(یاسر اقبال)
خطوط نگاری انسانی تہذیب کی معراج سمجھی جاتی ہے۔انسان نے جب تحریر کو اپنی تہذیبی روایت کا حصہ بنایا تو اُسے اپنے بہترین خیالات کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔تاریخِ انسانی میں خطوط وارداتِ قلبی و ذاتی کا سب سے اعلیٰ اظہار رہے ہیں۔بڑی بڑی شخصیات جن میں فقرا،حاکم، شعرا، صوفیا اور دانش ور شامل رہے، سب نے خطوط کو اپنے احکامات، وارداتِ روحانی اور شراکتِ قلبی کے سہارے کے لیے منتخب کیا۔ خطوط کو صرف ایک میڈئم کی طرز پر
خیال کرنا سراسر لاعلمی ہے۔ کچھ احباب خطوط نگاری کو محض رابطے کی ایک کڑی قرار دیتے آ رہے ہیں جو اس علمی سرمایے سے ناواقفیت ہی قرار دی جا سکتی ہے۔ خطوط نگاری ایک الگ سے شعبہ رہا ہے۔ بلکہ کچھ خطوط ہی بڑی بڑی شخصیات کے علمی مقام و مرتبہ کا تعین کرتے ہیں جن میں ’’مکتوبِ امام ربانی ‘‘کا مقام سب سے بلند ہے۔ ادبی خطوط میں مرزا غالب کی ادبی حیثیت کو کون نہیں مانتا۔ اسی طرح سیاسی سطح پر اقبال اور جناح کے خطوط۔ مذہبی وعلمی مناقشوں میں مولانا مودودی کے خطوط بلند پایہ تہذیبی سرمایہ ہیں۔
حال ہی میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبۂ اُردو کے سہ ماہی ’’تعبیر‘‘ کا خطوط نمبر شائع ہُوا۔یہ توشۂ خاص کئی ایک حوالوں سے اہم ہے۔ اس میں خطوط کی اہمیت کو نہ صرف اجاگر کیا گیا ہے بلکہ جن علمی و ادبی اور مذہبی شخصیات کو جمع کر دیا گیا ہے وہ اپنے تئیں اہم حوالہ بن گیا ہے۔
’’تعبیر ‘‘کا یہ شمارہ خاص نمبر کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔اس سہ ماہی کے مدیر ڈاکٹر عبد العزیز ساحر خود بلند پایہ محقق و تاریخ شناس ہیں۔ اُن کی ادبی تحقیق نے بہت سے اہم گوشوں کو وَا کیا ہے۔’’ تعبیر‘‘ کے خطوط نمبر میں صرف اہم شخصیات کے خطوط ہی اکٹھے نہیں کئے گئے بلکہ بہت اہم علمی مباحث بھی اس نمبر کا حصہ بنائے گئے ہیں۔ اس خطوط نمبر کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں:
۱۔ اس نمبر میں تقریباً تمام خطوط غیر مطبوعہ ہیں۔
۲۔خطوط کے ساتھ حواشی و تعلیقات کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔
۳۔ خطوط کے متن کے ساتھ تحقیقی سوالات بھی اُٹھائے گئے ہیں۔
۴۔بعض خطوط کے عکسی نقول بھی شائع کی گئی ہیں جن میں علامہ اقبال، مولانا عرشی اور مولانا مودودی کے خطوط بھی شامل ہیں۔
۵۔خطوط نگار شخصیات کا انتخاب متنوع ہے کسی ایک عہد یا ایک موضوع تک محدود نہیں۔
’’تعبیر‘‘ کاا داریہ محض مندرجات کی وضاحت تک محدود نہیں بلکہ اس میں اہم علمی نکات اٹھائے جاتے ہیں جوقاری کے لیے اگلے صفحات میں موجود رسالے کے مواد کی رہنمائی کا سامان بھی بنتے ہیں۔
مدیرِ ’’تعبیر‘‘ اداریہ میں لکھتے ہیں:
