(تنویر احمد ملک)
سارتر نے کہا تھا “الفاظ بھری ہوئی بندوقیں ہوتے ہیں”۔ عمران خان نے سارتر کے اس قول کو سچ کر دکھایا…پی ایس ایل کے لاہور میں فائنل کے انعقاد پر ان کی تشویش بجا لیکن انہیں غیرملکی کھلا ڑیوں کو پھٹیچر کہنے کا حق کس نے دے دیا؟
عمران خان ہماری سیاست میں ایک تازہ ہوا جھونکا تھے۔ روایتی سیاست کے پشتی بانوں کے خلاف ان کا بیانیہ کشش رکھتا تھا…مقتدر قوتوں کی چھتر چھاؤں تلے سیاست کے پانیوں میں تلاطم پیدا کرنے والے خان صاحب پر ان الزامات کے سوا کوئی ایسا الزام نہ تھا جو انہیں شرمسار کرتا…لیکن پھر چشم فلک نے دیکھا کہ وہی خان صاحب روایتی سیاست کی آلودگی میں ایسے لتھڑے کہ اب نواز شریف، زرداری اور عمران خان ایک ہی عکس کا پرتو نظر آتے ہیں۔
پانامہ لیکس کا ہنگامہ برپا ہوتا ہے…آپ ایک ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں اور بجا کرتے ہیں کہ حاکم وقت اپنی بیرون ملک جائیداد کا حساب کتاب دے…قوم اور عدالت عظمٰی اس مطالبے پر یک جان ہوئی اور اس کیس کی سماعت اب اختتام کو پہنچ کر فیصلے کی منتظر ہے۔ لیکن آپ نے کیا حرکتیں شروع کر دی ہیں..اقتدار کا حصول بجا طور پر ہر کسی کا آئینی حق ہے لیکن اس کے لئے جو راہ آپ نے چنی وہ تہذیب، شائستگی اور اخلاقیات سے عاری کسی جنس کا نام ہے۔
پی ایس ایل فائنل پر آپ کی تشویش کچھ غلط نہ تھی کہ ایک چھوٹا سا واقعہ کرکٹ کو ہمارے میدانوں سے کئی سال کی دوری ہر پھینک سکتا ہے…آپ کے فہم و دانست میں جو بات سمائی اس کا احترام اور مجھ جیسے بیشتر افراد بھی آپ کے نکتہ نظر کے حامی ٹھہرے۔ پی ایس ایل فائنل پرامن طریقے سے منعقد ہوا..قوم کے چہرے پر خوشیوں کی کرنیں بکھیر گیا..غیرملکی کھلاڑی یہاں ہر آئے..سر ویوین رچرڈ جیسے عقبری نے یہاں قدم رنجہ کیا…آپ نے جھٹ سے انہیں پھٹیچر کہہ ڈالا۔
آپ عمران خان ہو یا مخالفین کے بقول پاگل خان…آپ نے کس تربیت گاہ سے تربیت پائی…آپ نے کس تعلیمی ادارے سے تعلیم پائی..آپ کن اصحاب کی صحبتوں کے ساتھی رہے..آپ کن محفلوں میں آداب و تہذیب کے قاعدے پڑھتے رہے..کہ آپ کو بات کرنے کا طریقہ، اختلاف کرنے کا قرینہ اور اخلاقیات و شائستگی کا زینہ چڑھنے کا طریقہ نہیں آیا…آپ ساٹھ برس سےزائد کے مخبوط الحواس بڈھے ہو یا کم سن بچے جس کے دودھ کے دانت بھی نہیں گرے…آپ کون ہو..خود ہی بتلا دو یا ہم بتلائیں کیا؟؟