا لازمی حصہ ضرور بنانا چاہیۓ تاکہ وہ فقہ سے متعلقہ  سوالات میں آزادانہ بحث میں مدد کر سکیں۔”(اسلامی فکر کی تشکیل نو)اقبال کی اس راۓ سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ علماء کو دیگر اراکین سے زیادہ اختیارات دینے کے قائل نہ تھے۔اپنے اسی خطبہ اجتہاد میں اقبال یہ بھی حل پیش کرتے ہیں کہ مسلم ممالک میں قانونی تعلیم کے نصاب کی اصلاح کی جاۓ اور اسلامی فقہ کے ساتھ  ساتھ جدید عالمی قوانین کا مطالعہ بھی ہونا چاہیۓ اور ایسے ماہرین قانون کو پارلیمنٹ میں آناچاہئے۔

 

1 Comment

  1. علامہ اقبال کی اکثر تعلیمات میں تضاد نظر آتا ہے جس کی وجہ سے انہیں ہر مکتبہ فکر اپنی اپنی سہولت کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ مثلا” کہیں وہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا کہتے نظر آتے ہیں اور کہیں وہ قومیت کی بنیاد مذہب کو قرار دیتے ہیں۔ کہیں غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں اور کہیں بے خطر آتش نمرود میں کودنے کی ستائش کرتے ہيں۔ ظاہر ہے ان کی ہر بات کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہوگا لیکن ایک عام طالبعلم پس منظر اور ربط کی تلاش کی زحمت بالعموم نہیں کرپاتا اور کوئی نہ کوئی انتہاپسند رائے بنالیتا ہے۔ میرا سوال قومی جمہوریتوں کے بارے میں ان کی بیان کردہ رائے کے متعلق ہے۔ اقبال کے مطابق “۔۔۔فی الحال لازم ہے کہ ہر مسلم قوم اپنے آپ میں ڈوب جاۓ اور صرف اپنے آپ پر توجہ دے،جب سب اپنی اپنی جگہ طاقتور ہو جائیں تو جمہوریتوں کے ایک زندہ خاندان کی شکل اختیار کر لیں۔”
    یہ رائے دور حاضر کی حوالے سے انتہائی معقول اور صائب نظر آتی ہے، لیکن ساتھ ہی ان کا وہ شعر بھی یاد آتا ہے۔
    بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا۔۔۔ نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی۔
    اب ان دو متضاد خیالات میں تطبیق کیسے پیدا کی جاسکتی ہے؟

Comments are closed.