’’خطوط نگاری) کی تاریخ اتنی پرانی ہے کہ اس کا روزِ اول کہیں مرورِ ایام میں گم ہو کر رہ گیا ہے۔ سب سے پہلے کس نے اس فن کو برتا اور اس کے تناظر میں بہ زبانِ قلم باتیں کیں؟ وہ کون تھا جس نے اسے آدھی ملاقات سے تعبیر کیا؟ ایسے کتنے ہی سوالات ہو سکتے ہیں لیکن ان میں سے کسی سوال کا جواب ممکن نہیں۔۔۔ روحانی زاویوں اور خانقاہی نظام میں بھی اس فن کا عمل دخل برابر جاری رہا ۔ صوفیہ اپنے مریدوں کو مکتوبات کے ذریعے اپنے مشاہدات اور تجربات کی نیرنگی سے معمور کرتے رہے۔‘‘
اس مختصر سے مجموعے میں علامہ اقبال، مولانا مودودی، مولانا امتیاز علی خاں عرشی، مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر سید محمود الرحمن، ڈاکٹر سید عبداللہ ، جمیلم آذر اور صاحب زادہ حمید اللہ کے خطوط شامل ہیں۔ان آٹھ شخصیات کی شخصی اور ان کے عظیم کام کے بہت سے گوشوں کو منور کیا گیا ہے۔علامہ کے نام ایک انگریزی خط کا مکمل متن اور ترجمہ بھی شامل ہے جو وزارتِ تربیت عامہ و فنونِ لطیفہ کی طرف سے جاری ہُوا۔ حسن نواز شاہ نے علامہ اقبال کے ایک بہت مختصر خط کو دریافت کیا اور اس کی اہمیت پر تفصیلی نوٹ لکھا ہے یہ خط ضلع جہلم کی ادبی تاریخ کو ایک نئے زاویے سے سمجھنے کی طرف دروازہ کھولتا ہے۔ مولانا مودودی کی شخصیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ ایک جید عالم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اُن کا علمی مرتبہ ایک عالمِ دین کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ نثر نگار کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ اسی اعتبار سے انھیں ادبی شخصیات کی صفوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مودودی صاحب کے غیر مطبوعہ خطوط کی دریافت کا سہرا ظفر حسین ظفر کے سر ہے جنھوں نے کمال محنت سے ان خطوط کی درجہ بندی کی اورانھیں حاشیہ نگاری کے ساتھ پیش کیا۔
خورشید احمد کے نام ایک خط میں مودودی لکھتے ہیں:
’’میں نے قمر الدین صاحب سے کہا تھا کہ وہ قائد اعظم مرحوم سے جا کر ملیں اور ان کو جماعتِ اسلامی کے مقصد اور ان کی دعوت سے روشناس کرائیں۔ لیکن یہ بات میں نے نہیں کہی کہ وہ انھیں مسلم لیگ کو جماعتِ اسلامی میں مدغم کرنے کی دعوت دیں۔‘‘
یہاں مودودی صاحب کے قائد کے ساتھ سیاسی معاملات زیرِ بحث ہیں،گویا اس طرح کے خطوط کے اہم خطوط صرف طالب علمانہ سطح کے خطوط نہیں بلکہ تحقیقی مواد سے مزین ہونے سے ان خطوط کی اہمیت اور بھی دو چند ہو گئی ہے۔
’’تعبیر ‘‘کی مسلسل اشاعت کاخراجِ تحسین رئیسِ جامعہ ’’ڈاکٹر شاہد صدیقی‘‘ کو پیش کیا جانا چاہیے کیوں کہ انھوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو ایک روایتی ادارے سے تحقیقی و علمی ادارہ بنا دیا ہے۔ ’’تعبیر‘‘ کی محنت کے پیچھے اُن کا ادبی شعور بھی نظر آ رہا ہے۔