قاسم یعقوب
آئی کے ایف کے مقاصدکا ایک جائزہ
کیا علم اپنے پیداواری اذہان سے اجنبی بھی ہوتا ہے؟ علم جب اپنے پیداکار ذہن سے ایک فاصلہ پیداکر لے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ایک سماجی سرگرمی نہیں بن رہا ۔علم ایک روایتی (Traditional) سرگرمی تو ہوگی مگر تہذیبی سطح پہ اس کا اثر کچھ گہرا نہیں ہوگا۔ تہذیب کے عناصر علم کی پیدواری صلاحیتوں سے دور ہی رہیں گے۔ ایسا تخریبی عمل ہمارے ہاں نو آبادکاری کے دنوں میں ہُوا۔ سائنسوں کو سماجی علوم سے دور کر دیا گیا یا لاشعوری مراحل سے ان کے درمیان دوئی پیدا ہو گئی۔ سماجی علوم سائنس کی معروضی اہمیت اور تیکنیکیات سے دور ہوتے گئے اور سماجی علوم پڑھنے والے سائنس کو غیر منفعت بخش علم کہنے لگے۔ حالاں کہ علم پس منظر میں ایک ہی ڈسکورس کے مختلف روپوں کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ اوریہ ڈسکورس ہے ’’جاننا، اپنے معروض کی اپنے سبجیکٹ کے ساتھ اور سبجیکٹ کو معروض کے مطابق بنانا‘‘___
ہمارے علم کی پیداواری قوت جن اذہان سے وقوع پذیر ہو رہی ہے وہ اپنے علم کی طاقت سے بے بہر ہ ہیں ۔ ایسا اس لیے ہوا کہ ہمارا علم ہمارے اذہان سے کشید تو ہوتا رہا ہے مگر ہماری مرضی کے بغیر۔ہم ایک میڈیم کے طور پر استعمال تو ہوتے رہے ہیں مگر اپنے وجود کی نفی کے ساتھ۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے یہ طے کیا جائے کہ علم کی کون سی جگہیں ایسی ہیں جہاں سے واضح طور پر علم کی دوئی کا اظہار ہو رہا ہے اس کی نشان دہی اس پورے عمل کو سمجھنے میں مدد دے گا۔
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری سائنسیں ہماری رائے کے بغیر پڑھی سمجھی اور لکھی جا رہی ہیں۔ سماجی سائنسوں کا حال بھی یہی ہے ہمارے اپنے موقف اور خطے کی معاشرت، سماجی سائنسوں میں دخل دینے سے قاصر ہے۔ذرا گنتی سے بتا دیجیے کہ کتنے علوم میں مقامی سائنسدان اور مقامی دانش وروں کے افکار کو نصابات کا حصہ بنایا گیا ہے؟ ہمارا اپنا کلچر کتنا نصابات میں جگہ پاتا ہے۔ ہمارے سماجی رویوں پر کتنے علوم تراشے گئے ہیں؟ ظاہری بات ہے کہ اس سلسلے میں واضح تفریق موجود ہے، ہم درآمد شدہ علم اسی شکل میں اپنے بچوں کو منتقل کر رہے ہیں۔
علم کو لوکالائز کرنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اُس کی تدریسی فارم یعنی اُس کی تکنیکیات کو بدل دیا جائے یا اُسے اسلامائز کر دیا۔ لوکل بنانے کا مطلب علوم کے اندر ہماری اپنی شمولیت ہے۔
انگریزی پڑھائی جائے تو اُس میں انگریزی مضامین کے لیے مقامی لکھاریوں کو شامل کیا جائے
سائنس پڑھائی جائے تو اسے مقامی لکھاریوں سے لکھایا جائے ۔سائنس کی مثالیں مقامی ہوں، مقامی لیبارٹریوں کی تصاویر اور مقامی کلچر کو زیادہ جگہ دی جائے۔علم ہمارے اردگرد کا معلوم ہو۔ہم اُس میں شامل شامل لگیں۔
اسی طرح معاشیات، سیاسیات وغیرہ میں مقامی صورتِ حال کو ہی مرکز نگاہ رکھا جائے۔
یونیورسٹیوں میں پروان چڑھنے والے ماحول میں سائنس اور سماجی علوم کو اکٹھا کیا جائے اُن کی کانفرنسیں، اُن کے نصابات اور اُن کی یکساں شراکت کے ماحول کو پیدا کیا جائے۔
اس سلسلے میں ناصر عباس نیر صاحب کے ساتھ کچھ احباب نے ایک فورم بنایا ہے جس کا مقصد نھی اُمور پہ کام کرنے کا ہے۔ اس فورم کا نام ’’آئی کے ایف ‘‘Indigenous knowledge forumہے۔ اس فورم میں کچھ دیگر امور کو بھی شامل کیا گیا ہے۔جیسے:
۱۔ ردنوآبادیت کے تحت نصابات کو مقامی کلچر میں سمویا جائے جس کے لیے نصابات پر کام کرنے کی ضرورت ہے
۲۔ سائنسی ڈسپلنز میں پاکستانی مسائل کے حل کے لیے واضح پالیسی بنانے کی ضرورت پہ زور ہے۔یعنی ہمارے مسائل اور ہمارے علوم میں فاصلہ کم کیاجائے۔ ظاہری بات ہے یہ بھی نصابات اور جامعات کے کلچر کو تبدیل کرنے سے ممکن ہے۔
۳۔ بین العلوم تحقیق کو فروغ دیا جائے اور اس کے لیے خصوصی مراکز بنائے جائیں۔
۴۔ علمی آڈٹ کو فروغ دیا جائے۔ یہ جانا جائے کہ کتنا علم اور کس معیار کا علم کون اور کہاں پیدا کر رہا ہے۔ علم کی معیاربندی سے علمی اذہان کی خصوصی مراعات دی جائیں۔ اور اُن کی حوصلہ افزائی کا سامان کیا جائے۔
یہ تمام اُمور یک جنش ممکن نہیں۔ ان کے لیے اداروں کو مشترکہ ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’آئی کے ایف‘‘ کواس سلسلے میں جامعات سے بھی پہلے سکول کی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ علم کی’’ لاکالائزیشن‘‘ یا مقامیت کوسکول ماحول سے شروع کیا جائے۔ بچہ اپنی ذہنی اختراعات اور پیداوار کا معروضی تجزیہ کرنا اپنے ابتدائی ہی سے سیکھے اور جامعات تک پہنچتے ہی اس کلچرکو پوری طرح اپنالے۔
ضرورت امر کی ہے کہ نصابات اورتدریسی ماحول کو مقامی یعنی لوکل کرنے کے لیے بہت چھوٹی سطح سے اس کا آغاز کیا جانا چاہیے۔